قربانی سے آخر کیا مطلوب ہے؟

ڈاکٹر محمد واسع ظفر

 اللہ رب العزت نے اپنا قرب عطا کرنے کے واسطے اپنے بندوں کے لئے جن عبادات کو مشروع کیا ہے،  ان میں سے ایک قربانی بھی ہے۔ اس کی مشروعیت قرآن،  حدیث اور اجماع سبھی سے ثابت ہے۔ قرآن کے مطابق اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے صرف اسی امت پر اسے عائد نہیں کیا بلکہ پچھلی امتوں کو بھی اس کا مکلف بنایا تھا۔ ارشاد ہے:

 وَلِکُلِّ أُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنسَکاً لِیَذْکُرُوا اسْمَ اللَّہِ عَلَی مَا رَزَقَہُم مِّن بَہِیْمَۃِ الْأَنْعَامِ فَإِلَہُکُمْ إِلَہٌ وَاحِدٌ فَلَہُ أَسْلِمُوا وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَ

’’ اور ہم نے ہر ایک اُمت کیلئے قربانی کا طریقہ مقرر کر دیا ہے تاکہ جو مویشی چارپائے اللہ نے اُن کو دئیے ہیں (اُن کے ذبح کرنے کے وقت) اُن پر اللہ کا نام لیں سو تمہارا معبود ایک ہی ہے اُسی کے فرمانبردار ہو جاؤ اور عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دو ‘‘۔ (الحج:34)۔

اس امت پر یہ قربانی نماز عیدین کی طرح سنہ ۳ھ میں مشروع ہوئی۔ نبی کریم ﷺ نے صحابہ کو اس کی تاکید کی اور فرمایا :  ’’من کان لہ مال فلم یضح فلا یقربن مصلانا‘‘یعنی ’’جس کے پاس مال ہو اور وہ قربانی نہ کرے تواسے چاہیے کہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے‘‘۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم،  کتاب الأضاحي، بروایت ابوہریرہؓ)۔ اس کی فضیلت میں آپؐ کا یہ ارشاد منقول ہے:

’’مَا عَمِلَ آدَمِیٌّ مِنْ عَمَلٍ یَوْمَ النَّحْرِ أَحَبَّ اِلَی اللّٰہِ مِنْ اِھْرَاقِ الدَّمِ، اِنَّھَا لَتَأْتِي یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِقُرُونِھَاوَ أَشْعَارِھَا وَ أَظْلَافِھَا، وَ أَنَّ الدَّمَ لَیَقَعُ مِنَ  اللّٰہِ بِمَکَانٍ قَبْلَ أَنْ یَقَعَ مِنَ الْأَرْض، فَطِیْبُوا بِھَا نَفْسًا‘‘

’’کسی انسان نے قربانی کے دن کوئی ایسا عمل نہیں کیا جو اللہ کے نزدیک خون بہانے (یعنی قربانی کرنے) سے زیادہ محبوب ہو، وہ (یعنی قربانی کا جانور) قیامت کے دن آئے گا اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں سمیت اور بیشک خو ن گرتاہے اللہ کے آگے مکان قبولیت میں اس سے پہلے کہ زمین پر گرے، سو خوش دل ہو تم اس بشارت سے‘‘۔ (سنن ترمذی، ابواب الاضاحی، باب ماجاء فی فضل الاضحیۃ، بروایت عائشہؓ)۔

 نیزیہ پوچھے جانے پر کہ اس سے کیا ثواب ملتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا :

 ’’بِکُلِّ شَعْرَۃٍ حَسَنَۃٌ ‘‘

’’اس کے ہر بال کے عوض ایک نیکی ہے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ، ابواب الاضاحی، باب ثواب الاضحیۃ، بروایت زید بن ارقمؓ)۔

