پیارے سید شہاب الدین!

عبدالعزیز

شور برپا ہے خانۂ دل میں … کوئی دیوار سی گری ہے ابھی

 آصف عمر آصف نے فون پر مجھے اطلاع دی کہ آج صبح ساڑھے پانچ بجے ملک و ملت کی عظیم شخصیت سید شہاب الدین دنیائے فانی سے کوچ کرگئے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ یہ سنتے ہی میرے دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں ۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا۔ آخر میں روتا کیوں نہٰں ، میرا مربی و میرا محسن مجھ سے ہمیشہ کیلئے جدا ہوگیا۔ کوئی مانے نہ مانے میں انھیں ملت اسلامیہ ہند کا سب سے بڑا وکیل اور ترجمان سمجھتا تھا۔ ہم جیسے ہزاروں لوگ ان سے والہانہ لگاؤ رکھتے تھے۔ اگر چہ سخن دلنوازی کی ان میں کمی تھی مگر نگہ بلند اور جان پرسوز تھے۔ ان کی اس ادا سے ان کے دوست اور دشمن دونوں قائل تھے۔ ان کے اخلاص اور ایمانداری کی لوگ قسمیں کھاتے تھے۔ ان کے جہد مسلسل پر ہر ایک کو رشک تھا۔ ملت و انسانیت کیلئے ان کی تقریریں ، تحریریں ، گفتگو اور بات چیت ایک عالم کو متاثر کرتی تھی۔ مسلم انڈیا کے ایک جانباز سپاہی تھے اور ایک ایسی بلند آواز رکھتے تھے جو کبھی صدا بہ صحرا ثابت نہیں ہوئی۔ ملک بھر میں اس کا اثر ہوتا تھا۔ دوست اور دشمن سب اس کا اثر اپنے اپنے انداز سے لیتے تھے۔

 سید صاحب علم و کردار، عزم و ہمت اور جہد مسلسل کے عملی نمونہ تھے۔ اقبال کے مرد مومن، امت کے غمخوار، قافلہ ملت کے قائد، راہی، ہم قدم، مربی و محسن تھے۔ جن سے بڑے چھوٹے سب یکساں محبت ہی نہیں عقیدت رکھتے تھے۔ ان سے تعلق رکھنے والا ہر فرد سمجھتا تھا کہ سید صاحب ان کے ہیں ۔ ملت اسلامیہ کی ہر جماعت کے حلقوں میں یہی سمجھا جاتا تھا کہ وہ اس کی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ان پر بہت کچھ لکھا گیا اور بہت کچھ لکھا جائے گا لیکن شاید ہی ان کی متنوع خوبیوں اور صلاحیتوں کا احاطہ ہوسکے۔

خاکسار ان سے بیحد محبت کرتا تھا۔ وہ بھی اکثر و بیشتر اپنے قول و عمل سے گہرے تعلق کا اظہار کرتے تھے۔ کبھی کبھار بعض معاملوں اور مسئلوں میں مجھ جیسے معمولی شخص سے بھی مشورہ کرتے تھے۔ اگر کبھی ان سے غلطی سرزد وہوجاتی تو نہایت خندہ پیشانی سے اپنی غلطی ماننے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ سید صاحب کا نام اکثر و بیشتر اپنے بڑے اور بزرگوں سے سنتا تھا مگر جب وہ اپنی مرضی سے سیاست کی دنیا میں ریٹائر ہوکر آئے اور جنتا پارٹی میں شمولیت اختیار کی تو اخباروں اور رسالوں میں ان کی قابلیت و صلاحیت اور اعلیٰ تعلیم کے بارے میں پڑھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔

 مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ سید صاحب سے میری پہلی ملاقات ستمبر 1979ء میں کل ہند مسلم مجلس مشاورت کے اجلاس میں ہوئی۔ اجلاس کی صدارت مولانا مفتی عتیق الرحمن صاحب عثمانی کر رہے تھے۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی بھی شریک اجلاس تھے۔ گزشتہ رات کو مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے انتقال کی خبر جماعت اور مشاورت کے لوگوں کو معلوم ہوگئی تھی، ایڈیٹر دعوت محمد مسلم صاحب نے خاکسار کو ایک پرزہ لکھ کر دیا اور کہا کہ اسے صدر مشاورت مولانا عثمانی صاحب کو دے دو۔ پرزہ میں لکھا ہوا تھا۔ ’’گزشتہ رات حضرت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اللہ کو پیارے ہوگئے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ممکن ہو تو اس سیشن کے اجلاس کو تعزیتی جلسہ میں بدل دیا جائے‘‘۔ صدر اجلاس نے فوراً تعزیتی جلسہ کا اعلان کیا۔ جلسہ کے اختتام پر سید شہاب الدین صاحب سے ملاقات کی۔ خندہ پیشانی سے موصوف ملے۔ میں نے کہاکہ ہم لوگ تقریباً سو افراد مولانا مرحوم کے جنازے میں شرکت کیلئے لاہور جانا چاہتے ہیں ۔ Regional Passport Officer کو ایک درخواست لکھ دیجئے۔ سید صاحب نے کاغذ مانگا اور پانچ منٹ میں لکھ کر دے دیا۔ یہی میری پہلی ملاقات تھی۔ اس کے بعد آخری دم تک مرحوم سے میرے تعلقات قائم رہے۔ ہر وہ کام جو سید صاحب شروع کرنے جاتے۔ مشورہ لیتے اور ضرورت پڑنے پر دہلی طلب کرتے اور میں شوق سے ان کی اطاعت گزاری کرتا۔

 کشن گنج میں پارلیمانی انتخاب: 1984ء میں مجھے یاد آتا ہے کہ مسلمانوں میں سب سے مقبول اور مشہور لیڈر سید شہاب الدین تھے۔ جب وہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے لوک سبھا کیلئے کشن گنج پارلیمانی حلقہ سے کھڑے ہوئے تو پورے ملک سے مسلم نوجوانوں اور طلبہ کی ٹیم انتخابی سرگرمیوں حصہ لینے کیلئے کشن گنج پہنچی۔ کوئی دس دن، کوئی ایک ہفتہ اور کوئی انتخاب کے آخری دنوں تک سید صاحب کیلئے کام کرتا رہا۔ کلکتہ سے ملی اتحاد کمیٹی کی طرف سے 7 افراد گئے تھے جس میں خاکسار بھی شامل تھا۔ میں اس وقت روزنامہ ’اقراء‘ کا ایڈیٹر تھا۔ تقریباً ’اقراء‘ کی پانچ سو کاپیاں اس وقت کلکتہ سے کشن گنج بھیجی جاتی تھیں ۔ جب ہم لوگ کشن گنج پہنچے تو دیکھا کہ ’اقراء‘ کا بڑا چرچا ہے۔ ہم لوگ انتخاب کے آخری دنوں میں گئے تھے۔ سید صاحب کی اہلیہ بھی کشن گنج کی انتخابی مہم میں شریک تھیں ۔ انھوں نے مجھ سے اقراء کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہاکہ اقراء نے جو کام کیا ہے ہم لوگ بھول نہیں سکتے۔ آدھا کام ہم لوگوں نے انجام دیا اور آدھا کام اقراء نے کیا۔ یہ سن کر مجھے بیحد خوشی ہوئی کہ اقراء اور میری ذات ایک ایسے شخص کے کام آئی جسے اس وقت پورے ملک کے مسلمان اپنا لیڈر اور ہنما سمجھتے ہیں ۔

 کشن گنج سے الیکشن میں شاندار کامیابی کے بعد سید صاحب کلکتہ آئے۔ ہوڑہ اسٹیشن پر ان کے شایان شان اہل کلکتہ نے استقبال کیا۔ ملی الامین کالج میں شام کو ان کے اعزاز میں جلسہ استقبالیہ منعقد کیا گیا۔ سید صاحب لوک سبھا میں ہر وہ مسئلہ اٹھاتے تھے جو مسلمانوں یا دیگر اقلیتوں کو درپیش ہوتا تھا۔ جارج فرنانڈیز جیسا شخص بھی ان سے عیسائیوں کا مسئلہ اٹھانے کی درخواست کرتا تھا۔

