زائرین حرمین شریفین اور ان کی ذمہ داریاں

 حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی

 حج اسلام کا پانچواں رکن ہے۔ صاحب استطاعت کے لئے عمر میں ایک بار حج کرنا فرض ہے۔ 8   ؁ ہجری میں حج فرض ہوا اسی سال نبی کریم ﷺ نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہٗ کو امیر الحجاج بنایا اور تین سو صحابہ کرام کو ان کے ساتھ کیا تاکہ سب کو حج کرائیں۔ ان کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہٗ کو روانہ کیا کہ وہ سورہ توبہ کا اعلان کریں۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہٗ نے حج کرایا اور حضرت علی رضی اللہ عنہٗ  نے سورہ برأت، سورہ غضب یعنی سورہ توبہ (اور بھی نام ہیں ) کی پہلی چالیس آیتوں کو مع احکام سب کو پڑھ کر سنایا کہ اس سال کے بعدکوئی مشرک بیت اللہ کے اندر داخل نہ ہونے پائے گا اور کوئی برہنہ (ننگا) ہوکر خانہ کعبہ کا طواف نہ کر سکے گا اور نہ اندر داخل ہونے پائے گا۔ 10   ؁ ھ میں رسول اللہ ﷺ نے حج کا ارادہ فرمایا۔ جملہ اطراف میں اطلاع بھیج دی گئی کہ نبی کریم ﷺ حج کے لئے تشریف لے جانے والے ہیں۔ اس اطلاع کے بعد کثرت اژدحام خلقت مدینہ طیبہ میں جمع ہوگئی۔ اس جم غفیر میں ہر درجہ ہر طبقہ کے لوگ شامل تھے۔ 26؍ذیقعدہ   10   ؁ھ، شنبہ(سنیچر) کا دن تھا۔ حضور ﷺ نے نمازِ ظہر مدینہ شریف کی مسجد میں ادا فرمانے کے پہلے خطبہ پڑھااور لوگوں کو ارکانِ حج کی تعلیم فرمائی۔ احرام باندھنے کے بعد جب اونٹنی پر سوار ہوئے تو پہلی مرتبہ لَبَّیْکْ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکْ، لَبَّیْکْ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکْ، اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ، لَاشَرِیْکَ لَکَ۔ (ترجمہ: میں حاضر ہوں، اے میرے رب میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، بے شک ساری تعریفیں اور نعمتیں تیرے ہی لئے ہیں اور ساری بادشاہی میں بھی، تیراکوئی شریک نہیں ) تلبیہ پڑھا اور حج پر روانہ ہوئے۔

حج اللہ کی بہت اہم عبادت ہے:

        یوں تو عبادت کے اور بھی طریقے ہیں۔ مثلاًنماز، روزہ اور زکوٰۃ مگر حج کی اہمیت یہ ہے کہ نماز روزہ صرف جانی عبادت ہے، اس میں پیسہ خرچ نہیں ہوتا، زکوٰۃ صرف مالی عبادت ہے، اس میں جسمانی محنت نہیں ہوتی۔ حج جانی اور مالی دونوں عبادت ہے۔ اس کے سفر میں پیسہ بھی خرچ ہوتا ہے اور ارکان کو ادا کرنے میں محنت بھی کرنی پڑتی ہے۔ آجکل ارکان حج ادا کرنا انتہائی دشوار ہوگیاہے۔ مجمع اتنا کثیر ہونے لگا ہے کہ سارے انتظامات کے باوجود ارکان ِ حج کی صحیح ادائیگی جہاد سے کم نہیں۔ لہٰذا جن پر حج فرض ہو وہ حج کی ادائیگی کا عزم کرکے فرض کی ادائیگی جلد سے جلد کر لیں۔ یہی شانِ بندگی ہے۔ نہ جانے آگے کیاحالات آئیں۔ کمال و زوال زندگی کے ساتھ لگا رہتا ہے۔ جیسے ہی آدمی صاحبِ استطاعت ہو اس وقت اس پر حج فرض ہو جاتاہے۔ اگر وہ حج کو نہیں جاتا تو گنہگار ہوتا ہے۔ مسئلہ ہے کہ جب حج کے لئے جانے پر قادرہو، حج فوراً فرض ہوگیا۔ یعنی اسی سال میں اور اب تاخیر گناہ ہے اور چند سال تک نہ گیا تو فاسق ہے اور اس کی گواہی مردود، مگر جب کرے گا ادا ہی ہے قضا نہیں۔ (درمختار، ردالمختار، کتاب الحج، جلد 3، صفحہ 20، بہارِ شریعت جلد 6، صفحہ 1036)حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ جس شخص نے (حج فرض تھا اور باوجود استطاعت کے) حج نہ کیا اور مرگیا اسے کہہ دو کہ یہودی مرے یا نصرانی مرے۔ (ترمذی)

