تعلیمِ نسواں

محمد سعد
مکرمی!
مرد اور عورت زندگی کی گاڑی کے دو پہیئے ہیں ۔ گاڑی اپنی پوری رفتار سے جب چلتی ہے جب باقاعدگی سے دونوں پہیئے اپنا کام انجام دیں ۔ اس لیے ضروری ہے دونوں پہیئے صحیح و سالم ہوں ۔ انسان تعلیم کے بغیر مکمل انسان نہیں ہو سکتا ۔ علم زندگی کو حسن اور نکھار بخشا ہے اور یہ انسان کا زیور ہے ۔ حدیث میں نبیﷺ نے اس کی اہمیت پر ان الفاظ میں زور دیا ہے ” علم حاصل کرو خواہ اس کے لیے چین جانا پڑے “ اور اس میں مرد عورت کا کوئی فرق نہیں ہے ۔ عورت کو اللہ تعالی نے مرد کا لبا س کہا ہے بلکہ بہتر بنایا ہے ۔ اس کے جسم کا ایک حصہ کہا اور دونوں کو ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم قرار دیا۔ سب جانتے ہیں کہ لباس بدن کی زینت بھی ہے اور پردہ پوشی بھی۔ اگر یہ لباس بوسیدہ اور غلیظ ہوگا تو انسان خود بھی احساس کمتری درمانگی اور شکستگی کا شکار ہو جائے گا۔

معاشرہ میں باوقار سر اٹھاکر نہیں چل سکے گا اسی طرح جسم کا کوئی عضو ناکارہ ہوجائے توآدمی ادھورا اور بیکار ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے معاشی اور سماجی فرائض کو خوش اسلوبی سے ادا نہیں کر سکتا ۔ اگر عورت تعلیم سے بے بہرہ ہے تو کبھی بھی مرد سے قدم ملا کر نہیں چل سکتی نہ ہی رفاقت کے صحیح مفہوم کو سمجھ کر اس کے تقاضوں کو پورا کر سکتی ہے۔ بچے کی پہلی درسگاہ ماں کی آغوش میں ہوتی ہے ۔ اگر ماں اَن پڑھ ہے تو صحیح طریقہ سے اپنے بچوں کی نہ تو تربیت کر سکتی ہے نہ اُن کی تعلیمی مشکلات اور مسائل کو سمجھ سکتی اور نہ ہی ان کو کوئی مدد دے سکتی ہے۔

تعلیمِ نسواں کے مخالفین میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی رہی ہے جوتعلیمِ نسواں کے مفہوم کو ہی نہیں سمجھے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا کام گھر سنبھالنا اور بچے پالنا ہے اس کے لیے اسکول کالجوں میں پڑھ کر بیاے، ایماے ہونے کی کیا ضرورت ہے لیکن وہ نہیں جانتے کہ خانہ داری کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں ۔ہر عورت کے لیے جاننا ضروری ہے کہ بچوں کی تربیت کے بھی کچھ طریقے اور قاعدے ہوتے ہیں اور یہ جاننے کے لیے تعلیم کی واقفیت ضروری ہے۔ عورتوں کے لیے بھی تعلیم اتنی ضروری ہے جس قدر مردوں کے لیے کہ مرد اگر روزی روٹی کمانے کے لیے تعلیم حاصل کرتا ہے تو عورت اس تعلیم کو بروئے کار لاکر مرد کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ خوش گوار طریقے سے زندگی گزار سکیں ۔تعلیمِ نسواں کا مطلب ایسی تعلیم ہے جس میںدین و مذہب اخلاق اور اصلاح کی تعلیم ہو ۔ امورِ خانہ داری کی تربیت ہو ۔

بچوں کی تربیت کے ضابطے اور طریقے ہوں اور اسکے ساتھ ہی وہ اپنے وقت اپنے دور کے تقاضوں کا بھی پورا کرتی ہو۔ اس کیلے ضروری نہیں کہ وہ مخلوط اداروں میں تعلیم حاصل کرے یا وہی مضامین اپنائے جو مردوں کے لیے ضروری ہیں۔ چونکہ رب العالمین نے دونوں کے میدان الگ الگ مقر ر فرمائے ہیں ۔ لہذا نصابِ تعلیم ایسا ہونا چاہیئے جو اسکی فطری ، سماجی ، معاشی اور اخلاقی ضرورتوں کو پورا کرے اور اس کو ایک آ ئیڈیل عورت بنا سکے۔

ہمارے یہاں جو تعلیمی نصاب رِواج میں ہے اس پر مغربیت غالب ہے جو عورت میں خود اعتمادی تو پیدا کرتی ہے مگر ساتھ ساتھ بے حیائی بھی سکھاتی ہے ۔ گمراہ بھی کرتی ہے ۔ اس کی تقلید سے بچتے ہوئے اپنی مشرقی اور مذہبی قدروں کو بنیاد بناتے ہوئے تعلیم کوحاصل کیا جائے تاکہ عورت اپنے صحیح مقام سے گرنے نہ پائے۔

تبصرے بند ہیں۔