قادیانی مسلمان کیوں نہیں ہیں؟

عبدالعزیز

            عام طورپر ہر مذہب کے ماننے والے یہ چاہتے ہیں کہ ان کے لوگوں کی تعداد دوسرے مذاہب کے لوگوں سے بڑھ جائے تاکہ دنیا والوں پر ان کا رعب اور دبدبہ بڑھے۔ ایسے وقت میں آخر کیا وجہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے پر بضد ہیں۔ ایک ایسا سوال ہے کہ جس پر غوروخوض کرنے سے اور قادیانیوں کی حقیقت کو سمجھنے سے بہت آسانی سے جواب مل سکتا ہے۔

             اس کا ایک بہت سیدھا سادا سا جواب ہے کہ جس گروہ کو مسلمان غیر مسلم قرار دیتے ہیں یا قرار دے چکے ہیں وہ تعداد بڑھانے والا گروہ نہیں ہے بلکہ اسلام اورمسلمانوں کے دشمنوں سے مل کر مسلمانوں کی تعداد گھٹانے، انہیں کمزور کرنے، انہیں ہر طرح سے تباہ و برباد کرنے اور ان کے دین میں نقب زنی کرنے پر مامور ہے۔ اگر ایسی بات نہ ہوتی تو مسلمان ایسے گروہ کی سرگرمیوں کو اچھی نظر سے دیکھتے اور اس کی تعریف اور توصیف کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے اور اگر بہت بخالت سے کام لیتے تو زیادہ سے زیادہ خموشی برتتے اور چپ چاپ ان کو کام کرنے دیتے مگر مسلمانوں کا پڑھا لکھا طبقہ خاص طور سے مذہبی طبقہ اچھی طرح سے جانتا ہے کہ دنیا بھر میں جو مسلمانوں اور اسلام کے خلاف سازش رچی جا رہی ہے قادیانی اس سازش کا حصہ ہیں۔

             یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ آخر قادیانی کیوں اپنے آپ کو احمدی اورمرزائی کے بجائے مسلمان کہلانے پر مصر ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر وہ مسلمان کے بجائے اپنے آپ کو غیر مسلموں کے زمرے میں شمار کریں گے یا احمدی اور مرزائی کہلانے پر اکتفا کریں گے تو سیدھے سادے مسلمانوں کو آسانی سے جھانسہ دے کر قادیانی نہیں بنا سکتے۔ ساری دنیا میں قادیانی کسی کو بھی قادیانی بنانے سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے صرف سیدھے سادے مسلمانوں کو قادیانی بناتے ہیں اور حرص اورلالچ کے علاوہ بہت سارے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔

            63-1962ء کی بات ہے راقم نویں جماعت کا طالب علم تھا۔ رابندر سرانی کلکتہ(لورچیت پور )کی جس عمارت میں رہتا تھا اسی عمارت کی دوسری منزل پر جماعت احمدیہ کے امیر احمد حسین صاحب کا فلیٹ تھا جس میں ہر اتوار کو قادیانیوں کا اجتماع ہوا کرتا تھا۔

             مجھے یاد نہیں ہے کہ کس نے مجھے قادیانیوں کے اجتماع میں شرکت کی دعوت دی، ممکن ہے میرا ایک ساتھی جو احمد حسین کا پوتا ہے اس نے دعوت دی ہوگی مگر اجتماع میں وہ موجود نہیں تھا۔ مجھے قادیانیت کا نہ کوئی علم تھا اورنہ تجربہ۔ اجتماع شروع ہوتے ہی ایک شخص لایاگیا جو محلہ کا مُٹیاتھا۔ کلکتہ کی زبان میں بوجھ اٹھانے والے کو مُٹیا بھی کہتے ہیں۔ وہ کہنے لگا کہ’’ کل رات کو اس نے خواب دیکھا کہ حضرت غلام احمد قادیانی میرے پاس آئے ہیں اورکہہ رہے ہیں کہ تم احمدی ہوجائو اسی میں تمہارا بھلا ہے‘‘ احمد حسین صاحب کی جوتے کی دکان تھی۔ اس دکان کے ایک کلرک نورعالم ایم- اے نے مزدور سے مخاطب ہوکر کہا کہ تمہارا نام اور پتہ نوٹ کرلیا جاتا ہے اور یہ دیکھو پوسٹ کارڈ ہے۔ اس میں لکھ کر قادیان بھیجا جائے گا اور تمہارے خواب کی تعبیر معلوم کی جائے گی۔ جواب آنے پر تمہیں احمدی بنالیاجائے گا۔ (غور طلب بات ہے کہ خواب کے ذریعہ ایک سیدھے سادے مسلمان کو احمدی بنایا جا رہا ہے اور دعویٰ ہے کہ احمدی مسلمان ہوتا ہے)

             یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ دنیا کے سارے جھوٹے مذاہب خواب کی بنیاد پر چلتے ہیں جس کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا کہ ’’خواب خواب ہے، خواب کی حقیقت نہ پوچھ‘‘ غالباً احمدی بنانے کا ڈرامہ اس لئے پیش کیا گیا کہ جو انجانے مسلمان اجتماع میں شریک ہیں وہ متاثر ہوں۔

             میری بلڈنگ کے ایک صاحب جو عمر دراز تھے اور اجتماع میں شامل تھے۔ اجتماع سے نکلتے ہی انہوں نے میرا تعاقب کیا اور قریب آکر کہنے لگے کہ ’’ تم طالب علم ہو اجتماع وغیرہ سے پرہیز کرو‘‘۔ انہوں نے میرے چچا کو بھی تاکید کی کہ اسے قادیانیوں کے اجتماع میں شرکت کرنے سے روکو۔

             ان سب چیزوں کو دیکھ کر اور سن کر میری پیاس بڑھی اور قادیانیوں کے متعلق تحقیق کرنا شروع کیا۔ میرے اسکول میں میرے ایک استادمولوی عبدالمتین صاحب تھے، ایک بار گفتگو کے دوران انہوں نے مولانا ابوالکلام آزادؒ اورمولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا ذکر کیا تھا۔ مولانا آزاد کے مضامین تو میں پڑھ چکا تھا اور ان کی اردو سے بے حد متاثر تھا۔ مضامین کی اچھی عبارتیں زبانی یاد کرلیا کرتا تھامگر مولانا مودودی کا نام پہلی بار سنا اورنام کچھ عجیب سا لگا۔ مولوی صاحب نے دونوں کا زبردست طریقہ سے تعارف کرایا۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے بارے میں بتایا کہ یہ ایک ایسا شخص تھا جب اسلام کی تصویر پیش کرتا تو اسلام کا پورا محل، اس کا اسٹرکچر نظروں کے سامنے گھوم جاتا اورمودودی جب اسلام کے حق میں دلائل پیش کرتا تو بڑا سے بڑا کافر دلائل کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوجاتا۔ مولوی صاحب کی باتیں یاد تھیں میں مولانا مودودی کی کتابیں ڈھونڈنے لگا۔ خوش قسمتی سے عثمانیہ بک ڈپو کلکتہ میں چند کتابیں ہاتھ آگئیں۔ کتابیں پڑھ کر پوری تیار ی کے ساتھ میں چند دنوں کے بعد دوسری اور آخری بار قادیانیوں کے اجتماع میں شریک ہوا۔ ماحول پر سرسری نظر ڈالنے کے بعد بحث کا آغاز کیا۔ ایک حدیث پیش کرنے کی جرأت کی:

             ’’ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ میری اور مجھ سے پہلے گزرے ہوئے انبیا ء کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے ایک عمارت بنائی اور خوب حسین و جمیل بنائی  مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوٹی ہوئی تھی۔ لوگ اس عمارت کے گرد پھرتے اور اس کی خوبی پر اظہارِ حیرت کرتے تھے مگر کہتے تھے کہ اس جگہ اینٹ کیوں نہ رکھی گئی؟ تو وہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النبین (یعنی میرے آنے پر نبوت کی عمارت مکمل ہوچکی ہے اب کوئی جگہ باقی  نہیں ہے جسے پر کرنے کے لے کوئی نبی آئے)(بخاری، کتاب المناقب، خاتم النبینؐ) حوالہ دیتے ہوئے میں نے بتایا کہ یہی حدیث انہی الفاظ میں ترمذی، کتاب المناقب باب فضل النبی اورکتاب الآداب، باب الامثال میں ہے۔ مسند ابودائود و طیاسی مین یہ حدیث جابر بن عبداللہ کی روایت کردہ احادیث کے سلسلے میں آئی ہے اور اس کے آخری الفاظ میں ’’ختم الانبیاء‘‘ پس میں آیا اور میں نے انبیا کا سلسلہ ختم کردیا۔

