علاج اس کا وہی آب نشاط انگیز ہے ساقی

حفیظ نعمانی

بلند شہر کے شرمناک حادثہ کے پانچ دن کے بعد بجائے اس کے کہ اس کے قانونی پہلوؤں پر غور کیا جاتا، اسے آنے والے الیکشن میں استعمال ہونے والی سیڑھی بنایا جارہا ہے۔ وزیر اعلی مسٹر اکھلیش یادو نے ریاست کے سب سے بڑے ذمہ دار کی حیثیت سے متاثرین کے پاس جانے کا فیصلہ کیا تو سنا ہے کہ بی جے پی کے بھی بڑے بڑے لیڈر وہاں پہنچ رہے ہیں ۔ حالانکہ دو دن پہلے صوبائی صدر شری موریہ وہاں جاکر مطالبہ کر آئے ہیں کہ سی بی آئی انکوائری کرائی جائے۔ بے شک یہ سیاہ واقعہ حساس دلوں کو اتنا ہی دہلانے والا ہے کہ وہ بزرگ جنہیں دینی کاموں سے فرصت نہیں رہتی وہ بھی کتاب بند کرکے اور قلم رکھ کر یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ انسان اور کتنا بڑا اور خبیث شیطان بنےگا؟ مولانا حمید الحسن جیسا مذہبی عالم دین اس شیطانیت پر مجبور ہوگیا کہ معلوم کرنے کہ قصور وار کون ہے؟ اور اس لیے دل کا دکھ زبان پر آگیا، اتنی گندی حرکت کا تو کبھی تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا؟

سب سے پہلے پولیس کی شکایت سامنے آئی تھی کہ جب اسے خبر کی گئی تو اس نے وہی اپنا روایتی طریقہ اپنایا کہ چلو آرہے ہیں ، اور وہ اپنی فطرت کے مطابق لیپا پوتی کرنا چاہ رہی تھی مگر ان کے بڑے افسروں اور ایس ایس پی کو بھی جب معطل کردیا تو وہ اتنے بد حواس ہوئے کہ جہاں یہ واردات ہوئی تھی وہاں گرے ہوئے زیور اور موزے بھی نظر نہیں آئے جو دو دن کے بعد ڈی آئی جی کے دورے کے وقت اٹھائے گئے۔

ہمارے محترم مولانا حمید الحسن صاحب قبلہ نے جس درد اور کرب کا اظہار کیا ہے وہ ہم سے زیادہ جانتے ہیں کہ سب سے بڑے قصور واروہ ہیں جنہوں نے سزا اور جزا کے قانون بنائے ہیں، سزا کے قانون اتنے ڈھیلے ہیں کہ کوئی دہشت زدہ نہیں ہوتا۔ اب اسی معاملہ کے لیے کہ جن تین کتوں کو پکڑا ہے۔ اپنی 14 دن کی عدالتی حراست میں جیل بھیج دیا، جو لوگ جیل نہیں گئے ہیں وہ تو یہ سمجھتے ہیں کہ شاید انہیں سزا دے دی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انہیں دارالامان میں پہنچا دیا گیا۔ جہاں وہ تو ان سے نفرت ضرور کریں گے جو قتل، اقدام قتل، ڈکیتی، فوج داری، فریب دہی، یا سیاسی رنجش میں جیل میں ہوں گے۔ ان کے علاوہ جیل کا عملہ ان کے ساتھ وہی سلوک کرے گا جو سب کے ساتھ کرے گا۔ انہیں دونوں وقت کھانا بھی دیا جائے گا۔ ان سے کوئی کام بھی نہیں لیا جائے گا اور کوئی ملنے آئے گا تو ملاقات بھی کرا دی جائے گی۔ اور اگر ان کے پاس پیسے ہوئے تو انہیں جیل میں وہ سب بھی مل جائے گا جو باہر ملتا تھا۔ جیسے شراب مرغ اور مچھلی انڈے۔

رہی یہ بات کہ ایسے گواہ بھی ہوں جنہوں نے دیکھا ہو اور ان کی آپس میں کوئی دشمنی بھی نہ ہو اور یہ جائداد یا عاشقی کا بھی کوئی جھگڑا نہ ہو۔ غرض کہ برسوں قانون کی چھلنی ہی چھانتے رہو اور شک و شبہ کے سوپ میں پھٹکتے رہو اور اس بات سے ڈرتے اور کانپتے رہو کہ کہیں کسی کو غلط سزا نہ دیدی جائے تو پھر اس دن کا انتظار کرنا پڑ گا جب کوئی پارلیمنٹ سے اس کی خاتون ممبر اور اسمبلی سے اس کی خاتون ایم ایل اے کو اٹھا کر لے جائے تو ہر جج قلم کے بجائے تلوار لے کر نکلے اور سر قلم کر تا چلا جائے۔

