علامہ شبلی نعمانیؒ کامؤرخانہ امتیاز: تفہیم وتوسیع

 علامہ شبلی نعمانی(1857-1914) انیسویں صدی کے ہندوستان کاایک ایسانام ہے،جس کی تاریخی علمیت،فکری بلندقامتی،ادبی و تنقیدی بصیرت، علمی برتری،تہذیبی آگاہی اور مطالعاتِ اقوام ومذاہب کے باب میںامتیازی شناخت تب سے لے کراب تک قائم ہے،اُنھوںنے بطورِخاص اردوکتب خانے کوایسی قیمتی تصنیفات سے مالامال کیا،جن کی نظیرنہیں ملتی،حقیقت یہ ہے کہ شبلی نعمانی اپنی بے پناہ خدمات اور حصولیابیوںکی بناپرتنِ تنہاایک عہد ہیں، ایک ادارہ ہیں،ایک انجمن ہیںاورایک اکیڈمی ہیں۔قدرت نے اُنھیں ایسے اساتذہ،پھررفقاے کاراورماحول سے نوازا،جنھوںنے مل کر ان کے علمی وفکری ذوق کی آبیاری کی اورعنفوانِ شباب سے ہی ان کی تصنیفی صلاحیت،فکری تعمق اور گیرائی کے نمونے سامنے آنے لگے۔

     یوںتوشبلی نے علم و ادب ،تاریخ وتہذیب اور فکروفلسفہ کے بیشتر موضوعات کواپنی قلم را نی کاموضوع بنایااوران میں سے ہرایک کاحق اداکیا؛لیکن خاص طورسے تاریخ نگاری اورمؤرخانہ تحقیق و تدقیق کی جونیوشبلی نے اٹھائی،اس میں وہ یکتاومنفردتھے،ان کاکوئی مثیل نہ تھا،اُنھوںنے اردوزبان میں تاریخ نگاری کی گویا باقاعدہ اساس رکھی،بقول مہدی افادی شبلی اردوزبان میں’’تاریخ کے معلمِ اول‘‘ہیں۔پھرچوںکہ ان کامطالعہ وسیع اورعلمی جغرافیہ طویل و عریض تھا، سو انھوںنے اپنی دقتِ نظری ودیدہ وری سے تاریخ نگاری کے ایسے اصول مقرر کیے،جوکم ازکم اردوزبان میں ان کے دورمیں بالکل نایاب تھے، انھوںنے اپنی تصنیفات میں تحقیق و تنقیدِمعلومات کے جدید ترضابطوںکوبرتااور اس وجہ سے بھی ان کی تحریروںکوغیر معمولی مقبولیت وشہرت حاصل ہوئی،وہ اپنی تحریروںمیں صرف معلومات کی جگل بندی پر انحصارنہیں کرتے تھے؛بلکہ ان کی چھان پھٹک کرکے کھرے اور کھوٹے میں تمیزبھی کرتے تھے، شبلی نے اردو زبان کوتاریخ نگاری کاسلیقہ دیااورتحقیق و تنقیدکی بنیادیں فراہم کیں۔دوسری جانب انھوں نے پوری ہنرمندی اور قوتِ استدلال کے ساتھ اسلامی تاریخ کی خصوصیات و اوصاف پرقلم اٹھایااور مستشرقین کے اتہامات کامنہ توڑجواب دیا،اسلام کی علمی بنیادوں، مآخدومنابع،پس منظروپیش منظرکی ایسی تصویرکشی کی کہ معاصردنیادنگ رہ گئی!

