علماء اپنی تقاریر کا انداز بدلیں!

ڈاکٹر محمد واسع ظفر

  ہمارے دیار میں نماز جمعہ سے قبل عام طور پر تقریر کا رواج ہے جو بعض جگہوں پر تو خطبہ کا ہی حصہ ہوتا ہے اور بعض جگہوں پر خطبہ پر اضافہ ہوتا ہے جو عام طور سے مسجد کے امام یا کوئی مقرر کردہ خطیب جو باضابطہ عالم ہی ہوتے ہیں کیا کرتے ہیں ۔ رائج دونوں طریقوں میں کون سا طریقہ بہتر ہے یہ بحث کا ایک الگ موضوع ہے اور راقم کی غرض یہاں اس مسئلہ پر بات کرنا نہیں ہے بلکہ ان تقاریر کے موضوعات اور اسلوب و انداز پر گفتگو کرناہے۔لیکن اس سے پہلے اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ ان تقاریر کی کئی وجوہات سے بڑی اہمیت ہے۔پہلے پورے شہر میں ایک جامع مسجد ہوا کرتی تھی اور جمعہ میں سارے شہر کا اجتماع ہوا کرتا تھاتو پوری مسلم آبادی میں کسی پیغام کو پہنچانے میں اور انہیں ایک فکر پر مجتمع کرنے میں یہ خطبہ بہت ہی مؤثر ہوا کرتا تھا لیکن اب تو ہر مسجد جامع مسجد میں تبدیل ہوگئی تو ان خطبوں اور تقاریر کی وہ قوت اور تاثیر نہیں رہی جو کبھی ہوا کرتی تھی ، تاہم ان کی اہمیت اور افادیت آج بھی مسلم ہے۔جمعہ میں پورے شہر کا نہیں تو کم از کم پورے حلقہ کا اجتماع ضرور ہوتا ہے اور لگ بھگ تمام عاقل و بالغ مسلمان سوائے ان چند ناعاقبت اندیشوں کے جو جمعہ کی نماز بھی نہیں پڑھتے، مساجد میں موجود ہوتے ہیں ۔ان میں اکثریت انہیں لوگوں کی ہوتی ہے جنہیں کبھی کسی مدرسہ یا کسی اور طرح کے دینی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کا کوئی اتفاق نہیں ہوا۔

ایسے تمام لوگوں کے اندر اسلامی فکرپیدا کرنے اور انہیں بنیادی اسلامی تعلیمات سے روشناس کرنے کے لئے ان تقاریر اور خطبوں سے بہتر کوئی اور متبادل نہیں ۔پھر ان ہی لوگوں کے ذریعہ وہ تمام باتیں عورتوں تک بھی پہنچتی ہیں ۔ لیکن نہایت ہی قلق اور افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ علماء ان تقاریر کا وہ فائدہ نہیں اٹھا پارہے ہیں جو ان سے متوقع ہے۔ یوں تو راقم کو اس کا احساس ہمیشہ ہی رہا ہے لیکن حال میں طلاق ثلاثہ پر میڈیا کے ذریعہ چھیڑی گئی بحث میں اس کا احساس اور بھی زیادہ ہوا جب دیکھا کہ عصری علوم کے فارغین کا ایک بڑا طبقہ دشمنان دین کے منہ سے منہ ملاکر شریعت پر تنقیدیں کررہا ہے اور علماء کو بھی تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے بلکہ کوس رہا ہے۔یہ اس حقیقت کا پرتو ہے کہ علماء نئی نسل کی فکری تربیت میں بالکل ناکام رہے ہیں ۔ نئی نسل کی تربیت میں ہونے والی کمیوں کے ذمہ دار یکساں طور پر والدین بھی ہیں اور خاندان ومعاشرہ بھی لیکن یہاں راقم صرف اس بات کا تجزیہ کر رہا ہے کہ علماء جو کچھ کر سکتے تھے یا یوں کہیے کہ ان کے ذمہ جو کام تھاکیا انہوں نے اسے خوش اسلوبی سے انجام دیا؟ اس سوال کا جواب نفی میں نہیں تو اثبات میں بھی دینا مشکل ہے۔

