عصرِ حاضر کا مزاج اور اسلوبِ دعوت

ڈاکٹر محمد رفعت

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منصبِ عظیم کا تعارف قرآن مجید میں اِس طرح کرایا گیا ہے :

 يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا. وَّدَاعِيًا اِلَى اللہِ بِـاِذْنِہٖ وَسِرَاجًا مُّنِيْرًا (سورۂ احزاب آیات: 45، 46)

’’اے نبی، ہم نے آپ کوبھیجا ہے گواہ بنا کر،  بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر،  اللہ کی اجازت سے اُس کی طرف دعوت دینے والا  بنا کر اورروشن چراغ بنا کر ۔‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جوصفات اس تصریحِ قرآنی کی روشنی میں سامنے آتی ہیں وہ یہ ہیں ۔ شاہد (گواہ) مبشر (خوش خبری دینےو الا )،  نذیر (خبردار کرنے والا) داعی الی اللہ ۔ (اللہ کی طرف بلانےو الا ) ۔ سراجِ منیر (روشن چراغ یعنی واضح نمونہ اور منبع ہدایت ) ۔ اِن اوصاف میں مرکزی  حیثیت، آپ کی داعیانہ صفت کو حاصل ہے ۔ نبوت کے منصب پر فائز ہونے کے بعد  اپنی ۲۳ سالہ زندگی میں جو کارنامہ آپ نے انجام دیا وہ اِس کارِ دعوت پر مشتمل ہے ۔ قرآن مجید نے مذکورہ آیات سے قبل اِس امر کی بھی تصریح کی ہے کہ آپ آخری نبی ہیں ۔ آپ کے بعد کوئی نبی آنےوالا نہیں ہے ۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے :

 مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ. وَكَانَ اللہُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِــيْمًا. (سورۂ احزاب ۔ آیت 40)

’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم،  تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ، بلکہ وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں ، اوراللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے ۔‘‘

محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کی بنا پر آپ کی نبوت کا دور،  قیامت تک وسیع ہے،   چنانچہ دعوت الی اللہ کے سلسلہ کا بھی قیامت کے ظہور تک جاری رہنا لازم ہے ۔ دنیا سے آپ کے تشریف لے جانے کے بعد، اَب اِنسانوں کوعملاً اللہ کی طرف بُلانے کا کام،  اُمتِ مسلمہ کوانجام دینا ہے۔ ظاہر ہے کہ اہلِ ایمان، دعوت الی اللہ کے اِ س فریضے کی انجام دہی کے لیے اُسوۂ نبوی سے روشنی حاصل کریں گے اور اِس راہ میں پیش آنے والے مسائل کا حَل،  سیرت نبوی میں تلاش کریں گے۔

ہر زمانہ کی طرح موجودہ دور میں بھی، دعوتِ حق پیش کرنے کے لیے، مخاطبین کے مزاج سے واقفیت ضروری ہے تاکہ مناسب اسلوبِ دعوت کا انتخاب کیا جاسکے ۔ یہ واقفیت حاصل کرنے کے لیے جب ہم عصرِ حاضر پر نگاہ ڈالتے ہیں تو موجودہ دور کے چند پہلو ہمارے سامنے آتے ہیں :۔

(الف) بے یقینی اورمایوسی

(ب ) سطحیت اورظاہربینی

(ج ) خود فراموشی

(د) بے اطمینانی واضطراب

(ہ) مقصدِ زندگی سے محرومی

عصرِ حاضر میں دعوتِ حق کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مخاطب اِنسانوں کی درج بالا کیفیات کو سامنے رکھا جائے۔ پھر اُن کے مزاج کی رعایت کرتے ہوئے،  اسوۂ رسول کی روشنی میں ،  اُن کوحق کی طرف بلایا جائے ۔

بے یقینی اور مایوسی

چند سو سال قبل یوروپ میں صنعتی انقلاب برپا ہوا تو اُس کے ساتھ مذہب کے انکار کا قوی رجحان بھی سامنےآیا ۔ مذہب کورد کرنے کے بعد اُس کے متبادل کے طور پر یوروپ کے اہلِ فکر نے مادہ پرستانہ نظریات اورفلسفوں کو اختیار کیا لیکن یہ فلسفے،  اِنسان کو یقین کی منزل تک نہ پہنچا سکے ۔ چند صدیوں کے تجربے کے بعد مغربی دنیا اب مادہ پرستانہ نظریات سے تقریباً مایوس ہوچکی ہے اور ان نظریات کے ردّ عمل میں بے یقینی کی فضا عام ہوتی جارہی ہے ۔ بہت سے سوچنے والے،  صاف طور پر کہنے لگے ہیں کہ ’’حقیقت کا ادراک ممکن ہی نہیں چنانچہ کسی یقینی نظر یے کی تلاش بے کار ہے ۔‘‘ اقبال نے اِس صورتحال کی طرف اشارہ کیا تھا۔

