عقل مندی کا مشورہ، لیکن ۔۔!

عالم نقوی

بی جے پی کی ایک  (ریاستی )حکومت  نے تاریخ میں پہلی بار عوام دوستی اور ماحول دوستی پر مبنی ایک عقل مندی کا مشورہ دیا ہے جس میں مدھیہ پردیش، گجرات مہاراشٹر اور اتر پردیش کی  حکومتوں کے لیے بھی ایک پیغام ہے لیکن کیا وہ اسے سنیں گی ؟

اسکرال ڈاٹ اِن پر  12 اگست (2017) کو شایع اَرونَب سَیکیا کی ایک رپورٹ کے مطابق منی پور کی بھاجپا حکومت  والی مقامی (منی پوری، قبائلی) قیادت نے مرکزی حکومت سے، جس پر شمالی، مغربی وسطی اور ناگپوری سنگھ پریوار اور نام نہاد اعلیٰ ذات والوں کے بھاجپائیوں   کا قبضہ ہے، مطالبہ کیا ہے کہ  ایک سو پانچ میگا واٹ  کے لوکتک پن بجلی گھر کے اِیتھائی ڈَیم  کو توڑ کر اس ماحولیات دشمن پراجکٹ کو ترک کر دیا جائے اور غیر نقصاندہ متبادل پر غور کیا جائے جس میں چھوٹےباندھ  بنانے اور پچیس میگا واٹ سے کم کے بجلی گھر  قائم کیے جانے کی ماحولیات دوست تجاویز شامل ہیں ۔ برسات کے حالیہ موسم میں منی پور میں آنے والا اچانک سیلاب ( فلیش فلڈ ) کے بعد، اس مطالبے نے نئی شدت اختیار کر لی ہے جس نے امسال ہمیشہ سے زیادہ تباہی مچائی ہے ۔  1983 میں قائم یہ ڈیم  اور پن بجلی گھر 35 سال پرانا ہو چکا ہے اور ڈیموں کی بین ا لا قوامی تاریخ بتاتی ہے کہ ان کی قدرتی زندگی چالیس سال سے زیادہ نہیں ہوتی ۔یہی سبب ہے کہ امریکہ میں 1980 سے اب تک نو سو (900) سے زائد پرانے باندھ (ڈَیم) توڑے جا چکے ہیں !

اسی طرح  فرانس میں متعدد پرانے ڈَیم  توڑ کر وہاں قائم پن بجلی گھر بند کیے جا چکے ہیں اور جاپان  نےبھی  اپنے سب سے پرانے اور سب سے بڑے ’’اَریز ڈَیم‘‘  کو توڑنے کا آغاز کر دیا ہے جو ’کوما ‘ ندی پر واقع ہے اور پورے یورپ میں ہزاروں پرانے ڈَیم بہت جلد ٹوٹنے والے ہیں لیکن بھارت کا باواآدم ہی نرالا ہے ۔یہاں بھی نہ صرف اس معاملے میں امریکہ فرانس اور جاپان  وغیرہ کا تتبع ہونا چاہیے بلکہ ٹہری  اور نرمدا باندھوں کے عوام دشمن اور ماحولیات دشمن پراجکٹوں کو بلا تاخیر ترک کر دیا جانا چاہیے لیکن ہمارے یہاں  ابھی تک صرف ایک ڈیم ، سَوَ اسَو  سال پرانا ’ تاجے والا بیراج ‘جو یمنا نگر ضلع (موجودہ ہریانہ ) میں 1873میں بن کر تیار ہوا تھا ، 1999 میں توڑا گیا ہے لیکن اس کی جگہ دوسرا ’ہاتھی کنڈ بیراج ‘ 2002 میں کھڑا کیا جا چکا ہے ۔ہماری عدالتوں کا رویہ بھی کم و بیش حکومتوں  ہی جیسا ہے ۔کرالا کے اِدُوکی ضلع میں  بہت پرانے ملَّا پیریار ڈیم  کو جو 1895  میں بن کر تیار ہوا تھا، توڑنے کی اجازت دیے جانے کے لیے کچھ ماحولیات دوست این جی اُوز نے  سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا لیکن حیرت انگیز طور پر عدالت عظمیٰ نے ایک سو اٹھارہ سال پرانے اس ناکارہ ، اَز کار رَفتہ اور نقصان دہ ڈیم کو توڑنے کی رِٹ پٹیشن خارج کردی تھی !

