عشرہ ٔذی الحجہ : فضائل وخصوصیات

مفتی محمد صادق حسین قاسمی کریم نگری   

           اسلامی مہینوں میں آخری مہینہ ذو الحجہ کا ہے، اسلام کے سارے ہی مہینے محترم اور قابل عظمت ہیں لیکن اللہ تعالی نے بعض مہینوں کو خاص فضیلت اور عظمت سے نوازا، ان میں سے ایک ذوالحجہ کا مہینہ بھی ہے، جس کا احترام شروع زمانہ سے چلتا آرہاہے، اللہ تعالی نے اس مہینہ میں کچھ عبادتوں کو رکھا ہے جس کی وجہ سے اس کی عظمت میں اور بھی اضافہ ہو گیا۔

ماہِ ذی الحجہ کی اہمیت:

   ماہِ ذی الحجہ کو مختلف عبادات کی وجہ سے خصوصی مقام اور امتیاز حاصل ہے، حج جیسی عظیم عبادت انجام دی جاتی ہے اسی مناسبت سے اس کا نام ذوالحجہ ہے یعنی حج والا مہینہ۔ ذوالحجہ کا مہینہ زمانہ جاہلیت میں بھی محترم و متبرک سمجھا جاتا ہے اوردور ِ جاہلیت میں اس مہینہ کی عظمت کا پورا پورا کیا خیال کیا جاتا۔ قرآن کریم نے جن چار مہینوں کو اشہر حرم قرار دیا ان میں سے ایک ذوالحجہ ہے۔ اشہر حرم کو حرمت والا دو معنی کے اعتبار سے کہاگیا، ایک تو اس لئے کہ ان میں قتل و قتال حرام ہے، دوسرے اس لئے کہ یہ مہینے متبرک اور واجب الاحترام ہیں، ان میں عبادات کا ثواب زیادہ ملتا ہے، ان میں سے پہلا حکم تو شریعت اسلام میں منسوخ ہوگیا، مگر دوسرا حکم احترام و ادب اور ا ن میں عبادت گذاری کا اہتمام اسلام میں باقی ہے۔ ( معارف القرآن :4/372)زمانہ جاہلیت میں چوں کہ اشہر حرم میں جنگ و جدال اور قتل و قتال سے لوگ باز آتے یہاں تک کہ ان کے سامنے سے اگر باپ کا قاتل بھی گذرتا تو وہ ان مہینوں کی تعظیم میں اس کو چھوڑدیتے۔ چناں چہ انہی حرمت والے مہینوں میں سے ذوالحجہ بھی ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے :سَیِّدُ الشُّھُوْرِ شَھْرُ رَ مَضَا نَ وَاَعْظَمُھَا حُرْمَۃً ذُوْالْحِجَّۃِ۔ ( فضائل الاوقات للبیہقی:89)

عشرۂ ذی الحجہ کی فضیلت:

