عروج و زوال کے فطری اصول(دوسری قسط)

قرآن مجید نے نافع کو حق سے اور غیر نافع کو باطل سے تعبیر کیا ہے اور اس تعبیر سے ہی اس نے حقیقت کی نوعیت واضح کردی کیونکہ حق اسی چیز کو کہتے ہیں جو ثابت اور قائم رہے اور اس کیلئے مٹ جانا، زوال پزیر ہونا اور فنا اور نابود ہونا ممکن نہ ہو۔ اور باطل کے معنی ہی یہی ہیں یعنی مٹ جانا اور محو ہوجانا۔ پس وہ جب کسی بات کیلئے کہتا ہے کہ یہ حق ہے تو یہ صرف دعویٰ ہی نہیں بلکہ دعوے کے ساتھ اس کی جانچ کا معیار بھی پیش کیا جاتا ہے کہ یہ بات حق ہے، اس لئے نہ مٹنے والی اور نہ ٹلنے والی بات ہے اور اس کے ثبوت و وجود، قیام و بقا کیلئے صرف اس کا حق ہونا کافی ہے اور جب یہ کہا جائے کہ یہ بات باطل ہے یعنی نہ ٹک سکنے والی، ٹلنے والی بات ہے۔ اس عدم و زوال پزیری کیلئے اس کا باطل ہونا ہی کافی ہے۔ مزید دلیل کی حاجت نہیں ۔ یہ دونوں اصطلاحیں قرآن کے مہمات معارف میں سے ہیں لیکن افسوس کہ علماء نے غور نہیں کیا، ورنہ بعض اہم مقامات میں دور ازکار تاویلوں کی ضرورت ہی نہ تھی اور اگر یہ ایک حقیقت سمجھ لی جائے تو ہماری پستی اور ادبار کیلئے ان وہمی اسباب تنزل و ادبار کی ضرورت ہی نہ تھی۔

 لیکن افسوس کہ قوم کے رہنماؤں نے غور و فکر سے کام نہ لیا تو کسی نے باعث ادبار کی وہمی بات کو بنالیا، کسی نے تقلید یورپ کو اور کسی نے تملق و خوشامد غلامانہ کو۔ تفصیل کا یہ موقع نہیں ، لیکن اتنی بات سمجھ لینی ضروری ہے کہ قرآن نے ہمارے ظہور کی علت غائی جو فرمائی ہے وہی ہمارے عروج کی بھی علت غائی قرار دی ہے، یعنی ؛ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ۔(110:3) میں ہمارے ظہور کا مقصد نفع خلائق قرار دیا ہے۔ یونہی:

  اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنَّا ہُمْ فِیْ الْاَرْضِ اَقَامُوْ ا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوْالزَّکٰوۃَ وَاْمُرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ط (41:22)میں ہمارے عروج کی علت غائی بھی اس نے یہی قرار دی ہے کہ اقامت الصلوٰۃ، نظام زکوٰۃ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر۔ یہ تینوں باتیں نفع رسانی خلائق کیلئے ہیں ، تو گویا ہمارا ظہور و عروج دونوں نفع رسانی ناس کیلئے تھے؛ یعنی اللہ کی سلطنت قائم کرنا اور عدل الٰہی کو دنیا میں غلبہ دینا جس سے بڑھ کر کوئی نفع نہیں اور یہی معنی ہیں صفاتِ الٰہیہ کے مظہر ہونے کے کیونکہ مظہریت بغیر تین باتوں کے ہو نہیں سکتی۔ پہلی بات وحدت مرکزیہ کا قیام ہے جس کیلئے اقامت الصلوٰ کا حکم ہے، دوسری بات ہے اشتراک مال کی اسلامی صورت جس کی طرف نظام زکوٰۃ کے ذریعہ رہنمائی کی گئی اور تیسری بات ہے عدل الٰہی کا قیام۔ سو وہی چیز امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہے اور یہی مقصد اعلیٰ امور عظام میں سے ہے۔

