کیاواقعی مودی حکومت مسلم خواتین کی ہمدرد ہے؟ 

نازش ہما قاسمی

غیر ت مند مسلم خواتین کل بھی شرعی عدالت سے رجوع ہوتی تھیں اور آج بھی رجوع ہوں گی۔۔۔!

۔۔۔منکووووووول۔۔۔

مسلمانوں کے عائلی مسائل بہت ہی کم ہے جو کورٹ تک پہنچتے ہیں اور وہ بھی دین سے ناواقف لبرل ازم کی پیداوار نام نہاد مسلمان وہاں جاتے ہیں جنہیں دین اسلام سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ وہ حکومت کے وقت کے ایجنٹ کے طورپر مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے کچھ رقم لے کر یا ان کے سبز باغ کے لالچ میں اپنی قوم کا سودا کرکے دین اسلام کو رسوا کرنے کا فعل کرتے ہیں۔ ان کے اس طرح کرنے سے دین اسلام پر کوئی آنچ بھی نہیں آتی وہ خود ہی ذلیل ورسوا ہوتے ہیں اور بعد میں ان کی نسلیں ذلت اُٹھاتی ہیں ۔ اسی طرح طلاق کا مسئلہ ہے۔ ہر کوئی واقف ہے کہ مسلمانوں میں طلاق کی شرح دیگر کمیونٹی کے مقابلے میں بہت کم ہے بلکہ ناپید ہے ۔

اتنی بڑی آبادی میں اگر کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو اسے شریعت سے جوڑ کر مسلمانوں سے جوڑ کر اس طرح کا پروپیگنڈہ نہیں کرناچاہئے ۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کا واضح موقف ہے کہ جو اس طرح سے کرتا ہے وہ غلط کرتا ہے ، اور مسلم پرسنل لاء بورڈ اس سلسلے میں ملکی سطح پر کام بھی کررہی ہے کہ کوئی طلاق بدعت نہ دے، شریعت میں یہ تو جائز ہے لیکن قبیح فعل قرار دیا گیا ہے ۔ لیکن اس وقت سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کو میڈیا اس طرح اچھال رہا ہے جیسے ملک کی تمام مسلم خواتین طلاق سے جوجھ رہی تھیں اور انہیں مودی حکومت نے آزادی دلادی ہے۔ میڈیا کے نزدیک ابھی اس سے بڑا کوئی ایشو ہی نہیں ہے۔ ہر چینل پر یہی بحث چل رہی ہے ملک کے تمام دگرگوں مسائل سے توجہ ہٹا کر طلاق ثلاثہ پر ہی ڈیبٹ کی جارہی ہے ، ایسا لگتا ہے کہ 14 سو سالوں سے مسلم خواتین طلاق سے پریشان تھی مودی حکومت ان کے لیے نجات دہندہ کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے اب کوئی مسلم خواتین پریشان نہیں ہوگی۔

حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔۔۔یہ بنیے بڑے چالاک ہیں ۔۔۔ان کا منشا کچھ اور ہی ہے۔۔وہ مسلم خواتین کے ہمدرد کبھی نہیں ہوسکتے۔۔۔۔وہ خواتین جو انہیں نجات دہندہ سمجھ رہی ہیں عنقریب وہ جان جائیں گی کہ ہم آلہ کار کے طور پر محض استعمال ہوئے ہیں ہمارا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا۔۔۔ ہم نے صرف اسلام کو رسوا کرنے کا سودا کیا تھا اور ذلت ہمارا مقدر ٹھہرا۔۔۔اور اتنا یاد رہے کہ غیرت مند خواتین کل بھی شرعی عدالتوں سے رجوع ہوتی تھیں اور آج بھی رجوع ہوں گی۔۔۔بقول مولانا ارشد مدنی ’دیندار مسلمانوں پر یہ فیصلہ کچھ اثرانداز نہیں ہوگا اور واقعی جو دین کی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں انہیں اس سے کیا سروکار۔۔۔! وہ کل بھی دین پر عمل پیرا تھے اور آج بھی رہیں گے۔۔۔حکومت وقت لاکھ سازشیں کریں ان کے پایہ ثبات میں کوئی بھی لغزش نہیں آنے والی۔۔۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی مسلم خواتین آزاد ہوگئی ہیں ۔۔۔۔کیا واقعی انہیں اس سے پریشانی تھی۔۔۔میڈیا میں جو کچھ دکھایا جارہا ہے کیا واقعی وہ سچ ہے۔۔۔؟ نہیں ایسا نہیں ہے۔۔۔مسلم پرسنل لاء بورڈ کی دستخطی مہم نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ملک کی مسلم خواتین اسلام پسند ہیں ۔۔۔۔ایک مسلم خاتون  ہونے کے ناطے فقہ اسلامی پر ان کا اعتماد ہے۔۔۔بھروسہ ہے۔۔۔وہ کل بھی اسلام پر عمل پیرا تھیں اور آج بھی عمل پیرا رہیں گے۔۔۔۔طلاق بوجہ مجبوری میاں بیوی کو الگ کرنے کی ایک سبیل ہے۔۔۔۔جب حالات ناگزیر ہوجائیں تو ایک طلاق دی جائے ۔

