عصرحاضرمیں تلاش امن

موجودہ دورمیں امن کا لفظ ہر شخص کی زبان پر ہے۔ ہرایک چاہتاہے کہ اس کی زندگی امن وسکون سے گزرے اورمکروہات زمانہ کی اسے ہوابھی نہ لگے۔ اپنے اردگردکے ماحول کے بارے میں بھی اس کی خواہش رہتی ہے کہ وہ پرامن رہے،تاکہ اس کی سرگرمیاں جاری رہ سکیں، وہ حسبِ مرضیمعاشی جدوجہد کرتارہے اورترقی اورکامیابی اس کے قدم چومے۔ ہرملک اوراس کے مختلف علاقوں میں رہنے والے باشندے بھی چاہتے ہیں کہ امن وامان کی فضاقائم رہے۔ ممالک کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں بھی امن کا موضوع چھایارہتاہے۔ لیکن حقیقی صورت حال یہ ہے کہ امن کا دوردورتک سراغ نہیں ۔ ہرشخص بے اطمینانی اورپریشانی کے عالم میں ہے۔ جس کوبھی موقع ملتاہے دوسرے کے حقوق پامال کرنے،اس پر ظلم وستم ڈھانے اوردستِ تعدّی درازکرنے سے نہیں ہچکچاتا۔ لوٹ کھسوٹ کا بازارگرم ہے اورکرپشن اپنے عروج پر ہے۔ کوئی بھی مذہبی ،لسانی یاسماجی گروہ دوسرے کوبرداشت کرنے پر تیارنہیں ہے۔ قتل وغارت گری عام ہے۔ خواتین کی عزت وعصمت پر سربازارڈاکہ ڈالاجارہاہے۔ عالمی سطح پر دیکھاجائے تو طاقت ور ممالک کم زورممالک پر اپناحکم چلانے اوردھونس جمانے کا ہرممکن حربہ اختیارکرتے ہیں۔عراق ،افغانستان،لیبیا،مالے اوردیگرممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ غرض امن کا زبردست شہرہ ہونے کے باجودوہ کلیتاً مفقودہے اوراس کے اثرات کہیں بھی مشاہدہ میں نہیں آرہے ہیں۔ہرجگہ فتنہ وفسادکادوردورہ ہے اورقرآن کا بیان صادق آرہاہے:
ظَہَرَ الْفَسَادُ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیْ النَّاس(الروم:41)
’’خشکی اورتری میں فسادبرپاہوگیاہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے‘‘
قیام امن کی ناکام کوششیں
امن کی جتنی زیادہ خواہش پائی جاتی ہے، اتناہی وہ دورہے۔ مختلف ممالک کے سربراہان باہم ملتے ہیں توامن کے موضوع پر چرچاکرتے ہیں۔’امن کی آشا‘کے ساتھ ثقافتی وفودایک ملک سے دوسرے ملک دورے پر جاتے ہیں۔امن کو یقینی بنانے کے لیے عالمی سطح پر مختلف ادارے قائم ہیں۔ ان کے تحت آئے دن مختلف ممالک میں کنونشن منعقدہوتے اور ریزولوشن منظورکیے جاتے ہیں۔قیام امن کے لیے ہرملک اپنے یہاں سیکورٹی ایجنسیاں قائم کرتاہے۔ لیکن اس کے باوجودامن کا حصول دشوار،بلکہ ناممکن نظرآتاہے۔ مقامی سطح سے لے کرعالمی سطح تک بدامنی،انتشار اورفتنہ وفسادمیں برابراضافہ ہورہاہے۔ تمام احتیاطی اورمعالجاتی تدابیراختیارکرنے کے باوجودمرض میں شدت آتی جارہی ہے ؂ 

مرض بڑھتاگیاجوں جوں دواکی
تمام مفکرین اورسماجی مصلحین پریشان ہیں۔ انھیں فتنہ وفسادکے ازالہ کے لیے کوئی راہ نہیں سجھائی دے رہی ہے اورقیام امن کے لیے کوئی کارگرنسخہ ان کے ہاتھ نہیں لگ رہاہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کی تمام کوششیں سطحی ہیں۔ وہ نہ مرض کے اصل اسباب کوجاننے کی کوئی سعی کرتے ہیں اورنہ بدامنی اورفسادکوجڑسے ختم کرنے کی تدابیراختیارکرتے ہیں۔
حقیقی امن اسلام ہی کے ذریعے برپاہوسکتاہے