قرآن کریم جب 15 سو برس پہلے نازل ہونا شروع ہوا تو وہ عربوں کا ملک تھا اور اتنی ہی نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ بت پرستی ہوتی تھی جتنی ہندوستان میں ہورہی ہے۔ وہ سب عرب تھے ان کی زبان عربی تھی جن میں شاعر بھی تھے اور زبان کے ماہر بھی انہوں نے مخالفت تو جان کی بازی لگا کر کی لیکن یہ مان لیا کہ یہ زبان محمدؐ تو کیا لکھیں گے جو سب کو معلوم ہے کہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے؟ لیکن یہ کسی انسان کی بھی نہیں ہے۔ اور بعد میں ماننا پڑا کہ یہ دنیا بنانے والے پاک پرور دگار کی ہے اور وہ ایمان لے آئے۔

ہمارے ملک کے وزیر اعظم اور پارٹیوں کے بڑے بڑے لیڈر لاکھوں روپے خرچ کرکے اجمیر، دیویٰ، کلیر، سر ہند اور دادا میاں کے مزاروں پر قیمتی چادریں کیوں بھیجتے ہیں؟ یہ اور دوسرے تمام بزرگ وہی تو ہیں جو قرآن عظیم کو اللہ کی کتاب مان کر اس پر عمل کرتے تھے۔ اور انہوں نے ہی دنیا کو بتایا کہ اس کتاب پر عمل کروگے تو بیڑا پار ہوجائے گا۔ اس قرآن میں لکھا ہے کہ جان کے بدلے جان آنکھ کے بدلے آنکھ کان کے بدلے کان وغیرہ ایک جاہل کی حیثیت سے عرض کر رہا ہوں کہ ہائی وے پر جوا ہوا اس کے بدلے وہ تو ظاہر ہے کہ سوچا بھی نہیں جاسکتا، ہاں اس کی وجہ سے برسوں جو ماں بیٹی اور دوسروں کی روح میں کچوکے لگتے رہیں گے ان سب کو برسوں زخم دے دے کر تڑپایا جائےنہ انہیں مرنے دیا جائے اور نہ اچھا ہونے دیا جائے ہر دو چار دن کے بعد نیا زخم دیا جائے اور مرنے لگیں تو مرہم لگا دیا جائے اور دیکھنے والا بڑے سے بڑا شیطان پھر ہمت نہ کرے ۔

ابتدا میں اسلام کا قانون اس طرح تھا کہ سزا یا جزا دینے والا پہلے قرآن میں دیکھے یہ دیکھے کہ رسولؐ نے کیا فرمایا ہے۔ بعد میں بڑے صحابہ نے کیا کیا؟ کہیں نہ ملے تو اللہ کا نام لے کر جو ضمیر کہے وہ کرے یا صاحب رائے سے مشورہ کرے۔ قانون بنانے والے سوچ بھی نہیں سکتے تھے انسان اتنا ذلیل شیطان بھی ہوسکتا ہے اس لیے اس مقدمہ کو ہندو مسلم ، سکھ عیسائی مل کر دیکھیں اور ایسی سزا دیں اور ایسی جگہ دیں کہ ہر وقت پوری دنیا دیکھتی رہے۔

اور صرف اس وجہ سے ہے کہ قانون میں جو سزا لکھی ہوئی ہے اسے پیسے لے کر وکیل اتناہلکا کردیتے ہیں کہ سزا معلوم ہی نہیں ہوتی۔ پولیس مینول اور جیل مینول جو انگریزوں نے بنائے تھے ان میں تو قلم نہیں لگایا لیکن جو سزائیں تھیں جیسے آٹے کی چکی چلوانا یا تیل کا کولہو چلوانا جس کے بارے میں آزادی کے متوالوں اور ہمارے علماء نے لکھا ہے کہ اپنے ہی پسینے سے اتنی کیچڑ ہوجاتی تھی کہ پائوں پھسلا کرتے تھے۔