قربانی جمہور فقہاء جن میں امام طحاویؒ کے قول کے مطابق امام یوسفؒ اور امام محمدؒ بھی شامل ہیں، کے نزدیک سنت مؤکدہ ہے لیکن امام ابوحنیفہؒ اسے ہرآزاد صاحب استطاعت مقیم شخص پر واجب بتاتے ہیں اور ان کے یہاں اس سلسلہ میں بلوغت کی بھی شرط نہیں تاہم احناف کا فتویٰ وجوب کا عاقل و بالغ ہی کے لئے ہے جو امام صاحب کے ہی ایک قول جو ظاہر الروایہ میں ہے کی بنیاد پر ہے۔ (الفقہ الاسلامی و أدلتہ، دارالفکر، دمشق، طبع ثانی، 1405ھ، جلد 3،  ص 595-596، 604)۔ بہرحال ہر دور میں مسلمان اتباع نبویؐ میں قربانی کرتے آئے ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جار ی ہے۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا قربانی کی مشروعیت صرف حصول ثواب کے لئے ہے یا اس کی اور بھی کچھ حکمتیں ہیں؟

حقیت یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کو جن عبادات سے نوازا ہے،  ان کی حکمتوں میں غور و خوض کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ عبادات جہاں تقرب الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہیں وہیں ان میں ایمانی، روحانی اور اخلاقی تربیت کا پہلو بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ یہی حال قربانی کا بھی ہے۔ لیکن جس طرح دیگر عبادتوں کو ہم لوگوں نے رسمیت کا جامہ پہنا دیا ہے قربانی کا حال بھی ان سے کچھ مختلف نہیںہے۔ برسہا برس سے ہم لوگ قربانی کرتے آرہے ہیں لیکن اس کی حکمتوں اور اسرار و رمواز سے واقف نہیں ہونے کی وجہ سے یا ان کا استحضار نہیں رہنے کی وجہ سے قربانی ہمارے ایمانی، روحانی اور اخلاقی حالتوں میں کوئی نمایاں تبدیلی لاتی نظر نہیں آتی حالانکہ علماء سلف و خلف نے قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کی حکمتوں سے ہمیں خوب آگاہ بھی کردیا ہے۔ ابھی عید قربان کی آمد آمد ہے اور ہر صاحب استطاعت مسلمان ملک کے حالات کے ناخوشگوار، تہدید آمیز اور غیرمحفوظ ہونے کے باوجود اپنے جذبہ مسلمانی کے تحت قربانی کی تیاریوں میں مشغول ہے، اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کے اس فلسفہ کوہم ایک بار پھر یاد کریں اور اپنا محاسبہ بھی کریں کہ اب تک کی قربانی سے ہم نے کیا سیکھاہے ؟

 سب سے پہلے تو اس بات پر غور کیجئے کہ جانور تو آپ آج بھی ذبح کر سکتے ہیں اورفقراء،  مساکین اور ضرورتمندوںمیں اس کا گوشت تقسیم کرسکتے ہیں بلکہ اس کا بھی امکان ہے ملک کے کسی خطہ میں لوگوں کے امداد کی ضرورت آج بنسبت ایام النحر کے زیادہ ہو لیکن کیا وہ قربانی کہی جائے گی یا قربانی کا درجہ حاصل کر پائے گی؟  مجھے امید ہے کہ آپ یہی کہیں گے کہ یقیناً یہ ایک نیکی اور ثواب کا کام تو ہوگا لیکن اسے قربانی نہیں کہا جاسکتا اور نہ ہی اس عمل کو اللہ کے یہاں وہ مقام حاصل ہوسکتا ہے جو قربانی کو حاصل ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ صرف یہ کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺنے چند خاص دنوںمیں ہی قربانی کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس لئے فقہاء نے قربانی کی تعریف وقت کے حوالہ سے ہی کیا ہے۔ مثلاًشیخ وھبۃ الزحیلی نے قربانی کی تعریف اس طرح کی ہے:  ’’ھي ذبح حیوان مخصوص بنیۃ القربۃ في وقت مخصوص‘‘ یعنی ’’قربانی سے مراد قرب الٰہی کے حصول کے لئے ایک  وقت مخصوص پر ایک مخصوص جانور کو ذبح کرنا ہے‘‘۔ (الفقہ الاسلامی و أدلتہ، جلد 3،  ص 594)۔