حج کا حکم:

        حج ان ہی لوگوں پر فرض کیا گیاجو مکہ مکرمہ تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں اور زندگی میں صرف ایک بار فرض کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حَجَّ الْبَیْتَ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلَا۔ وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیُّٗ عَنِ الْعٰلَمِیْنْ۔ (ترجمہ: لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو بیت اللہ تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہے وہ اس کا حج کرے اور جو کوئی اس کا انکار کرے تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ دنیا والوں سے بے نیاز ہے۔ (القرآن سوہ آلِ عمران، آیت 97)حج کے بارے میں قرآن مجید میں کئی طرح سے احکام ِ الٰہی موجود ہیں۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام خانہ کعبہ کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو آپ کو بارگاہِ رب العزت سے حکم ہوا وَاَذِّنْ فِی النَّاسِ بِاالْحَجِّ یَاْتُوْکَ رِجَالًاوَّ عَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّاتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجِّ عَمِیْقْ۔ (ترجمہ: اور عام طور پر لوگوں میں اعلان کردو کہ وہ اس بیت اللہ کے حج کوپیدل اور دبلے اونٹوں پر سوار ہوکر دور دراز کی مسافت طے کرکے آئیں ) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا۔ یَبْلُغُ صَوْتِی (میری آواز نہیں پہنچے گی) اللہ نے فرمایا: عَلَیکَ الْاَذَانُ وَ عَلَیْنَا الْبَلَاغْ۔ (تیرا کام پکارنا ہے اور پہنچا دینا ہمارا کام ہے)چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک پتھر پر کھڑے ہوکر پکارا:یَا اَیُّہَاالنَّاسُ اِنَّ رَبَّکُمْ قَدْ بَنٰی لَکُمْ بَیْتًا وَ کُتِبَ عَلَیْکُمْ وَالْحَجَّ فَاَجِیْبُوْارَبَّکُمْ (اے لوگو! تمہیں تمہارے پروردگار نے تمہارے لئے گھر بنایا اور تم پر حج فرض کیا۔ پس خدا کے حکم کی تعمیل کرو) یہ پتھر آج تک موجود ہے اور مقامِ ابراہیم کہلاتا ہے۔ اس کا ذکر جمیل بھی قرآن میں موجود ہے۔ جن نیک پاک روحوں نے پکارنے پر لبیک جتنی بار کہا ان کو اتنی ہی بار حج کی سعادت نصیب ہوگی۔

        بہت سارے مسلمان ایسے ہیں جن کو دولت، صحت اور جوانی اللہ نے دی ہے مگر وہ فریضہ حج کو ٹالتے رہتے ہیں۔ بڑھاپے میں حج کو جاتے ہیں۔ اس وقت حج کے ارکان ان سے صحیح طریقہ سے ادا نہیں ہوتے۔ حج بلا شبہ اپنی گھریلو ذمہ داریوں سے فراغت چاہتا ہے مگر زندگی کا کیا بھروسہ ہے۔ جب وسائل موجود ہوں تو فرصت نکال کر ہر مسلمان کو یہ فریضہ ادا کر لینا چاہئے۔ بعض دولت مند مسلمان ایسے ہیں جن پرحج فرض ہے مگر وہ حج نہیں کرتے۔ سنگاپور، انگلینڈ اور یورپ کے شہروں میں سیر و تفریح اور اپنے تجارتی سفر پر جاتے ہیں مگر حج بیت اللہ کے لئے نہیں جاتے۔ ویسے لوگوں کے لئے اکبر الٰہ آبادی نے طنزیہ کہا ہے   ؎

سدھاریں شیخ کعبہ کو ہم انگلستان دیکھیں گے     وہ دیکھیں گھر خدا کا ہم خدا کی شان دیکھیں گے

قبولِ حج کے لئے تین شرطیں ہیں :