 عموماً یہ دیکھا جاتا ہے کہ ائمہ و خطباء بروز جمعہ کچھ بھی بیان کرکے اپنی ذمہ داری سے سبک دوش ہوجاتے ہیں ۔کئی بار تو یہ سمجھنا بھی مشکل ہوتا ہے کہ ان کی تقریر کا موضوع کیا تھا؟ ایسا لگتا ہے کہ تقریر سے قبل نہ ہی انہوں نے کوئی منصوبہ بندی  (planning) کی ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی مطالعہ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ پورے بیان میں بہکتے ہی رہتے ہیں ۔ایک موضوع پر مرتکز رہ کر اس کے مختلف پہلوؤں کی وضاحت کرتے شاید ہی کسی کو دیکھا ہو ۔بعض تو حالات حاضرہ پر تبصرہ کرنے میں ہی پورا وقت ضائع کردیتے ہیں ۔ انہیں یہ بھی خیال نہیں رہتا کہ میڈیا کے یلغار کے اس دور میں لوگ حالات حاضرہ سے ان سے کم واقف نہیں ہوتے بلکہ زیادہ ہی ہوتے ہیں ۔ مقتدیوں میں جو لوگ پڑھے لکھے ، باشعور اور حساس ہوتے ہیں وہ اس طرز عمل سے بہت نالاں رہتے ہیں لیکن لحاظاً کچھ بول نہیں پاتے اور اگر کوئی بولنے کی ہمت بھی کرتا ہے تو اس کی سنی نہیں جاتی ۔سنی صرف ایک ہی آدمی کی جاتی ہے اور وہ ہے مسجد کا سکریٹری یا صدر جو آج کل عموماً دین سے نابلد لوگ ہی ہوتے ہیں جنہیں اس بات کی کوئی سمجھ نہیں ہوتی کہ کیا ہونا چاہیے اور ہو کیا رہا ہے؟

اسی طلاق ثلاثہ کے موضوع پر تبادلہ خیال کے دوران ہمارے ایک مخلص بزرگ نے جو پیشہ سے ڈاکٹر رہے ہیں ایک ایسی بات کہی کہ راقم بالکل سکتہ میں آگیا۔ انہوں نے یہ کہا کہ آپ ان علماء سے معاشرہ کے اصلاح کی کیا امید رکھتے ہیں جو مسجد میں 20-25 سالوں سے امامت کر رہے ہیں اور آج تک اپنے مقتدیوں کی نماز تک درست نہیں کراسکے، نماز تو دور انہیں مسجد میں آنے جانے اور وقت گزارنے کے آداب تک نہیں سکھا سکے۔بات توان کی کسی حد تک صحیح تھی کیوں کہ راقم نے بھی کبھی کسی عالم کو ان موضوعات پر بات کرتے نہیں دیکھا اور نہ ہی کبھی کسی کو مسائل پرگفتگو کرتے ہوئے دیکھا ہے ، الا ماشاء اللہ ! وجہ جہاں تک سمجھ میں آتی ہے یہ ہے کہ مسائل پر گفتگو کرنے کے لئے گہرے مطالعہ کی ضرورت پڑتی ہے جو یا تو وہ کرنا نہیں چاہتے یا ان کے پاس وقت نہیں ہوتا۔ راقم یہ باتیں صرف اس لئے لکھ رہا ہے تاکہ علماء کو یہ بات سمجھ میں آئے کہ لوگ ان کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں اور ان سے لوگوں کی کیا توقعات ہیں ؟ دشمنان دین کی چل رہی سازشوں اور وقتی تقاضوں سے مسلمانوں کو واقف کرانا کوئی بری بات نہیں لیکن اسے صرف سیاق (context)  کے طور پر لینا چاہے اور اس کے دفاع کے طریقے اور لائحہ عمل پر مرکوز (focus) کرنا چاہیے نہ کہ اس پر تبصروں میں ہی پورا وقت ضائع کردینا چاہیے۔