            میری باتیں جو احادیث کے متعلق تھیں ختم ہوئیں تو نورعالم صاحب نے مجھ سے مخاطب ہوکر کہا کہ ’’معاذاللہ اس حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک اینٹ کہا گیا ہے اوریہ حضورؐ کی شان میں گستاخی کے مترادف ہے تم بچے ہو اورکتابیں پڑھو اور احمدیہ کی کتابوں کا مطالعہ کرو جب تمہارا علم بڑھے گا‘‘۔

             ان کی باتوں پر مجھے غصہ آگیا اور میں نے اپنی انگریز دانی کا مظاہرہ کیا اور انگریزی میں سر آئزک نیوٹن کے قول کو نقل کرتے ہوئے کہا کہ نیوٹن دنیا بھر کے سائنسی علوم حاصل کرنے کے بعد اپنے آپ کو ایک بچہ کے مانند اس وقت بتایا جب کہ وہ اسی سال کے تھے تو کیا وہ بچہ ہوگیا اوربچہ بتانے پر ان کی حیثیت کم ہوگئی۔ یہ اللہ کی طرف سے میری غیبی مدد تھی۔ نویں اور دسویں کلاس کے نصاب میں ایک مضمون میں سر آئزک نیوٹن پر جو سائنس کے باپ (Father of Science) کہلاتے ہیں میں نے پڑھا تھا اور ان کا قول مجھے اس قدر پسند آگیا کہ میں نے زبانی یاد کرلیا تھا۔

            I seem to myself like a child  before the knowledge of the ocean collecting the pebbles and shells at the sea share and seeing  the knowledge of occean anxiously and what he knows is very little and what he does not know is very much”

            ’’ میں ایک بچہ کی مانند ہوں جو معلومات کے سمندر کے کنارے بیٹھا ہوا سیپ اورگونگھے چن رہا ہو، اور بحرِ معلومات کو اپنی حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہاہو کچھ ایسا کہ جو کچھ وہ جانتا ہے وہ بہت کم ہے اور جو کچھ وہ نہیں جانتا وہ بہت زیادہ ہے‘‘

             میں نے انگریزی عبارت کو پڑھنے سے پہلے کم عقلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ انگریزی کوئی جانتا ہے؟ اس پر جب نور عالم نے کہا میں جانتا ہوں تو وہ عبارت میں نے پڑھی جو میری رٹی ہوئی تھی اورپھر اس کا ترجمہ اردو میں کرتے ہوئے کہا کہ یہاں نیوٹن نے اسی(۸۰) سالہ ہونے کے باوجود اپنے آپ کو بچہ کہا اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ وہ بحرِ معلومات کے سامنے ابھی بچہ کی مانند ہیں اس سے نہ وہ بچہ ہوگئے اورنہ ہی ان کی حیثیت ایک بچہ کے برابر ہوگئی محض مثال دے کر دنیا والوں کو نیوٹن نے سمجھانا چاہا کہ معلومات کا بہتا ہوا سمندر اتنا وسیع الاطراف اورغیر محدود ہے کہ مجھے جو کچھ معلوم ہے وہ سمندر کے قطرہ آب کے برابر  اور جو کچھ نہیں معلوم ہے وہ سمندر ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اَن پڑھے اور پڑھے لوگوں کو ایک مثال دے کر سمجھانا چاہا ہے کہ ایک اینٹ نہ ہونے کی وجہ سے محل میں کمی نظر آرہی تھی مگر اینٹ کی جگہ پُر ہوتے ہی محل مکمل ہوگیا اور اسی طرح میرے آتے ہی نبوت کا محل مکمل ہوگیا اب کوئی نبی یا رسول نہیں آئے گا۔

             یہ سننا تھا کہ محفل میں سناٹا چھا گیا سارے کے سارے قادیانی میرا منہ دیکھنے لگے۔ احمد حسین امیر جماعت احمدیہ میرے قریب آکر کتابوں کا ایک بنڈل تھماتے ہوئے کہا ’’ابھی تم بچے ہو کتابیں پڑھو ‘‘ کتابوں کو تو میں لے لیا اورگھر میں جاکر پڑھا بھی مگر مجھے اللہ کے فضل سے اتنا علم ہوچکا تھا کہ خرافات کے بنڈل کو جلد ہی آگ کے سپرد کردیا۔