     شبلی نے اپنی عملی زندگی کے آغازمیںہی اردوزبان میں اسلامی تاریخ اور تہذیبی و سیاسی سرمایے کی حد درجہ قلت کوشدت سے محسوس کیااورتبھی ان کے دل میں خیال میں آیاکہ اسلامی تاریخ کے تسلسل کوعلمی اعتبار سے بھی دنیاکے سامنے پیش کیاجائے اوراُن شخصیات وافرادکے سوانح لکھے جائیں، جنھوں نے فی الجملہ مسلمانوںکی اجتماعی زندگی پرکسی بھی طرح کااثرڈالاہے۔یہ خیال جب ان کے دل میں آیا تب وہ جوانِ رعناتھے،جذبۂ عمل تاب ناک اورحوصلۂ کار قوی ترتھا اورپھربہت جلد اُنھوںنے اپنے منصوبے پر عمل بھی کرناشروع کردیا،جس کے نتیجے میں ان کے ذریعے ’’المامون‘‘(1888ء)،’’سیرۃ النعمان‘‘ (1890ء) ، ’’الفاروق‘‘ (1899ء)’’الغزالی‘‘(1901ء)’’سوانح مولاناروم‘‘(1906ء)’’سیرۃ النبیﷺ‘‘(ابتدا:1912ء)جیسی عظیم الشان تصنیفات اوران کے علاوہ اورنگ زیب عالمگیر، مکتبہ اسکندریہ،ذمیوںکے حقوق،جزیہ،عہدِاسلامی کے تعلیمی نظام اوردیگر بیسیوں موضوعات پرتاریخی وتحقیقی مقالات اوررسائل سے اردو دنیا بہرہ ورہوئی۔

     اردومیں تاریخ نویسی وسوانح نگاری کے منفردطرزکی ایجادکے حوالے سے اردوکے اکابراہلِ تنقیدوبصیرت نے ان کے تفوق کوتسلیم کیاہے ،آل احمدسرور ’’مولانا شبلی کامرتبہ اردوادب میں‘‘(طبع اول:1945)کے مقدمے میں لکھتے ہیں:

’’انھوںنے اردومیں تاریخ کاذوق پیداکیا،خودبڑی اچھی سوانح عمریاں اور تاریخیںلکھیں اور تحقیق و تدقیق،واقعات کی چھان بین اور مآخذکی تلاش اور تاریخ میںایک صاف اور واضح نقطۂ نظر؛ان سب کی اہمیت دکھائی اورجتائی‘‘۔

شیخ محمداکرام تصانیفِ شبلی کو’’اردوادب کازیور‘‘قراردیتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’مولانانے ہندوستانی مسلمانوںکوصحیح طورپراسلامی تاریخ سے روشناس کرایا اور یہ الفاروق،المامون،الغزالی،سیرۃ النعمان ہی کافیض ہے کہ ہندوستان کے خواندہ مسلمانوںکو ان عظیم الشان شخصیتوںسے خاصی واقفیت ہے‘‘۔(موجِ کوثر،ص:226،ط:ادارۂ ثقافتِ اسلامیہ لاہور،1979ء)

 مہدی افادی کایہ تبصرہ بھی معنی خیزہے کہ:

’’عام مصنفین کے خلاف،جوچندکتابوںسے موٹے موٹے واقعات لے کرایک تاریخ یاسوانح عمری مرتب کردیاکرتے ہیں،مولاناتمام ذخیرۂ کتب، جو دست رس میں ہوتاتھا،نہایت غورواحتیاط سے مطالعہ کرتے تھے اور اکثرجزئیات ایسی کتابوںسے اور کتاب کے ایسے گنجلک مقامات سے تلاش کرلیتے تھے، جن پرکسی کی نظرنہیںپڑتی تھی،پھران جزئیات کوایسی خوب صورتی سے ترتیب دیتے تھے کہ جس سے بہتر ترتیب نہیں ہوسکتی،اس کے ساتھ مولاناجوکچھ لکھتے تھے،وہ نہایت حزم و احتیاط سے اورانتہائی تحقیق و تنقید اور اصولِ فلسفۂ تاریخ کے مطابق‘‘۔(تذکرہ شمس العلمامولاناشبلی،ص:48)