موضوعات کے انتخاب کے سلسلہ میں علماء کو بہت محتاط ہونا چاہیے۔اول درجے میں ایمان و عقائد کو رکھنا چاہیے اور اس کے تمام جزو اور اس کے تقاضوں کو کھول کھول کر بیان کرنا چاہیے۔بہت سے لوگوں کو تو یہی پتہ نہیں کہ ہم مسلمان کس وجہ سے کہلاتے ہیں اور کن خیالات و عقائد سے ان کا ایمان باطل ہو جائے گا۔ ایمان کے مسائل کو نہیں جاننے کی وجہ سے ہی بہت سے لوگ شرک و بدعات میں مبتلا ہیں ۔فکر و خیالات کی درستگی کے بعد ان موضوعات کا انتخاب کرنا چاہیے جن کا تعلق براہ راست لوگوں کے عمل سے ہے۔بہت سے علماء ایسے موضوعات میں ہی الجھے رہتے ہیں اور مقتدیوں کو بھی الجھائے رکھتے ہیں جن کا ان کے عمل سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا اور ان کے مقتدیوں کا یہ حال ہوتا ہے کہ وضو کیسے ٹوٹ جاتا ہے اس کا پتہ نہیں ۔ طہار ت کے مسائل ، نماز ادا کرنے کا صحیح طریقہ، اس کے فرائض و واجبات کی جانکاری،سنن و مستحبات کا علم، سجدہ سہو کے مسائل ، نماز کن باتوں سے فاسد ہوجاتی ہے وغیرہ مسائل سے کتنے لوگ واقف ہیں لیکن کبھی کوئی ان موضوعات پر بات نہیں کرتاحالانکہ ضرورت اس بات کی تھی کہ ایک ایک باب پر ترتیب وار گفتگو کی جاتی۔

اسی طرح دیگر عبادات مثلاً روزہ کے مسائل، زکوٰۃ و صدقات، قربانی و عقیقہ کے مسائل ، جنازے کے احکام و مسائل وغیرہ بھی بیان کئے جانے چاہیے۔ ان کے بعد اسلامی معاشرے کے آداب و حقوق اور معاشرتی فقہی مسائل کے ایک ایک باب کو ترتیب وار بیان کرنا چاہیے۔ ان مسائل کو اگر اچھے طریقے سے عوام کو سمجھایا گیا ہوتا تو آج نکاح و طلاق سے متعلق مسائل جو پوری ملت کی پریشانی اور رسوائی کا باعث بنے ہوئے ہیں نہ بنتے ۔ اس کے بعداسباب معیشت یعنی روزی کے مختلف ذرائع و کاروبار، ان سے متعلق مسائل اور ان میں حلال و حرام کے تصور کو بھی سمجھانا ضروری ہے کیوں کہ مشاہدہ یہ ہے کہ لوگ حلال و حرام کی تمیز بھی کھوتے جارہے ہیں جو کبھی مسلمانوں کی ایمان کے بعد سب سے بڑی خوبی تصور کی جاتی تھی۔اسی طرح مختلف قسم کے معاملات، معاہدات، وصیت ، شہادت وغیرہ کے احکام الغرض کہ بے شمار مسائل ہیں جن سے لوگ قطعی نابلد ہیں اور ان پر گفتگو کرنے کی سخت ضرورت ہے۔اگر آدمی عوام کے ا صلاح کی فکر رکھے تو موضوعات کی کوئی کمی نہیں لیکن موجودہ صورتحال سے تو یہ لگتا ہے کہ انہیں موضوعات ہی نہیں مل رہے۔وہی روایتی قسم کے موضوعات موقعہ بر موقعہ دہرائے جاتے ہیں ۔ امام کو چاہیے کہ اپنے مقتدیوں میں جو تعلیم یافتہ اور دینی شعور رکھنے والے افراد ہیں ان سے بھی وقتاً فوقتاً اس سلسلہ میں feedback  (مشورے) لیتے رہیں اس لئے کہ علم رہنے کے باوجود بعض دفعہ کئی باتیں خود کے ذہن میں نہیں آتیں ۔

