علومِ اسلامیہ میں خواتین کی خدمات

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

[راقمِ سطور کو کلیہ اصول الدین(شعبۂ خواتین)، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد (پاکستان) کی دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس بہ عنوان’عصر حاضر میں علوم اسلامیہ کی تدریس و ترویج میں خواتین کا کردار‘ مؤرخہ۲۷۔۲۸؍ فروری ۲۰۱۸ء میں کلیدی خطبہ پیش کرنے کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔لیکنNOC جاری نہ ہو پانے کی وجہ سے سفر ممکن نہ ہو سکا۔ اس موقع کے لیے میں نے جو تحریر تیار کی تھی اسے ابتدا اور خاتمہ کی چند سطریں حذف کرنے کے بعد پیش کیا جا رہا ہے۔]

(ماضی کا تذکرہ، حال کا جائزہ،مستقبل کا لائحۂ عمل)

اسلام میں خواتین کا مقام و مرتبہ واضح ہے۔ انہیں علمی اور عملی ہرطرح کی سرگرمیاں انجام دینے کی اجازت ہے۔ ان کے حقوق اور فرائض سب متعین کردیے گئے ہیں ۔لیکن مقامِ حیرت و افسوس ہے کہ ان کے بارے میں اپنے اور پرایے سب غلط بیانی اور غلط فہمی کا شکار ہیں ۔ایک طرف اسلام کے مخالفین اوربدخواہ طرح طرح کے اعتراضات اور الزامات عائد کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسلام نے مردوں کے مقابلے میں عورتوں کو پست درجہ دیا ہے۔ انہیں گھر کی چہار دیواری میں قیدی بناکررکھاہے۔ ان پر حجاب کی بندشیں عائد کرکے انہیں سماج سے بالکلیہ کاٹ دیاہے اور کسی کو ان کی علمی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ اور اس طرح کے دیگر اعتراضات اسلام کی صحیح تعلیمات سے ناواقفیت کا نتیجہ ہیں۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اسلام کے نام لیواؤں نے اسلام میں خواتین کے مقام و مرتبہ کا صحیح تعارف نہیں کرایا ہے۔ یہی نہیں ، بلکہ ان کا عملی رویّہ مخالفینِ اسلام کے مذکورہ بالا اعتراضات کی تائید و توثیق کرتاہوانظر آتاہے۔

یہ واقعہ ہے کہ مسلمانوں کے دورِ زوال میں مسلم خواتین کو ان کا صحیح مقام نہیں دیا گیا۔ انہیں محض توالد و تناسل کا ایک آلہ سمجھاگیا۔ صرف بچوں کی پرورش کرنا اور گھر گرہستی کے کاموں میں مصروف رہنا ان کا فرضِ منصبی قرار دیاگیا۔علم کے دروازے ان پر بند رکھے گئے۔ تحصیلِ علم کے مواقع سے محرومی ان کا مقدّر ٹھہری اور افسوس کی بات تویہ کہ اس ظلم و جبر اور حق تلفی کے لیے احادیثِ نبوی سے سندِ جواز فراہم کی گئی۔ کہاگیا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے عورتوں کو ’ناقص العقل‘ قراردیاہے۔[صحیح البخاری، کتاب الزکاۃ، باب الزکاۃ علی الاقارب،۱۴۶۲ ]اور اس سے مراد یہ لی گئی کہ ان میں عقل و فہم اور غور و فکر کی صلاحیتوں کی کمی ہوتی ہے، حالاں کہ جس موقع پر اللہ کے رسول ﷺ نے یہ بات ارشاد فرمائی تھی وہ وعظ و ارشاد اور تعلیم و تلقین کی مجلس تھی، نہ کہ کوئی قانون بتانے اور حکم لگانے کا موقع۔ اور سب جانتے ہیں کہ دونوں مواقع پر اندازِ بیان الگ الگ ہوتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ عورتوں پر عقل کے مقابلے میں جذبات غالب رہتے ہیں اور مردوں پر جذبات کے مقابلے میں عقل کا غلبہ رہتا ہے۔اور یہی دونوں کی ضروریات کے عین مطابق ہے۔اس حدیث میں درحقیقت جذبات کے مقابلے میں عقل کی کمی کی بات کہی گئی ہے۔[ملاحظہ کیجیے: محمد علی الصابونی، من کنوز السنۃ:دراسات أدبیۃ و لغویۃ من الحدیث الشریف، مکتبۃ الاقصیٰ مکۃ المکرمۃ، ۱۹۷۰ء، ص۱۵۴، سمیعۃ نازش، مقالہ:دلالۃ سیاق بعض الاحادیث حول المرأۃ مقالاً و مقاماً، سہ ماہی الدراسات الاسلامیۃ، اسلام آباد، جلد۵۱، شمارہ۴،اکتوبر۔دسمبر۲۰۱۶ء ]اسی طرح کہا گیا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے عورتوں کو لکھنا سکھانے سے منع کیا ہے۔[ اس کی روایت ابن حبان، حاکم اور بیہقی نے کی ہے۔]حالاں کہ یہ روایت سند کے اعتبار سے انتہائی ضعیف، بلکہ موضوع ہے۔[ ملاحظہ کیجیے: محمد ناصر الدین الالبانی،سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ و الموضوعۃ و أثرھا السئ علی الامۃ، ۵/۳۰، حدیث نمبر۲۰۱۷، نیز سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ، جلد اول، جز اول، ص۳۴۶۔ ۳۴۷۔ مزید ملاحظہ کیجیے:الشیخ شمس الحق عظیم آبادی کا رسالہ’ عقود الجمان فی جواز تعلیم الکتابۃ للنسوان‘۔]