 وقت مخصوص سے مراد ایام النحرکے تین دن یعنی 10، 11،  12؍ذی الحجہ ہیں جیسا کہ عبداللہ بن عمرؓ کے اثر سے واضح ہے۔ آپؓ نے فرمایا:

’’الْأَضْحَی یَوْمَانِ بَعْدَ یَوْمِ الْأَضْحَی‘‘

’’قربانی دو دن تک درست ہے بعد عید الضحیٰ کے‘‘۔ (مؤطا امام مالک، کتاب  الضحایا، باب الضحیۃ عما فی بطن المرأۃ و ذکر ایام الأضحی، بروایت نافعؒ)۔

ابوحنیفہؒ، مالکؒ اور احمد بن حنبلؒ تینوں ائمہ کا قول و عمل اسی روایت پر ہے لیکن امام شافعیؒ قربانی کا آخری وقت 13؍ ذی الحجہ تک مانتے ہیں۔ (مظاہر حق جدید، دار الاشاعت، کراچی، 2009ء، جلد اول، ص 926)۔ ان کی دلیل ابن حبانؒ کی یہ روایت ہے جس کے الفاظ ہیں:

 ’’وَفِی کُلِّ اَیَّامِ  التَّشْرِیْقِ ذَبَحٌ‘‘

’’ تمام ایام تشریق میں ذبح (قربانی) کیا جاسکتا ہے‘‘۔ (صحیح ابن حبان، کتاب الحج، باب ذکر وقوف الحاج بعرفات و المزدلفہ، بروایت جبیر بن مطعمؓ)۔

بہرحال جن کے نزدیک جو قول بھی راجح ہو ان مخصوص ایام کے پہلے یا بعد ان کے نزدیک قربانی درست نہیں ہوسکتی۔ مشہور فقیہ علامہ عبد الرحمٰن الجزیریؒ لکھتے ہیں۔ ’’فلا تصح اذا فعلت قبلہ أو بعدہ‘‘یعنی اگر وقت سے پہلے یا بعد قربانی کی جائے تو درست نہ ہوگی۔ (الفقہ علی  المذاہب الأربعۃ، دارالکتب العلمیہ، بیروت (لبنان)، طبع ثانی، 1424ھ، جلد1، ص 647)۔ حتیٰ کہ 10؍ذی الحجہ کو بھی اگر نماز عید الاضحی کے قبل جانور ذبح کردیا تو اکثر فقہاء کے نزدیک قربانی نہیں ہوئی کیوں صحیح روایت سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے قبل از نماز قربانی کرنے والے کو قربانی کے اعادہ کا حکم فرمایا ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے:

’’مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ أَنْ یُصَلِّیَ فَلْیُعِدْ مَکَانَھَا أُخْرَی‘‘

’’جس نے نماز سے پہلے قربانی کرلیا تو وہ اس کی جگہ پر دوسرا جانور قربانی کرے‘‘۔ (صحیح البخاری، کتاب الاضاحي، باب من ذبح قبل الصّلاۃ اعاد، بروایت جندب بن سفیان بجلیؓ)۔

