سوائن فلو کے چیلنجز: اسباب اورعلاج

حکیم نازش احتشام اعظمی

گزشتہ13اگست 2017 کو وطن عزیز کی عظیم تر ریاست اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ سے سرخیوں میں آنے والی اس خبر نے ساری دنیا کو حیرت زدہ کردیا کہ 2009 میں امریکہ سے پھوٹنے والی وبا یعنی سوائن فلو نے  بھارت میں ہی اپنے پنجے گاڑ دیے ہیں اورحالت اس قدرلرزہ خیز ہوچکی ہے کہ  سوائن فلو سے گردن چھڑانے میں آج دنیا بھر میں ترقی کا ڈھنڈورا پیٹنے والا ہمارا وطن تمام تر صلاحیتوں کے باوجود بونا ثابت ہورہا ہے۔ حالا نکہ ساری دنیا کے سامنیہم اپنے ملک کواس وقت علاج و معالجہ کیلئے وسیع تر’’ میڈیکل ہب‘‘ کے طور پر متعارف کرانے میں لگے ہوئے ہیں۔

صورت حال یہ ہے کہ ساری دنیا میں ہندوستان کو مستشفیٰ کی شکل میں متعارف کرانے میں ہم جی جان کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ اس کے پس پردہ ممکن ہے کہ کچھ وطن پرستانہ مقصد بھی کارفرما ہو۔مگر بظاہر تو یہی نظرآتا ہے کہ ہم اپنے ملک میں علاج و معالجہ کے شعبہ کو چند کاروباری خاندانوں کی مٹھی میں دے کر باقیماندہ سارے اہل وطن کو انہیں چند خاندانوں کی غلامی میں جکڑ نے کی تیاری کرچکے ہیں۔ جس سے سارے ملک کی دولت چند ہاتھوں تک سمٹ کر رہ جائے اور سارا ملک کاسۂ گدائی لئے انہیں خاندانوں کا دست نگر بن جائے۔ ایسے ماحول میں جب 8برس گزرنے کے باوجود ہم سوائن فلو پر قابو پانے میں کا میاب نہیں ہو سکے ہیں۔ واضح رہے کہ دنیاکو ہم اس بات کا قائل کرنے کی چاہے جتنی کوشش کرلیں ، مگر ہمیں صرف زبانی جمع خرچ اور پروپیگنڈے سے اس میں کامیابی  نہیں مل سکتی کہ بھارت دنیاکا ایک بڑا’’ میڈیکل ہب‘‘ بن چکاہے ،لہذا معالجاتی خدمات کیلئے ساری دنیا کو ہندوستان کارخ کرنا چاہئے۔

بھلا ایسے حالات میں جب دنیااپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے کہ امریکہ نے انتہا ئی مستعدی کے ساتھ اپنے یہاں سے شروع ہونے والی وبا ’’سوائن فلو‘‘ خنزیری زکام کی شکایات پر فتح حاصل کر لی ہے ،جبکہ ہماری حالت یہ ہے کہ پورے ملک میں گھوم پھر کر یہ خنزیری زکام سوائن فلومتعدد ریاستوں کے عوام کو مسلسل اپنا شکار بنا رہا ہے ،کیا دنیا یہ سوال نہیں کرے گی کہ جب ہم ایک فلو کو مات دینے میں آٹھ برس بعد بھی ناکام ہیں ، پھر ہماراملک’’ میڈیکل ہب ‘‘کیسے بن گیا ہے؟

اطلاعات کے مطابق اتر پردیش کی راجدھانی لکھنؤ سمیت پوری ریاست میں سوائن فلو کا اثر تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے۔ اسے دیکھتے ہوئے اب محکمہ صحت کی جانب سے تمام اسکولوں کو ایک ہدایت جاری کی گئی ہے۔ اس میں صبح کے وقت ہونے والی پرارتھنا پر روک لگانے کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک افسر نے بتایا کہ سوائن فلو کے بڑھتے اثر کو دیکھتے ہوئے چیف سکریٹری، صحت اور خاندانی بہبود نے ریاست کے تما م ڈویژنوں اورضلع حکام کو تمام اسکولوں میں صبح کوہونے والی پرارتھنا پر فی الحال روک لگانے کی ہدایات دی ہیں۔ چیف سکریٹری صحت اور خاندانی بہبود پرشانت ترویدی کے مطابق ریاست میں سوائن فلو کے بڑھتے اثر کو دیکھتے ہوئے ضلع حکام سے کہا گیا ہے کہ وہ تمام اسکولوں کے پرنسپل کو ایسے ہدایات جاری کر دیں ، جس سے ایک وقت میں زیادہ بچے ایک جگہ پر جمع نہ ہوں۔