      ذوالحجہ کا پورا مہینہ ہی قابل ِ احترام ہے لیکن اس کے ابتدائی دس تو بہت ہی فضیلت اور عظمت والے ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے اس کی عظمت و اہمیت کو بیان فرمایا اور نبی کریمﷺ نے امت کو عشرہ ٔ ذی الحجہ کی قدردانی سے آگاہ فرمایا۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے :وَالْفَجْرِ  وَلَیَالٍ عَشْرٍ  وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ۔ ( الفجر:1، 2، 3)قسم ہے فجر کے وقت کی، اور دس راتوں کی، اور جفت کی اور طاق کی۔ اس میں اللہ تعالی نے تین چیزوں کی قسم کھائی، پہلی قسم فجر کے وقت کی ہے، بعض مفسرین نے اس آیت میں خاص دس ذو الحجہ کی صبح مراد لی ہے۔ (توضیح القرآن:3/1922)دوسری قسم دس راتوں کی کھائی ہے، بیشتر مفسرین نے ان دس راتوں سے مراد ذوالحجہ کے شروع کے دس دن لئے ہیں۔ نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے :ان العشرۃ عشرۃ الاضحی ، والوتر یوم عرفۃ، والشفع یوم النحر۔ (الدرالمنثور:15/399)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :کہ دس سے مراد ذوالحجہ کا پہلا عشرہ ہے اور طاق سے مراد یوم عرفہ ہے اور جفت سے مراد عید الاضحی کا دن ہے۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے :عَشْرُ الْاَضْحٰی  ھِیَ اَفْضَلُ اَیَّام السَّنَۃِ۔ (الدرالمنثور:15/399)کہ عشرہ ذی الحجہ یہ تما م سال کے دنوں میں سب سے افضل ہے۔ ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے عشرہ ٔ ذی الحجہ کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:کہ کوئی دن ایسا نہیں ہے کہ جس میں نیک عمل اللہ تعالی کے یہاں ان ( ذی الحجہ کے) دس دنوں کے نیک عمل سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہو، صحابہ کرام ؓ نے عر ض کیا کہ اے اللہ کے رسول !کیا یہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے سے بھی بڑھ کر ہے ؟تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے سے بھی بڑھ کر ہے، مگر وہ شخص جو جان اور مال لے کر اللہ کے راستے میں نکلے، پھر ان میں سے کوئی چیز بھی واپس لے کر نہ آئے ( سب اللہ کے راستے میں قربان کردے، اور شہید ہوجائے یہ ان دنوں کے نیک عمل سے بھی بڑھ کر ہے )( ترمذی :حدیث نمبر؛687)ایک اور حدیث میں اسی طرح کا ایک ارشاد ہے :کہ اللہ عزوجل کے نزدیک کوئی عمل زیادہ پاکیزہ اور اجر و ثواب کے اعتبار سے زیادہ عظیم نہیں ہے، اس نیک عمل کے مقابلہ میں جس کو انسان ذی الحجہ کے پہلے عشرہ میں کرتا ہے، عرض کیا گیا کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنا بھی افضل نہیں ہے ؟نبی ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی کے راستے میں جہاد کرنا بھی ( اس سے ) افضل نہیں ہے، سوائے اس آدمی کے کہ جو اپنی جان و مال کے ساتھ نکلا، پھر ان میں سے کوئی چیز بھی لوٹ کر نہیں لایا۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت سعید بن جبیر ؓ ( جو اس حدیث کے راوی ہیں ) جب ذی الحجہ کا پہلا عشرہ داخل ہوجاتا تھا تو انتہائی جد و جہد کرتے تھے یہاں تک کہ بعض اوقات اس کی قدرت بھی نہیں ہوتی تھی۔ ( سنن دارمی :حدیث نمبر؛1727)ایک حدیث میں فرمایا :کہ دنیا کے دنو ں میں سب سے افضل دن ذی الحجہ کے پہلے عشرہ کے دن ہیں۔ ( کشف الاستار:حدیث نمبر؛1050)

عشرہ ٔ ذی الحجہ اور کثرت ِ ذکر:

      عشرہ ٔ ذی الحجہ میں تسبیح و تہلیل اور ذکر کی کثرت کی تلقین بھی نبی کریم ﷺ نے فرمائی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے فرمایا:ویذکر و ااسم اللہ فی ایام معلومات۔ ( الحج:28)اور چند مقررہ دنوں میں اللہ کا نام لیں۔ ان مقررہ دنوں سے بعض حضرات نے ذوالحجہ کا عشرہ مراد لیا ہے۔ (روح المعانی :17/145)نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے :مامن ایام اعظم عند اللہ، ولا احب الیہ من العمل فیھنمن ھذہ الایام العشر، فاکثروا فیھن من التھلیل، والتکبیر، والتحمید۔ ( مسند احمد:حدیث نمبر؛5294)کوئی دن بھی اللہ تعالی کے نزدیک زیادہ عظیم اور پسندیدہ نہیں ہے جن میں کوئی عمل کیاجائے، ذی الحجہ کے ان دس دنوں کے مقابلے میں، تم ان دس دنوں مین تہلیل، تکبیر اور تحمید کی کثرت کیا کرو۔ ایک روایت میں فرمایا :فاکثروا فیھن التسبیح، والتکبیر، و التھلیل۔ ( المعجم الکبیر للطبرانی:10960)کہ تم ان دس دنوں میں تسبیح، تکبیر اور تہلیل کی کثرت کیا کرو۔

خصوصیاتِ عشرہ ٔ ذی الحجہ:

