علم اور مال

محمد شاہد خان

علم اور دولت دونوں اللہ کا فضل ہیں لیکن دونوں بسا اوقت انسان میں شکر الہی پیدا کرنے کے بجائے غرور پیدا کردیتے ہیں کیونکہ جس طرح علم نفع بخش ہوتا ہے اسی طرح غیر نفع بخش بھی ہوتا ہے ایک حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ‘علم لا ینفع‘  کہہ کر غیر نفع بخش علم سے پناہ مانگی ہے بالکل یہی معاملہ دولت کا بھی ہے، دولت نفع بخش بھی ہوتی ہے اور غیر نفع بخش بھی ہوتی ہے، اگر علم کا استعمال انسانیت کی ترقی، رشد وہدایت اور مسائل و مشکلات سے نجات کیلئے ہو تو وہ علم عین مطلوب ہے اسی طرح سے اگر دولت کا استعمال بھی انسانی ترقیات اور فلاح وبہبود کیلئے ہو وہ دولت بھی قابل رشک ہے کیونکہ جہاں علم سے نئے نئے افکار اور ideas کا ظہور ہوتا ہے تو مال سے ان افکار اور آئیڈیاز میں رنگ بھرنے میں مدد ملتی ہے گویا کسی خواب کو تعبیر نصیب ہوجاتی ہے اسلئے دونوں اپنی جگہ بہت اہم ہیں۔

علم اور مال دونوں کسبی ہیں آپ یہ کہہ سکتے ہیں علم صرف اور صرف کسبی ہوتا ہے لیکن مال موروثی بھی ہوتا ہے تو میں یہ عرض کروں گا کہ جس طرح مال موروثی بھی ہوتا ہے اسی طرح علم بھی موروثی ہوسکتا ہے مثلا اگر کسی کے خاندان میں علماء کی بھرمار ہو یا اس کے خاندان میں بے شمار شعراء وادبا ء پیدا ہوئے ہوں تو اس خاندان کے ادنی سے ادنی فرد پر علم اور شعروادب کے چھینٹے پڑ ہی جائیں گے اور وہ اس عام آدمی سے ہر حال میں بہتر ہوگا جو کسی ان پڑھ خاندان میں پیدا ہوا ہو اور ہم نے جس طرح مروثی مالداروں کو دیکھا ہے اسی طرح موروثی علماء خلفاء اور سجادہ نشینوں کو بھی دیکھا ہے اسی لئے جس طرح علم بغیر محنت کے حاصل نہیں ہوسکتا اسی طرح مال بھی بغیر تگ ودو کے حاصل نہیں ہوسکتا، لیکن اگر وہ بغیر محنت کے وراثۃً مل بھی گیا ہو لیکن اگر اسکی ترقی اور حفاظت پر دھیان نہ دیا جائے تو وہ سرعت کے ساتھ ختم بھی ہوجاتا ہے۔

مسلمانوں کو یہ مشکل اسوقت پیش آئی ہے جب بعض علماء اور صوفیا نے زہد تقشف پر ضرورت سے زیادہ زور دیا اور مال کو صرف سرکشی اور طغیانیت کا سبب سمجھا اس افراط وتفریط کی وجہ جو بھی رہی ہو لیکن ان کے اس بیانیہ سے امت کو بڑا نقصان پہونچا۔
زمانہ قدیم سے ہی انسانی سماج میں صاحب علم اور صاحب مال دونوں کو یک گونہ فضیلت حاصل رہی ہے، جس شخص کے پاس صرف علم رہا ہے اسے بھی عزت کی نظر سے دیکھا گیا ہے اور جس شخص کے پاس صرف مال رہا ہے اسے بھی مقام ومرتبہ حاصل رہا ہے اور جس شخص کو علم اور مال دونوں نعمتیں حاصل رہی ہیں ، اسکے رتبہ کا کیا پوچھنا۔

انبیاء میں حضرت سلیمان علیہ السلام صحابہ میں حضرت عثمان غنی، علماء میں امام ابوحنیفہ، عبداللہ ابن مبارک اور امام مالک وغیرہ اسکی روشن مثالیں ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ دونوں میں اہم کون ہے، تو میرے نزدیک دونوں ہی اہم ہیں۔ علم انسان کو معرفت ذات اور تہذیب نفس عطا کرتا ہے تو مال اسکی زندگی کی بنیادی ضروریات کو پوری کرتا ہے اور باعزت زندگی کی ضمانت دیتا ہے۔  سماج کیلئے دونوں ہی بہت اہم ہیں اور دونوں ہی سماج میں اپنے گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں بلکہ سماج کو چلانے والے یہی دونوں طبقے ہیں ۔

جس کے پاس صرف علم ہوتا ہے وہ بسا اوقات مال والے سے حسد کرتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ علم جب اسکے پاس ہے تو دولت بھی اسی کے پاس ہونی چاہئے  اسی طرح سے مال والا شخص علم والے شخص سے حسد کرتا ہے وہ سوچتا ہے کہ دنیا تو اسکے پیسوں سے چلتی ہے لیکن اچھی باتیں اچھی گفتگو اچھے افکار ونظریات تو علم والے کے پاس ہیں میرے پاس کیوں نہیں ، اسی لئے جب جاہل آدمی کے پاس پیسہ آتا ہے تو وہ پیسہ ترفہ، نام ونمود اور سرکشی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے اسی کو حدیث شریف میں ‘غنی مطغیا ‘کہا گیا ہے۔