غور طلب ہے کہ محکمہ صحت سے حاصل اعداد و شمار کے مطابق، 13 اگست تک ریاست میں 695 لوگ سوائن فلو میں مبتلا تھے۔ ان میں سے 16اگست 2017تک 21 لوگوں کی موت ہو چکی تھی۔ علاوہ ازیں ریاست میں سوائن فلو کی روک تھام کیلئے تمام اضلاع میں ضلع سطحی ریپڈ رسپانس ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔ اس ٹیم میں بڑے پیمانے پرماہرین صحت ، ایک فزیشین، ایک پیتھولجسٹ اور لیب ٹیکنیشین شامل ہیں۔ بعد ازاں مورخہ 19اگست کوسوائن فلو کی قہر سامانی کے چرچے میڈیا کی سرخیو ں میں رہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق  لکھنؤ میں 68 نئے مریضوں کی تصدیق ہونے کے بعد سوائن فلو کے مریضوں کی تعداد 687 تک بڑھ گئی ہے۔ اس بیماری کی وجہ سے تین مزید مریضوں کی موت کے بعد، ریاست میں اسکی وجہ سے اموات کی تعداد 36 تک پہنچ گئی ہے۔یہ صرف ریاست اتر پردیش کی اجمالی رپورٹ تھی،جسے سامنے آ نے کے باوجود قومی سطح پر سوائن فلو سے نجات پانے کی کوئی منظم حکمت یا منصوبہ سازی اب تک د یکھنے کو نہیں ملی ہے۔اس فلوکی بڑھتی تباہ کاری سے حکومت کے قوت ارادی پر سوالیہ نشان لگتے ہیں۔ گز شتہ20 اگست2017کو ملک میں سوائن فلو کی خطرناک ہورہی صورت حال پر سامنے آ نے والی ایک رپورٹ نے سارے سسٹم کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں 20 اگست تک اس سال سوائن فلو سے 1094 افراد مر چکے ہیں ، جو پچھلے سال کے اعداد و شمار کے تقریبا چار گنازیادہ  ہے۔

اب تک اس بیماری کے 22,186 معا ملے رپورٹ کیے گئے ہیں۔ مرکزی صحت کی وزارت سے متعلق اعداد و شمارسے معلوم ہوتا ہے کہ ریاست مہاراشٹر 437 افراد کو ایچ1 این1 کے انفیکشن نے سب سے زیادہ شکار بنایا ہے۔دریں اثنا 3029گجرات میں ، 73 کیرل میں اور راجستھان میں 69 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ جبکہ 2016 میں یہ تعداد 265 اور 1786 تھی۔ تمل ناڈو میں 24 4 اور کرنا ٹک میں 2665 واقعات ،جبکہ دہلی میں اس بیماری کے 1719 واقعات کی اطلاع دی گئی ہے۔ یہاں سوائن فلو سے اب تک پانچ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق صرف ماہ اگست کے گزشتہ 3ہفتے میں 342 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