    اللہ تعالی نے عشرہ ٔ ذی الحجہ کو مختلف عبادتوں کے ذریعہ خصوصیت بخشی ہے، اس پورے عشرہ میں اسلام کے اہم ترین اعمال انجام دئیے جاتے ہیں اور عبادتوں کا اہتمام کیا جاتا ہے، عشرہ ٔ ذی الحجہ میں روزے رکھنے کی فضیلت آئی ہے، قربانی دینے والوں کو بال و ناخن کاٹنے سے روکا گیا، تکبیرات ِ تشریق کہنے کا حکم دیا گیا، حج جیسی عظیم عبادت انجام دی جاتی ہے اور قربانی کا اہم ترین عمل بھی اسی میں کیا جاتا ہے اسی دن مسلمانوں کی دوسری بڑی اور اہم عید عید الاضحی منائی جاتی ہے، ان تما م خصوصیا ت کی بناء پر اس عشرہ کی اہمیت اور افضلیت دو چند ہوجاتی ہے، ان اعما ل کو قدرے تفصیل کے ساتھ ملاحظہ کریں۔

بال اور ناخن نہ کاٹنا:

      عشرۂ ذی الحجہ کی آمد ہی ساتھ سب سے پہلا حکم بال اور ناخن کے نہ کاٹنے کا عائدہوتاہے ان لوگوں کے لئے جو قربانی کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے :اذارائیتم ھلال ذی الحجۃ واراد احدکم ان یضحی فلیمسک عن شعرہ واظفارہ۔ ( مسلم:حدیث نمبر3662)کہ جن تم ذوالحجہ کا چاند دیکھ لواور تم میں سے کسی کا قربانی کرنے کا ارادہ ہوتو وہ اپنے بال اور ناخن کاٹنے سے رک جائے۔ یہ حکم مستحب ہے اور ان لوگوں کے لئے جو قربانی دینے والے ہوں، چاند دیکھنے سے لے کر جب تک کہ ان کی طرف سے قربانی نہ ہوجائے اس وقت تک سر کے بالوں اور دیگر بالوں کو نکالنے اور ناخن کاٹنے سے احتیاط کرنا چاہیے، جو لوگ قربانی دینے والے نہیں ہے ان کے لئے یہ حکم نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص قربانی دینے سے پہلے ایسا کرلے تو کوئی گناہ نہیں اور اس سے قربانی میں کوئی خلل نہیں آتا۔ ( ذوالحجہ اور قربانی کے فضائل و احکام:34)

عشرہ ٔ ذی الحجہ کے روزے :

     رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ: تمام دنوں میں کسی دن میں بھی بندے کا عبادت کرنا اللہ کو اتنا محبوب نہیں جتنا ذوالحجہ کے عشرہ میں محبوب ہے۔ اس عشرہ کے ہر دن کا روزہ سال بھرکے روزوں کے برابر ہے اور اس کی ہر رات کی نوافل شب ِ قدر کے نوافل کے برابر ہے۔ ( ترمذی:حدیث نمبر؛688)اسی طرح نوے ذی الحجہ یعنی عرفہ کے دن کے روزے کی خاص فضیلت احادیث میں بیان کی گئی۔ ارشاد ہے :سئل عن صوم عرفۃ ؟فقال ل یکفر السنۃ الماضیۃ والباقیۃ۔ (مسلم:حدیث نمبر؛1984)رسول اللہ ﷺ سے عرفہ ( یعنی نوی ذی الحجہ ) کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا ؟تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ ایک سال گزشتہ اور ایک سال آئندہ ( کے صغیرہ گناہوں ) کا کفارہ کردیتا ہے۔ یوم عرفہ کی دن کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا:کہ کوئی دن ایسا نہیں جس میں اللہ تعالی عرفہ ( نوی ذی الحجہ )کے دن سے زیادہ بندوں کو جہنم سے نجات دیتے ہوں، اور اللہ تعالی (عرفہ کے دن )بندوں کے سب سے قریب ہوتے ہیں، پھر فخر کے طور پر فرشتوں سے فرماتے ہیں کہ یہ بندے کیا چاہتے ہیں ؟۔ ( مسلم:حدیث نمبر؛2410)بہرحال عشرہ ٔ ذی الحجہ میں روزے رکھنے کی خاص فضیلت نبی کریم ﷺ نے بیان فرمائی اور بالخصوص نوی ذی الحجہ یعنی عر فہ کے دن کا روزہ رکھنا بہت ہی موجب اجر و ثواب ہوگا۔ عشرہ ٔ ذی الحجہ میں روزے نو ذی الحجہ ہی تک رکھے جاسکتے ہیں باقی دس کو عید ہوتی ہے جس میں روزہ رکھنا جائز نہیں، اسی طرح عید الاضحی کے بعد 11، 12، 13 ذی الحجہ جو ایام ِ تشریق کہلاتے ہیں اس میں بھی روزہ رکھنا جائز نہیں ہے۔ سال میں کل پانچ دن ایسے ہیں جس میں روزہ رکھنے سے منع کیا گیا۔ 1۔ عید الفطر۔ 2۔ عید الاضحی۔ 3۔ تین دن ایام تشریق کے ( یعنی گیارہ، بارہ، تیرہ)( سنن الدار قطنی:حدیث نمبر2121)