صرف ایک طلاق دینا بھی کافی ہے،اگر معاملہ میں سدھار پیدا ہو جائے اور میاں بیوی بخوشی رہنے کیلئے راضی ہو جائے تو پھر سے دوران مدت ہے تو رجوع کرلے اگر مدت ختم ہوچکی ہے تو محض نکاح کافی ہے،لیکن معلوم نہیں کیوں چند عورتوں کو مہرہ بناکر حکومت کھیل کھیل رہی ہے،طلاق کے معاملہ کو اس طرح میڈیا نے پیش کیا ہے گویا کہ تمام مسلم عورتوں کو یہ مسائل درپیش ہیں ،مسلم عورتوں کے ہمدردوں کو ذکیہ جعفری اور بلقیس بانو کی چیخیں نہیں سنائی دیتی ہے،اگر سپریم کورٹ کے فیصلہ کو دیکھا جائے تو اس میں ایک شق مسلم پرسنل لاء بورڈ کے حق میں ہے،جسے قانون میں تحفظ حاصل ہے اور اس میں کسی بھی طرح چھیڑ چھاڑ کی کوئی گنجائش نہیں ہے،دوسری شق میں طلاق کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے،معاملہ یہاں پیچیدہ ہوجاتا ہے کہ آیا سپریم کورٹ طلاق کو مسلم پرسنل لاء کا حصہ تسلیم کرتی ہے یا نہیں ،اگر طلاق مسلم پرسنل لاء کا حصہ ہے تو مداخلت چہ معنی دارد،اور اگر حصہ نہیں مانتی ہے تو پھر مسلم پرسنل لاء بورڈ کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس معاملہ میں از سر نو غور و فکر کریں اور اس بات کو جاننے کی کوشش کریں کہ کیوں سپریم کورٹ اسے مسلم پرسنل لاء کا حصہ تسلیم نہیں کررہا ہے۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد وہ لوگ بھی خوشی منا رہے ہیں اور عورتوں کے حقوق کی بات کرنے لگے ہیں جنہوں نے عورتوں کی زندگی کو جہنم بنا رکھا ہے ۔یہ تو اسلام ہے جس نے عورتوں کو بھی اس چیز کا حق دیا ہے کہ اگر وہ شوہر سے خوش نہیں ہیں تو خلع کے ذریعہ الگ ہوسکتی ہیں ۔۔۔اس کے برخلاف ان لوگوں کے درمیان جو اس مسئلے پر تالیاں بجارہے ہیں ۔۔۔ ان کے یہاں عورتیں محض غلام ہیں ۔۔۔انہیں اپنے شوہروں سے آزادی کسی بھی صورت میں نہیں مل سکتی۔۔۔۔حالات کتنے ہی خراب کیو ں نہ ہوجائیں ان کی قسمت میں وہی شوہر لکھا ہے اسی کے ساتھ انہیں رہنا ہوگا۔پھر بھی اگر طلاق چاہئے تو عدالت کے چکر لگائیں جہاں مدتوں بعد فیصلہ ہوتا ہے ۔۔ کیا یہی مساوات ہے؟ نہیں مساوات تو اسلام میں ہے کہ اس نے عورت ومرد کو یکساں حقوق دئیے ہیں ۔ آج اگر ہم واقعی دین پر عمل پیرا ہوجائیں ۔۔۔جس طرح سے اسلام کا حکم ہے سرتسلیم خم کرلیں تو وقت کے فرعون ہمارے سامنے سرنگوں ہوں گے لیکن ہم ہی غلط ہیں جبھی سارے مسائل اُٹھائے جارہے ہیں ، بے جا اعتراضات کرنے کے مواقع ہم ہی فراہم کررہے ہیں ۔ جبھی ہم رسوا ہورہے ہیں ۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم آپسی مسائل مسلم پرسنل لاء کے تحت حل کریں ۔۔ کل بھی یہ واقعات رونما ہورہے تھے اور آج بھی ہوں گے لیکن شرعی عدالت میں اس کا تصفیہ کرایاجائے اس طرح سے دین کو رسوا کرنے کا عمل نہ کریں ۔ طلاق بدعت ایک قبیح فعل ہے اور اس پر سپریم کورٹ کی پابندی خوش آئند امر ہے۔ مسلمانوں کو اس سے پریشان ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں ۔ لیکن دجالی میڈیا اسے مسلم خواتین کی آزادی سے تعبیر کررہی ہے اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کی شکست تسلیم کررہی ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ کورٹ نے واضح لفظوں میں کہا ہے کہ ہم پرسنل لاء میں تبدیلی نہیں کرسکتے اور یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس سے پریشان ہوا جائے، دیندار عورتوں کو کل بھی اس کی ضرورت نہیں تھی اور ان شاء اللہ آئندہ بھی اس کی ضرورت نہیں رہے گی ،البتہ غداروں کا انجام ہمیشہ سے برا ہوتا آیا ہے اور برا ہوگا،صرف یہی نہیں بلکہ ان کی نسلیں بھی اپنی پیشانی پر اس داغ کو لئے زندگی گزارنے پر مجبور ہوگی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