2009-10 میں ملک میں H1N1 انفلوئنزا کا سب سے بدترین دور تھا ،جب اس بیماری سے 2700 افراد ہلاک ہوگئے تھے اور تقریبا 50,000 متاثر ہوئے تھے۔خیال رہے کہ H1N1 انفلوئنزا ایک انتہائی انفیکشن والی بیماری ہے اور ایک شخص سے دوسرے میں تیزی سے پھیلتی ہے۔ 2009 میں ، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے اسے تاریخ انسانی کا تباہ کن طاعون قرار دیاتھا۔سوائن فلو کے پھیلنے کا سبب جہاں ایک جانب حکومتی سطح پرعدم اقدامات ہیں تووہیں دوسری جانب عوام میں مرض سے متعلق آگاہی کی کمی بھی اس کا بڑا سبب ہے۔عوام کو چاہیے کہ سوائن فلو کی علامات جاننے  کی زیادہ سے زیادہ کوششیں کریں اورجبکہ ہمارے ملک  میں بھی یہ مرض وبا کی صورت اختیار کرچکاہے اور سوائن فلو نے اپنی تباہ کاری سے سے عوام الناس اور حکومتوں کو واقف کرانے میں کوئی کمی کجی نہیں چھوڑی  ہے تو اس سے بچنے کے لئے معمولی نوعیت کے فلو کو بھی نظرانداز کرنے کے بجائے فی الفور معالج سے رجوع کرنا چاہئے۔خدا نہ کرے کہ جس نزلہ زکام کو ہم سنجید گی سے نہیں لے رہے ہیں ،  اسے پیچیدہ ہونے کے بعد جب ہم علاج کی جانب متوجہ ہوں تو معالج کے پاس پہنچنے کے بعد معلوم ہوکہ ہمیں خنزیری نزلہ یعنی سوائن فلو نے اپنا شکار بنا لیا ہے اور ہماری اپنی لاپروائی کے نتیجے میں معمولی سمجھ کر نظر انداز کیا جانے والا زکام ہمیں ہلاکت کی جانب لے کر کافی آ گے بڑھ چکا ہے۔

اس جان لیوا بیماری نے 2009میں امریکہ سے اپنی تباہ کاری کا سفر شروع کیا اور مختصر وقت میں ہی سوائن فلو نے دیگر بر اعظموں کو متاثر کرتے ہوئے ایشیا کو اپنی چپیٹ میں لے لیا تھا۔سوائن فلوسانس کی نالی میں  خرا بی کی بیماری ہے۔ یہ وائرس جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوکراس کے دفاعی نظام کو کم زو ر کر د یتا ہے۔سوائن فلو حاملہ عورت، کم عمر بچوں ، موٹے افراد اور سانس یا دل کی بیماری میں مبتلا مریضوں میں پھیلنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔اس جان لیوا بیماری میں مبتلا فرد کے چھینکنے اور کھانسنے سے کسی دوسرے انسان کو بھی یہ وائرس منتقل ہوسکتا ہے۔سوائن فلو میں مبتلا فرد کو بخار، کھانسی، گلے میں خراش، ناک بہنے کے علاوہ جسم میں درد، تھکاوٹ، سردی لگنے، قے اور چھینکنے کی شکایت ہوتی ہے۔ابتدائی علامات عام فلو اور بخار جیسی ہوتی ہیں ، جبکہ سوائن فلو کے شدید ہوجانے پر جلد کا رنگ نیلا یا سرمئی ہوسکتا ہے جو آخرکارجان کا خطرہ ثابت ہوتی ہے۔

سوائن فلوایک جان لیوا بیماری ہے اوراس سے بچنے کیلئے مندرجہ ذیل احتیاطی تدابیر اپنانی چاہئیں۔ سوائن فلو کا شکارمریض جن میں مرض کی ابتدائی علامات ظاہر ہورہی ہوں انہیں ورزش کرنی چاہیے اورگہرے سانس لینا چاہیے۔ ذہنی پریشانی اورتناؤ سے خود کو دور رکھنا چاہیے اورمریض کو چاہیے کہ اپنی غذا میں میٹھے کا استعمال ترک کردے۔ سوائن فلو کی شدت میں مریض کو زیادہ نیند لینی چاہیے اوروٹامنز کا تواتر سے استعمال اور زیادہ وقت دھوپ میں گزارنا مرض کی شدت میں کمی کرتا ہے۔سوائن فلو کا علاج اینٹی بایوٹکس بھی ہوتی ہیں، تاہم اس سے بچنے کیلئے ویکسی نیشن ہی واحد حل ہے۔

تبصرے بند ہیں۔