        حاجی اپنے حج سے جہاں روحانی لذت حاصل کرتا ہے وہیں اخلاقی تربیت بھی حاصل کرتا ہے کیونکہ اسے حکم دیا گیا ہے۔ فَمَنْ فَرَضَ فِیْہِنَّ الْحَجَّ فَلَارَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ وَلَا جِدَالَ فِی الْحَجٍّ(ترجمہ: جس نے ایام حج میں فریضہ حج ادا کیا وہ حج میں بے حیائی، برائی اور جھگڑا لڑائی نہ کرے۔ القرآن سورہ البقرہ، آیت 197 )عام دنوں میں بھی حاجی کو ان تینوں باتوں سے نہایت دور رہنا چاہئے۔ جب غصہ آئے یا جھگڑا ہو یا کسی گناہ کا خیال آئے تو فوراً سر جھکا کر دل کی طرف متوجہ ہوکر اس آیت کی تلاوت کرے اور لاحول شریف پڑھے۔ یہ باتیں جاتی رہیں گی انشاء اللہ۔ بے سبب الجھنے، لعن و طعن سے بچتا رہے۔ خدا نہ خواستہ ایک دو جملہ میں ساری محنت اور روپیہ برباد ہوجائے۔ خصو صاً اہلِ حرمین اور اہلِ مدینہ کے افعال پر اعتراض نہ کرے نہ دل میں کدورت لائے۔ اس میں دونوں جہان کی سعادت ہے۔ ذکر ِ الٰہی بکثرت کرے۔ تلاوت قرآن کثرت سے کرے اور ہر وقت خوف خدا دل میں رکھے۔ غصہ سے بچے، لوگوں کی بات برداشت کرے، بیکار باتوں میں نہ پڑے۔ تلبیہ پڑھنا، احرام باندھنا، کعبہ کے چکر لگانا، صفا و مروہ کی دوڑ لگانا، عرفات کے میدان میں دن گزارنا، مزدلفہ کی وادی میں رات گزارنا، شیطان کو کنکری مارنا، قربانی کرنا وغیرہ وغیرہ ایسے مناسک حج ہیں جن کا تعلق صرف عمل کرنے سے ہے۔ جن بندوں نے حج کیا وہ اللہ کی عطا کردہ اس لذت سے واقف ہیں۔ اسی لئے اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں : ایک عمرہ دوسرے عمرہ کے مابین گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مبرور کا بدلہ کوئی بدلہ نہیں سوائے جنت کے۔ (بخاری، باب العمرہ، باب وجوب العمرہ و فضلا، جلد ایک حدیث 1883۔ بہارِ شریعت جلد 3، صفحہ 586، حدیث 1031)حضور اکرم ﷺ نے فرمایا :اَلْحَاْجُ وَفَدَاللّٰہ یُعْطِیْہِمْ مَاسَأ لُوْ اوَیَسْتَجِیْبُ لَہُمْ مَادَعَوْ۔ (ترجمہ: حج کرنے والے خدا کے قاصد ہیں وہ جو مانگتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں عطا فرماتا ہے اور جو دعا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ قبول فرماتاہے۔ وہ جو مانگتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں عطا فرماتا ہے۔ ) آدابِ حج میں ہے خالص اللہ کے لئے حج کرے۔ ارشاد باری ہے: وَاَتِمُّ الَّحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ ترجمہ: حج و عمرہ اللہ کے لئے کرو۔ (القرآن، سورہ البقرہ، آیت 196)سفرِ حج سے مقصود صرف اللہ و رسول کی رضا ہو، ریا و سمعہ فخر سے دوررہے۔

حج کی حضوری کے بعد:

        اللہ کا احسان وکرم ہے کہ اس نے حرمین کی حاضری نصیب فرمائی۔ مَنْ زَارَ تَربتی وجبت لَہٗ شِفَاعَتِی۔ ان پر درود جن سے نویدانِ بشر کی ہے۔ اس کے طفیل حج بھی خدا نے کرادئے۔ اصل مراد حاضری اس پاک پروردگار کی ہے۔ حج مکمل کرایا اب واپس سفر کا ہے۔ اب حاجی کی ذمہ داری بہت بڑھ گئی ہے۔ کیونکہ حرم میں اللہ نے اسے ہر قدم پر سات سو کروڑ نیکیاں عطا فرمائیں۔ (حدیث) اورحج جیسی گرانقدر نعمت سے سرفراز فرمایا تو حاجی کے مرتبہ کے کیا کہنے۔ بخاری ومسلم و ترمذی و ابن ماجہ ان ہی سے راوی، رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں :جس نے حج کیا اور فث( فحش کلام) نہ کیا اور فسق نہ کیا تو گناہوں سے پاک ہوکر ایسا لوٹا اس دن کہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا۔ دوسری حدیث اس طرح ہے۔ وَالْحَجَّ الْمَبْرُوْرُ لَیْسِیْ لَہٗ جَزَائُٗ اِلَّا الْجَنَّۃُ اور حج مبرور کا بدلہ تو بس جنت ہے (صحیح بخاری، کتاب الحج، ترغیب و ترہیب، کتاب الحج والعمرہ، باب فصل البحر، مسلم۔ ۔ ۔ ۔ الخ الحدیث1021، جلد اول صفحہ 12، الحدیث 2، جلد 2، صفحہ 103)

