عشق میں ایک سزا جیسی اب حالت ہے

افتخار راغبؔ

عشق میں ایک سزا جیسی اب حالت ہے

آنکھوں کی دریا جیسی اب حالت ہے

اپنے اور پرائے کی مت بات کرو

بادل اور ہوا جیسی اب حالت ہے

پل میں ٹوٹتا پل میں جڑتا رہتا ہوں

اُس کے عہدِ وفا جیسی اب حالت ہے

بوند بوند کو ترس رہا ہے پیاسا دل

فرقت میں صحرا جیسی اب حالت ہے

عشق ہے کیا کیسے سمجھوں ؟ کیا سمجھاﺅں ؟

ہردم اک نشّہ جیسی اب حالت ہے

بھول رہا ہوں کس کو راغبؔ مت پوچھو

آتش زیرِ پا جیسی اب حالت ہے

تبصرے بند ہیں۔