لبالب شیشہ تہذیب حاضر ہے،  مئے لا سے

مگر ساقی کے ہاتھوں میں نہیں پیمانہ الّا

بے یقینی کی کیفیت،  اِنسان کومایوسی کی طرف لے جاتی ہے جس کے مظاہر آج کی دنیا میں نظر آتے ہیں ۔

داعیانِ حق کو بے یقینی کی اِس فضا کوبدلنا ہے اورعصرِ حاضر کے اِنسان کو پھر یقین کی کیفیت سے لذت آشنا کرنا ہے ۔ اسوۂ نبوی کی روشنی میں اس کے لیے چند امور کا اہتمام کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں پہلا قدم اللہ اوراس کے رسول پر اعتماد کی تلقین ہے ۔ (جسے ایمان لانا کہتے ہیں ۔) اس اقدام کی اہمیت غیر معمولی ہے ۔ اِنسان کوجاننا چاہیے کہ وہ محض اپنی عقل کے سہارے،  بالاتر حقائق کا ادراک نہیں کرسکتا اِس  لیے ضروری ہے کہ وہ کسی جاننے والے پر اعتماد کرے۔ دوسری جانب یہ احتیاط بھی لازم ہے کہ وہ کسی گمراہ کرنے والے شیطان کے پھندے میں نہ پھنس جائے کہ بلا سوچے سمجھے اُس کی بات مان بیٹھے ۔ محض اپنی عقل پر اعتماد ہو یا آنکھ بند کرکے کسی شیطان کی پیروی ہو— یہ دونوں طریقے انسان کوتباہی کی طرف لے جاتےہیں ۔ ان دونوں کے مقابلے میں اللہ اوراُس کے رسول پر ایمان، درست رویہ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتےہیں :

’’ایمان کا مزہ چکھا اُ س شخص نے جواس بات پر راضی ہوگیا کہ اللہ اُس کا رَب ہے،  اِسلام اُس کا دین ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔‘‘ (بخاری ومسلم)

ایمان کے اِس اعلان کے ساتھ، انسان کےشعوری سفر کا آغاز ہوجاتا ہے ۔ اس سفر کے دوران،  قلب مومن میں یقین کی کیفیت راسخ تر ہوتی جاتی ہے بشرطیکہ اِنسان دو باتوں کا اہتمام کرے (الف) اللہ کی نشانیوں پر غوروفکر اور(ب ) اللہ کی راہ میں کوشش اورقربانی ۔

قرآن مجید کا ارشاد ہے :

 اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ. الَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللہَ قِيٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰي جُنُوْبِھِمْ وَيَتَفَكَّرُوْنَ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ. رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلًا.سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ. (سورۂ آلِ عمران : آیات 190، 191)

’’زمین اور آسمانوں کی پیدائش میں اوررات اوردِن کے باری باری آنے میں اُن ہوش مند لوگوں کے لیےبہت سی نشانیاں ہیں جو اُٹھتے،  بیٹھتے اورلیٹتے،  ہر حال میں خدا کویاد کرتے ہیں اور زمین اورآسمانوں کی ساخت میں غور وفکر کرتے ہیں ۔ (وہ بے اختیار بول اُٹھتے ہیں ) ’’ پروردگار،  یہ سب کچھ تو نے فضول اوربے مقصد نہیں بنایا ہے،  تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے ۔ پس اے رَب،  ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے ۔‘‘

اِن آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین وآسمان کی نشانیوں پر غور وفکر سے،  آخرت پر ایمان تازہ ہوتا ہے ۔ اِسی طرح اللہ کی راہ میں جدوجہد کا ذکر کرتے ہوئے قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے ۔

اَلَّذِيْنَ اسْتَجَابُوْا لِلہِ وَالرَّسُوْلِ مِنْۢ بَعْدِ مَآ اَصَابَھُمُ الْقَرْحُ. لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوْا مِنْھُمْ وَاتَّقَوْا اَجْرٌ عَظِيْمٌ. اَلَّذِيْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اِيْمَانًا. وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ.(آل عمران : آیات 172، 173)