        حاجیوں پر انعاماتِ الٰہی کا شمار ناممکن ہے۔ لہٰذا حاجیوں کی ذمہ داری بھی حد سے زیادہ بڑھ گئی اور اب ان کی محبت صرف اللہ اور اس کے رسول سے ہونی چاہئے اور رب تعالیٰ کی محبت کا غالب ہونا شرعاً بھی مطلوب ہے، کمال ایمان ہے اور حاجی کی ترقی کا ذریعہ بھی ہے۔ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْ اَشَدُّٗ حُبًّا لِلّٰہ۔ ترجمہ: اور جو مومن ہیں ان کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ نہایت قوی محبت ہے۔ (القرآن) محبت کا اظہار اس کے ظاہری کردار و عمل سے ہونا چاہئے۔ احکامِ الٰہی کی پابندی انتہائی ضروری ہے۔ آجکل بہت سے حضرات سالوں سال سے حقوق اللہ کی پامالی کرتے، نماز روزہ اور زکوٰۃ وغیرہ ادانہیں کرتے اور حقوق العباد کی تو بالکل ہی پروا نہیں کرتے۔ کسی کی زمین ہڑپ لی کسی کا مال دبا لیااور پڑوسی ورشتہ داروں کو خوب ستاتے ہیں۔ پھر حج کر آتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہماراسب کچھ معاف ہوگیا۔ نہ اب چھوٹی ہوئی نماز یں پڑھنی ہیں نہ بندوں کے حقوق معاف کرانا ہے۔ یہ حاجیوں کی سخت غلطی ہے۔ حج سے قضا ہوئی نمازیں اور روزے ہرگز معاف نہیں ہوتے اور نہ ہی آئندہ کے لئے آزادی کا پروانہ مل جاتا ہے۔ یہ حاجیوں کی سخت غلطی ہے۔ (انوار الحدیث صفحہ 223، مصنف فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی) بلکہ قبول حج کی نشانی ہی یہ ہے کہ حاجی پہلے سے زیادہ عمل میں پکااور اچھا ہو۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:فَاِذَ اقَضَیْتُمْ مَّنَا سِکَکُمْ فَاذْکُرُوْ اللّٰہَ لَذِکْرِکُمْ آبَائُ کُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِکراً۔ ترجمہ: پھر جب تم پورے کر چکو حج کے ارکان تواللہ کو یاد کرو جس طرح اپنے باپ دادا کا ذکرکرتے ہو، بڑائی کرتے ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ ذکرِ الٰہی کرو۔ عربوں کی ایک جاہلانہ رسم کی تردید کی جارہی ہے۔ وہ جب حج سے فارغ ہوتے تو بیت اللہ کے پاس مجلسیں منعقد کرتے جن میں وہ اپنے باپ داداکا ذکر کرتے، بڑائی کرتے، تعریفوں کے پُل باندھا کرتے تھے۔ حکم ہو رہا ہے کہ اپنے رب کریم کو یاد کرو جیسے اپنے باپ دادا کو ذوق و شوق سے یا دکیا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ اللہ کو یاد کرو۔ (تفسیر ضیاء القرآن، جلد اول، صفحہ 138۔ 139)