 سمتا پارٹی: جنتا دل جب لالو پرساد کی وجہ سے دو حصوں میں تقسیم ہوگیا تو سید صاحب سمتا پارٹی میں شامل رہے لیکن سمتا پارٹی نے جیسے ہی بی جے پی کے ساتھ اتحاد کیا تو سید صاحب نے سمتا پارٹی سے بی جے پی کے مسئلہ پر استعفیٰ دے دیا۔ وہ ایک شریف النفس انسان تھے۔ نظریاتی وفاداری ان کی زندگی کا خاصہ تھی۔ انھوں نے کبھی اقتدار کا تعاقب نہیں کیا بلکہ کہنا چاہئے کہ اقتدار نے ان کا تعاقب ضرور کیا مگر کوئی دلچسپی انھوں نے نہیں لی ۔ بی جے پی سے لڑنے کیلئے کانگریس میں شامل ہوئے اس کیلئے مختلف ریاستوں میں مہم چلائی مگر اپنے لئے کسی چیز کا سوال نہیں کیا اور نہ ہی اوروں کی طرح کسی کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہوئے مسز سونیا گاندھی سے صاف صاف کہاکہ وہ جو کچھ کانگریس میں غلط پائیں گے برملا کہیں گے۔ سونیا گاندھی نے سید صاحب کی حوصلہ افزائی کی اور کہاکہ ’’ضرور‘‘ کچھ دنوں تک کانگریس میں رہے۔ کانگریس اقتدار میں بھی آگئی مگر سونیا کے دربار میں کبھی حاضری نہیں دی۔ کانگریس کلچر انھیں پسند نہیں آیا اور کانگریس کو ہی خیر باد کہہ دیا۔

مسلمانوں میں ملک کی آزادی کے بعد کوئی ایسا لیڈر اور رہنما نظر نہیں آتا جو کسی بھی سیاسی پارٹی میں اپنی شرط پر شامل ہو اور جب اس کی شرط منظور نہ تو پارٹی کو خیر باد کہہ دے۔ سید شہاب الدین صاحب کی سمتا پارٹی میں بہت عزت تھی مگر بی جے پی کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے انھوں نے اسے چھوڑا۔ آج مسلمانوں میں ایسے ایسے لوگ بھی ہیں جو بی جے پی کے تلوے چاٹ رہے ہیں پھر بھی وہ مسلمان ہیں ۔ بہوجن سماج پارٹی کے مشہور لیڈر اطہر خان نے مجھ سے ایک مجلس میں کہاکہ میں تو شہاب الدین کی اس لئے بہت قدر کرتا ہوں کہ وہ بی جے پی کی وجہ سے سمتا پارٹی سے دور ہوئے۔نتیش کمار اور لالو پرساد جیسے لیڈران بھی سید صاحب کو انتہائی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ملائم سنگھ بھی سید شہاب الدین کو اپنی پارٹی ایس پی میں شامل کرنا چاہتے تھے مگر اعظم خان ان کی راہ میں روڑا بنے ہوئے تھے۔

 انصاف پارٹی: سید صاحب نے بہت ہی غور و فکر کے بعد انصاف پارٹی کے نام سے ایک پارٹی کی تشکیل کی۔ تقریباً ایک سال تک یوپی اور بہار میں اس کی شاخیں قائم کیں ۔ الیکشن میں بھی انصاف پارٹی کے ٹکٹ پر کچھ لوگوں کو کھڑا کیا مگر کوئی کامیابی نہیں ملی۔ آخر مایوس ہوکر پارٹی کو تحلیل کر دیا کہتے تھے۔ مسلمان جب تک چاند تارا نہیں دیکھتے کسی پارٹی کو اپنی پارٹی نہیں سمجھتے۔ وہ انصاف پارٹی کو سیکولر رکھنا چاہتے تھے۔