ملک کے بڑے سخت سزا دیتے ہوئے اتنا ڈرتے ہیں کہ جیسے اگر کسی کو ایک دن بھی جیل میں بے سبب رہنا پڑا تو پاپ ہوجائے گا۔ پھانسی کے لیے جسے دیکھئے وہ ایک ہی بات کہتا ہے کہ آپ جو چیز کسی کو دے نہیں سکتے اسے لینے کا بھی اختیار آپ کو نہیں ہے۔اور یہ بقراط یہ نہیں سوچتے کہ بلند شہر ہائی وے پر ان شیطانوں نے جو داغ لگائے ہیں کیا انہیں ان سے دھلوایا جاسکتا ہے؟ کیا اس بہادر معصوم پیاری بچی کو جو خبروں کے مطابق آدھے گھنٹے تک مارشل آرٹ کی مدد سے اپنے کو بچاتی رہی وہ بھی لڑکی اور غیر مسلح ہونے کی وجہ سے اپنا سب کچھ گنوا بیٹھی کیا اسے پورے ملک کی حکومت اور عدالتیں واپس کراسکتی ہیں ؟

ہمارے ملک کے جیو رکشک اور گئو رکشک اس ملک کو کہاں لئے جارہے ہیں انہیں اگر اسلام کی قرآنی یعنی خدائی سزا ئیں نہیں دینا ہیں کیوں کہ مسلمانوں نے آٹھ سو برس ملک کو بنایا سنوارا اور دکھایا کہ اتنے بڑے ملک پر حکومت کیسے کی جاتی ہے؟ تو یہودیوں کی کتاب تو ریت اور عیسائیوں کی کتاب انجیل سے ہی لے لیں یا کم از کم اتنا ہی کریں کہ اگر گینگ ریپ کی سزا دی جائے تو چکی اور کولہو ہی چلوائی جائیں ۔ اس لیے کہ جرائم کو صرف عبرت ناک اور ہیبت ناک سزائیں ہی روک سکتی ہیں۔

زنا بالجبر الگ ہے صرف باہمی رضامندی سے زنا کی سزا قرآن نے سو کوڑے بتائی ہے اور ہدایت نہیں حکم دیا ہے نرمی نہیں پوری طاقت سے کوڑے مارے جائیں اور اسلام کی جب تک حکومت رہی یہ سزا دی گئی۔ لیکن جو بلند شہر ہائی وے پر ہوا اس کے لیے ضرورت تو یہ ہے کہ بڑے بڑے ججوں کا پینل بیٹھے اور کوئی اتنی درد ناک سزا تجویز کرکے فوراً عمل کرائے کہ کئی مہینے تک ایسے شیطانوں کو نیند بھی نہ آئے۔

سعودی عرب میں جب آل سعود کی حکومت قائم ہوئی تو اقوام متحدہ نے ان سے دستور مانگا جواب میں انہوں نے قرآن عظیم کا ایک نسخہ بھیج دیا۔ وہ پوری طرح تو نہیں لیکن اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ قتل کی سزا جرم ثابت ہونے کے بعد قتل ہی ہے۔ آئے دن کسی بڑی مسجد کے سامنے جمعہ کی نماز کے بعد ہزاروں نمازیوں کے سامنے قاتل کی گردن ماری جاتی ہے۔ اور سر لڑھکتا ہوا دور تک چلا جاتا ہے۔ اسے ٹی وی پر بھی دکھایا جاتا ہے۔ نہ جانےکیوں ہمارے ملک میں پھانسی رات کے چار بجے چھپ کر دی جاتی ہے۔ جیسے ہم کوئی چوری کر رہے ہیں اور نہ جانے کتنے ایسے ہوتے ہیں کہ سپریم کورٹ پھانسی کی سزا برقرار رکھتا ہے رحم کی درخواست رد کردی جاتی ہے مگر پھانسی نہیں دی جاتی ۔ ہم مولانا حمید الحسن صاحب قبلہ سے عرض کریں گے کہ قصوروار وہ ہیں جو اس قانون کے رکھوالے ہیں اگر ان کی یہ بزدلی ایسی ہی رہی تو اب کی بار نانی ماں اور نو اسی کے ساتھ وہ ہوگا جو بلند شہر میں ہوا۔ کیوں کہ روکنے والے کائر ہیں وہ صرف رونا جانتے ہیں انتقام لینا نہیں جانتے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