اسلام زندگی گزارنے کاایک طریقہ پیش کرتاہے اوراس راہ میں پیش آنے والے مسائل کوبخوبی حل کرتاہے۔آج سے ساڑھے چودہ سوسال پہلے دنیامیں اسی طرح بدامنی عام تھی ،جیسی آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ انسان برائیوں میں غرق تھا۔ بھلے برے کی تمیز اٹھ چکی تھی۔ ظلم وستم ،قتل وخون،لوٹ مارعام تھی،قبیلوں اورملکوں کے درمیان ہونے والی جنگوں میں بے شمارانسان مارے جارہے تھے۔ اس زمانے میں خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم انسانیت کے نجات دہندہ بن کرتشریف لائے۔ آپؐ نے اللہ کے بندوں تک اس کا پیغام پہنچایا۔ آپ کی تعلیمات سے انسانوں کے ضمیرپاکیزہ ہوگئے، ان کی معاشرتی زندگی میں سدھارآگیا، عداوتیں محبتوں میں بدل گئیں اورایک دوسرے کے خون کے پیاسے بھائی بھائی بن گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس احسان کویاددلاتے ہوئے فرمایاہے:
وَاذْکُرُواْ نِعْمَتَ اللّہِ عَلَیْکُمْ إِذْ کُنتُمْ أَعْدَاءً ا فَأَلَّفَ بَیْْنَ قُلُوبِکُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِہِ إِخْوَاناً وَکُنتُمْ عَلَیَ شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَکُم مِّنْہَا کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللّہُ لَکُمْ آیٰتِہِ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُونَ(آل عمران:103)
’’اوراللہ کے ان احسانات کو یادکروکہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیداکردی اورتم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے۔ ‘‘
اسلام کی ان تعلیمات پر عمل کیاجائے توکوئی وجہ نہیں کہ آج بھی ان کے وہ اثرات ظاہر نہ ہوں،جواس سے پہلے ظاہر ہوچکے ہیں۔
اسلام کی تعلیمات برائے امن
اسلام نے امن کا ایک جامع تصورپیش کیاہے۔ وہ ہرفردکے ضمیرکومخاطب کرتاہے اوراس میں مخصوص عقائدو تصورات ، اقداراوراخلاقیات کو راسخ کرتاہے۔ اسی طرح وہ خاندان سے بھی خطاب کرتاہے اوراس کے امن واستحکام کے لیے مخصوص ہدایات دیتاہے۔ اس کی توجہ سماج کے سدھارپر بھی مرکوزرہتی ہے اوروہ اس کی پاکیزگی کوقائم رکھنے اوراسے برائیوں سے محفوظ کرنے کے لیے بھرپورجدوجہدکرتاہے۔ آخرمیں وہ ایسی تعلیمات پیش کرتاہے ،جنھیں عالمی سطح پر قیام امن کے لیے رہ نما بنایاجاسکتاہے۔
سطورذیل میں اسلام کی انہی تعلیمات کی مختصرتشریح پیش کی جارہی ہے:
انفرادی زندگی میں امن
اس دنیامیں ہرفرداگرذہنی طوپرپرسکون رہے تواس کا اثرسماج پربھی پڑے گا۔یہ سکون حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اس دنیامیں اپنے مقام ومرتبہ کوپہچانے اوراللہ تعالی سے اس کا صحیح تعلق استوارہو۔اسلام کے بنیادی عقائد اسے یہ سکون فراہم کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوتے ہیں۔ اسلام کہتاہے کہ انسان کا وجوداس دنیامیں بے مقصدنہیں ہے، بلکہ وہ خدائی اسکیم کے تحت یہاں بھیجاگیاہے۔ وہ امتحان کی حالت میں ہے۔ کچھ لوگوں کا امتحان اللہ تعالی نے مال ودولت دے کرلیاہے اورکچھ لوگوں کواس سے محروم کرکے۔ یہ عقیدہ اس میں صبروشکرکے اوصاف پیداکرتاہے۔اسلام کہتاہے کہ اس دنیا میں انسان جوبھی عمل کرے گا اس کا مرنے کے بعد کی زندگی میں بدلہ پائے گا۔ اگریہاں وہ اچھے کام کرے گا تو آخرت میں اللہ تعالی کے انعامات سے بہرہ ورہوگا اوراگریہاں برے کام کرے گا تووہاں اسے ان کی دردناک سزابھگتنی ہوگی۔ یہ عقیدہ اس کوپاکیزہ زندگی گزارنے کی طرف مائل کرتااوربرائیوں میں مبتلاہونے سے روکتا ہے۔ اسلام کہتاہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ وہ اس کے ہرعمل کودیکھ رہاہے۔ یہ عقیدہ اسے تنہائی میں بھی کوئی غلط کام کرنے سے روکتاہے۔ اسلام اچھے اخلاق: تقوی،اخلاص،صداقت شعاری ،صبرو توکل،شرم وحیا،ایفائے عہد،امانت داری ،خوش گفتاری،تواضع ،نرمی ورحم دلی اورخیرخواہی وغیرہ کے فضائل بیان کرتاہے اورانھیں اختیارکرنے کی تلقین کرتاہے اوربرے اخلاق:کبروغرور،بغض وعناد،حسد،غصہ، ریاکاری، جھوٹ ،خیانت ،بدکاری، شراب نوشی اوربدعہدی وغیرہ کی مذمت کرتاہے اوران سے دوررہنے کی تاکیدکرتاہے۔ اسلام کے ان عقائدوتصورات اورتعلیمات کا انسان کی انفرادی زندگی پر گہرااثرپڑتاہے اور وہ ذہنی سکون واطمینان سے بہرہ ورہوتاہے۔
عائلی امن
تمدن کی تشکیل میں مردوعورت بنیادی کرداراداکرتے ہیں۔ دونوں کے ذمے فطرت نے الگ الگ کام سونپے ہیں اوران کے مطابق انھیں مخصوص صلاحیتوں سے نوازاہے۔ نسل انسانی کے تسلسل کے لیے ان کے درمیان صنفی کشش رکھی گئی ہے اوراسے مضبوط کرنے کے لیے نکاح کومشروع کیاگیاہے اورماورائے نکاح جنسی تعلق کوحرام قراردیاگیاہے۔ جب بھی اس معاملے میں بے اعتدال کی راہ اختیارکی گئی، انسانی سماج فتنہ وفسادسے بھرگیاہے۔ آج اس کے مظاہرہم اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ جنسی خواہش کی تسکین کے لیے ہرطریقہ آزمایاجارہاہے، خواہ وہ کتناہی غیرفطری کیوں نہ ہو۔ ہم جنس پرستی کوقانونی سرپرستی فراہم کی جارہی ہے، زناوبدکاری عام ہے،عصمت وعفت کے کوئی معنی نہیں رہ گئے ہیں۔خاندان کے دائرے میں شوہراوربیوی کوایک دوسرے کا رفیق اورہم دم ودم سازہونا تھا،لیکن انھیں فریق اورحریف بنادیاگیاہے۔ چنانچہ دونوں ایک دوسرے کے حقوق سے بے پرواہوکرآزادانہ زندگی گزار رہے ہیں۔ فطرت سے بغاوت کی سزاآتشک،سوزاک اوردیگرجنسی امراض کی شکل میں ملی اورآخرمیں ایڈزخدائی قہربن کرٹوٹ پڑا،جس نے کروڑوں انسانوں کا سکون غارت کردیاہے۔عورتوں کو غیر محدود آزادی مل جانے کی وجہ سے خاندان بھی امن وسکون فراہم سے قاصرہے،چنانچہ اس کا شیرازہ منتشرہورہاہے، طلاق کے واقعات کثرت سے پیش آرہے ہیں اورسنگل پیرنٹس کلچرفروغ پارہاہے۔ 
اسلام نے خاندان کے دائرے میں بھی امن وسکون کی ضمانت دی ہے۔اس نے مرداورعورت دونوں کے حدوداوردائرہ کارمتعین کیے ہیں۔ اس نے مردکوخاندان کا نگراں اورمحافظ بنایاہے اورعورت کوگھراوربچوں کی نگرانی کی ذمہ داری سونپی ہے۔ اس نے شوہراوربیوی دونوں کے حقوق اورفرائض متعین کردیے ہیں اوران کی پاس داری کی تاکیدکی ہے۔ اس نے دونوں کوایک دوسرے کے لیے باعث سکون قراردیاہے۔ اسلام نکاح سے ماورا کسی طرح کا جنسی تعلق قائم کرنے سے سختی سے منع کرتاہے، خواہ وہ علانیہ ہویاخفیہ ۔زنا چاہے بالجبرہویا بالرضاوہ دونوں کوسنگین جرم قراردیتاہے اوران کی دردناک سزاتجویز کرتاہے۔ اسلام کی یہ تعلیمات خاندان کو استحکام بخشتی ہیں اوراس کے زیرسایہ یہ تمام افرادامن وسکون کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں۔