 حج کا معاملہ بھی اسی طرح ہے۔ عرفات کا میدان کھلا پڑا ہے،  آپ جب چاہیں اور جس وقت چاہیں وہاں جاسکتے ہیں لیکن آج اگر آپ وہاں چلے جائیں تو آپ کا نہ توحج ہو گا اور نہ ہی اس کا کوئی اجر ملے گالیکن عرفات کی یہی حاضری تھوڑی دیر کے لئے بھی اگر 9؍ذی الحجہ کو احرام کے ساتھ ہوجائے تو آپ حج کی سعادت سے بہرور ہوجائیں گے۔ ان مثالوں سے جو بات سامنے آئی وہ یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم اصل ہے۔ کسی عمل کے اندر بذات خود کوئی تقدس نہیں جب تک اللہ اور اس کے رسول کا حکم اس میں پیوست نہ ہو یا یوںکہیے کہ کوئی عمل عبادت کا مقام حاصل نہیں کرسکتا جب تک بشمول ایمان و اخلاص کے وہ اللہ کے حکم اور نبی کریمﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق نہ ہو۔ اگر ہم لوگ ان باتوں پر غور کرتے تو بدعات (یعنی خود کے ایجاد کردہ اعمال جن کا داعیہ اور سبب موجود رہنے کے باوجود ان کی اصل قرن اولیٰ میںنہیں ملتی) کے ذریعہ اللہ کا تقرب حاصل کرنے کی سعی کرنے کی کبھی غلطی نہ کرتے۔

اب اس بات پر بھی غور کیجئے کہ اللہ رب العزت نے آپ کو قربانی کا حکم دیا اور آپ نے قربانی کی لیکن اس کے پاس نہ تو قربانی کا گوشت پہنچااور نہ ہی خون بلکہ اس نے گوشت ہم آپ کو ہی استعمال کرنے کی اجازت دے دی جسے اللہ کی میزبانی کی طور پر ہم لوگ استعمال کرتے ہیں۔ تو پھر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے پاس کیا پہنچا؟  قرآن اس سوال کاجواب یوں دیتا ہے:

لَن یَنَالَ اللَّہَ لُحُومُہَا وَلَا دِمَاؤُہَا وَلَکِن یَنَالُہُ التَّقْوَی مِنکُمْ

’’اللہ تک نہ اُن کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون بلکہ اُس تک تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے ‘‘۔ (الحج:37)۔ تقویٰ کیا ہے؟ یہ انسان کے دل میں اللہ اور اس کے رسول ؐ کے احکام کی عظمت کی وہ کیفیت ہے جس کی وجہ سے وہ ان کا پاس و لحاظ رکھتا ہے اور اس سے سرمو برابر انحراف نہیں کرنا چاہتا اور جس کے پیچھے اللہ کی خوشنودی کے حصول کے علاوہ اور کوئی محرک بھی نہیں ہوتا۔ اب اس قربانی پر غور کیجئے۔ اللہ نے ہمیں اس کا حکم دیا تو ہم اسے بجالاتے ہیں، ہم یہ نہیں سوچتے کہ اللہ کو اس معصوم جانور کی جان لینے سے کیا فائدہ پہنچے گا یا پھر اس پر جو مال کا صرفہ ہوگا اسے صدقہ بھی تو کیا جاسکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

 اسی طرح اللہ نے اسے خاص ایام میں ہی کرنے کا حکم دیا ہے تو ہم اس کا بھی لحاظ کرتے ہیں، اس سے قبل یا بعد نہیں کرتے۔ پھر اللہ کے رسول نے اس کی بھی قید لگائی کہ جانور کس قسم کے ہونے چاہیے یعنی تندرست و توانا ہو اور عیب دار اور معذور نہ ہو تو ہم اس کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ اسی طرح اللہ نے حکم دیا کہ ان جانوروں پر ذبح کرتے وقت میرا ہی نام لیاجائے تو ہم کسی اور کا نام لینے کا سوچ بھی نہیں سکتے اس لئے کہ ہمیں معلوم ہے کہ اگر ہم نے ایسا کیا تونیکی کے بجائے گناہ لازم آئے گا اور اس کا گوشت بھی ہمارے لئے حلال نہیں رہ جائے گا کیوں کہ قرآن کا اعلان ہے :

حُرِّمَتْ عَلَیْْکُمُ الْمَیْْتَۃُ وَالْدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَمَا أُہِلَّ لِغَیْْرِ اللّٰہِ بِہِ