             زمانہ گزرتا گیا۔ ایمرجنسی کا زمانہ آگیا اس وقت میں صحافت کے میدان میں آگیاتھا اتنا کچھ اپنے علم میں اضافہ کرلیاتھا کہ قادیانیت کا اچھا خاصہ علم ہوگیاتھا سب سے زیادہ علم لاہور کے ایک عالم کی تقریروں کو سن کر ہوا تھا موصوف قادیانیت سے تائب ہوگئے تھے لور چیت پور کے جوتے کی دکان والوں نے جو زیادہ تر پنجابی تھے۔ ۱۹۶۴ء میں کلکتہ بلایا تھا وہ روزانہ گول کوٹھی امام باڑہ مین بعد نماز عشاء دو گھنٹے ردِ قادیانیت پر تقریر کرتے تھے۔ کہا کرتے تھے کہ میں مرزا غلام احمد قادیانی کی کتابوں کا حافظ ہوں ان کتابوں کا اپنی تقریروں میں حوالہ دیتے اور صفحات کے صفحات گناتے اورکتابوں کو ہاتھ میں لے کر کہتے کوئی صاحب دیکھنا چاہیں تو آکر میرے پاس دیکھ سکتے تھے۔

             ایک مہینہ تک لاہوری عالم دین کی تقریر جاری تھی میں بلاناغہ ہر تقریر کے لئے قلم اور کاغذ لے کر حاضر ہواکرتا تھا۔ انہوں نے بھی کتابیں دکھا کر حوالے کے ساتھ بتایا کہ مرزا غلام احمد قادیانی سے بڑھ کر جھوٹا آدمی میں نے نہیں دیکھا۔ انہوں نے ان کے الہامات کو پیش کیا جو مرزا نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے۔ کبھی بتایا کہ ’’میں خدا ہوگیا، کبھی کہا کہ میں مسیح موعود بناکر بھیجا گیا اور کبھی نبوت کا دعویٰ کیامگر دروغ گو حافظہ نہ باشد (جھوٹے شخص کا حافظہ نہیں ہوتا) کے مصداق وہ شخص یہ بھی اپنی کتابوں میں لکھ جاتا ہے کہ وہ اپنے باپ کی ختم الاولاد ہے۔ خود اپنے لئے تو ختم کا یعنی سلسلہ بند کرنے کو مانتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبین ماننے سے انکار کرتا ہے۔ یہاں ختم اور خاتم کے معنی پوسٹ آفس کی مہر سے تعبیر کرتا ہے تاکہ وہ نبوت کا دروازہ کھول کر خود نبی کا دعویٰ کرسکے۔ پہلے یہ شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی تسلیم کرتا تھا مگر انگریزی حکومت کا کلرک بننے کے بعد یہ شخص برطانیہ حکومت کا آلہ کار بن گیا خود ہی لکھا ہے کہ میں نے ملکہ وکٹوریہ کے حق میں اتنی کتابیں اورکتابچے لکھا ہے کہ وہ پچاس الماریوں میں سمانا مشکل ہے، لاہوری عالم نے کہا کہ یہ جھوٹا نبی الماریوں کے سائز کا ذکر نہیں کرتا مگر پچاس الماریوں کا ذکرکرکے اپنے جھوٹ کو ظاہر کردیتا ہے۔ انہوں نے مرزا کا ایک مصرعہ سنایا ’’آئیں گے مسیح کریں گے جنگوں کا التواء‘ اس طرح جب مسلمان انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہونے کی کوشش کررہے تھے تو یہ شخص انگریزوں کا غلام ہوکر نبوت کا دعویٰ پیش کرکے جہاد کو حرام قرار دے رہا تھا اورکہہ رہا تھا کہ خدا نے جہاد اورجنگ کو ملتوی کرنے کے لئے ہمیں زمین پر اتارا ہے۔ ان کی باتوں کا ذکر کرنے سے صفحات کے صفحات سیاہ ہوسکتے ہیں کسی کو اگر مزید معلوم کی ضرورت ہے تو جھوٹ کے پلندہ سے مرزا غلام احمد قادیانی کی کتابیں بھری پڑی ہیں ان کا مطالعہ کرسکتا ہے۔