 بابری مسجد: سید شہاب الدین صاحب نے ہی بابری مسجد کا مسئلہ زندہ کیا اور اس کیلئے دل و جان سے لڑائی لڑی۔ اس سلسلہ میں بہت سے لوگ ان سے بدظن بھی ہوئے کہ ان کو بابری مسجد کیلئے جدوجہد نہیں کرنا چاہئے مگر ان کے دل میں یہ بات جاگزیں ہوگئی تھی کہ بابری مسجد پر قبضہ عدل و انصاف کا خون ہے۔ اس خون کو وہ کسی قیمت پر برداشت نہیں کریں گے۔ جب انھوں نے دہلی سے بابری مسجد تک مارچ کا پروگرام بنایا اور یوم جمہوریہ کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا بہتوں کے کان کھڑے ہوگئے تھے۔ چند دنوں کے بعد انھوں نے یہ پروگرام منسوخ کردیا۔

 بمبئی میں جب میری ملاقات ان سے ہوئی تو انھوں نے کہاکہ مارچ کرنا یا بائیکاٹ کرنا ان کا مقصد نہیں تھا بلکہ مقصد بابری مسجد کے مسئلہ کو زندہ رکھنا تھا۔ اوما شنکر ڈکشت سابق وزیر داخلہ و سابق گورنر مغربی بنگال نے مجھ سے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ بابری مسجد تو ایک گندی جگہ پر ہے۔ یہ تو شہاب الدین نے جو دہلی سے کیرالہ تک بابری مسجد کے مسئلہ کو اٹھا کر تازہ کر دیا ورنہ اس مسئلہ کو کون جانتا تھا۔ اخبار انقلاب میں جب یہ انٹرویو سید شہاب الدین صاحب نے پڑھا تو اوما شنکر ڈکشت کو فوراً ایک سخت خط لکھا اور انھیں بابری مسجد کے تاریخی پس منظر سے ہی نہیں آگاہ کیا بلکہ انھیں بتایا کہ آزاد ہندستان میں کسی کی عبادت گاہ پر قبضہ جمائے رکھنا جمہوریت اور انصاف کا کتنا بڑا خون ہے ، جب بابری مسجد دن دہاڑے ڈھادی گئی تو مسلم پرسنل لاء بورڈ کے بھرے اجلاس میں سید شہاب الدین صاحب نے زار و قطار روتے ہوئے کہاکہ مجھ سے کچھ نہیں ہوسکا۔ آپ لوگ کچھ کیجئے۔ ان کی درخواست پر مسلم پرسنل لاء بورڈ نے پھر بابری مسجد کے مسئلہ کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔

شاہ بانو کا مقدمہ: سپریم کورٹ میں شاہ بانو کے مقدمہ کے فیصلہ کے بعد جو حالات پیدا ہوئے اس میں سید شہاب الدین کا زبردست رول رہا۔ سید شہاب الدین کی ہر بات اور ہر بیان کو نیشنل میڈیا Coverage دیتے تھے۔ اس وقت سید صاحب ہی مسلمانوں کے سب سے بڑے ترجمان اور وکیل بن کر ابھرے تھے۔ مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی سابق صدر مسلم پرسنل لاء بورڈ نے مجھ سے ایک نشست میں بتایا کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ایک وفد نے مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی قیادت میں 32 افراد پر مشتمل مسٹر راجیو گاندھی سے ملاقات کی۔ بات چیت کا سلسلہ مولانا علی میاں نے شروع کیا مگر قاضی مجاہد الاسلام صاحب نے کہاکہ مجھے ایسا لگا کہ مولانا علی میاں کی باتیں وزیر اعظم راجیو گاندھی کے پلے نہیں پڑ رہی ہیں ۔ مولانا سے میں نے سید شہاب الدین صاحب سے گفتگو کرنے کی گزارش کی۔ سید صاحب دس منٹ میں انگریزی زبان میں مسلم عورتوں کے حقوق اور مقام و مرتبہ کو بتایا۔ مسٹر راجیو گاندھی نے سید صاحب کی باتوں کو اچھی طرح سمجھ کر کہا کہ ’’مجھے پہلے کیوں نہیں یہ سب باتیں بیان کیں ۔ اب میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کو آرڈیننس جاری کرکے کالعدم قرار دوں گا پھر پارلیمنٹ سرکاری بل پیش کرکے مسلم مطلقہ کیلئے قانون بنا دوں گا اور اس طرح مسلم مطلقہ کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔

مسلم مجلس مشاورت: جس طرح سید شہاب الدین صاحب نے بابری مسجد اور شاہ بانو کے معاملہ کو ملک بھر میں اجاگر کیا اور نمایاں کردار ادا کیا۔ اس سے کہیں زیادہ مسلم مجلس مشاورت کو زندہ و تابندہ رکھنے میں اہم رول ادا کیا۔ مشاورت کا کوئی مستقل دفتر نہیں تھا۔ اس لئے مولانا شفیع مونس سابق نائب امیر جماعت اسلامی ہند کو مشاورت کا جنرل سکریٹری مقرر کیا۔ ان کے تعاون سے اور رات دن کی کوششوں سے پہلے مشاورت کیلئے ایک دو کٹھا زمین اوکھلا میں خریدی۔ پھر زمین بیچ کر اور ملک بھر کے اہل خیر حضرات سے اپیل کرکے چندہ لیا جس سے مشاورت کے دفتر کیلئے ابوالفضل انکلیو میں ایک حویلی نما عمارت خریدی۔ اس طرح مشاورت کا ایک اچھا اور کشادہ دفتر ہوگیا ۔ ایسا اچھا اور کشادہ دفتر دہلی میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کا بھی نہیں ہے۔ مشاورت کیلئے جو دوسرا بڑا کام سید شہاب الدین نے کیا وہ یہ کہ ایک ایسا اچھا اور کار آمد دستور تیارکیا، جس سے مجلس مشاورت کبھی جمود اور تعطل کا شکار نہیں ہوگی۔ دستور میں یہ شق درج ہے کہ صدر کا انتخاب ہر دو سال بعد بلیٹ پیپر کے ذریعہ ارکان کریں گے اور مسلسل دو میقات سے زیادہ کسی فرد کو صدر کے عہدہ کیلئے نہیں چنا جائے گا۔ یہ کام انھوں نے اس وقت کیا جب خود مشاورت کے صدر تھے اور انھیں معلوم تھا کہ وہ ایک سال بعد صدر مشاورت کیلئے امیدوار نہیں ہوسکتے۔ ایسی مثال مسلم جماعتوں میں بہت کم ملے گی۔

 مسلم مجلس مشاورت حقیقت میں ان کا اوڑھنا بچھونا بن گئی تھی۔ رات دن ا س کی ترقی کیلئے سوچتے تھے اور نئے نئے تجربہ کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اس کے مالی تعاون کیلئے دنیا بھر کے مسلمانوں کو مشاورت کیلئے دوست اور معاون بنانے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے۔ مشاورت کے ذریعہ فساد زدگان اور مصیبت زدگان کو ریلیف پہنچانے کی حتی المقدور کوشش کرتے تھے۔ مشاورت اور شہاب الدین کو لازم و ملزوم کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ مشاورت کا جب بھی نام آئے گا سید صاحب کا نام ضرور لیا جائے گا۔ مشاورت کیلئے ان کے اتنے بڑے کارنامے ہیں کہ ان تمام کارناموں کو ایک مضمون کیا ایک کتاب میں بی سمونا مشکل ہے۔ مرشد آباد مغربی بنگال کے فساد زدگان کیلئے ریلیف لے کر کلکتہ آئے تھے۔ حسن الزماں (مسلم لیگ) اور میں سید صاحب کے ساتھ صبح سویرے فساد زدہ علاقے کے دورے پر جانے کیلئے تیار تھے۔ مشاورت کے ذریعہ فساد زدگان کو ریلیف بھی دینا تھا۔ ہم لوگوں نے سید صاحب کو کہاکہ ناشتہ کرکے نکلیں ۔ انھوں نے کہاکہ ناشتہ چھوڑیئے ، چلئے راستے میں کہیں کچھ کھا لیا جائے گا۔ اکثر سفر میں میں نے ان کو دیکھا کہ وہ کھانے اور ناشتہ کا کوئی خیال نہیں کرتے جبکہ دوسرے کھانے اور ناشتہ پر زور دیتے۔ آرام و قیلولہ سے بھی انھیں چڑ تھی۔ کہتے تھے ملت کا کام کرنا ہے تو آرام اور قیلولہ کو خیر باد کہئے۔