تکبیر ِ تشریق:

     عشرہ ٔ ذی الحجہ میں تکبیر وتہلیل اور تسبیح کے ورد رکھنے کی تلقین فرمائی گئی، اور بطور ِ خاص ایام ِ تشریق میں تکبیرا تِ تشریق کے پڑھنے کا حکم دیا گیا۔ تکبیر ِ تشریق نوی ذی الحجہ کی فجر سے تیر ہویں ذی الحجہ کی عصر تک ہر نماز کے بعد ایک مرتبہ بلند آواز سے پڑھنا واجب ہے، باجماعت نماز پڑھنے والے اور تنہا نماز پڑھنے والے اس میں برابر ہیں، اسی طرح مرد و عورت دونوں پر واجب ہے، البتہ عورت بلند آواز سے نہ کہے، تکبیر تشریق صرف ایک دفعہ پڑھنا احادیث سے ثابت ہے، اس لئے صرف ایک مرتبہ پڑھنا چاہیے، علامہ شامی نے ایک سے زائد پڑھنے کو خلاف ِ سنت قرار دیا۔ ( جواہر ِ شریعت :1/274)تکبیرات تشریق یہ ہیں :اللہ اکبر  اللہ اکبر  لاالہ الا اللہ  و اللہ اکبر  اللہ اکبر  وللہ الحمد۔ ٭جس شخص کی اما م کے ساتھ رکعتیں رہ گئیں ہوں اسے اپنی باقی ماندہ نما ز کو پوری کرکے سلام پھیر نے کے بعد تکبیر ِ تشریق پڑھنی چا ہیے۔ ٭فرض نماز کا سلام پھیرنے کے فوری بعد یہ تکبیر پڑھنی چاہیے۔ ٭اگر امام یہ تکبیر کہنا بھول جائے تو مقتدیوں کو چاہیے کہ خود تکبیر کہہ دیں امام کے تکبیر کہنے کا انتظار نہ کریں۔ ٭تکبیر ِ تشریق صرف فرض نماز کے بعد پڑھنے کا حکم ہے، سنت اور نفل کے بعد نہیں۔ ٭احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ عید الاضحی کی نماز  کے بعد بھی تکبیر ِ تشریق پڑھیں۔ ( ذوالحجہ اور قربانی کے فضائل واحکام:60)

قربانی :

