عربی زبان کی مقبولیت کا افق تابندہ ہے تابندہ رہے گا

ڈاکٹر جسیم الدین

 18 دسمبر 1973 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عربی زبان کو اپنی سرکاری زبانوں میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔ 19 فروری 2010 کو اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے انسانی تہذیب اور ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے میں عربی زبان کے اہم کردار کو تسلیم کرتے ہوئے 18 دسمبر کو اس زبان کا عالمی دن قرار دیا۔ اس پر عمل درآمد کرتے ہوئے 18 دسمبر 2012 کو پہلی مرتبہ عربی زبان کا عالمی دن منایا گیا۔بعدازاں عرب ممالک کے علاوہ پوری دنیا میں 18 دسمبر کو ’عالمی یوم عربی زبان‘ منایا جانے لگا، گزشتہ پانچ برسوں سے ملک کی ان یونیورسیٹیوں میں بھی اس عالمی دن کا اہتمام کیا جانے لگا، جہاں عربی زبان وادب کے شعبے ہیں۔ جن میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ، دہلی یونیورسٹی،دہلی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی، جواہر لال نہرو یونیورسٹی، دہلی، کلکتہ یونیورسٹی، مالدہ یونیوسٹی،گوروبنگایونیورسٹی،گوہاٹی یونیورسٹی، آسام یونیورسٹی، باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی، برکت اللہ یونیورسٹی، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں، جہاں آل انڈیا ایسوسی ایشن آف عربک ٹیچرس اینڈ اسکالرس کے اہتمام سے ہرسال ’عالمی یوم عربی زبان‘کا جشن منایا جاتاہے۔

پوری دنیا میں روزانہ کوئی نہ کوئی ڈے ضرورمنایا جاتا ہے، یہ اور بات ہے کہ ہر ’ڈے ‘ کی اہمیت کا معیار اس ’ڈے‘ کے اہتمام کرنے والوں سے طے ہوتا ہے، ہمارے ملک میں بھی روزانہ نہیں تو کم ازکم مہینہ میں کوئی نہ کوئی ’ڈے‘ ضرور اہتمام سے منایا جاتا جاتاہے، ان میں وومینس ڈے، مدرس ڈے، فادر س ڈے، چلڈرینس ڈے، ٹیچرس ڈے، لیبرس ڈے، کینسرس ڈے،مدر لینگویج ڈے، پوورٹی ڈے، واٹر ڈے،ہیلتھ ڈے، پیرینٹس ڈے،بلڈ ڈونر ڈے،یوگا ڈے، پاپولیشن ڈے،ہیپیٹائس ڈے،یوتھ ڈے،ٹورزم ڈے، فوڈ ڈے، ایڈ ز ڈے، اینٹی کرپشن ڈے،ماؤنٹین ڈے وغیرہ خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں، زبان کے سلسلے میں بھی فارن لیگویج میں، انگلش لینگویج ڈے، اسپینش لینگویج ڈے، چائنیز لینگویج ڈے، فرنچ لینگویج ڈے، رشین لینگویج ڈے، جیپنیزلینگویج ڈے کی طرح عربی زبان کے لیے بھی18 دسمبر ’ورلڈ عربک لینویج ڈے‘ ہے۔ 18 دسمبر 1973 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عربی زبان کو اپنی سرکاری زبانوں میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔ 19 فروری 2010 کو اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے انسانی تہذیب اور ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے میں عربی زبان کے اہم کردار کو تسلیم کرتے ہوئے 18 دسمبر کو اس زبان کا عالمی دن قرار دیا۔ اس پر عمل درآمد کرتے ہوئے 18 دسمبر 2012 کو پہلی مرتبہ عربی زبان کا عالمی دن منایا گیا۔بعدازاں عرب ممالک کے علاوہ پوری دنیا میں 18 دسمبر کو ’عالمی یوم عربی زبان‘ منایا جانے لگا، گزشتہ پانچ برسوں سے ملک کی ان یونیورسیٹیوں میں بھی اس عالمی دن کا اہتمام کیا جانے لگا، جہاں عربی زبان وادب کے شعبے ہیں۔ جن میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ، دہلی یونیورسٹی،دہلی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی، جواہر لال نہرو یونیورسٹی، دہلی، کلکتہ یونیورسٹی، مالدہ یونیوسٹی، گوروبنگایونیورسٹی،گوہاٹی یونیورسٹی، آسام یونیورسٹی، باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی، برکت اللہ یونیورسٹی، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں، جہاں عربی زبان وادب کے فروغ میں سرگرم آل انڈیا ایسوسی ایشن آف عربک ٹیچرس اینڈ اسکالرس (رجسٹرڈ)کے اہتمام سے ہرسال ’عالمی یوم عربی  زبان‘کا جشن منایا جاتاہے۔ عربی زبان اپنی جامعیّت،معنویّت، وسعت اورآفاقیت کی وجہ سے پوری دنیا میں منفرد مقام رکھتی ہے،مسلمانوں کی مذہبی زبان ہونے کی وجہ سے عربی کی مقبولیت کا سورج روز اوّل سے آج تک پوری آب وتاب سے چمک دمک رہا ہے،فضل وکمال میں انفرادیت کی حامل عربی زبان وطن او رعلاقائیت کے حدودِ اربع کی قیود سے آزاد ہے۔

اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ عربی قدیم ترین اور عالمی زبان ہونے کے ساتھ ساتھ پیغمبراسلام، وحیِ الہی اور اہل بہشت کی زبان ہے۔ اسلام اور مسلمان پوری دنیا کے ہر ملک میں اپنا وجود رکھتے ہیں، اسلامی تعلیمات کا ابلاغ عربی زبان کے بغیر ممکن نہیں ہے، قرآن واحادیث،فقہ اور علوم اسلامیہ سب ہی عربی زبان میں منقول ہیں، گویا عربی زبان دنیا کے ہر خطہ میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔پوری دنیا میں بسنے والے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان دن میں پانچ بار عربی کلمات کواذان،اقامت، نماز اور تلاوت کی صورت میں وردِ زبان کرتے ہیں، پوری دنیا میں گونجنے والی آواز (اذان) بھی عربی کلمات پر مشتمل ہے،اتنا عظیم واعلیٰ مقام اورمرتبہ پوری دنیا میں کسی بھی زبان کو حاصل نہیں ہے۔18 دسمبر 1973 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عربی زبان کو اپنی سرکاری زبانوں میں شامل کیا، جو یقیناًعربی زبان کی اہمیت اور ضرورت کا عالمی سطح پر اعتراف ہے۔اسی مناسبت سے  پوری دنیا میں 18دسمبر کو ’’الیوم العالمی للغۃ العربیۃ ‘‘عالمی یوم عربی زبان منایا جاتا ہے۔

ملک کے طول عرض میں عربی زبان کی اہمیت کو اجاگر کرنے اورفروغ دینے کے حوالے سے جہاں دارالعلوم دیوبند، جامعہ مظاہر علوم، سہارنپور، ندوۃ العلما لکھنؤ، جامعۃ الفلاح، جامعۃ الاصلاح، مبارکپور اشرفیہ اعظم گڑھ، جامعہ سلفیہ بنارس کی قابل قدر خدمات ہیں، وہیں عصری جامعات میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ، دہلی یونیورسٹی،دہلی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی، جواہر لال نہرو یونیورسٹی، دہلی، کلکتہ یونیورسٹی، مالدہ یونیوسٹی، گوروبنگایونیورسٹی،گوہاٹی یونیورسٹی، آسام یونیورسٹی، باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی، برکت اللہ یونیورسٹی، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، عثمانیہ یونیورسٹی، افلو حیدرآباد، کالیکٹ یونیورسٹی، یونیورسٹی آف مدراس کے اساتذہ کی جدوجہد قابل ستائش ہے۔ عربی زبان معاد کی زبان ہونے کے ساتھ آج معاش کی زبان بھی بن چکی ہے، ملکی وغیر ملکی کمپنیاں اپنی مصنوعات کو درآمدات وبرآمد ات کے لیے اس زبان کا سہارا لے رہی ہیں، ملک کی راجدھانی دہلی واطراف میں موجود سپر اسپیشلٹی ہاسپیٹلس، میدانتا، فورٹس، میکس وغیرہ آج فارنرس کے لیے مرجع بنے ہوئے ہیں، جہاں عربی مترجم کی اہمیت روز بروز بڑھتی کارہی ہے۔