 دوسری اہم تبدیلی طرز تقریر میں لانے کی ضرورت ہے۔ہمارے دیار میں تقاریر میں چیخنے چلانے کا بڑا رواج ہے اور ایسے ہی لوگوں کو لوگ اچھا مقرر سمجھتے ہیں حالانکہ یہ طریقہ سراسر غلط ہے اور سنت سے بھی میل نہیں کھاتا۔ جس طرح تمام کاموں کا سنت طریقہ ہے، تقریر و خطاب کا بھی ہے جس سے علماء خوب واقف ہیں ،اسے اپنانا چاہیے۔نبی کریم ﷺ کسی بات کو خوب اطمینان سے تین تین بار بیان کرتے تاکہ ہر کوئی سمجھ لے۔آپؐ کی تقریریں اور خطبے بہت طویل بھی نہیں ہوا کرتے تھے۔سب سے بڑا خطبہ جو آپؐ کا کتابوں میں منقول ہے وہ حجۃ الوداع کا ہے جو مشکل سے دو صفحات پر مشتمل ہے۔آپؐ کا ارشاد بھی ہے ’’ اِنَّ طُوْلَ صَلَاۃِ الرَّجُلِ وَ قِصَرَ خُطْبَتِہِ مَئِنَّۃٌ مِنْ فِقْھِہِ فَأَطِیْلُوا الصَّلَاۃَ وَاقْصُرُوا الْخُطْبَۃَ‘‘ جس کا مفہوم یہ ہے کہ ’’ آدمی کا نماز لمبی اور خطبہ مختصر پڑھنا اس کے دین کی سمجھداری کی علامت ہے لہٰذا تم نماز لمبی پڑھو اور خطبہ مختصر دو۔‘‘ (صحیح مسلم ،کتاب الجمعۃ ، باب تخفیف الصلاۃ و الخطبۃ، بروایت عمار بن یاسرؓ)۔

ہمارے بعض علماء اتنی لمبی گفتگو کرتے ہیں کہ لوگوں کی طبیعت بھی اکتاہٹ کا شکار ہوجاتی ہے۔ تیسری چیز یہ ہے جس مسئلہ کو بیان کریں بالکل سیدھے اور سپاٹ انداز میں بیان کریں ، فلسفیانہ طریقہ نہ اختیار کریں ،باتیں بالکل اختصار کے ساتھ (precise) ،ٹھیک ٹھیک (to the point) لیکن دلائل کے ساتھ ہوں ۔اس کے لئے قبل از بیان مطالعہ اور پلاننگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ کم وقت میں تقریر کرنا ہو تو پلاننگ کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔بیان کے موضوع کو ذیلی موضاعات میں تقسیم کرنا چاہیے، پھر ہر ذیلی موضوع کے تحت آنے والے نقطوں کی نشاندہی کرلینی چاہیے تاکہ تقریر کے دوران موضوع سے بہکیں نہیں ۔ پلاننگ نہیں کرنے کی وجہ سے لوگ اس قدر بہکتے ہیں کہ بعض خطیب کا تو حال یہ دیکھا ہے کہ انہوں نے خطبہ مسنونہ میں قرآن کی آیات یا احادیث پڑھ کر جو موضوع قائم کیا اسے بھول گئے اور تمام باتیں اس سے ہٹ کر ہی کرتے رہے یہاں تک کہ بیان اختتام کو پہنچ گیا لیکن ان آیات و احادیث کی وضاحت کی نوبت نہیں آئی۔چوتھی بات یہ کہ جس موضوع کو لیں اس کو conclude   بھی کریں یعنی خلاصہ کے ساتھ اختتام تک پہنچائیں ،اگلے دن پر نہ ٹالیں اس لئے کہ کوئی ضروری نہیں کہ جو شخص آج نماز جمعہ آپ کی اقتدا میں ادا کر رہا ہے وہ اگلا جمعہ بھی آپ کے ساتھ ہی ادا کرے گا ۔ موضوع کی تکمیل سے کم از کم وہ پوری بات تو سن کر جائے گا۔ اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے موضوعات کے تعین میں اس کے دائرے میں آنے والے مواد (contents)  کی مقدار کا بھی خیال رکھا جائے۔