ايك سوال یہ اٹھتا ہے کہ کسی بھی سماج میں صرف علم والے کے اثرات زیادہ ہوتے ہیں یا صرف مال والے کے ؟ میرے نزدیک صاحب مال کے اثرات زیادہ ہوتے لیکن وہ وقتی ہوتا ہے اور اسکے اثرات اپنے زمانہ تک محدود ہوتے ہیں جب کہ صاحب علم کے اثرات دیرپا ہوتے ہیں اور بسا اوقات کئی صدیوں تک محیط ہوتے ہیں۔

موجودہ زمانہ مسلمانوں کے تجارت ومعیشت میں پیچھے رہ جانے کا ایک اہم سبب موجودہ بینک کاری کے نظام سے دوری بھی ہے اسوقت دنیا کی پچھتر فیصد معیشت بینکوں کے ذریعہ چلتی ہے اور دنیا کے ننانوے فیصد بینک سودی نظام پر چلتے ہیں اور چونکہ سود حرام ہے اسلئے مسلمانوں کا متوسط درجے کا دین پسند طبقہ بینک سے معاملات کرنے میں حرج محسوس کرتا ہے۔

میں یہ نہیں سمجھتا کہ اس دور میں کوئی بھی شخص مال یا اسکے حصول کو برا سمجھتا ہے بلکہ ہم نے ایسے مولاناؤں کو دیکھا ہے جو دن رات مادیت کے خلاف تقریریں کرتے ہیں لیکن اپنی روح بیچ کر دن رات اسی مادیت کے پیچھے بھاگتے ہیں کیونکہ مال میں بہت چمک اور کشش ہے۔

غالبا علامہ سید سلیمان ندوی نے فرمایا تھا کہ علم اور دولت دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے شاید اسکی وجہ یہ ہے کہ دونوں ہی محنت طلب ہیں اور دونوں فیلڈ میں محنت کرکے کمال حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے اسی لئے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ جیسے علماء کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔

مدارس عربیہ میں حصول مال کو دنیا طلبی سمجھا جاتا شاید اسی وجہ سے وہ اسکی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ ان کا مقصد ‘دعاۃ ‘ کا تیار کرنا ہے جو دین کی دعوت وتبلیغ کا کا م کرسکیں اسلئے وہ کبھی حصول مال کی ترغیب نہیں دیتے۔

موجودہ زمانہ کی تجارت معیشت اور نوکریوں کی حیثیت اور تقاضا گزشتہ ادوار سے یکسر مختلف ہے اس دور میں مسلمان وہ تعلیم حاصل نہیں کرپارہا ہے جو اسے اعلی درجے کی نوکریاں دلواسکے اور سودی نظام کے تحت ہندستان میں (عرب ممالک کے مسلمان اس سے مستثنی ہیں وہ اپنے ملکوں میں سودی بینکنگ نظام کے تحت تجارت کررہے ہیں) تجارت کی ان شکلوں پر غور نہیں کرپا رہا ہے کہ جن وسائل کو اختیار کرکے برادران بہت آگے نکل چکے ہیں۔

علم اور مال دونوں کے حصول پر زور دینے کی ضرورت ہے جس شخص میں دونوں کا سنگم ہوجائے تو وہ نور علی نور ہوتا ہے ورنہ پھر غیرمتوازن رویوں کا ظہور ہوتا ہے۔

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    علم اورعقل

    یہ حقیقت ہے کہ زیادہ عقل رکھنے والے لوگوں کی علوم وفنون کی دنیا میں حکمرانی ہے ۔
    رب کائنات نے خود قرآن پاک میں فرمایاکہ ، ہم نے عقل سے بہتر کو ئی چیز پیدا نہیں کی ۔
    موجودہ سائنسی دور کا عروج صرف اور صرف اعلیٰ ذہن رکھنے والے لوگوں کے کارناموں کی عکاسی کرتا ہے۔ انسان کو اس کائنات میں اشرف المخلوقات کا درجہ صرف عقل کی اضافی خاصیت کے باعث ملا ۔ باقی تمام تر عوامل اور عناصر کے لحاظ سے انسانوں اور باقی مخلوق میں بہت کم فرق ہے۔۔
    جب ہم ادب کی دنیا میں جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہاں ہمیں دانش ور ، ادیب اور شاعر ، مصنف نظر آتے ہیں۔ یہ تمام لوگ عقل کی سرحدوں کو عبور کرکے شعور ، لاشعور ، تحت الشعور اور تخیل کی دنیا میں کھوجاتے ہیں اور پھر اک نئی دنیا تخلیق کرتے ہیں۔
    عقل کے ان اجزائے ترکیبی شعور، لاشعور، تحت الشعور اور تخیل کے بغیر نا تو دنیا میں کوئی ادب تخلیق ہوسکتاہے اور نہ ہی کوئی سانئس کی نئی ایجاد ۔

تبصرے بند ہیں۔