’’حرام کردیا گیا ہے تم پر مردار جانور اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو‘‘۔ (المائدۃ:3)۔

 پھر اللہ رب العزت نے یہ حکم دیا کہ قربانی خالصتاً میر ے لئے ہی کی جائے اور اس میں میری رضا و خوشنودی کے علاوہ اور کوئی نیت نہ ہو۔

فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ

’’پس آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے‘‘۔ (الکوثر:2)۔

 ایک جگہ ارشاد فرمایا:

قُلْ إِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ہ لاَ شَرِیْکَ لَہُ وَبِذَلِکَ أُمِرْتُ وَأَنَاْ أَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ

’’ (یہ بھی) کہہ دو کہ میری نماز اور میری قربانی (یاعبادت) اور میرا جینااور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین ہی کیلئے ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی بات کا حکم ملا ہے اور میں سب سے اوّل فرمانبردار ہوں‘‘۔ (الانعام:163-163)۔

 چنانچہ ہر سال قربانی میں جانورکو ذبح کرتے وقت ہم اس دعا کو پڑھ کر جو اللہ کے رسول ﷺ نے ہمیں سکھائی ہے اس بات کا اقرار اور تجدید کرتے ہیں:

 ’’اني وجہت وجھي للذي فطر السمٰوات و الأرض علی ملۃ ابرہیم حنیفا و ما أنا من المشرکین، ان صلاتي و نسکي و محیاي و مماتي للّٰہ رب العالمین لاشریک لہ، و بذالک أمرت  أنا من المسلمین، اللّٰہمّ منک و لک‘‘

’’میں اپنا رخ اس ذات کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، میں ابراہیم ؑ کے دین پر ہوں،  کامل موحد ہوں، مشرکوں میں سے نہیں ہوں، بیشک میری نماز میری قربانی (یا تمام عبادتیں)،  میرا جینا اور میرا مرناخالص اس اللہ کے لئے ہے جو سارے جہاں کا رب ہے،  کوئی اس کا شریک نہیں، مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں مسلمانوں میں سے ہوں، اے اللہ! یہ قربانی تیری ہی عطا ہے اور خاص تیری ہی رضا کے لئے ہے‘‘۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الضحایا، باب ما یستحبّ من الضّحایا، بروایت جابر بن عبداللہؓ )۔

 ہم اللہ کے سوا کسی اور کے لئے قربانی کرنے کاسوچ بھی نہیں سکتے کیوں کہ یہ شرک ہو گا اور ہم بجائے اللہ کا قرب حاصل کرنے کے اس کی لعنت کے مستحق ہوجائیں گے کیوں کہ ہمارے نبی کریم ﷺ نے ہمیں واضح طور پر اس سے آگاہ کردیا ہے۔ آپ ؐ کاارشاد ہے:

’’لَعَنَ اللّٰہُ مَنْ ذَبَحَ لِغَیْرِ اللّٰہِ ‘‘

’’لعنت کی اللہ نے اس پر جو ذبح کرے جانور کو اللہ کے سوا کسی اور کے لئے‘‘۔ (صحیح مسلم،  کتاب الاضاحی، باب تحریم الذبح لغیر اللّٰہ تعالیٰ و لعن فاعلہ، بروایت علیؓ)۔