 ہم نے جب تک اپنے ظہور و عروج کے مقاصد کو سنبھالے رکھا تو دنیا کیلئے نافع رہے۔ اس لئے ہمیں تکمیل فی الارض حاصل رہا اور جب سے ہم نے اپنے ظہور و عروج کا مقصد بھلا دیا تو پھر ہمیں اس منصب سے بھی محروم ہونا پڑا اور قومی زندگی کی بجائے قومی موت کا سامنا ہوا تو خدارا بتلاؤ کہ ہم بدبختوں اور سیاہ کاروں کا کیا حق ہے کہ قومی زندگی اور اجتماعی ترقی کے دعوے کریں ۔ آج نہ ایمان کی دولت ساتھ ہے اور نہ طاعات و حسنات کی پونجی دامن میں ۔ زندگی یکسر غفلت و معصیت میں برباد اور عمریں یک قلم نفس پرستی و نافرمانی میں تاراج۔ اغراض نفسیاتی کی پرستش اور نفاق، نافرمانی اور انکار۔

 پھر نہ ندامت و ملامت او رنہ ہی توبہ و انابت، تو خدارا بتلاؤ کس منہ سے ہم اپنی زندگی و بقا کے مدعی بن سکتے ہیں ۔ فواحسرتا و مصیبتاہ۔

 اصل یہ ہے کہ نظام عالم کے قوانین اساس کی بنیاد صرف قیام عدل کی ناقدانہ قوت پر ہے۔ خداوند تعالیٰ دنیا میں انبیاء علیہم السلام کو بھی اس لئے بھیجتا رہتا ہے کہ دنیا میں اللہ کے عدل کو قائم کریں ؛ لیکن چونکہ اس کیلئے اکثر اوقات قہر و غلبہ کی قوت قاہرہ بھی دیتا رہا اور استیلا و استقلاء کی نعمت عظمیٰ سے نوازا تاکہ دنیا سے ظلم و برائی کا خاتمہ ہوجائے اور عدل الٰہی کا دور دورہ ہو اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کا فرض منصبی بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر قرار دے کر ان کو قیام عدل کیلئے منتخب فرمایا اور میزان عدل؛ قسطاس المستقیم اور صراط مستقیم کا قانون اجتماعی دے کر دنیا والوں کیلئے ان کو شہداء یعنی حق کی گواہی دینے والا بنایا۔

پس مسلمانوں کے ظہور کی اصل علت غائی صرف یہ ہے کہ شہادۃ علی الناس کا فریضہ باحسن وجود پورا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ تمکین فی الارض والی آیت کے سوا جہاں کہیں بھی ان کے ظہور کی علت غائی سی نشاندہی فرمائی۔ کسی جگہ بھی اقامۃ الصلوٰۃ و اٰتوالزکوٰۃ کا ذکر نہیں کیا بلکہ صرف شہادۃ علی الناس وامر بالمعروف عن المنکر پر زور دیا۔ فرمایا:

  کَذَالِکَ جَعَلْنَاکُمْ اُمَّۃً وَّسَطاً  لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْداً (143:2)۔

  یعنی اس طرح ہم نے تم کو امت درمیانی بنایا تاکہ اور لوگوں کے مقابلہ میں تم گواہ بنو اور تمہارے مقابلے میں تمہارا رسول گواہ ہو اور فرمایا:

 وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکُرِ وَ اُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (104:3) ۔

 یعنی تم میں ایک جماعت ہونی چاہئے جو دنیا کو نیکی کی دعوت دے، بھلائی کا حکم کرے اور برائی سے روکے وہی فلاح یافتہ ہیں اور فرمایا:

 کُنْتُمْ خَیْرَا اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ (115:3)۔

 یعنی تمام امتوں میں سب سے بہتر امت ہو کہ اچھے کاموں کا حکم دیتے ہو اور برے کاموں سے روکتے ہو۔