      ایک اورچیز،جوخاص طورسے ذکرکیے جانے کے قابل ہے کہ شبلی کی تصنیفات کازمانہ انیسویں صدی کانصفِ آخرہے،جب اردوزبان معانی واسالیب اور طرزہاے تعبیر کے اعتبار سے اُس قدرثروت مندنہیں ہوئی تھی،جتنی کہ آنے والی صدیوںمیں ہوئی؛لیکن اس کے باوجودشبلی کی تصنیفات کامطالعہ کرتے ہوئے ہمیں ذرابھی احساس نہیں ہوتاکہ ہم1900ء سے پہلے یابیسویںصدی کی پہلی دہائی کی اردوکتاب کامطالعہ کررہے ہیں،اس کی ایک وجہ توشبلی کی علمی و ادبی صلاحیت کی بے کرانی ہے اور دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنی تحریرکوطباعت کے اسٹیج تک پہنچنے سے پہلے کئی بارتصحیح و تنقیدکے مرحلے سے گزارتے تھے،وہ صرف مضمون اور موادومعلومات کی عمدگی و استنادپرہی توجہ نہ دیتے؛بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کازورلفظوںکی تراش خراش،اسلوبِ بیان کوخوب سے خوب تر بنانے پر بھی ہوتاتھا؛یہی وجہ ہے کہ ان کے بغیراردوادب واسلوبِ تحریرکے’’ عناصرِخمسہ‘‘ کی تکمیل نہیں ہوتی۔ سرسیداحمد خان نے ان کے خوب صورت طرزِ نگارش پرتبصرہ کرتے ہوئے ’’المامون‘‘کے دیباچے میں لکھا:

’’یہ کتاب اردوزبان میں لکھی گئی ہے اورایسی صاف وشستہ اور برجستہ عبارت ہے کہ دلی والوںکوبھی اس پر رشک آتاہوگا‘‘۔

’’المامون‘‘میں اسلوبِ شبلی کے تعلق سے سیدصباح الدین عبدالرحمن کایہ تبصرہ بھی خاصاحقیقت افروز ہے کہ:

’’مولانانے یہ کتاب اس وقت لکھی،جب وہ تیس برس کے جوان تھے،جوانی تمام رعنائیوںکواپنی آغوش میں لینے کی خواہاں ہوتی ہے،مولاناکی جوانی کی رعنائیاںاس کتاب میں گل وصنوبربن کر دکھائی دیتی ہیں،آگے چل کر انھوںنے اوربھی کتابیں لکھیں؛لیکن اس کتاب میں قدم قدم،روش روش پر جو رنگینیاں دکھائی دیتی ہیں،وہ شعرالعجم کے علاوہ ان کی کسی اورکتاب میں نہیں پائی جاتی ہیں،مگرشعرالعجم حسن و عشق کا صحیفہ تھا،اس کے لکھنے میں قلم کی سرشاریاں خود رہنما بنی ہیں؛لیکن’’ المامون‘‘ میں تاریخ کے خشک واقعات سمیٹے جارہے تھے،اس کومولانانے اپنے ادب وانشا کے حسن کاصحیفہ بنادیاہے‘‘۔(علامہ شبلی کی المامون پر ایک نظر، معارف، شمارہ: جنوری1985،ص:42)

     ویسے شبلی کی تاریخی وسوانحی تصنیفات کے مطالعے سے ان کی تاریخ نویسی کے کچھ بنیادی اصول سامنے آتے ہیں،ان کاذکرکہیں توخود انھوںنے اپنی مختلف تحریروںمیںکیاہے اوربعض ان کی نگارشات کے مطالعے سے اخذکیے جاسکتے ہیں، ڈاکٹرمحمدسہیل شفیق،اسسٹنٹ پروفیسر،شعبۂ اسلامی تاریخ جامعہ کراچی (جنھوںنے  چھ سوسے زائد صفحات پرمشتمل ’’معارف ‘‘کانوے سالہ (جولائی1916تامئی2005)نہایت ہی قیمتی اشاریہ مرتب کیا اور گزشتہ دنوں ’’معارف ‘‘میں علامہ شبلی نعمانی کی تاریخ نویسی کے حوالے سے شائع شدہ مضامین کو’’معارفِ شبلی‘‘کے نام سے جمع کرکے شائع کیاہے )نے اپنے مطالعات کی روشنی میںاُن اصول کی نشان دہی کی ہے ،جنھیں شبلی نے اپنی تاریخی وسوانحی تصانیف میں برتاہے ،تلخیص وترمیم کے ساتھ ان کاذکرفائدے سے خالی نہیںہے:

1-شبلی کے نزدیک تاریخ کا سب سے بڑا اصول یہ ہے کہ تاریخ صرف سیاسی امور پر مشتمل نہ ہو؛ بلکہ ادبی تہذیب و تمدن کی سرگزشت بھی ہو، جس میں اجتماعاتِ انسانی کی معاشرت، اخلاق، عادات، مذہب؛ ہر چیز کے متعلق معلومات کا سرمایہ مہیا کیا جائے۔