سماجی امن 
خاندان کے دائرے سے آگے بڑھ کر اسلام پورے سماج کو اپنا میدان عمل بناتاہے اورایسی تعلیمات دیتاہے جن کے ذریعے سماج میں رہنے والے تمام افرادکے حقوق متعین ہوں، ان کے درمیان بھائی چارہ کوفروغ ملے، وہ ایک دوسرے کے ساتھ ہم دردی ،رحم دلی اورمرحمت ومواسات کا برتاؤکریں اورایسے کاموں سے اجتناب کریں جن سے دوسروں کوتکلیف پہنچے ،انھیں نقصان ہو یا وہ بدظن ہوں۔ اس تعلق سے وہ اخلاق فاضلہ کو اختیارکرنے کی ترغیب دیتا اوراخلاق رذیلہ سے بچنے کی تاکیدکرتاہے۔ قرآن وحدیث میں اس موضوع میں بہت موادہے، جس کا ایک مختصرمضمون میں احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ بطومثال چندآیات اوراحادیث پیش کی جاتی ہیں:
’’لوگوں سے بھلی بات کہو‘‘ (البقرۃ:83)
’’نیکی اورخداترسی کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرو اورگناہ اورزیادہ کے کاموں میں کسی سے تعاون نہ کرو‘‘ ((المائدۃ:2)
’’اگرتم عفوودرگزرسے کام لواورمعاف کردوتواللہ تعالی غفورورحیم ہے۔‘‘(التغابن:14)
’’ (اہلِ ایمان)بڑے بڑے گناہوں اوربے حیائی کے کاموں سے پرہیزکرتے ہیں اوراگرغصہ آجائے تو درگزر کرجاتے ہیں۔ (الشوریٰ:37)
’’رحمن کے بندے تووہ ہیں جوزمین پر نرم چال چلتے ہیں اورجاہل ان کے منہ آئیں توکہہ دیتے ہیں: تم کو سلام‘‘ (الفرقان:37)
’’اے لوگوجوایمان لائے ہو،نہ مرددوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتاہے کہ وہ ان سے بہترہوں،اورنہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتاہے کہ وہ ان سے بہترہوں۔آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرواورنہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو۔۔۔اے لوگوجوایمان لائے ہو،بہت گمان کرنے سے پرہیزکروکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ تجسس نہ کرواورتم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے‘‘(الحجرات:11۔12)
’’زمین والوں پر رحم کرو،آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔‘‘ (ابوداؤد،ترمذی)
ایک دوسرے سے نہ بغض وعداوت رکھو،نہ حسدکرو،نہ قطع تعلق کرو اوراے اللہ کے بندوآپس میں بھائی بھائی بن کررہو‘‘(بخاری ،مسلم)
اسلام نے سماج سدھارکے لیے اس طرح کی جوبیش قیمت تعلیمات دی ہیں، اگران پرپوری ایمان داری اوراخلاص سے عمل کیاجائے تو فتنہ وفسادکا بالکلیہ خاتمہ ہوجائے گا اورامن وامان کی معطرہوائیں چلنے لگیں گی۔
مساوات اورعدل۔ امن کی بنیادیں
سماج میں بدامنی ،انتشاراورفتنہ وفسادعام ہونے کے نمایاں اسباب یہ ہیں کہ افرادکی تقسیم اونچ نیچ کی بنیادپرکیجاتی ہے۔ کچھ انسانوں کوافضل اوربرتراورکچھ کوارذل اورکم ترسمجھاجانے لگتاہے۔ اونچے درجے کے لوگ وسائل واسباب پر قابض ہوجاتے ہیں اورکم تردرجے کے لوگ ان سے محروم رہتے ہیں۔ یہ نابرابری دلوں میں بغض ونفرت پیداکرتی ہے۔ اسلام نے اس کے حل کے لیے مساوات اورعدل کے عنوان سے دوزریں اصول پیش کیے ہیں۔
اسلام کی نظرمیں تمام انسان برابرہیں، کیوں کہ سب ایک ماں باپ سے پیداہوئے ہیں۔ان کے درمیان فضیلت کی بنیادصرف تقویٰ ہے۔