            میری صحافت کے زمانے کی بات ہے کہ اظہربانی سے میری ملاقات ہوگئی جو اپنے آپ کو پیدائشی قادیانی بتایا مگر وہ شخص بھی عجیب و غریب تھا نہیں بلکہ ہے۔ اظہر بانی قادیانیوں کو گالیاں بھی دیتا تھا جب بھی مجھ سے ملاقات ہوتی تھی اور ساتھ ساتھ مولانا مودودی کوگالیوں سے اس لئے نوازتا تھا کہ مولانا مودودی ہی نے قادیانیوں کے خلاف لکھ لکھ کر بالآخر پاکستانیوں کو مجبور کیاکہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کی امت کو غیر مسلم قراردیں۔ دنیا کو معلوم ہے کہ 7 ستمبر 1974ء کو پاکستانی نیشنل اسمبلی نے متفقہ قرار داد کے ذریعہ قادیانی فرقہ کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔ پہلے اپوزیشن ممبران اسمبلی نے غیر مسلم قرار دینے کی قرار داد پیش کی پھر حکومت نے جس کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو تھے، بادل ناخواستہ اپنی سرکاری قرارداد پیش کی۔ ایک مہینہ تک بحث و مباحثہ چلتا رہا۔ قادیانیوں میں دو فرقہ ہے ایک فرقہ قادیانی جماعت یا احمدی جماعت جس کا مرکز ربواہ ہے اور دوسرا فرقہ ـ’’ لاہوری جماعت‘‘ ہے جس کا ہیڈ کوارٹر لاہور میں ہے (راقم اورمولانا محمد فاروق خان نے 1979 میں لاہور میں ان کے ہیڈ کوارٹر میں جاکر معائنہ کیاتھا اورچند کتابیں بھی خریدی تھیں ) 1974ء میں اس فرقہ کے ا میر صدرالدین تھے اور احمدی جماعت کے امیر مرزا غلام احمد قادیانی کے پوتے مرزا ناصر احمد تھے۔ ان دونوں سربراہوں کو اسمبلی میں آنے اور تقریر کرنے کی اجازت دی گئی دونوں نے اپنے اپنے موقف کو وضاحت سے بیان کیا۔ ممبران اسمبلی نے یہ نتیجہ آسانی سے دونوں کی تقریروں سے اخذ کیا کہ دونوں فرقوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ مرزا ناصر احمد نے ایوان کے سامنے کہا کہ جومسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لاتے وہ ان کے عقیدہ کے مطابق کافر ہیں۔ مسٹر صدر الدین نے کہا کہ مرزا غلام احمد پر جو ایمان نہیں لاتے وہ ان کے عقیدہ کے مطابق کافر ہیں۔ مسٹر صدر الدین نے یہ بھی کہا کہ مرزا غلام احمد نے جہاد کو باطل قرار دیا ہے۔

             ایسے ہی مرزا ناصر احمد نے بتلایا کہ اسرائیل میں ان کا ایک مرکز ہے اورجب میں غیر ممالک کا سفر کرتا ہوں تو اسرائیل کے سفراء مجھ سے انٹرویو لینے کی خواہش رکھتے ہیں۔ قادیانی رہنمائوں کے بیانات سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ وہ اپنے علاوہ سارے مسلمانانِ عالم کو غیر مسلم سمجھتے ہیں۔ دونوں فرقوں کے سربراہوں کی تقریریں ایوان کی کارروائیوں (Proceading) میں درج ہیں جسے آج بھی دنیا کے لوگ پڑھ سکتے ہین اور سن بھی سکتے ہیں۔ (ٹیپ شدہ تقریریں ) 75-1974ء میں ہی میری ملاقات اظہر بانی سے ہوئی تھی اس لئے مجلسوں میں قادیانیوں کا چرچا کچھ زیادہ ہونے لگا تھا اظہر بانی نے اپنے امیر غالباً محمد سلیم صاحب سے مناظرہ کرنے پر اسی زمانے میں مجھے راضی کرلیا یہ قادیانیوں سے میرا آخری مناظرہ تھا۔ مناظرہ بھی عجیب و غریب ہوا میں قرآن مجید کا پھر سے گہرا مطالعہ کیا اوریہ دل میں خیال لے کر گیاکہ قرآن کے سوا کسی اور چیز سے ثابت کرنے کی کوشش نہیں کروں گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ ٹیپ ریکارڈ وغیرہ پہلے سے موجود تھا۔ گفتگو شروع ہوئی تو ٹیپ ریکارڈ آن کردیا گیا۔ میں نے سلیم صاحب سے کہا کہ ’حضرت! سورہ الفاتحہ کے آخر میں ایک بندہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے’’ (اے اللہ!) ہمیں سیدھا راستہ دکھا، ان لوگوں کا راستہ جن پر تونے انعام فرمایا، جو معتوب نہیں ہوئے، جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں ‘‘ بندہ کے جواب میں اللہ تعالیٰ پورے قرآن کھول دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ یہ ہے ہدایت اورنجات کا راستہ مگر ہدایت کا راستہ اسے ملے گا جو چھ شرطوں کو بے چوں و چراں مان لے اور ان پر گامزن ہوجائے پھر میں نے سورہ بقرہ کی شروع کی پانچ آیتیں تلاوت کیں اور ان کا ترجمہ پیش کیا۔