 دوسری طرف بین الاقوامی مرکز عبد اللہ بن عبد العزیز برائے فروغ عربی زبان عالمی پیمانے پر اس زبان کی ترویج واشاعت کے ساتھ ساتھ اس زبان کی خدمت میں مصروف دنیاکے متعدد ممالک میں عربی زبان وادب کی خدمات کے اعتراف میں اعزازات وانعامات کا زریں سلسلہ شروع کیا ہوا ہے، جس سے پوری دنیا میں اس زبان کی ترویج واشاعت کے تئیں مملکت سعودیہ عربیہ کی دلچسپی اجاگر ہوتی ہے، اسی طرح سعودی کلچرل اتاشی کاہرماہ عربی زبان وادب کی خدمات کے حوالے سے الگ الگ موضوع پر ماہرین زبان کو جمع کرکے سمینار کرانا یقیناً زریں خدمات ہیں، اگر سعودی عرب کے نہج پر دیگر عرب ممالک  کے سربراہان وسفارتکاربھی دلچسپی دکھائیں تو بعید نہیں ہے عربی زبان وادب ہندوستان میں بھی ترقی کے منازل کو برق رفتاری سے طے کرے۔ آج یوایس اے سفارتخانہ اپنی زبان کو رواج دینے کے لیے سفارتخانہ کے زیراہتمام کئی کورس کرارہاہے، جس سے ہزاروں افراد مستفید ہوتے ہیں، کاش امریکی سفارتخانے کو مدنظر رکھ کر ہندوستان میں موجود عرب ممالک کے سفارتخانے بھی اپنی زبان کو فروغ دینے کے لیے کمربستہ ہوجائیں تو وہ دن دور نہیں ہے کہ عربی زبان بھی اپنی آفاقیت ہر سطح پر اجاگر کرکے سب سے آگے نکل جائے۔