ایک اور چیز جس میں تبدیلی کی ضرورت ہے وہ تقریر کا پیرایہ و اسلوب ہے۔راقم کا احساس یہ ہے کہ بعض مقررین کو یہی سمجھ میں نہیں آتا کہ کسی موضوع پر گفتگو کیسے کی جائے اور اپنے موقف کی تائید میں دلائل کیسے لائے جائیں ؟ ۔اور بعض جگہوں پر تو دلیل کے نام پر ایسی بے سر و پا اور اوٹ پٹانگ باتیں اور قصے کہانیاں سننے کا اتفاق ہو اکہ سچ مچ کا سر میں درد ہونے لگا۔احساس ہوا کہ ایسے بیانات پر کچھ یہی حال ہر حساس آدمی کا ہوتا ہو گا لیکن راقم کا تعلق چونکہ درس و تدریس کے فن (اساتذہ کی ٹریننگ) سے ہے اس لئے تقاریر (lectures) کے فنی پہلو سے واقفیت کی وجہ سے کچھ زیادہ ہی احساس ہوتا ہے۔بہتر یہ ہے کہ کسی بھی موضوع یا مسئلہ پر سب سے پہلے نص قطعی یعنی قرآن کریم سے دلائل لینے چاہیے، پھر سنت (احادیث) سے کیوں کہ سنتیں قرآن کی عملی تفسیر ہیں ، پھر آثار صحابہؓ یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے اقوال و افعال سے۔

اس کے بعدفقہاء ، مفسرین اور ائمہ مجتہدین کے اقوال کا نمبر آتا ہے، پھر بزرگان دین کے اقوال اور زہد و تقویٰ سے متعلق ان کی زندگی کے سچے واقعات لئے جاسکتے ہیں ۔اگر اس اسلوب کواختیار کرلیا جائے تو باتیں اپنے موضوع پر بھی رہیں گی اورمسئلہ کی حقیقت کو سمجھانے میں بھی آسانی ہوگی۔ان چند باتوں کا بھی علماء، ائمہ و خطباء خیال کرلیں تو انداز تقریر بہت کچھ بدل جائے گا۔اور سب سے اہم بات یہ کہ نیت ہمیشہ اپنی اور مخاطب کی اصلاح کی ہو، فقط اظہار علم مقصود نہ ہو۔ ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ روایتی تقریر کرکے  و ما علینا الا البلاغ کہہ دینا تو بہت آسان ہے لیکن قوموں کی اصلاح اور انہیں امت بنانے کی فکر بہت آسان نہیں ہے ۔اس کے لئے دن رات کی فکر اور تگ و دو کی ضرورت ہوتی ہے اور مجھے یقین ہے علماء ہی اس کام کو کرسکتے ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ امت کے اندر آج جس درجہ میں بھی دین باقی ہے وہ علماء ہی کی کاوشوں کا نتیجہ ہے اور مستقبل میں بھی اگر کوئی بڑی تبدیلی واقع ہوگی تو وہ بھی علماء ہی کے ذریعہ ہوسکتی ہے۔مجھ جیسوں کی سنتا بھی کون ہے ؟ میں تو صرف اتمام حجت کے لئے کچھ لکھ دیتا ہوں یا بول دیتا ہوں تاکہ بروز حساب اللہ کے سامنے یہ کہہ سکوں کہ اے میرے رب! تیرے دین کے دفاع اور احیاء و بقا کے لئے مجھ ناتواں سے اتنا ہی ہو سکا اور ہوسکتاہے کسی دیوانے کے دل میں کوئی بات بھی اتر جائے۔

راقم کااحساس ہے کہ علماء کے طرز خطاب کی اصلاح کی تجاویز دے کراس نے چھوٹا منہ بڑی بات والے مقولہ کو صادق کیا ہے لیکن اس کی نیت کسی پر تنقید یا کسی کی تنقیص کی نہیں بلکہ علماء سے عوام کو پہنچنے والے دینی فوائد کو مزید وسعت دینے کی ہے اور امید قوی ہے کہ علماء راقم کو مجبور سمجھ کر ضرور معاف فرمائیں گے لیکن اپنے روایتی بیانات سے ضرور پیچھا چھڑائیں گے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ اس بندہ عاجز کو بھی عمل کی توفیق عطا کرے اور اس کی تمامتر صلاحیتوں کو عافیت کے ساتھ اپنے دین کے احیاء و بقاء اور غلبہ حق کے لئے قبول فرمالے۔آمین!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