عرفان پٹھان سے پرویز رسول تک – کس کا کیریئر کون تباہ کررہا ہے؟

کیا عرفان پٹھان کے کیریئر کو ختم کیا جارہا ہے؟
عرفان پٹھان نے آئی پی ایل2016 سے پہلے ڈومیسٹک سیزن میں شاندار مظاہرہ کیا ہے اور انہیں قومی ٹیم میں شامل کیا جانا چاہئے تھا‘ سلیکٹرس نے انہیں کس بنیاد پر نظر انداز کیا یہ ناقابل فہم ہے۔ اب آئی پی ایل میں وہ مہیندر سنگھ دھونی کی قیادت میں پونے کی ٹیم میں شامل ہونے کے باوجود آخری گیارہ کھلاڑیوں میں شامل نہیں کئے جاتے‘ کیوں؟ آئی پی ایل ٹورنمنٹ اختتامی مراحل کی طرف رواں دواں ہے۔ دھونی نے ایک ہی میاچ میں عرفان کو موقع دیا اس سے پہلے چینائی سوپر کنگ میں بھی جس کے کپتان دھونی ہی تھے۔ 12میاچس میں عرفان پٹھان کو کھیلنے کا موقع نہیں دیا گیا تھا۔ آخر ایسا کیوں؟ دھونی کیپٹن کول کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے ہندوستانی کرکٹ ٹیم کی غیر معمولی خدمات انجام دی ہیں۔ اس سے کسی کو انکار نہیں۔ اس کے باوجود یہ سوال بار بار اُبھرتا ہے کہ آخر ان سے بہتر صلاحیتوں کے حامل کھلاڑی ہمیشہ دھونی سے ناراض کیوں رہا کرتے؟ جیسے یووراج سنگھ کے والد نے تو علی الاعلان دھونی پر الزام عائد کیا تھا کہ ان کی وجہ سے یووراج کا کیریئر متاثر ہوا۔ وی وی ایس لکشمن ایک عظیم بیاٹسمین جو اچھے فام میں تھے اور اچھی خاصی پریکٹس بھی کررہے تھے کہ اچانک ٹسٹ کرکٹ سے سبکدوشی کا اعلان کیا۔ اپنی وداعی پارٹی کا حیدرآباد میں اہتمام کیا۔ ہندوستانی ٹیم اس وقت حیدرآباد میں ہی تھی‘ مگر دھونی کو لکشمن نے اس پارٹی میں مدعو نہیں کیا جس سے دونوں کے درمیان پائی جانے والی دوریوں کا پتہ چلا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا انہوں نے دھونی کو مدعو کیوں نہیں کیا تو لکشمن نے جواب دیا تھا کہ دھونی تک فون پر رسائی ناممکن ہے۔ سہواگ جیسا بہترین کھلاڑی ناراض رہا‘ وہ سلیکٹرس اور کپتان سے بدظن رہے۔ یہی حال گوتم گمبھیر کا رہا۔ عرفان پٹھان نے نہ تو ناراضگی جتائی نہ ہی ایسا کوئی بیان یا اشارہ دیا جس سے پتہ چلتا کہ دھونی کے ساتھ ان کے تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ مگر ہر بات کہنے کی نہیں ہوتی‘ وہ خود بخود ظاہر ہوجاتی ہے۔ جس طرح سے عرفان پٹھان کو ڈریسنگ روم یا پھر پویلین میں بٹھاکر رکھا گیا ہے اس سے اس ہونہار آل راؤنڈر پر نفسیاتی اثر ہوسکتا ہے اور اس سے اس کی صلاحیتیں متاثر ہوسکتی ہیں۔ پونے کی ٹیم میں شامل ہونے کے باوجود انہیں موقع نہ دیا جانا بہت افسوسناک ہے اور عمر کے اس حصہ میں جب کہ عرفان پٹھان نے اپنی صلاحیتوں کو منوایا ہے انہیں جان بوجھ کر نظر انداز کیا جانا اذیت رسانی کے مماثل ہے۔
دھونی ویسے بھی مائل بہ زوال ہیں۔ کوہلی ان کے مقابلے میں زیادہ مقبول ہوچکے ہیں۔ دھونی کی قیادت میں حالیہ T-20ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں ہندوستان کی شکست کے بعد کیپٹن کول کی مقبولیت کے گراف میں بڑی حد تک کمی آئی ہے۔ اور آئی پی ایل میں ان کی قیادت میں پونے کی ٹیم کی پرفارمنس بہت ہی کمزور رہی ہے۔ اپنی شکست کا ٹوکرا دھونی بولرس کے سر رکھنے لگے ہیں تو ان سے سوشیل میڈیا کے ذریعہ سوال کیا جارہا ہے کہ وہ عرفان پٹھان جیسے اچھے پلیئر کو آزمانے سے کیوں گریز کررہے ہیں؟ بعض کے ذہنوں میں یہ شکوک و شبہات بھی ابھرے ہیں کہ ظہیر خاں جیسے گریٹ بولر نے اچانک اپنی سبکدوشی کا اعلان کیا ہے تو اس کے پس پردہ بھی کوئی راز ہے۔ کیا ظہیر خاں اور دھونی کے درمیان بھی کوئی خلش تھی۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ دھونی نے بہت ہی خوبی کے ساتھ ٹیم کے سینئر کھلاڑیوں کو بتدریج اپنے راستے سے ہٹایا تاکہ اپنے سے جونےئر اور کم عمر کھلاڑیوں پر ان کی گرفت رہے۔
ہندوستانی ٹیم کی مکمل عنان قیادت بہت جلد کوہلی سنبھالیں گے اور ان سے اچھی امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔ ایک تو کوہلی ایسے کھلاڑی اور کپتان ہیں جو ٹیم کے لئے سوچتے ہیں اور ٹیم کی کامیابی کے لئے کھیلتے ہیں۔ ان کا سچن ٹنڈولکر سے تقابل کیا جارہا ہے تو ان کی ٹیم کے حق میں کھیلے گئے اننگز، سچن کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ کوہلی نے سرفراز جیسے ابھرتے کرکٹر کو جس طرح سے آگے بڑھنے کا موقع دیا وہ قابل تعریف ہے۔ آئی پی ایل میں سرفراز کوہلی کی قیادت میں رائل چیلنجرس بنگلور کے لئے کھیل رہے ہیں۔ سرفراز نے اچھی بیٹنگ کی تو اگلے میاچ میں ان کی بیٹنگ پوزیشن کو اور بہتر کیا۔ اگر ابھرتے کھلاڑیوں کو ایسے نازک اور اہم مرحلوں پر مناسب حوصلہ افزائی ملے تو یہ بہت دور تک جاسکتے ہیں۔ سرفراز خاں، ارمان جعفر، خلیل احمد، اویس خاں اور ذیشان انصاری جیسے ابھرتے کرکٹرس ہندوستان کی انڈر۔19 ٹیم میں شامل ہیں۔ آج نہیں تو کل انہیں سینئر ٹیم میں موقع ملے گا بشرطیکہ سلیکٹرس کی نظر تعصب سے بے نیاز ہوں۔ چند برس پہلے پانچ مسلم کھلاڑیوں نے بیک وقت ہندوستانی ٹیم کی نمائندگی کی تھی مگر آج کی ٹیم میں ایک مسلم کھلاڑی نہیں ہے۔ محمد سمیع ہے بھی تو فٹنس کے نام پر ٹیم میں شامل نہیں کئے جاتے۔
ایک دور تھا جب ہند۔پاک کے درمیان میاچس ہوتے تو ہندوستانی مسلمانوں پر پاکستانی ٹیم کی حمایت کا الزام عائد ہوتا مگر اب یہ الزام عائد نہیں ہوتا۔ 1984ء میں اظہرالدین ہندوستانی ٹیم میں شامل ہوئے اور عالمی ریکارڈ کے ساتھ اپنے آپ کو منوایا۔ ایک بہترین بیاٹسمین، بہترین فیلڈر اور اچھے کپتان کی حیثیت سے انہوں نے ہندوستانی کرکٹ کی تاریخ میں اپنا نام درج کروایا۔ مگر میاچ فکسنگ کے الزامات کے تحت ان پر تاحیات امتناع عائد کیاگیا۔ یہ الزامات ثابت نہیں ہوسکے اور محمد اظہرالدین ہندوستان کے پہلے مسلم کرکٹر اپنے کیریئر کا 100ٹسٹ نہیں کھیل سکے جو آخری ٹسٹ کھیلا تو اس میں بھی سنچری بنائی۔ وہ ہندوستان کے پہلے کھلاڑی بن گئے جو اپنے پہلے اور آخری ٹسٹ میں سنچری بنائی۔ ان کے ساتھ تعصب برتا گیا یا کوئی سازش رچائی گئی۔ اگر اب اس کا جواب مل بھی جائے تو اظہرالدین کا گیا وقت واپس نہیں آسکتا۔ جو نقصان انہیں پہنچنا تھا پہنچ چکا ہے۔ محمد کیف اظہر کی طرح بہترین بیاٹسمین، بہترین فیلڈر ان کے ساتھ ایسا سلوک کیا گیا۔ کیا آپ ایسی کوئی مثال اور دے سکتے ہیں کہ جس کھلاڑی نے ایک طاقتور ٹیم کے خلاف سنچری بنائی اور اس کے اگلے میاچ میں اسے ڈراپ کردیا گیا۔ کیف کے ساتھ ہوا۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف اپنے کیریئر کی پہلی سنچری بنانے والے کیف نے دوبارہ ٹسٹ کرکٹ کھیلنے کا موقع نہیں ملا۔ اور کیف کو آئی پی ایل میں بھی ایسی ہی اذیتیں سہنی پڑی۔ وہ ٹیم میں شامل رہے مگر کبھی کھیلنے کا موقع نہیں ملا۔