مسلم انڈیا: ’’مسلم انڈیا‘‘ ایک ایسے دستاویزی میگزین یا رسالہ کا نام ہے جس کی مثال ہندستان میں مشکل سے ملے گی۔ مسلم انڈیا کو اپنی ذاتی کوششوں سے تقریباً بیس پچیس سال تک انگریزی زبان میں سید صاحب نکالتے رہے۔ اس میں جو مواد شائع ہوتے تھے جب بھی کوئی مسلمانوں کے مسائل پر قلم اٹھاتا تھا تو اسے مسلم انڈیا ہی کا حوالہ دینا معتبر و مستند معلوم ہوتا وہ اسے اردو میں بھی نکالنے کے خواہشمند تھے۔ دو چار مہینے دہلی میں مولانا احمد علی صاحب کے ذریعہ نکلا۔ سید صاحب چاہتے تھے کہ میری ادارت میں کلکتہ سے مسلم انڈیا اردو میں نکلے مگر میں ہمت نہ کرسکا۔ مسلم انڈیا جیسا رسالہ نکالنا اب خواب و خیال ہوگیا۔

 سید صاحب کے ان گنت کارنامے ہیں ۔ اللہ کا شکر ہے مختصراً صحیح Syd Shahabuddin outstanding voice of Muslim India. کے عنوان سے ان پر مسٹر پی اے انعامدار نے ایک کتاب مرتب کی، جس میں 26 بڑے قلمکاروں اور دانشوروں کے مضامین شامل ہیں ۔ کتاب کا اجرا سید صاحب کی زندگی میں نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری کے دست مبارک سے ہوا۔ ضرورت ہے کہ اس کتاب کا اردو ترجمہ شائع ہو۔ اللہ نے اگر توفیق دی تو سید صاحب پر ایک کتاب مرتب کرنے کی کوشش کروں گا۔ سید صاحب کی زندگی میں ہی ارادہ بنالیا تھا۔ ان تک میرے لکھنے کی بات بھی پہنچ گئی تھی مگر گنہگار سے یہ کام ان کی زندگی میں نہ ہوسکا۔ شاید اللہ ان کی زندگی کے بعد مجھ سے یہ کام کرالے۔ سید صاحب کے چاہنے والوں سے دعا کی درخواست ہے۔

 ایسا جری، بے باک، راست باز، صاف گو، سادہ، دور اندیش، صاحب بصیرت سیاستداں مسلمانوں میں کوئی دور دور تک نظر نہیں آتا۔

 قائد ملت سید شہاب الدین ایک تاریخ ساز شخصیت تھے جو تاریخ کی کتابوں سے نکل کر ہمارے پاس آئے پھر تاریخ بناکر ہمیشہ کیلئے تاریخ کی کتابوں میں چلے گئے  ؎

مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں … تب خاک کے پردے سے انسان نکلتا ہے

 وہ ایسے چراغ آخری شب تھے کہ جن کے بعد اندھیرا نہیں ، اجالا ہے۔ بلا شبہ وہ ہمارے درمیان سعادت کی ایسی زندگی گزار ی جو حیات جاوداں کا عنوان بن جاتی ہے۔

 میں اپنے محبوب محسن و مربی، دوست اور بھائی سید شہاب الدین کی تعزیت کرتا ہوں جو جمہوری قدروں ، شائستہ رویوں ، امانت و دیانت کے اصولوں پر یقین رکھتے تھے اور ان پر زندگی کی آخری سانسوں تک عمل پیرا تھے۔ آئیے ان کی مغفرت کیلئے ہم سب مل کر اپنے ہاتھوں کو دعا کیلئے بلند کریں :

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے۔

تبصرے بند ہیں۔