عربی زبان عالم اسلام کی مشترکہ علمی و ادبی اور ثقافتی زبان ہونے کے ساتھ فی زمانہ ابلاغی و سفارتی زبان کا درجہ بھی پاچکی ہے۔اگر کسی زبان کے اندر عالمی زبان بننے کی صلاحیت ہے تو وہ فقط عربی زبان ہی ہے۔اسلامی دنیا کا سب سے زیادہ علمی ورثہ اور بنیادی مراجع و مصادر بھی عربی زبان میں ہی ہیں۔ عربی زبان کی تدریسی و تحقیقی اہمیت اور موجودہ دور میں اس کی ابلاغی و سفارتی اہمیت سے بھی انکار کرنا محال ہے۔علمی، تحقیقی، ادبی، سفارتی، ابلاغی اور صحافتی و قانونی، تجارتی اور عوامی اعتبار سے دنیا بھر کی زبانوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس حقیقت کا اعتراف کرنے کے علاوہ چارہ نہیں کہ سوائے عربی زبان کے کسی زبان کو یہ مرکزیت حاصل نہیں کہ وہ ’’ام الالسنہ‘‘ بن جائے۔ عربی زبان ہی ہے جو علوم کے خزائن کی اہم کلید ہے۔ عربی زبان اپنے وسیع اور جامع ادبی سرمائے کی وجہ سے دنیا کی چھ بڑی زبانوں میں شمار ہوتی ہے۔ اس کی جامعیت اسے دنیا کی تمام زبانوں سے ممتاز کرتی ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں چینی، انگریزی وغیرہ کے بعد عربی زبان کا پانچواں نمبر ہے۔ عرب دنیا کے تقریبا 40 کروڑ افراد اس کو مادری زبان کے طور پر بولتے ہیں جب کہ دنیا بھر میں 1.7 ارب سے زیادہ مسلمان ثانوی حیثیت سے اس زبان کا استعمال کرتے ہیں۔ قرآن کریم کی زبان ہونے کے سبب عربی کو خصوصی تقدس حاصل ہے اور دین ِ اسلام میں نماز، ذکر واذکار اور دیگر عبادتیں اس کے بغیر پوری نہیں ہوتی ہیں۔ عربی زبان کا تعلق سامی زبانوں کے قبیلے سے ہے اور اس کے حروفِ تہجیّ کی تعداد 28 ہے۔ عربی زبان کو لْغتْ الضّاد ‘‘ض’’ (ضاد کی زبان) بھی کہا جاتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض ماہرینِ لسانیات کا خیال ہے کہ دنیا کی کسی بھی اور زبان میں اس تلفظ کا حرف نہیں پایا جاتا ہے۔ قْرون ماضی میں اسلام کے پھیلنے اور مسلمان حکمرانوں کی فتوحات نے عربی زبان کو بلند مقام تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ عربی زبان دنیا کی کئی زبانوں پر براہ راست یا بالواسطہ طور پر اثر انداز ہوئی۔ ان زبانوں میں ترک، فارسی، کرد، اردو، ملیشیائی، انڈونیشی اور البانوی کے علاوہ افریقا میں ہاؤسا اور سواحلی جب کہ یورپ میں انگریزی، پرتگالی اور ہسپانوی شامل ہیں۔

حالیہ دور کے فرانسیسی مستشرقین اور محققین کا کہنا ہے کہ یورپی زبانوں کی ڈکشنریوں میں سائنس، طب، فلکیات اور دیگر علوم وفنون سے متعلق عربی کے 2500 سے زیادہ الفاظ موجود ہیں۔ اس وقت یورپ میں عربی زبان بولنے والوں کی تعداد 2 کروڑ سے زیادہ ہے۔ موجودہ ڈیجیٹل دور میں بالخصوص سوشل ویب سائٹس پر عربی زبان کا استعمال تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 10 برسوں کے دوران انٹرنیٹ پر استعمال ہونے والی زبانوں میں عربی زبان نے سب سے زیادہ تیزی سے ترقی کی ہے۔ عربی کو کئی علاقائی اور بین الاقوامی تنظیموں کی سرکاری زبان ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ان میں عرب لیگ، اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی)، افریقی یونین اور اقوام متحدہ شامل ہیں۔ دنیا بھر میں تو عربی زبان کی اہمیت اور مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عربی زبان اپنے اندر وہ تمام خوبیاں رکھتی ہے جو اس عالم گیریت (گلوبلائزیشن) کے دور میں پوری دنیا کی مشترکہ زبان کے طور پر اپنائی جا سکتی ہے۔ مگرافسوس کا مقام ہے کہ یہ زبان غیروں کی عداوت اور اپنوں کی غفلت کے سبب اس مقام کو نہیں پا سکی۔ بحیثیت مسلمان عربی زبان کو اس کا حق دلانا ہم سب کی ذمہ داری ہے جس کے لیے ہمیں مل کر کوشش کرنا ہو گی۔بطور خاص عرب ممالک کو مملکت سعودیہ عربیہ کی طرح اس زبان کو عالمی زبان کی حیثیت دلانے کے لیے پوری طرح کمربستہ ہونا پڑے گا، تبھی اس کو وہ مقام مل سکتا ہے، جس کا یہ زبان متقاضی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