        حاجیوں پر اضافی (Extra) ذمہ داری دے دی گئی ہے کہ پہلے سے زیادہ اللہ کا ذکر و عبادت کرو۔ لہٰذا اس بات کا خاص خیال رکھیں اور حتی الامکان احکامات ِ الٰہی اور اسلامی شعار کی پابندی کریں، گناہوں سے بچیں بعض گناہ عوام الناس بلکہ خواص میں بھی عام ہوچکے ہیں۔ افسوس اور شرم کی بات یہ ہے کہ لوگ گناہ ہی نہیں سمجھتے۔ لوگوں کے حقوق کی پامالی، جھوٹ بولنا، غیبت کرنا، فوٹو کھینچنا کھنچوانا اور موبائل پر بلا دریغ بھیجنا وغیرہ۔ استغفراللہ ! گناہ گناہ ہے بچنا لازم ہے۔ ارشاد باری ہے :لَعْنَۃ ُاللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنجھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہے۔ غیبت کی مذمت میں قرآن مجید میں موجود ہے۔ بلا ضرورت شرعی فوٹو کھنچواناحرام ہے۔ تمام علما کا اتفاق ہے۔ حضرت مولانا احمد رضا خاں علیہ الرحمہ فرمانِ مصطفی نقل فرماتے ہیں : ہر تصویر بنانے والا جہنم میں ہے اور ہر تصویر کے بدلے جو اس نے بنائی تھی اللہ عزو جل ایک مخلوق پیدا کرے گا جو اسے عذاب کرے گی۔ (فتاویٰ رضویہ جلد21، صفحہ 427) تصویر لینا دینا، بھیجنا ایک عام وبا (Viral) کی طرح پھیل گیا ہے۔ حتی کہ حرمین شریفین میں تصویر کشی اور ویڈیوگرافی کررہے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا لمحہ ِ فکریہ ہے۔ کیا یہ حرم شریف اورکعبہ کے تقدس کو مجروح کرنے والا عمل اور عند اللہ قابلِ گرفت عمل نہیں ہے؟قرآن مجید میں ہے: اِنَّ  بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْدْ۔ بے شک رب کی پکڑ بہت مضبوط ہے۔ اللہ کی پکڑ یقینا ہے۔ اس لئے زائرین کرام یاد رکھیں، اللہ نے اعلان فرمایا ہے :اے ایما ن والو، اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کی بے حرمتی نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔ (القرآن، سورہ مائدہ، آیت 2)

        حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہٗ کا قول ہے: مکہ مکرمہ کے علاوہ کسی مقام پر مجھ سے ستّر غلطیاں سرزدہوجائیں میں یہ گوارا کر سکتا ہوں لیکن یہ گوارا نہیں کر سکتا کہ حرمین میں ایک بھی غلطی سرزد ہوجائے۔ حضرت عیاض بن ربیعہ رضی اللہ عنہٗ بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا: جب تک یہ امت حرمت کعبہ اس طرح کرے گی جیسا کہ اس کا حق ہے تو یہ خیرو برکت سے بہرہ ور ہوگی اورجب اس کی تعظیم چھوڑ دے گی تو تباہ و بربادہوجائے گی۔ (ابن ماجہ) چنانچہ روایتوں میں ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین حج کے بعد عجلت کے ساتھ اپنے شہروں کو لوٹ جاتے تھے کہ کہیں کوئی ایسی غلطی نہ سرزد ہوجائے جو حرمت کعبہ اور حرم مدینہ کے منافی ہو۔ افسوس صد افسوس یہاں بھی زائرین روضہ انور کے سامنے کھڑے ہوکر محبت و عقیدت کو پس ِ پشت پھینک کر پاکٹ سے موبائل نکالتے ہیں اور درود سلام پیش کرنے کے بجائے تصویر کشی اور ویڈیو گرافی میں لگ جاتے ہیں۔ زیارت کے آداب کیا ہیں ؟ انہیں کچھ یاد نہیں رہتا، بس اتنا یاد رہتا ہے کہ تصویر کھینچنی ہے، ویڈیو بنانا ہے اور سوشل میڈیا، فیس بک، واٹس ایپ، ٹویٹر، انٹگرام اور دیگر میڈیا پر شیئر (بھیجنا) کرنا شروع کردیتے ہیں۔ (العیاذ بااللہ)حرمیں شریفین کی زیارت کرنے والے اصل مقصد کو چھوڑ کر تصویر کشی میں مصروف رہیں گے تواس سے بڑھ کر حرماں نصیبی اور کیا ہوگی۔ جب حرم مکہ میں نیک عمل کا ثواب لاکھ گنا اور حرم مدینہ میں پچاس ہزار ہے تو ایسی پاک جگہوں پر فعل معصیت کرنا گناہوں کے بوجھ کو بڑھانا ہوگا۔ مطلب عبادت کو رائیگاں کرنا اور اوپر سے عذاب الٰہی کو دعوت دینا ہے۔ اللہ کے رسول کا واضح فرمان ہے: اللہ کے یہاں قیامت کے دن سب سے سخت عذاب تصویر بنانے والے کو ہوگا۔ زائرین حرم پر جو ذمہ داریاں بڑھی ہیں ان پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں۔ حرم کی حاضری اللہ پاک قبول فرمائے۔ میرے لئے بھی دعا فرمائیں۔ اللہ پھر یہ نعمت عطا فرمائے۔ ۔ آمین!ثم آمین!!

تبصرے بند ہیں۔