مسئلہ یہ ہے کہ منی پور ،آسام ،بنگال ،یو پی اور ملک کے دیگر علاقوں میں ہر سال  آنے والے سیلاب کے نتیجے میں جان و مال کی جو غیر معمولی بر بادی ہوتی ہے اُس کی بنیادی وجہ  زیادہ بارش  یا کوئی قدرتی آفت نہیں ،متعلقہ ندیوں پر بننے والے یہی بڑے بڑے ڈیم ہیں جو ہر سال فلیش فلڈ (اچانک سیلاب ) کا سبب بنتے ہیں ۔ ہوتا یہ ہے کہ ڈیم (باندھ ) بناکر پانی کے جو مصنوعی ذخائر بنائے جاتے ہیں ،اُن میں پانی ذخیرہ رکھنے کی صلاحیت ،دریائی پانی کے ساتھ بہہ کر آنے والی مٹی وغیرہ  کے  مسلسل جمع ہوتے رہنے (سِلٹیشَن )  کی وجہ سے ہر سال کم ہوتی رہتی ہےاورزیادہ سے زیادہ دس پندرہ سال بعد ہی نوبت یہ آجاتی ہے کہ پانی جمع رکھنے کی ڈیموں کی مقررہ صلاحیت آدھی یا اُس سے بھی کم رہ جاتی ہے  اور بارش کے موسم میں وقت سے بہت پہلے ہی  ڈیم چھلک جاتے ہیں اور  اُنہیں ٹوٹنے سے بچانے کے لیے یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ اُن کے فلڈ گیٹ کھول کر فاضل پانی دریاؤں میں چھوڑ دیا جائے ڈیموں سے چھوڑا گیا یہی پانی جو کئی کئی فٹ اونچی پانی کی دیوار کی صورت میں بہتا ہے اپنے راستے میں آنے ہر چیز بہا لے جاتا ہے ۔اسی کو تکنیکی اصطلاح میں ’’فِلؒیش فِلَڈ ‘‘ کہتے ہیں !

  لیکن بڑے باندھوں والی طاقتور قارونی  اور سنگھی لابی ملک کے عوام  کی مصیبتوں میں مزید ناقابل تصور  اضافوں کی سازش کر رہی ہے۔  مرکزی وزارت توانائی کی  کوشش  ہے کہ 25 میگا واٹ سے زیادہ کے پن بجلی گھر (ہائڈل پاور پراجکٹ ) بھی ’قابل تبدیل توانائی ‘(ری نیویبل انرجی ) کے زمرے میں شامل کر دیے جائیں ۔دوسرے لفظوں میں سبھی پن بجلی گھر خواہ وہ کئی سو  یا ہزار میگا واٹ  صلاحیت کے بھی کیوں نہ ہوں قابل تبدیل توانائی کےماحولیات دوست سمجھے جائیں جبکہ ابھی تک اس زمرے میں صرف شمسی توانائی (سولر انرجی ) ہوا توانائی (وِنڈ انرجی ) حیوانی فضلے سے بننے والی بجلی (بایو انرجی ) اور 25 میگا واٹ سے یا اس سے کم صلاحیت والے چھوٹے پن بجلی گھر ہی شامل ہیں ۔مودی حکومت اس ماحولیات دشمن اقدام کے تحت 2022 تک 225 گیگا واٹنام نہاد ’ رینیویبل انرجی ‘کی پیداوار کا نشانہ پورا کرنا چاہتی ہے  ۔دراصل جھوٹ اور مکاری سنگھ پریوار کی گھٹی میں ہے ۔مندرجہ اقدام بھی جھوٹ کو سچ بتانے کے مترادف ہے۔

سوال یہ ہے کہ پھر منی پور کے بی جے پی یونٹ نے ایسا مطالبہ کیوں کیا جو سنگھ پریوار اور بی جے پی کی پالیسی کے خلاف ہے  ؟جواب اِس کے سِوَا اَور کچھ نہیں ہوسکتا کہ سنگھ پریوار اَصلاً موقع  پرست پریوار ہے جس کا ثبوت  گوا ،شمال مشرق اور جنوبی ہند میں اُس کی دوغلی  بیف پالیسی ہےجو شمالی، وسطی اور مغربی بھارت سے بالکل مختلف اور متضاد ہے! دوسرا سبب بھی اُسی موقع پرستی کی کوکھ سے نکلا ہے۔سنگھ پریوار اصلاً ’سورن ہندوؤں ‘ (یعنی نام نہاد اعلیٰ ذات والوں،برہمنوں ،ٹھاکروں اور بنیوں ) کا پریوار ہے جبکہ شمال مشرق اور جنوبی بھارت آدی باسیوں اور دراوڑوں (دلتوں ) کی اکثریت والے علاقے ہیں لہٰذا وہ شمال مشرق، گوا اور جنوبی ہند میں حصول اقتدار کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار  رہتے ہیں ۔ پھر بھی یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا دلی کی عوام دشمن اور غریب دشمن  سرکار اور اُن کی سرپرست قارونی لابی منی پور  کے مطالبے کے سلسلے میں کیا قدم اٹھاتی ہے!

تبصرے بند ہیں۔