سید کرمانی کرکٹ کی تاریخ کے چند عظیم وکٹ کیپر بیاٹسمین ہیں‘ ورلڈ کپ 1983ء میں زمبابوے کے خلاف 17رن پر پانچ وکٹ لی گئی تھی کپل دیو نے 175رن کی ناقابل شکست کھیلی تھی‘ تو ان کا ساتھ دے رہے تھے سید کرمانی۔ کپل اور کرمانی کی جوڑی نے اسکور 142/8 سے 266 تک پہنچایا تھا اور یہی پارٹنرشپ ہندوستان کی سیمی فائنل میں رسائی کی بنیاد بنی تھی۔ کرمانی کی غیر معمولی خدمات مکمل فٹنس کے باوجود انہیں مزید آگے کھیلنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ ان کے مقابلے میں سدانند وشواناتھ اور کیرن مورے کو موقع دیا گیا۔ شکستہ دل کرمانی کو ریٹائرمنٹ لینی پڑی۔
وسیم جعفر سے اچھا اوپننگ بیاٹسمین نہ تو ہندوستان کو نہ ہی ممبئی کو مل سکتا تھا۔ رانجی ٹرافی میں کئی ریکارڈ قائم کرنے والے وسیم جعفر کو ٹسٹ کھیلنے کا موقع ضرور ملا مگر بہتر سے بہتر پرفارمنس کے باوجود انہیں سلیکٹرس نظر انداز کرتے رہے۔ حتیٰ کہ ممبئی کی ٹیم کیلئے بھی انہیں نظر انداز کیا گیا تو بوجھل اور زخمی احساس کے ساتھ انہیں ممبئی کی ٹیم کی بجائے دوسری ٹیم کے لئے کھیلنا پڑا۔ایسے کئی واقعات اور مثالیں ہیں‘ جیسے پرویز رسول جنہیں ہندوستانی ٹیم میں شامل کیا گیا تھا مگر انہیں آخری گیارہ کھلاڑیوں میں نہیں رکھا گیا۔ کشمیریوں پر بہت سارے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ ایک کشمیری کرکٹر کو قومی ٹیم میں شامل کئے جانے سے کشمیری بہت خوش تھے مگر یہ خوشیاں عارضی ثابت ہوئیں۔آئی پی ایل میں پہلے سن رائزرس حیدرآباد نے انہیں حاصل کیا تھا‘ مگر سیزن میں کھیلنے کا موقع نہیں دیا۔ اب وہ کوہلی کی قیادت میں بنگلور کی ٹیم میں ہیں۔ جہاں انہیں اپنی صلاحیتوں کا موقع مل رہا ہے۔ مناف پٹیل ایک کسان کا بیٹا دیہی علاقے سے ہندوستان کی ٹیم تک کا سفر اس نے کتنی مشکلوں سے طئے کیا ہوگا اس کا نہ تو اندازہ کیا جاسکتا ہے نہ ہی تصور۔وقت، حالات اور تعصب کا شکار ہوکر فی الحال گمنامی کے اندھیرے میں ہیں۔ وہ اُن کھلاڑیوں میں شامل ہیں جنہیں آئی پی ایل کے جاریہ سیزن کیلئے کسی بھی ٹیم نے حاصل نہیں کیا۔ کرکٹ ایک گیند کا کھیل ہے‘ ایک گیند سے کیرےئر سنور بھی سکتا ہے اور بگڑ بھی سکتا ہے۔جو کھلاڑی فام میں ہیں‘ مگر سلیکٹرس اور کپتان کے منظور نظر نہیں‘ انہیں ٹیم کا بوجھ بناکر رکھ دیا جاتا ہے۔ اور جو منظور نظر ہیں انہیں اس وقت تک موقع دیا جاتا ہے جب تک کہ وہ کسی میاچ میں اچھا کھیل کا مظاہرہ نہ کرے۔ ایک مثال عرفان کے بھائی یوسف پٹھان کی ہے جو کولکتہ نائٹ رائیڈرس کی ٹیم میں شامل ہیں‘ مسلسل ناکامی کے باوجود انہیں موقع دیا گیا آخر کار انہوں نے اپنے کھوئے ہوئے فام کو حاصل کرلیا۔کرکٹ کو کبھی جنٹل مین یا شرفاء کا کھیل کہا جاتاتھا‘ اب یہ سٹے بازوں اور مجرمانہ پس منظر کے حامل عناصر کا بزنس بن چکا ہے۔ اس لئے ایمانداری، غیر جانبداری توقعات بھی غیر واجبی ہے۔(یو این این)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