’’ جن لوگوں نے زخم کھانے کے بعد بھی اللہ اوراُس کے رسول کی پکار پر لبیک کہا — اُن میں جواشخاص نیکوکار اور پرہیزگار ہیں اُن کے لیے بڑا اجر ہے۔جن سے لوگوں نےکہا کہ ’’تمہارے خلاف بڑی فوجیں جمع ہوئی ہیں اُن سے ڈرو‘‘ تویہ سُن کر اُن کا ایمان اوربڑھ گیا اور انہوں نے جواب دیا کہ’’ ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے ۔‘‘

اِن آیات  میں بتایا گیا ہے کہ راہِ خدا میں جہاد، ایمان میں اضافے کا سبب ہے ۔

جوداعیانِ حق، عصرِ حاضر کے اِنسان کوبے یقینی کی موجودہ کیفیت سے نکالنے اوریقین کی طرف اُسے لے جانے کے لیے کوشاں ہیں پہلے اُن کوخود اپنے قلب میں یقین کی کیفیت کو پیدا اورراسخ کرنا ہوگا۔ سیرت نبوی کا سنجیدہ مطالعہ، اس سلسلے میں اہم عامل کا کام کرسکتا ہے ۔ اس مطالعےکے ذریعے، قاری تھوڑی دیر کے لیے اپنے آپ کوگویا مجلسِ نبوی میں موجود پاتا ہے اوراس بابرکت مجلس میں بالواسطہ شرکت کرکے،  وہ اپنے ایمان کو زندگی بخش سکتا ہے ۔

سطحیت اور ظاہر بینی

اِنسان خاکی مخلوق ہے لیکن اللہ نے اُسے یہ صلاحیت دی ہے کہ وہ ایمان، اخلاصِ نیت اور حسنِ عمل کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کرسکتا ہے ۔ اگروہ اپنی حقیقت سے غافل ہوجائے تو وہ سطحیت اور ظاہر بینی کا شکار ہوجاتا ہے پھر پستیوں کی طرف جانے سے اُسے کوئی چیز نہیں بچا سکتی ۔ اِنسان کے سلسلے میں اِن دونوں امکانات (ترقی یا تنزل) کا احتمال ہے ۔ قرآن مجید میں اِس طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ. ثُمَّ رَدَدْنٰہُ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ.(سورۂ التین: آیات4، 5)

’’بلا شبہ ہم نے اِنسان کوبہترین ساخت پر پیدا کیا،  پھر اُسے اُلٹا پھیر کر ہم نے سب نیچوں سے نیچ کردیا ۔‘‘

جناب شبیر احمد عثمانی ؒ اِن آیات کی تشریح کے ضمن میں لکھتےہیں :

’’اِنسان کواللہ نے پیدا کیا اوربہترین شکل وصورت میں پیدا کیا ۔ اِس کا قوام ایسی ترکیب سے بنایا کہ اگرچاہے تو نیکی اوربھلائی میں ترقی کرکے فرشتوں سے آگے نکل جائے،  کوئی مخلوق اُس کی ہم سری نہ کرسکے ۔ لیکن اِنسان خود اپنی بدتمیزی اوربد عملی سے ذلت وہلاکت کے گڑھے میں گرتا اوراپنی پیدائشی بزرگی کو گنوا دیتا ہے ۔‘‘

اِنسان کوسطحیت اور ظاہر بینی سے بچانے کے لیے، اُس کو حقائقِ غیب اور آخرت کی طرف متوجہ کرناضروری ہے ۔ محض دنیا کے وسائل کا استعمال، اِنسان کوپستیوں سے نہیں نکال سکتا ۔

وہ قوم جو فیضانِ سماوی سے ہے محروم

حد اُس کے کمالات کی ہے برق وبُخارات

واقعہ یہ ہے کہ جب انسان، سطحیت اوردنیا پر ستی پر قابو پالیتا ہے تو وہ حقیقی معنوں میں اِنسان بننے لگتا ہے ۔ حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کا ارشاد ہے :

’’تین باتیں مومنانہ اخلاق میں سے ہیں ‘‘

(i) جب مومن کوغصہ آتا ہے تو اُس کا غصہ اُسے باطل اختیار کرنے پر نہیں اُبھارتا۔

(ii) جب وہ خوش ہوتا ہے تو  خوشی اُس کو دائرہ حق سے باہر نہیں نکلنے دیتی اور

(iii) جب وہ طاقتور ہوتا ہے تو دوسروں کی چیز نہیں چھینتا ۔‘‘ (مشکوٰۃ )