’’لوگو،ہم نے تم کوایک مرداورایک عورت سے پیداکیااور پھرتمہاری قومیں اوربرادریاں بنادیں،تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندرسب سے زیادہ پرہیزگارہے‘‘ (الحجرات:13)
اللہ کے رسول ﷺ نے لوگوں کے درمیان خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
’’نہ کسی عربی کو کسی عجمی پر ،نہ کسی عجمی کوکسی عربی پر،اسی طرح نہ کسی گورے کو کسی کالے پر،نہ کسی کالے کوکسی گورے پر ،کوئی فضیلت حاصل ہے۔ فضیلت کا دارومدارصرف تقوی پر ہے۔‘‘(مسند احمد)
اسی طرح اسلام نے زوردے کریہ بات کہی ہے کہ قانون کی نظرمیں تمام انسان برابرہیں۔سب کے ساتھ عدل وانصاف کا معاملہ کیا جائے گا۔ نہ کوئی طاقت ور اپنی طاقت کے زورپر کم زورکوستاسکتاہے اورنہ کوئی کم زوراپنے کم زورہونے کی وجہ سے اپنے حق سے محروم ہوسکتاہے:
’’اے لوگوجوایمان لائے ہو،اللہ کی خاطرراستی پر قائم رہنے والے اورانصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کواتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھرجاؤ۔عدل کرو، یہ خداترسی سے زیادہ مناسبت رکھتاہے‘‘(المائدۃ:8)
’’اورجب بات کہوانصاف کی کہو،خواہ معاملہ اپنے رشتے دارہی کا کیوں نہ ہو‘‘ (الانعام:152)
’’روزقیامت لوگوں میں اللہ کوسب سے زیادہ محبوب اوراس سے سب سے زیادہ قریب عدل پرورحکم راں ہوگا اورروزقیامت اللہ کے نزدیک سب سے ناپسند یدہ اوراس سے سب سے زیادہ دورظالم حکم راں ہوگا‘‘(ترمذی)
بنیادی حقوق کی ضمانت 
اسلام نے تمام انسانوں کے لیے بنیادی حقوق کی ضمانت دی ہے۔ کسی شخص کو ،خواہ وہ کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو، کیسی بھی سماجی حیثیت کا مالک ہو، کہیں کا بھی رہنے والا ہو ،ان حقوق سے مرحوم نہیں کیاجاسکتا۔سب سے بنیادی حق زندگی کا ہے۔ کسی شخص کی ناحق جان نہیں لی جاسکتی اوراسے زندہ رہنے کے حق سے محروم نہیں کیاجاسکتاہے۔ اسلام کی نظرمیں ایک شخص کوقتل کرنا پوری انسانیت کوقتل کرنے کے مترادف ہے:
’’جس نے کسی انسان کوخون کے بدلے یازمین میں فسادپھیلانے کے سواکسی اوروجہ سے قتل کیا اس نے گویاتمام انسانوں کوقتل کردیا اورجس نے کسی کوزندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کوزندگی بخش دی‘‘(المائدۃ:32)
کسی شخص کوکسی کی عزت وآبروسے کھیلنے کی چھوٹ نہیں دی جاسکتی ۔ اگروہ کسی پر بے جاتہمت لگاتاہے تواسے اس کی سزا(اسّی کوڑے) مل کر رہے گی اوراگرکوئی کسی سے بدکاری کرتاہے تواس کی سزا(سوکوڑے یارجم ) سے وہ بچ نہیں سکتا۔اسی طرح ہرشخص کا مال محترم ہے۔ کسی کواسے چوری کرلینے یا زبردستی ہتھیالینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اگروہ ایسا کرتا ہے تواس کے ہاتھ کا ٹ دیے جائیں گے۔(المائدۃ:38)
اسی طرح اوربھی بنیادی حقوق ہیں۔ اسلام ان کی ضمانت فراہم کرتاہے اوران پر دستِ تعدّی درازکرنے والوں کے لے سخت سزائیں متعین کرتاہے۔
معاشی توازن
سماج کی بہت سی برائیاں معاشی میدان میں بے اعتدالی اورعدم توازن کے نتیجے میں جنم لیتی ہیں۔ مال ودولت کی ہوس کی وجہ سے لوگ جائزاورناجائزکی پرواکیے بغیرمال جمع کرنے کی فکرمیں لگ جاتے ہیں۔رشوت ستانی کا بازارگرم ہوتاہے۔ سودخوری عام ہوتی ہے۔ اس طرح کرپشن کوبڑھاواملتاہے اورپوراسماج بدامنی کی لپیٹ میں آجاتاہے۔ اسلام نے کسب معاش کے میدان میں جوتعلیمات دی ہیں وہ لوٹ کھسوٹ، بے ایمانی اورکرپشن پر روک لگاتی اورامن وامان کوفروغ دیتی ہیں:
’’اے لوگوجوایمان لائے ہو،آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھاؤ،لین دین ہوناچاہیے آپس کی رضامندی سے‘‘ (النساء:29)
’’اورمالِ یتیم کے قریب نہ جاؤ،مگرایسے طریقے سے جوبہترین ہو،یہاں تک کہ وہ اپنے سن رشدکوپہنچ جائے اورناپ تول میں پورا انصاف کرو‘‘ (الانعام:152)
’’تباہی ہے ڈنڈی مارنے والوں کے لیے،جن کا حال یہ ہے کہ جب لوگوں سے لیتے ہیں توپوراپورالیتے ہیں اورجب ان کوناپ کریاتول دیتے ہیں توانھیں گھاٹادیتے ہیں‘‘(المطففین :1۔3)
’’جولوگ سونااورچاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اورانھیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ، انھیں دردناک سزاکی خوش خبری دے دو‘‘ (التوبۃ:34)
’’جو شخص ذخیرہ اندوزی کرے وہ گنہ گار ہے‘‘(مسلم)
عالمی امن
اسلام عالمی امن کی بھی ضمانت فراہم کرتاہے۔ اس کے نزدیک مذہبی جبرکی کسی بھی حال میں اجازت نہیں۔ ہرشخص کوآزادی ملنی چاہیے کہ وہ جوعقیدہ چاہے رکھے اورجس مذہب کوچاہے مانے۔ اس نے صاف الفاظ میں اعلان کیاہے:
’’دین کے معاملے میں کوئی زورزبردستی نہیں،صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کررکھ دی گئی ہے‘‘(البقرۃ:256)
ہرزمانے میں طاقت ورلوگ کم زوروں پر اپنی مرضی تھوپتے ہیں۔ زمانۂ نزول قرآن میں بھی جولوگ اللہ پر ایمان لانا اوراس کے حکموں کے مطابق زندگی گزارناچاہتے تھے انھیں سربرآوردہ طبقہ کے لوگ اس سے روکتے تھے اوران پر ظلم وستم کرتے تھے۔ قرآن نے حکم دیا کہ ایسے لوگوں سے جنگ کی جائے اورانھیں فتنہ وفسادسے بازرکھا جائے :
’’اوران سے جنگ کرو،یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اوردین پوراپورااللہ کے لیے ہو جائے‘‘(الانفال:39)
اسلام ان لوگوں سے جنگ کی اجازت نہیں دیتاجوآمادۂ جنگ نہ ہوں اورجوظلم وستم کا ارتکاب نہ کریں،بلکہ ان کے ساتھ نیکی اورانصاف کا برتاؤ کرنے کی تلقین کرتاہے:
’’اللہ تمہیں اس بات سے نہیں روکتاکہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اورانصاف کا برتاؤکروجنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اورتمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالاہے۔ اللہ تعالی انصاف کرنے والوں کوپسند کرتاہے ‘‘۔ (الممتحنہ:8)
قیام امن کی سنجیدہ کوشش مطلوب ہے
اسلام کی تعلیمات ،جو اس نے انفرادی ،عائلی ،سماجی اورعالمی میدانوں میں دی ہیں،قیام امن کے لیے کلیدی اہمیت رکھتی ہیں۔ ان پر عمل کرکے ایک بگڑے ہوئے سماج کی، جوفتنہ وفسادکی آماج گاہ بناہواتھا، اصلاح ہوچکی ہے اوروہ امن وسکون کا گہوارہ ثابت ہوا ہے۔ اس لیے کچھ عجب نہیں کہ اگران تعلیمات پر پھرعمل کیاجائے تو ان کے اثرات ظاہر نہ ہوں۔ بس ضرورت ہے کہ پورے اخلاص ، ایمان داری اورسنجیدگی کے ساتھ ان پر عمل کیاجائے اورانھیں حرزجان بنایاجائے۔

(مضامین ڈیسک )

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