صلح حدیبیہ کا ایمان افروز واقعہ

تحریر: حافظ محمد ادریس … ترتیب: عبدالعزیز

 تاریخ اسلام میں صلح حدیبیہ ایک عظیم واقعہ ہے۔ قرآن مجید نے اسے فتح مبین قرار دیا ہے۔ اس معاہدے سے قبل قریش نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو عمرے کی ادائیگی سے روک دیا تھا۔آپؐ حدیبیہ کے مقام پر مقیم ہوگئے تھے۔ اس دوران یہ کوشش ہوتی رہی کہ جنگ نہ ہو، اگر چہ قریش جنگ پر تلے ہوئے تھے۔ آپؐ نے حضرت عثمانؓ کو گفت و شنید کیلئے اپنا سفیر بنا کر مکے بھیجا۔ حضرت عثمانؓ کو سفیر بنانے کی رائے حضرت عمرؓ نے پیش کی تھی، کیونکہ ان کا خاندان بنو اُمیہ اس وقت مکے کا سب سے طاقتور گھرانہ تھا اور حضرت عثمان طبعاً بھی حلیم اور نرم مزاج تھے۔ حضرت عثمانؓ اس ذمہ داری کو ادا کرنے کیلئے مکہ روانہ ہوئے۔ راستے میں وادیِ بلدح کے قریب بعض مشرکین نے ان پر ہاتھ اٹھانا چاہا تو خاندانِ بنو امیہ کے لوگ آڑے آگئے۔ بنو امیہ کے ایک شخص اَبان بن سعید بن العاص نے کہاکہ خبردار! عثمانؓ کو کوئی زک نہ پہنچائے۔ اس کے بعد ابان بن سعید حضرت عثمانؓ کو اپنے ساتھ لے کر چل پڑا اور اعلان کیا کہ عثمان بن عفانؓ اس کی امان میں ہیں ۔ یہ ابان حضرت عثمان کا چچا زاد تھا اور اس کے د وبیٹے خالد بن ابانؓ اور عمر بن ابانؓ السابقون الاوّلون میں شمار ہوتے ہیں ۔ وہ دونوں ہجرت حبشہ میں بھی شریک تھے۔ وادیِ بلدح میں حضرت عثمانؓ نے قریش کے قائدین سے ملاقات کی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمانؓ کو یہ ہدایت فرمائی تھی کہ قریش کو دعوت دینا کہ وہ اسلام قبول کرلیں ، ہم اور وہ ایک ہوجائیں گے۔ اگر انھیں یہ بات قبول نہ ہو تو پھر ہمارے ساتھ جنگ بندی قبول کرلیں اور ہمیں اور دیگر عرب قبائل کو ہمارے حال پر چھوڑ دیں ۔ حضرت عثمانؓ نے انہی الفاظ میں یہ پیغام پہنچایا۔ قریش نے دونوں باتیں مسترد کر دیں ۔ واقدی نے تو اس موقع پر حضرت عثمانؓ کو پوری تقریر نقل کی ہے جو بہت جامع اور حکمت و نصائح سے مالا مال ہے۔ واقدی پر بعض محققین رافضی ہونے کا الزام لگاتے ہیں مگر اس کی مغازی میں جگہ جگہ صحابہ کرامؓ کے مناقب و کارنامے اس انداز میں بیان کئے گئے ہیں کہ اس الزام کو قبول کرنا انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔ (تفصیل کیلئے دیکھئے: المغازی للواقدی، ج 2، ص600/601)

وادیِ بلدح میں دیگر سردار تو موجود تھے مگر ابو سفیان نہ تھا۔ اَبان بن سعید نے حضرت عثمانؓ کو کہا کہ وہ انھیں شہر کے اندر لے چلتا ہے۔ حضرت عثمانؓ نے رضا مندی ظاہر کی تو ابان بن سعید نے ان کو اپنے گھوڑے پر اپنے پیچھے بٹھالیا۔ راستے میں کئی مشرکین نے حضرت عثمانؓ کو پہچان لیا اور ان پر ہاتھ اٹھانے کا ارادہ بھی کیا مگر جب دیکھا کہ ان کا ایک سردار اپنے گھوڑے پر انھیں بٹھائے چلا آرہا ہے تو سمجھ گئے کہ وہ اس کی امان میں ہیں ؛ چنانچہ سب نے اپنے ہاتھ روک لئے۔ ابان بن سعید حضرت عثمان کو لے کر سیدھا ابو سفیان کے پاس گیا۔ ابو سفیان اپنے بھتیجے کو دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اس نے آگے بڑھ کر ان کا استقبال کیا اور عزت و تکریم سے بٹھایا۔ حضرت عثمانؓ نے ا س کے سامنے بھی وہی بات رکھی جو اس سے قبل وادیِ بلدح میں دیگر زعمائے قریش کے سامنے پیش کر چکے تھے۔ اس موقع پر صفوان بن امیہ بھی ابو سفیان کے گھر میں موجود تھا۔ دیگر سرداروں کی طرح ان دونوں سرداروں نے حضرت عثمانؓ کی دعوتِ اسلامی کو قبول کرنے سے انکار کیا اور اپنے موقف سے دستبردار نہ ہوئے لیکن حضرت عثمانؓ سے کہا کہ وہ شہر میں جہاں چاہیں ان کو جانے کی اجازت ہے۔ انھوں نے آپؓ سے یہ بھی کہاکہ خانہ کعبہ کا طواف کریں اور عمرہ ادا کرلیں ۔ یہ کمال ایمان افروز منظر تھا جب حضرت عثمانؓ نے دو ٹوک انداز میں فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ کو طواف کعبہ کی اجازت نہ ملے تو میں ان کے بغیر طواف کرنا ہرگز گوارا نہیں کرتا۔ حضرت عثمانؓ اگر طواف کرلیتے تو اس کا جو ثواب ملتا وہ تو ملتا لیکن اپنے دین اور اپنے قائد خاتم النّبیینؐ کے ساتھ اس وابستگی کے نتیجے میں یقینا انھیں اس سے کہیں زیادہ ثواب اور اجر ملا ہوگا۔ (اس واقعہ کی تفصیل دیکھئے: تاریخ طبری، جلد دوم، صفحہ 631 اور اس سے آگے)

