دستِ مسیحائی سے جان چھڑا کر کے

افتخار راغبؔ

دستِ مسیحائی سے جان چھڑا کر کے

کتنا خوش تھا درد سے میں رشتہ کر کے

گھر والے مصروفِ دعا ہو جاتے ہیں

گھر سے نکلتا ہوں میں کچھ صدقہ کرکے

پہلے بناﺅ مجھ کو تم بیمار اپنا

پھر اچھا بن رہنا مجھے اچھا کر کے

شاخ سے ٹوٹ چکا ہوں تو اب غم کیسا

چاہے جہاں اب پٹکے ہوا اٹھا کر کے

سامنے ان کے جاکر سب کچھ بھول گیا

خود کو بھیجا تھا کتنا سمجھا کر کے

میری پیاسی مٹی مجھ پر ہنستی ہے

بیٹھا ہوں بادل سے آس لگا کر کے

اپنے دل میں تیری آہٹ سنتا ہوں

اٹھتا ہوں جب راتوں کو گھبرا کر کے

تیرے ملنے والوں سے مل لیتا ہوں

تھوڑی خوشی مل جاتی ہے ایسا کر کے

اور خفا ہو جائے وہ راغبؔ مجھ سے

جب بھی جتاﺅں پیار کوئی شکوہ کرکے

تبصرے بند ہیں۔