2-شبلی نے مؤرخ کے لیے صحتِ واقعہ میں روایت کے پہلو بہ پہلو درایت سے کام لینا بھی ضروری قرار دیا ہے؛بلکہ اپنے تمام اصولِ تاریخ نویسی میں سب سے زیادہ زور اسی پر دیا ہے۔

3-سبب یعنی Cause کا سلسلہ تلاش کیا جائے ،کہ اس کے بغیر حقیقت تک رسائی ممکن نہیں۔

4-شبلی کے نزدیک فلسفہ، انشا پردازی اور تاریخ کی سرحدیں جدا جداہیں، ان میں وہی فرق ہے، جو ایک خاکے، نقشے اور تصویر میں ہوتا ہے۔ مؤرخ کا فرض یہ ہے کہ وہ سادہ واقعہ نگاری سے تجاوز نہ کرے،البتہ شبلی کی خصوصیت یہ ہے کہ سادہ واقعہ نگاری میں بھی پرکاری اور بیان و اسلوب کے حسن کومکمل طورپرملحوظ رکھتے ہیں؛اس لیے تاریخ نگاراگر ایک طرف شبلی ہے اور دوسری طرف کوئی اور،توقاری غیرمحسوس طورپرتحریرِشبلی کی طرف کھنچتاچلاجائے گا۔

5-شبلی تاریخ کو ملّی تناظر میں دیکھتے ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ اُنھوں نے ’’المامون‘‘ کے مقدمے میں لکھاہے:

 ’’ہندوستان کی بہت سی تاریخیں لکھی گئیں اور مغلیہ و تیموریہ حکومت کے کارنامے بڑی آب و تاب سے دکھائے گئے؛ لیکن ظاہر ہے کہ ہندوستان کی مجموعی تاریخ بھی ہماری قومی تاریخ کا ایک بہت چھوٹا حصہ ہے۔‘‘(ص:2،ط:دارالمصنفین اعظم گڑھ)

6-اسلام اور مسلمانوں سے متعلق یورپ کے کذب و افترا اور ان کی تاریخی غلطیوں کا ازالہ علامہ شبلی کی زندگی کا خاص مقصد اور مشن تھا، جرجی زیدان کی تاریخِ تمدنِ اسلامی کی مدلل تردیداور دیگر کتبِ سیروتاریخ میں مستشرقین کے اتہامات کاتعاقب شبلی کاخاص امتیازِ تحریرہے۔

7-ان کی یہ خصوصیت بھی قابلِ ذکرہے کہ جہاںوہ چھوٹے سے چھوٹے تاریخی جزئیے کوبھی دلیل اورحوالے سے مبرہن کرتے ہیں،وہیں وہ جن کتابوں کا حوالہ دیتے ہیں ،ان کے پایۂ اعتبار و استناد کوبھی بیان کرتے جاتے ہیں،حتی کہ بہت سی دفعہ ان کے مصنف کے علمی واخلاقی احوال پربھی گفتگوفرماتے ہیں۔

8-شبلی کے نزدیک مغربی مصنفین کی غلط بیانیوں کی وجہ تعصب کے علاوہ یہ بھی تھی کہ وہ پرانے زمانے کا مقابلہ جدید دور سے کرتے ہیں؛حالانکہ یہ ایک غلط اصول ہے اور مؤرخانہ دیانت داری و ہمدردی کا تقاضا ہے کہ ہم ماضی کو صرف ماضی کی نگاہ سے دیکھیں ۔شبلی نے ’’المامون‘‘کی ابتدامیں اس کی طرف واضح اشارہ کیاہے۔

9-دوسری وجہ یہ ہے کہ بہت سے مغربی مؤرخین نے بنوامیہ یابنوعباسیہ کے بعض خلفاکے ذاتی اعمال و افعال کوراست طورپر اسلام سے منسوب کرکے مذہبِ اسلام کوموردِالزام ٹھہرانے کی مذموم حرکت کی ہے؛حالاںکہ یہ قطعاً نامناسب ہے؛کیوںکہ اگرعیسائیوں یایہودیوںکی سیاسی تاریخ کامطالعہ کریں، توبداطواربادشاہوںکی ایک لمبی فہرست ملتی ہے؛لیکن کیاان افرادکی وجہ سے ان کے مذہب کوکٹہرے میں کھڑاکرنادرست ہوگا؟