حضرت عثمانؓ کے مکہ روانہ ہونے کے بعد صحابہؓ سوچ رہے تھے کہ ان کو تو بیت اللہ کے طواف کی سعادت مل جائے گی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بعض صحابہؓ نے کہاکہ یا رسولؐ اللہ! عثمان خوش قسمت ہے کہ وہ اب تک بیت اللہ کا طواف کر چکا ہوگا جبکہ ہم پر راستے بند کر دیئے گئے ہیں ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی باتیں سن کر فرمایا کہ میں نہیں سمجھتا کہ عثمانؓ نے طواف کیا ہوگا۔ صحابہؓ نے عرض کیا یارسولؐ اللہ! وہاں پہنچ کر کون سی چیز مانع ہے، تو آپؐ نے حضرت عثمانؓ پر اپنے اعتماد اور حسن ظن کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: مجھے اس کے بارے میں یہی نیک گمان ہے کہ وہ اس وقت تک طواف نہیں کرے گا جب تک ہمیں بھی طواف کا موقع نہ مل جائے۔اس واقعہ کی تفصیلات بھی واقدی نے بیان کی ہیں ۔ (دیکھئے جلد دوم، صفحہ 601 تا 603)

 جب حضرت عثمانؓ واپس پلٹے تو بعض ساتھیوں نے ان سے کہا: ’’عثمانؓ! تم نے اپنی آنکھیں اور دل طواف بیت اللہ سے ٹھنڈا کرلیا ہوگا‘‘۔ حضرت عثمانؓ نے یہ سن کر کہا کہ بھائیو! میرے بارے میں تم نے بہت غلط رائے قائم کی۔ مجھے قریش نے طواف کی بہت ترغیب دی مگر میں نے انکار کر دیا۔ بخدا اگر میں ایک سال بھی وہاں رہتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہؓ کے بغیر طواف نہ کرتا۔ یہ ہے عشق رسولؐ اور اسلام کے ساتھ غیر متزلزل اور والہانہ عقیدت۔ اس عمل سے بخوبی معلوم ہوسکتا ہے کہ حقیقی نیکی اور عبادت کیا ہے۔

ایک اور واقعہ جو واقدی ہی نے بیان کیا ہے حضرت عثمانؓ کی سیرت کی جامعیت کو بہت نمایاں کرتا ہے۔ مکہ میں انھیں گھومنے پھرنے کی چونکہ آزادی تھی اور قریش نے انھیں چند دنوں تک وہاں روکے رکھا تھا اس لئے آپؓ نے اپنے اس قیام اور آزادی کو خوب استعمال کیا۔ انھیں معلوم تھا کہ مکہ میں کئی مستضعفین (عورتیں ، بچے، غلام اور مسکین لوگ) اسلام قبول کرچکے تھے مگر ان میں ہجرت کی ہمت اور سکت نہ تھی۔ ان میں سے بعض مبتلائے آزمائش و امتحان بھی تھے۔ حضرت عثمانؓ نے اس فرصت کو غنیمت جانتے ہوئے ان سب لوگوں سے فرداً فرداً ملاقاتیں کیں اور انھیں حوصلہ اور تسلی دی کہ ابتلا کا یہ دور بہت جلد ختم ہونے والا ہے اور اسلام کے غلبے کا وقت قریب ہے۔ ان مجبور اہل ایمان کو اس ملاقات سے بڑی تسلی ملی۔ انھوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنا سلام اور نیک تمنائیں پہنچائیں ۔ یوں فتح مبین تو قدم قدم پر جلوے دکھا رہی تھی۔

تبصرے بند ہیں۔