            ’ ’الف، لام، میم، یہ اللہ کی کتاب ہے، اس میں کوئی شک نہیں، ہدایت ہے ان پرہیز گار لوگوں کیلئے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے، ان میں سے خرچ کرتے ہیں، جو کتاب تم پر نازل کی گئی ہے (یعنی قرآن) اورجو کتابیں تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں ان سب پر ایمان لاتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے رب کی طرف سے راہ راست پر ہیں اور وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ‘‘

             سلیم صاحب سے جب میں نے پوچھا کہ مولانا جب مسلمان چھ شرطوں کو مان لیتا ہے اور اس پر عمل آوری شروع کردیتا ہے تو اسے ہدایت کا راستہ مل جاتا ہے اس میں کسی اور شرط کے ماننے کی بات نہیں کہی گئی ہے کہ کوئی اور نبی یا ہدایت دینے والا آئے گا اس کی بات بھی ماننی ہوگی۔ اس پر سلیم صاحب نے  ’’وبالآخرت ھم یوقنون ‘‘ کا ٹکڑا پڑھا اورکہا کہ اس کے معنی آخرت پر یقین رکھنے کے نہیں ہیں، پھر تو میرا ہاتھ پائوں پھول گیا اورمیں نے صاف صاف کہاکہ جب آپ حضرات نے قرآن مجید کے معنی اور مطلب میں تحریف کردیا ہے توپھر آپ سے بات کرنا فضول ہے میں اٹھا اورکہا کہ دنیا بھر میں آخرت کے معنی سارے مفسرین اور عالموں نے آخرت کی زندگی  لیا ہے مگر آپ اپنے نبی کا راستہ صاف کرنے کے لئے یہاں معنی میں بھی تبدیلی کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ آپ کے آقائوں کا کرشمہ ہے، آپ کا نہیں۔ پھر میں نے اظہر بانی سے مرزا غلام احمد قادیانی کے بیٹے بشیر الدین محمود احمد کا انگریزی ترجمۂ قرآن طلب کیا اور اس میں بھی وہی معنی درج ہے جو سلیم صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ موصوف کا انگریزی ترجمہ ملاحظہ ہو:

” and they have firm  faith  in what is yet to come”

            جب کہ دنیا بھر کا ترجمہ اس سے بالکل الگ ہے مثلاً

            ” Have the assurance of the Hereafter”

یا

            "Are sure of the Hereafter”

یا

”And have the firm faithe in  the Hareafter”

            مذکورہ ترجموں سے مرزا کے صاحبزادے کا ترجمہ بالکل الگ ہے۔ باپ کے لئے بیٹے نے قرآن کے معنی میں اپنے آقائوں کے اشارہ پر تحریف کرتے ہوئے بھی ہچکچایا نہیں۔

             یہ ہیں وہ سازشی اورمنافق جن کے بارے میں علامہ اقبال نے سچ کہا ہے    ؎

’’خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں ‘‘

             اللہ ایسے لوگوں سے مسلمانوں کو بچائے۔ (امین )

تبصرے بند ہیں۔