چنانچہ سطحیت ا ور ظاہر بینی کے بجائے وقار، حلم و برد باری اورفکرِ آخرت — وہ اعلیٰ صفات ہیں جن کوآج کا انِسان — اُسوہ نبوی سے سیکھ سکتا ہے ۔ داعیانِ حق کو اس امر کی تلقین کرنی چاہیے۔

خود فراموشی (ALIENATION)

غیب کے اِنکار کا رجحان،  اِنسان اورانسانی سماج پر گونا گوں منفی اثرات ڈالتا ہے،  اِن اثرات میں سے ایک اہم مظہر، انسان کی خود فراموشی ہے ۔ بالا تر حقائق کے ادراک سے قاصر انسان،  اپنی صحیح حیثیت پہنچاننے سے قاصر رہتا ہے ۔ وہ کبھی اپنے کو حیوان سمجھتا ہے،  کبھی دنیا کے وسائل پر متُصرف ایک خود مختار ہستی گردانتا ہے اورکبھی معاشی وصنعتی مشین کا محض ایک پُرزہ سمجھتا ہے ۔ اِس خود فراموشی سے اِنسانی شخصیت،  مسخ ہوجاتی ہے اورانِسانی نفسیات میں گتھیاں  پڑ جاتی ہیں ۔ داعیانِ حق کی یہ ذمہ داری ہے کہ انسان کوخود اپنے آپ سے متعارف کرائیں ۔ شداد بن اوس روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ۔

’’ہوشیار اورعقل مند وہ شخص ہے جِس نے اپنے نفس امارہ (بُرائی پر اُکسانےوالے نفس ) کوقابو میں رکھا (اور دنیا کی محبت میں گرفتا ر نہیں ہوا ) اور موت کے بعد آنے والی زندگی کے لیے عمل کیے،  اور بے  وقوف وہ ہے جِس سے اپنے آپ کودنیا کی محبت میں غرق کردیا اوراللہ سے غلط توقع باندھی ۔‘‘ (ترمذی)

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خود فراموشی سے بچنے کے لیے نفسِ امارہ کوقابو میں رکھنا ضروری ہے تاکہ انسان محض  دنیوی ضروریات کے لیے دوڑ دھوپ کرنےو الا اورآخرت سے غافل شخص نہ بن جائے  بلکہ اُسے یاد رہے کہ وہ اللہ کا بندہ اورزمین میں  اُس کاخلیفہ ہے ۔

خود فراموشی کی دوسری شکل یہ ہے کہ اِنسان تکبّر کا شکار ہوجاتا ہے ۔ دوسرے اِنسانوں سے بڑا بَننا چاہتا ہے اور اِ س حقیقت کوبھول جاتا ہے کہ اِنسان کی حیثیت محض بندے کی ہے اور بڑائی صرف اللہ (رَب حقیقی ) کے لیے ہے ۔ داعیانِ حق کوچاہیے کہ خود فراموشی کی اِس صورت سے بھی انسانوں کو بچائیں ۔ حضرت عبداللہ بن عمرو کہتے ہیں کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوکسی نے ٹیک لگا کر کھاناکھاتے نہیں دیکھا اور کبھی کسی نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ دوآدمی بھی آپ کے پیچھے پیچھے چلتےہوں (جیسا کہ بادشاہوں کا دستور ہے ۔وہ باڈی گار ڈ رکھتے ہیں جو ہٹو، بچو کی صدائیں لگاتے ہیں ۔‘‘) (ابوداؤد)

حضرت قدامہ بن عبداللہ کہتے ہیں ’’ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو،  قربانی کے دِن،  بھورے رنگ کی اونٹنی پر سوار،  جمرہ کوکنکری مارتے دیکھا ۔ نہ وہاں سپاہیوں کی مارپیٹ تھی، نہ کسی کوگالیاں دی جارہی تھیں ،  نہ ہٹو، بچو کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں ۔ ‘‘ (المنذری)

حضرت جابر کا بیان ہے کہ ’’رسول اللہ علیہ وسلم سفرمیں اپنے قافلے کے پیچھے چلتے، کمزوروں  کو اپنی  سواری پر بٹھالیتے اور اُن کے حق میں دعا کرتے ۔ ‘‘ (ابوداؤد)