  اللہ کے اغیار کے لئے قربانی کرنا تو بہت دور کی بات ہے،  اگر کسی نے اس میں صرف گوشت کی نیت کرلی اور عبادت کی نیت نہیں کی تو فقہاء کے ایک طبقہ کے مطابق اس کی قربانی نہیں ہوئی اور وہ ایسے ہی ہے جیسے عام دنوں میں گوشت کے لئے جانور ذبح کرنا۔ اسی لئے شرکت کی قربانی کے سلسلہ میں احناف کے یہاں ایک کڑی شرط ہے کہ قربانی میں کسی ایسے آدمی کو شریک نہ کیا جائے جس کی نیت عبادت کی بالکل نہ ہوبلکہ گوشت کی ہو۔ اگر ایک اونٹ یا بچھڑے میں سات آدمی شریک ہوئے۔ سب کی نیت عبادت کی تھی سوائے ایک شخص کے کہ وہ گوشت کی نیت کئے ہوئے تھا۔ تو کسی کی طرف سے بھی قربانی نہیں ہوگی کیوں کہ عبادت (اللہ کے لئے )خون بہانے میں ہے اور اس کے ٹکڑے نہیں ہوسکتے اس لئے کہ یہ ایک ہی فعل اور ایک ہی ذبح ہے۔ ‘‘(الفقہ الاسلامی و أدلتہ، جلد 3،  ص 605)۔

 اتنی ساری پابندیوں کا لحاظ کرتے ہوئے قربانی کی جاتی ہے تو اللہ کے یہاں وہ تقرب کا باعث ہوتی ہے۔ اب ذرا اس بات پر بھی غور کریں کہ کیا واقعی ہم ان پابندیوں کا لحاظ استحضار کے ساتھ کررہے ہیں یا ہم سے عادتاً یا رسماً یہ سب ہورہا ہے۔ اگر اللہ اور اس کے رسول ؐ کے احکامات کا ہمیں اتنا پاس و لحاظ ہے تو زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی یہ ہونا چاہیے۔ قربانی کی دعا کے الفاظ اور معنی پر غور کیجئے کہ ہر سال ہم اس بات کا اقرار بھی کررہے ہیں ہم مسلمان ہیں یعنی اللہ کے فرمانبردارو اطاعت گزار ہیں اور اس کا کوئی شریک نہیںلیکن زندگی کے دوسرے شعبوں میں اللہ اور رسول ﷺکے احکامات کی نہ وہ اطاعت نظر آتی ہے اور نہ ہی شرکیہ اعمال سے ہی ہماری زندگی خالی ہے۔ تو آخر یہ کیسا تقویٰ ہے ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم قربانی گوشت کے لئے یا تفاخر کے طور پر کر رہے ہیں؟

جاننا چاہیے کہ اصل قربانی تو اپنے نفس کی ہے اور جانور تو حقیقت میں ایک علامت ہے۔ ہمارے اندر یہ جذبہ ہونا چاہیے کہ قربانی کرتے وقت ہم اللہ کی طرف متوجہ ہوکر اپنے دل میں یہ کہیں کہ اے میرے رب ! یہ جانور کیا چیزہے، تیرے احکام کی پاسداری ا ور دین کی سربلندی کے لئے بندہ اپنی جان، مال اور اولاد کی ہر قربانی دینے کو تیار ہے۔ یہی وہ جذبہ ہے جو قربانی سے پیدا کرنا مطلوب ہے اوریہی وہ جذبہ تھا جس نے سیّدنا ابراہیم علیہ السلام کو اپنے پیارے بیٹے کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے پر آمادہ کیا اور اللہ کی طرف سے آئی اس آزمائش میں کامیاب ہونے پر ہی وہ انسانیت کی امامت کے عہدہ پر سرفراز کئے گئے۔ جس کے اندر یہ جذبہ ہوگا وہ سب سے پہلے اپنے نفس کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکام کے تابع کرے گاجس کے بغیر ایمان کی تکمیل ہی ممکن نہیں. کیوں کہ آپؐکا ارشادہے :

’’لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبْعًا لِمَا جِئْتُ بِہٖ‘‘

’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہشات نفس ان ہدایات کے تابع نہ ہوجائے جن کو میں لے کر آیا ہوں ‘‘۔ (مشکوٰۃ المصابیح، باب الاعتصام بالکتاب و السنۃ، بروایت عبد اللہؓ بن عمروبن العاصؓ)۔