 ان تینوں میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کا اصلی مشن مقصد تخلیق اور قومی امتیاز و شرف خصوصی اس چیز کو قرار دیا ہے کہ دنیا میں اعلانِ حق ان کا سرمایہ زندگی ہے اور وہ دنیا میں اس لئے کھڑے کئے گئے ہیں کہ خیر کی طرف داعی ہوں اور نیکی کا حکم دیں اور برائی کو جہاں کہیں دیکھیں اس کو روکیں ۔ عمران و تمدن کے تمام اصولوں اور قوانین کا متن قرآن کا ہی اصل اصول ہے، اسی اصول کی ہمہ گیری ہے کہ امم قدیمیہ کے حالات ہم پڑھتے ہیں تو ہر قوم کا ایک دور عروج ہمارے سامنے آتا ہے اور دوسرا زمانہ الخطاط ان دونوں میں مابہ الامتیاز اور فاصل اگر کوئی چیز ہوسکتی ہے تو وہ قیام عدل اور نفاذ جور و جفا ہے۔

 جب تک قومیں قیام عدل میں مساعی اور جدوجہد کرنے والی ہوتی ہیں تو فتح و کامرانی ، نصرت الٰہی و کامیابی ان کے قدم چومتی ہے؛ لیکن جب قیام عدل کی جائے افشاء ظلم اور ترویج جور و ستم ان کا شعار بن جاتا ہے تو پھر قانون فطرت حرکت میں آتا ہے اور بیک جنبش ان کو صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا دیتا ہے اور پھر ان کا نام و نشان تک باقی نہیں رہتا۔

 دور جانے کی ضرورت نہیں ، خود اپنی تاریخ کو اٹھاکر دیکھو۔ جب تک ہم دنیا میں حق اور انصاف کے حامی و مددگار رہے تو خدا تعالیٰ بھی ہمارا مددگار رہا اور دنیا کی کوئی طاقت بھی ہمارے سامنے نہ ٹھہر سکی، لیکن جوں ہی تاریخ اسلام کا عہد تاریک شروع ہوا اور علم و مذہب، اعلانِ حق اور دفع باطل کیلئے نہ رہا بلکہ حصول عز و جا اور حکومت و تسلط کیلئے آلہ کار بن گیااور اس طرح علم و مذہب حصول قوت حکمرانی اور دولت جاہ دنیوی کا ذریعہ بن گیا تو اجتماعی فسادات اور امراض کے چشمے پھوٹ پڑے۔ حکام عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنے لگے اور علماء و فقہاء ان کے درباروں کی زینت بن گئے تو قوت حاکمہ کائنات کے دست قدرت نے بھی استبدال اقوام اور انتخاب ملل کے فطری قانون کو حرکت دی اور عمل بالمحاذات کے دستور اٹل کو عمل میں لائی۔ تو پھر ہمارے ادبار اور شقاوت کو نہ ہماری حکومت روک سکی اور نہ ہی عسکری قوت، رسوائی و ذلت کے اس بحر متلاطم کے تھپیڑوں سے نہ علماء و مشائخ بچ سکے اور نہ عمال اور زاہد۔

آج جتنی رسواء عالم مسلمان قوم ہے شاید ہی کوئی قوم اس درجہ مغضوب و مقہور ہوئی ہو۔

 وَضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّۃُ وَ الْمَسْکَنَۃُ وَبَآئُ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ (61:3) کا مصداق بنی اسرائیل کے بعد ہم ہی ہیں ۔

  وَ تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَا وِلُہَا بَیْنَ النَّاسِ (140:3)۔

 یہ گردشِ ایام قوموں اور ملتوں ، جماعتوں اور لوگوں کے درمیان ہمیشہ جاری و ساری رہا کرتی ہے۔ اس کی گرفت سے دنیا کا کوئی شاہ نہیں بچ سکتا۔ یہ اٹل اور لازوال حقیقت ہے۔

تحریر: مولانا ابوالکلام آزادؒ … ترتیب: عبدالعزیز   

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