بے اطمینانی واضطراب

آج ٹکنالوجی کی ترقی نے وسائلِ حیات کے بیش از بیش استعمال پر اِنسان کوقادر کردیا ہے اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ انسانوں کی قابل لحاظ تعداد کو ذہنی سکون اوردِل کا اطمینان میسر نہیں ہے بلکہ وہ بے چینی اور اضطراب کے شکار ہیں ۔ اسوۂ نبوی میں اِنسان کی اِس کیفیت کا علاج موجود ہے ۔ داعیان حق کو چاہیے کہ سیرت کے اِس پہلو سے لوگوں کو واقف کرائیں تاکہ وہ بے اطمینانی واضطراب سے نجات پاسکیں ۔

حضرت ابوامامہؓکہتے ہیں کہ ’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کھانے سے فارغ ہوتے اور دستر خوان اُٹھالیا جاتا تو فرماتے ’’ شکر ہے اللہ کا،  بہت زیادہ اوربابرکت شکر — ایسا شکر جوہم خود کریں ، جوکبھی ہم سے ترک نہ ہو ا ور جس سے ہم کبھی بے نیاز اوربے پروانہ ہوں — اے ہمارے رَب ‘‘ (بخاری)

اِس  حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی نعمتوں پر شکر ادا کرنا،  پسندیدہ خصلت  ہے جس کی تعلیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے عمل سے دی ہے ۔علاوہ ازیں جو شخص شکر ادا کرتا ہے اُس کا دِل،  بےاطمینانی اور اضطراب سے نجات پاتا ہے ۔ آج کے اِنسان کو ا للہ کی نعمتوں کے اعتراف اورشکر کی ادائیگی کی جانب متوجہ کرنا، داعیانِ حق کا کام ہے ۔

حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ یہ دین آسان ہے ۔ اور دین سے جب بھی مقابلہ کیا جائے گا،  وہ مقابلہ کرنے والوں کو شکست دے دےگا ۔ پس تم لوگ سیدھے راستے پر چلو۔ شدت پسندی او ر غلو سے بچو۔ اپنی نجات سے مایوس نہ ہو۔ خوش رہوکہ تم کونجات ملے گی انشاء اللہ ۔ کچھ صبح کو چل لو، کچھ شام کوچل لو اور کچھ رات میں چل لو۔‘‘ (بخاری)

 مندرجہ بالا حدیث بتاتی ہے کہ اِنسان اپنے غیر متوازن رجحانات کی اتباع کرنے کے بجائے، اُسوہ نبوی کا اتباع کرے تو پریشانی واضطراب سے محفوظ رہےگا اور  انشاء اللہ — آخرت میں اُسے جہنم سے نجات مل جائے گی۔حضرت معاذ بن جبل کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یمن کا گورنر بنا کر بھیجا۔ بھیجتے وقت ،  آپ نے مجھ سے فرمایا،  ’’ اے معاذ ! اپنے آپ کو عیش وعشرت میں پڑنے سے بچانا کیونکہ خدا کے بندے عیش کو ش نہیں ہوتے ۔‘‘

سیرت نبوی سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل کو جو نصیحت فرمائی،  خود آپ اُس پر عمل پیرا تھے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں عیش کوشی کا شائبہ بھی  نہیں ملتا  ۔  عیش وعشرت سے گُریز،  بے اطمینانی و اضطراب سے بچنے کے لیے ضر وری تدبیر ہے ۔ داعیانِ حق سیرت کے اِ س پہلو سے دنیا کو واقف کراسکتے  ہیں ۔

مقصدِ زندگی سے محرومی

آج کا انسان وسائل حیات کی دریافت اور اُن کے بیش از بیش استعمال میں لگا ہوا ہے ۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ محض یہ سرگرمی، انسان کی زندگی کا مقصد نہیں قرار پاسکتی ۔ یقیناً اخلاقی حدود کے احترام کے ساتھ وسائلِ حیات کا استعمال اِنسان کے لیے جائز ہے اوریہ استعمال شکر کے جذبے کے ساتھ ہو تو مطلوب اور پسندیدہ بھی ہے لیکن اسے مقصدِ زندگی نہیں کہا جاسکتا ۔ قرآن مجید کا ارشاد ہے :

فَاِذَاقَضَيْتُمْ مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللہَ كَذِكْرِكُمْ اٰبَاۗءَكُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًا. فَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَہٗ فِي الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ. وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَۃً وَّفِي الْاٰخِرَۃِ حَسَـنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ. اُولٰۗىِٕكَ لَہُمْ نَصِيْبٌ مِّمَّا كَسَبُوْا. وَاللہُ سَرِيْعُ الْحِسَابِ.(سورۂ بقرہ : آیات  200 تا 202)

