مسلمانوں میں اجتماعی قیادت کی باتیں

 یو این آئی کی ایک خبر کے مطابق پٹنہ میں  ایک مسلم کانفرنس جس کے نام کے ساتھ آل انڈیا بھی چسپاں  ہے منعقد ہوئی۔ کانفرنس کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر عبداللہ مدنی نے مسلمانوں  میں  ایک متحدہ قیادت یا اجتماعی قیادت کی تجویز پیش کی جسے کانفرنس کے  قومی صدر شمائل نبی صاحب نے تائید کی۔ شمائل نبی صاحب بہار حکومت میں  وزیر بھی رہ چکے ہیں۔  اس تجویز کی مضحکہ خیز بات وہ نام ہیں  جو ملی رہنماؤں  کی فہرست میں  جوڑا گیا ہے اور ان سے سر جوڑ کر مل بیٹھنے کی درخواست کی گئی ہے۔ ان میں  بدنام زمانہ مختار عباس نقوی، سید شہنواز حسین اور ایم جے اکبر کے نام بھی شامل ہیں۔

 بہار الیکشن کے زمانہ میں  نقوی نے کہا تھا کہ جن کو گائے کا گوشت کھانا ہو وہ پاکستان یا عرب چلے جائیں۔  سید شہنواز اور ایم جے اکبر بھی نقوی صاحب کے چھوٹے اور بڑے بھائیوں  میں  سے ہیں۔  یہ سب مسلمانوں  کی دشمن جماعت بی جے پی میں  کرتا دھرتا ہیں۔  وہ بی جے پی جس نے پانچ سو سالہ بابری مسجد کو دن دہاڑے منہدم کیا اور اس جگہ رام مندر کی تعمیر کیلئے رام للا کی موتی بٹھادی جس کی پوجا پاٹ آج تک ہوتی ہے۔ جو پارٹی مسلمانوں  کی کھلم کھلا دشمن ہو اور محض گائے کے گوشت کے شبہ میں  یوپی کے دادری میں  محمد اخلاق کا قتل کردے اور ان کے گھر والوں  کا جینا حرام کردے۔ بہارکے الیکشن میں  بی جے پی کا کہنا تھا کہ ایک طرف گائے کے گوشت کھانے والے ہیں  اور دوسری طرف گئو ماتا کے پجاری ہیں۔  ایک صاحب جو بی جے پی کے لیڈر ہیں  ان کا بیان تھا کہ جو مودی کو ووٹ نہ دیں۔  انھیں  پاکستان بھیج دیا جائے۔

 بہر حال اس وقت یوپی میں  الیکشن ہونے جارہا ہے۔ امیت شاہ اور ان کی پارٹی کا منشور ہے کہ وہ رام مندر بنائیں  گے اور پورے صوبہ میں  ذبیحہ پر پابندی عائد کردیں  گے۔ اس پارٹی کا مذہب ہندوتو ہے جس کے بارے میں  ساورکر نے کہا تھا کہ ہندستان میں  ہر مذہب کے لوگ ہندوتو سے تعلق رکھتے ہیں۔  آر ایس ایس جس کی کوکھ سے بی جے پی جیسی فرقہ پرست پارٹی وجود میں  آئی ہے اس کا لٹریچر کس قدر زہر آلود ہے اسے کون نہیں  جانتا؟ گولوالکر کی کتاب "A Bench of Thoughts” میں  لکھا ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد محمد علی جناح سے بی زیادہ خطرناک تھے کیونکہ وہ تقسیم ہند کے مخالف تھے اور مسلمانوں  کو ہندستان میں  پیر جمائے رہنے کی تلقین کرتے تھے۔ ایسی پارٹی کے لوگوں  کا چند سیکولر اور کچھ ملی اور اسلامی لیڈرں  اور رہنماؤں  کے ساتھ نام لینے والے حقیقت میں  ایم جے اکبر، نقوی اور شہنواز کو ملی کرن کرکے مسلمانوں  کیلئے قابل قبول بنانے کیلئے غالباً کوشاں  ہیں۔