       عشرہ ٔ ذی الحجہ کی  دس تاریخ کو عید منائی جاتی ہے، عید الاضحی کا دن مسلمانوں کے لئے بہت ہی تاریخی اور عظمت کا حامل دن ہے، یہ دن صرف عید کی خوشی میں مست ہوجانے والا دن نہیں بلکہ ایک عظیم پیغام اور سبق دینا والا دن ہے، مسلمان عید الاضحی کے دن جانور کی قربانی کرتے ہیں، اور صاحب حیثیت اور مالک ِ نصاب افراد اپنی جانب سے قربانی انجام دیتے ہیں۔ اضحی قربانی کو کہتے ہیں، کیوں کہ بقر عید کے روز جانور وں کی قربانی دی جاتی ہے اس لئے اس کو عید الاضحی کہا جاتا ہے۔ قربانی دراصل حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی یاد گار ہے، باپ نے خدا کا حکم پاکر اپنے اکلوتے بیٹے کو راہ خدا میں قربان کا کرنے کا فیصلہ کرلیا اور اپنی پوری کوشش بھی کردی، اور بیٹا بھی باپ کے حکم اور فیصلہ کے آگے سر جھکا دیا اور بے چو ں و چرا اپنے آپ کو قربان ہونے کے لئے پیش کردیا۔ اللہ تعالی کو باپ بیٹے کی یہ نرالی اطاعت اور فرماں بردای پسند آئی اور قیامت تک آنے والے ایمان والوں کو حکم دیا کہ وہ اس اطاعت کا عملی نمونہ جانور کی جانور کی قربانی دے کر پیش کریں۔ صحابہ نے نبی کریم ﷺ نے پوچھا تھا کہ یہ قربانی کیاہے ؟آپ ﷺ نے فرمایا:ھی سنۃ ابیکم ابراھیم۔ ( ابن ماجہ :حدیث نمبر؛3126)کہ یہ  تمہارے جد امجد حضرت ابراہیم کی یادگارہے۔ جن کو اللہ نے وسعت اور گنجائش دی اور وہ صاحب ِ نصاب ہیں تو ان کو اپنی جانب سے قربانی دینا ضروری ہے، نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے :من کا ن لہ سعۃ، ولم یضح فلا یقربن مصلانا۔ ( ابن ماجہ:حدیث نمبر؛3122)کہ جو آدمی وسعت کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گا ہ کو نہ آئے۔ اور ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :کہ عید والے دن قربانی کے عمل سے زیادہ کوئی عمل اللہ کے نزدیک محبوب نہیں اوراس جانور کو قیامت کے دن سینگوں، کھروں، اور بالوں کے ساتھ لایا جائے گا( یعنی تولہ جائے گا)اور اللہ اس کے خون کا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے پہلے قربانی قبول فرمالیتے ہیں، لہذا خوش دلی سے قربانی دیا کرو۔ (ترمذی:حدیث نمبر؛1409)

عید الاضحی کی رات:

    مسلمانوں کی دوسری بڑی عید  عید الاضحی بھی اسی عشرہ کی دس تاریخ کو ہوتی ہے، بہت ہی اہتما م اور جوش وخروش کے ساتھ مسلمان عید مناتے ہیں، عید کا دن جہاں خوشی ومسر ت کا دن ہوتا ہے وہیں عید کی رات انعام و الطاف کی رات ہوتی ہے اور اللہ تعالی کی خصوصی رحمت اور نوازش عید کی رات میں ہوتی ہے چاہے وہ عید الفطر کی رات ہو یا عید الاضحی کی رات دونوں نہایت ہی اہمیت والی راتیں ہوتی ہیں اور انسانون کے لئے سعادت کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : کہ جس شخص نے عید یدن کی راتوں میں اللہ کی رضا اور ثواب کے حصول کی خاطر قیام کیا تو اس کا د ل اس دن مردہ نہیں ہوگا جس دن لوگوں کے دل مردہ ہوجائیں گے۔ ( ابن ماجہ:حدیث نمبر؛1772)لہذا عید الاضحی کی رات بھی نیکیوں کے کمانے اور اجر و ثواب کو حاصل کرنے کی رات ہے اس کا بھی اہتمام کرنا چاہیے۔

آخری بات:

     عشرہ ذی الحجہ بڑی ہی اہمیت اور عظمت والا عشرہ  ہے، اس کی خصوصیت اور فضیلت احادیث میں بکثرت آئی ہیں، اور اسلام کے اہم ترین عبادات اس میں انجام دئیے جاتے ہیں، اس کی تعظیم اور احترام کرنا چاہیے اور عبادات وغیرہ کا اہتمام کرنا چاہیے، بالخصو ص معاصی اور گناہوں کے کاموں اور نافرمانی والے اعمال سے بچنا ضروری ہے، کیوں کہ جب اللہ تعالی نے ان دنوں کی عظمت کو بڑھا دیا اور اس میں عبادت انجام دینے پر اجر وثواب میں زیادتی ہوگی، اسی طرح اس دنوں کو بے حرمتی کرتے ہوئے گناہوں کا ارتکاب کرنے پر سز ااور عتاب میں بھی اضافہ ہوجائے گا۔ (روح المعانی :10/92)اس لئے اس دنوں کا بطور ِ خاص اہتما م کرنا چاہیے۔

تبصرے بند ہیں۔