’’ جب تم حج کے ارکان، ادا کر چکو تو جس طرح پہلے اپنے آباء واجداد کا ذکر کرتے تھے، اِس طرح اب اللہ کا ذکر کرو ۔ بلکہ اُس سے بھی بڑھ کر ۔ (مگر اللہ کو یاد کرنے والے لوگوں میں بھی بہت فرق ہے ) اُن میں کوئی تو ایسا ہے جوکہتا ہے کہ ’’اے ہمارے رَب ! ہمیں دنیا ہی میں سب کچھ دیدے ۔ ‘ ‘  ایسے شخص کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ۔ او ر کوئی کہتا ہے کہ ’’ اے ہمارے رَب ! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اورآخرت میں بھی بھلائی اورآگ کے عذاب سے ہمیں بچا۔ ‘‘ ایسے لوگ اپنی کمائی کے مطابق (دونوں جگہ) حصہ پائیں گے اوراللہ کو حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی۔‘‘

اِنسان محض مادی وجود نہیں چنانچہ اس کی زندگی کا مقصد بھی مادی کا میابیوں تک محدود نہیں ہوسکتا ۔ درست مقصد زندگی کی تعیین کے لیے اُسوہ نبوی میں رہنمائی ملتی ہے ۔ عصرِ حاضر کے انسان کواس رہنمائی سے آگاہ کرنا،  دعوتِ اسلا می کا اہم جز ہے ۔ اِنسانی شخصیت کی نشو ونما کے لیے مقصدِ زندگی کی درستگی اور درست مقصد سے اِنسان کی وابستگی،  دونوں ضروری ہیں ۔

حضرت عمار بن یاسر کہتےہیں کہ ’’مجھے رسول اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ قیس کے پاس، دینی احکام کی تعلیم وتبلیغ کے لیے بھیجا ۔ وہاں پہنچ کر تجربے سے معلوم ہوا گویا اِس قبیلے کے لوگ،  بِد کے ہوئے اونٹ ہیں ، وہ دنیا کے حریص تھے،  اُن کا کوئی نصب العین نہ تھا۔ ان کی ساری دلچسپی،  اپنی بکریوں او راونٹوں سے تھی۔ جب میں وہاں سے لوٹ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا ۔ ’’ اے عمار! کیا کیا ؟ ‘‘ (یعنی اپنے کام کی رپورٹ دو) میں نے عرض کیا ’’اس قبیلے (یعنی قبیلہ قیس) کے لوگ دین سے بالکل غافل  ہیں ۔‘‘ آپ نے فرمایا ۔ ’’ ان سے زیادہ تعجب خیز حال اُن لوگوں کا ہے جنہوں نے جاننے کی حد تک توسب کچھ جان لیا،  لیکن (جہاں تک عمل کا تعلق ہے ) اُسی غافل قبیلے کی طرح دین سے غافل اور بے پرواہوگئے ۔‘‘ (طبرانی )

حضرت ابنِ عمر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ جب تم عینہ ( سود جیسی کاروباری صورت) کےساتھ کارروبار کرنے لگو گے، جب تم بیل کی دُم تھام لوگے اورکھیتی باڑی میں مگن ہو جاؤ گے او ر دین کے قیا م کی مہم میں محنت ومشقت سے جی چُر اؤ گے اورمالی وجانی قربانی سے گریز کروگے تو اللہ تعالیٰ تم پر ذلت ومحکومی مسلط کردے گا جوتم سے کبھی نہ ہٹے گی جب تک اپنے دین کی طرف نہیں پلٹوگے۔‘ ‘  ( ابوداؤد)

اِن احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ز ندگی کی مرکزی سرگرمی، روزی کمانا نہیں ہے بلکہ دینِ حق کا قیام اوراُس کی دعوت وتبلیغ ہے ۔ اس راہ میں جانی ومالی قربانی درکار ہو تو خوشدلی کے ساتھ پیش کی جانی چاہیے ۔ جولوگ اس شعور سے بے گانہ ہیں ، و ہ زندگی کے مقصد سے محروم ہیں ۔

عصرِ حاضر مَلک الموت ہے تیرا جس نے

قبض کی روح تری، دے کے تجھے فکر معاش

وہ جُنوں ، چھین لیا،  حِرص و ہوس نے تجھ سے

جویہ کہتا تھا خِرد سے کہ بہانے نہ تراش

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