نفس کے مطیع ہونے کی علامت ہی یہی ہے کہ انسان اللہ کے احکام پر صبر و استقامت سے جم جائے جیسا کہ دین حنیف کے امام ابراہیم خلیل اللہ کی زندگی سے بھی سبق ملتا ہے۔ یہ نہیں کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کا جو حکم نفس کو اچھا لگا وہ تو پورا کردیا اور جو نفس پر گراں گزرا اسے ترک کردیا۔ قربانی سے اگر ہم نے یہ سبق نہیں لیا تو اللہ کو گوشت اور خون سے کیا لینا۔

 مال، جان اورنفس کی قربانی اور ہر حال میں اللہ کی اطاعت کے ان عظیم جذبوں کو پیدا کرنے کے علاوہ قربانی سے محتاجوں اور غریبوں کی ہمدردی،  غمگساری اور مدد کرنے کا جذبہ پیدا کرنا بھی مطلوب ہے جیسا کہ اللہ رب العزت کے اس ارشاد سے واضح ہے:

وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاہَا لَکُم مِّن شَعَائِرِ اللَّہِ لَکُمْ فِیْہَا خَیْْرٌ فَاذْکُرُوا اسْمَ اللَّہِ عَلَیْْہَا صَوَافَّ فَإِذَا وَجَبَتْ جُنُوبُہَا فَکُلُوا مِنْہَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ کَذَلِکَ سَخَّرْنَاہَا لَکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ

’’اور قربانی کے اونٹوں کو بھی ہم نے تمہارے لئے شعائر اللہ مقرر کیا ہے اس میں تمہارے لئے فائدے ہیں تو (قربانی کرنے کے وقت) قطار باندھ کر اُن پر اللہ کا نام لو جب پہلو کے بل گر پڑیں تو اُن میں سے کھاؤ اور قناعت سے بیٹھ رہنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ اس طرح ہم نے اُن کو تمہارے زیر فرماں کر دیا ہے تاکہ تم شکر کرو ‘‘۔ (الحج:36 )۔

 قربانی کا گوشت خود کھانے کی اجازت اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اسی امت کو دی ہے،  پچھلی امتوں کو نہیں دی لیکن ساتھ ہی غریبوں،  مسکینوں اور محتاجوں کا خیال رکھنے کی بھی تاکید کی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ قربانی مسلمانوں کی اجتماعیت کا بھی مظہر ہے اور اس سے آپس کے تعلقات کے بہتر ہونے کی توقع بھی کی جارہی ہے۔ یہاں یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ قربانی کے مشروع ہونے کے ابتدائی سال میں اللہ کے رسول ﷺ نے تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت اپنے پاس رکھنے اور استعمال کرنے سے منع کیا تھا لیکن بعد میں اس کی اجازت دے دی اوریہ کہا تھا کہ پچھلے سال چونکہ لوگ تنگی میں مبتلا تھے اس لئے میں نے چاہا کہ تم لوگوں کی مشکلات میںان کی مدد کرو۔ (صحیح بخاری،  کتاب الاضاحی، باب ما یوکل من لحوم الاضاحی و ما یتزوّد منھا، بروایت سلمہ بن الاکوعؓ)۔

اس حدیث سے رسول پاکﷺ کی منشاء بالکل واضح ہے۔ اگر آج بھی ایسے حالات ہوں کہ قرب و جوار کے لوگ تنگی میں مبتلا ہوں تو بجائے ان تنگدستوں اور محتاجوں کی ضرورت کاخیال رکھنے کے فریزر میں گوشت کا ذخیرہ کرنا اور مہینوں اپنی ذات پر استعمال کرنایقینا منشاء نبویؐ اور جذبہ قربانی کے خلاف ہوگا۔ نیزسورۃالحج کی مذکورہ آیت36 سے یہ بھی مستفاد ہے کہ قربانی میں اللہ کے اس انعام کی شکر گزاری کا پہلو بھی شامل ہے جو اس نے ان جانوروں کو ہمارے لئے مسخر کرکے کیا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کوان جذبوں کے ساتھ قربانی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

تبصرے بند ہیں۔