10- شبلی کے نزدیک یورپ کے تاریخی ذخیرے میں ایک بہت بڑا نقص یہ بھی ہے کہ اس میں راوی کے ثقہ یا غیر ثقہ ہونے کی پروا نہیں کی جاتی؛بلکہ اگر کوئی ایسا موقع پیش آجاتا ہے ،تو ہر قسم کی بازاری افواہیںبھی قلم بند کرلی جاتی ہیں، جن کے راویوں کا نام و نشان تک معلوم نہیں ہوتا، ان افواہوں میں سے وہ واقعات الگ کرلیے جاتے ہیں ،جو عقل کے معیار پر پورے اترتے ہیں، پھر ایک ’’کتاب‘‘ یا تاریخ بنالی جاتی ہے اور یہی اصولِ تصنیف ہے ،جو یورپ کی تصانیف کی بنیاد ہے۔

11-شبلی اسلامی علوم پر مکمل عبور رکھتے تھے اور اسلامی تاریخ و تہذیب پر ان کی نظر گہری تھی، نئے حالات، رجحانات، تازہ افکار و خیالات اور جدید مسائل و تحقیقات بھی ان کے لیے انوکھے اور نامانوس نہ تھے؛اس لیے مستشرقین کے اعتراضات کی تہہ تک پہنچنے اور ان کے مدلل اور محققانہ جوابات دینے میں انھیں دشواری نہیں ہوئی۔

12-مواد کی ترتیب و تحلیل اور تنقید و تجزیے کی شرط تحقیق کو اول اول اردو میں شبلی نے ہی برتا اور فنی طور سے برتا؛یہی وجہ ہے کہ شبلی کی تمام تصانیف میں مختلف و متضادروایات کے مابین محاکمہ و نقد ملتا ہے اور صحیح کو غلط سے ممیزکیا جاتا ہے۔

13-شبلی کاایک امتیازِتصنیف یہ بھی ہے کہ انھوں نے ہر ایک تصنیف کے مواد کے حصول کے لیے سیکڑوں مآخذ کے ہزاروں صفحات کھنگالے اور زیرِ خیال یا زیرِ قلم تالیف کے لیے تمام ممکنہ مراجع کا پتا لگایا، ان کو مختلف کتب خانوں میں تلاش کیا، ان کا مطالعہ کیا، ضروری معلومات اخذ کیں اور ہر طرح سے ان کو حاصل کیا۔یہ ان کے ذوقِ علمی اور شوقِ مطالعہ کی بے پناہی تھی کہ وہ جب کسی موضوع پرلکھنے کامن بنالیتے تھے،تواس سے متعلق مواداور مراجع کے حصول کے لیے نہ صرف متحدہ ہندوستان؛بلکہ بیرونِ ہندکے اسفارکے لیے بھی ہمہ دم تیاررہتے اورجس جگہ کے بارے میں انھیں پتالگتاکہ ان کے کام کی چیزوہاںدستیاب ہے،توہزارجتن کرکے اسے حاصل کرتے۔