  شمائل نبی صاحب مسلم مجلس مشاورت کے غالباً رکن ہیں،  کلکتہ میں  جو لائی کے مہینہ میں  مشاورت کا جو اجلاس منعقد ہوا تھا موصو ف اس میں  شریک ہوئے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مشاورت کے مقصد وجود سے شمائل نبی واقف نہیں  ہیں ،  اس لئے انھوں  نے ایک اور پارٹی بناکر اس کے صدر بن گئے ہیں۔  شمائل نبی صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ مسلم مجلس مشاورت کا مقصد وجود ہے کہ مسلمانوں  کی تمام جماعتیں  مل جل کر اس مشترکہ پلیٹ فارم سے مشترکہ مسائل کے حل کیلئے کام کریں۔  اس پلیٹ فارم کے سب سے پہلے بانی صدر سید محمود صاحب کا تعلق بہار سے ہی تھا۔ ان کے بعد جو لوگ صدر بنے وہ ہیں  مفتی عتیق الرحمن، ذوالفقار اللہ، مولانا محمد سالم، سید شہاب الدین اور ڈاکٹر ظفر الاسلام۔ اس جماعت میں  مولانا علی میاں ؒ،  مولانا منظور نعمانیؒ، مولانا ابواللیث ندویؒ، مولانا محمد مسلمؒ جیسی معتبر وجید شخصیتیں  شامل تھیں۔  شروع میں  تقریباً تمام جماعتیں  اور تمام چیدہ شخصیتیں  مشاورت میں  شامل تھیں۔  اس جماعت کا ایسا پس منظر اور کام ہے کہ اس سے کسی اور مشترکہ وفاقی تنظیم کا مقابلہ نہیں  کیا جاسکتا۔ اسی کی کوکھ سے مسلم پرسنل لاء بورڈ نے بھی جنم لیا۔ اس وقت نوید حامد صاحب اس کے صدر ہیں۔  وہ سماجی اور ملی شخصیت ہیں  اور مشاورت کو متحرک اور سرگرم عمل دیکھنے کے خواہشمند ہیں  مگر جو لوگ مختلف جماعتوں  میں  شامل ہیں  وہ عام طور پر دو موقعوں  پر سرگرم عمل نظر آتے ہیں ۔  ایک جب ملک گیر سطح پر مشاورت کے قومی صدر کا انتخا ب ہوتا ہے اور دوسرا وہ موقع ہوتا ہے جب کسی شہر میں  مشاورت کا اجلاس ہونے والا ہوتا ہے۔

   مسلم پرسنل لاء بورڈ کا معاملہ تو یہ ہے کہ صدر کا الیکشن میں  کوئی ہماہمی نہیں  ہوتی ہے، کسی طرح اتفاق رائے خواہی نخواہی طور پر ہو جاتا ہے یا کرلیا جاتا ہے۔ ہاں  اجلاسوں  کے موقع پر ہماہمی نظر آتی ہے۔ اس کے بعد ایسا لگتا ہے کہ چراغوں  میں  روشنی نہ رہی، جبکہ بورڈ مسلمانوں  کی سب سے بڑی نمائندہ جماعت بن کر ابھرا ہے۔ جو لوگ ملت سے تعلق رکھتے ہیں  اگر وہ ملت کی جماعتوں  اور دو بڑی اور اہم تنظیموں  سے واقف ہیں  اور ڈیڑھ اینٹ کی مسجد یا مسجد ضرار نہ بنانا چاہتے ہوں  تو ان کیلئے یہ دو مشترکہ پلیٹ فارم کام کرنے کیلئے کافی ہیں۔  مسلمانوں  کو جہاں  یہ تعلیم دی گئی ہے کہ وہ جماعت سے چمٹے رہیں  وہاں  یہ بھی تعلیم دی گئی ہے کہ وہ خواہ دو یا دو سے زائد ہوں  اپنے سے موزوں  ترین آدمی کو اپنا رہبر یا رہنما بنالیں۔  ان کی خصوصیات کا بھی قرآن و احادیث میں  ذکر کیا گیا ہے۔ جو لوگ مسلمانوں  کے اندر منافقین کو بھی رہنمائی کا تمغہ دینا چاہتے ہیں  ان سے ملت یا امت کو چوکس اور چوکنا رہنا چاہئے۔ ایسے لوگ مسلمان رہنما نہیں  رہزن ہیں  جو دن کی روشنی میں  مسلمانوں  کو سمجھا رہے ہیں  کہ نقوی اور شہنواز جیسے فرقہ پرست پارٹی کے حاشیہ بردار بھی مسلمانوں  کے رہنما اور رہبر ہوسکتے ہیں۔  مسلمانوں  کا دن اتنا خراب نہیں  ہوا ہے کہ اپنے قاتلوں  اور ظالموں  یا ان کے ہم نواؤں  کو اپنا رہبر یا رہنما تسلیم کرلیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