     شبلی نے ان اصولوںکواپنی تمام تر تاریخی وسوانحی تصانیف میں خوبی کے ساتھ برتاہے،اس سلسلے کی ان کی سب سے پہلی تصنیف ’’المامون‘‘ہے،جوعلی گڑھ میں ملازمت کے ابتدائی دنوںکے دوران لکھی گئی ہے۔’’المامون‘‘کے مقدمے میں شبلی نے پہلے اُن اسباب و علل پرروشنی ڈالی ہے،جو اس کتاب کے لکھنے کے لیے محرک ثابت ہوئے۔شبلی کویہ احساس ہواکہ اردوزبان بتدریج ایک علمی زبان کے طورپرابھررہی ہے اورمستقبل میں اس کادائرۂ اثرمزید وسیع ہونے والاہے؛لیکن اس وقت تک علماکے طبقے میں اردوکووہ توجہ حاصل نہ تھی،جوعربی اور فارسی زبان کوحاصل تھی،عام طورپرتدریس و تالیف کے لیے انہی زبانوںکااستعمال ہورہاتھا،جبکہ دوسری جانب نئی نسل تیزی سے اردوزبان کونہ صرف قبول کررہی تھی؛بلکہ اس زبان میں تصنیف وتحریر کابھی باقاعدہ سلسلہ شروع ہوچکاتھا،نوجوان طبقہ اردوزبان میںپڑھنااور لکھناچاہتاتھا،مگر اس کے سامنے اسلامی تاریخ کاکوئی ایساذخیرہ نہیں تھا،جس پروہ اعتمادکرتا،چوںکہ وہ عربی زبان سے ناواقف تھا؛اس لیے اپنی قومی تاریخ سے نابلدرہ گیااورانشاپردازی کے دوسرے شعبوںمیں مصروف ہوگیا۔اسی پس منظرمیںعلامہ نے اسلامی حکومتوںکی ایک مبسوط و مفصل تاریخ لکھنے کاتہیہ کیا؛لیکن اس سلسلے میں بعض وجوہ سے وہ اس ترتیب کوملحوظ نہ رکھ سکے،جوان کے ذہن میںتھی اور مختلف اسلامی خلفااور حکمرانوںمیں جوان کے نزدیک عظیم الشان تھے،ان سب کی سوانح مرتب اندازمیں نہ لکھ سکے،خلفاے راشدین میں وہ حضرت عمربن خطابؓ،بنوامیہ میںولیدبن عبدالملک،بنوعباس میں مامون رشید،اندلس کے بنوامیہ میں عبدالرحمن ناصر،بنوحمدان میں سیف الدولہ،سلجوقیوںمیںملک شاہ، نوریہ میں نورالدین زنگی،ایوبیہ میں سلطان صلاح الدین ایوبی،موحدینِ اُندلس میں یعقوب بن یوسف اور ترک حکمرانوںمیں سلیمانِ اعظم کونامور فرماں روا تسلیم کرتے ہیں ،گو انھوںنے حضرت عمربن خطابؓکی سوانح لکھنے کاعزم کررکھاتھا،جسے بعدمیںنہایت ہی دیدہ ریزی واہتمام سے پورابھی کیا، مگر مامون رشیدسے آغازکرناخودان کی طے کردہ ترتیب کے خلاف تھا،سوانھوںنے کتاب کے مقدمے میں اس کااظہارکرتے ہوئے معذرت بھی کی ہے:

’’اس بات کامجھ کوافسوس ہے کہ چندمجبوریوںکی وجہ سے اس سلسلے میں ترتیب کی پابندی نہ کرسکا اور خلفاے راشدین و بنوامیہ کوچھوڑکر پہلے اس خاندان کولیا، جوترتیباًتیسرے نمبرپرتھا،آیندہ بھی شایدمیں ترتیب کی پابندی نہ کرسکوں؛لیکن یہ قطعی ارادہ ہے کہ اگر زمانہ نے مساعدت اور عمرنے وفاکی،تواس سلسلے کے کل حصے جس طرح ہوسکے گا،پوراکروںگا‘‘۔(ص:5)

     اسی طرح انھوںنے ہارون رشیدکے بالمقابل مامون کو خلفاے بنوعباسیہ کا’’ہیرو‘‘قراردینے کی وجہ بھی بیان کی ہے۔اصل کتاب دوحصوںمیں منقسم ہے ،پہلے حصے میںانہی احوال وواقعات کاذکرہے ،جوعموماً اس قسم کی کتا بوںمیں بیان کیے جاتے ہیں،مامون کی زندگی کے تمام ترسانحات کونہایت ہی حزم و احتیاط سے بیان کیاگیاہے اوراس سلسلے میں شبلی نے ابن جریرطبری،مسعودی،واقدی،ابن الاثیرجزری،ابن خلدون،ابوالفداء،ذہبی،ابن قتیبہ اور بلاذری وسیوطی وغیرہ عرب مؤرخین کی کتابوںکے ساتھ مغربی مصنفین میںگبن،کارلائل،بکل اورہیگل وغیرہ کی تصانیف کوبھی پوری باریک بینی سے پڑھا ہے،اس کی وجہ سے شبلی کی تحریروںمیں مستندمعلومات کے ساتھ جدیدطریقۂ استنتاج وطرزِنگارش کے بھی بہترین نمونے پائے جاتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