خواتین کا امتیازی کردار

اسلامی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو سماج کی تعمیر و ترقی میں خواتین کا کردار بڑا درخشاں اور مثالی نظر آتاہے۔ان کی خدمات ہمہ جہت ہیں ۔ خاص طور سے علوم و فنون کی اشاعت کے میدان میں انہوں نے بہت سرگرمی سے حصہ لیا ہے۔ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں ان کا یہ کردار بہت نمایاں نظر آتاہے۔

علم کی نسل در نسل منتقلی میں خواتین نے اہم کردار نبھایا ہے۔ انہوں نے قرآن کریم حفظ کیاہے اور حفظ کرایاہے،تجوید اور علم قراء ت میں مہارت حاصل کی ہے اور دوسروں کو یہ فن سکھایا ہے،اپنے شیوخ سے احادیثِ نبوی کا سرمایہ حاصل کیا ہے اور پوری حفاظت کے ساتھ اسے دوسروں تک پہنچایا ہے، فقہ سے اشتغال رکھاہے اور اپنے فتاویٰ کے ذریعہ عوام کی رہ نمائی کی ہے، زہد وتصوف میں شہرت حاصل کی ہے اور وعظ وارشاد کی محفلیں سجائی ہیں ۔ الغرض علوم و فنون اور خاص طور پر اسلامی علوم کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جو خواتین کا مرہونِ منت نہ ہو۔

خواتین کے ذریعہ علوم کی سرپرستی

فروغِ علم کا ایک اہم ذریعہ یہ ہے کہ تعلیم وتربیت کے لیے مکاتب، مدارس، رباطات، ادارے اور مراکز قائم کیے جائیں ، ان کے لیے اوقاف خاص کیے جائیں ، ان میں تعلیم دینے والوں کے لیے وظائف مقرر کیے جائیں اور تعلیم حاصل کرنے والوں کے مصارف برداشت کیے جائیں ۔جن لوگوں نے خود کو علمی کاموں کے لیے وقف کررکھاہے انہیں معاشی تگ ودورکرنے سے آزاد رکھا جائے۔ اسلامی تاریخ بتاتی ہے کہ حکم راں طبقے سے تعلق رکھنے والی اور دولت وثروت سے بہرہ ور خواتین نے ہر دور میں یہ خدمات انجام دی ہیں ۔ یہاں صرف چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں :

عباسی خلیفہ ہارون رشید (م۱۹۳ھ)کی بیوی زبیدہ بنت جعفر (م ۲۱۶ھ) کو رفاہی کاموں کی انجام دہی کے معاملے میں بہت شہرت حاصل ہے۔ اسے قرآن مجید کی تعلیم سے بہت دل چسپی تھی۔ ابن خلکان نے لکھاہے کہ اس نے اپنی سو (۱۰۰) باندیوں کو اس کے لیے فارغ کررکھاتھا:

کان لھا ماءۃ جاریۃ یحفظن القرآن، ولکل واحدۃ وِرد عُشر القرآن، وکان یسمع في قصرھا کدويّ النحل من قرا ء ۃ القرآن (وفیات الأعیان، ۳؍۳)

’’اس کی سو سے زیادہ باندیاں تھیں ، جو زیادہ تر وقت قرآنِ کریم کی تلاوت اور حفظ میں مشغول رہتی تھیں ۔ ان میں سے ہر ایک قرآن کے دسویں حصہ کی تلاوت کرتی تھی۔ محل میں ان کی آواز شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کے مثل سنائی دیتی تھی۔‘‘

زمرّد خاتون(۵۵۷ھ)، جو دمشق کے حکم راں الملک دقّاق کی بہن تھیں ، انھوں نے ایک مدرسہ قائم کیا تھا، جو المدرسۃ الخاتونیۃ البرانیۃ کے نام سے معروف تھا۔[الزرکلی، الاعلام،۳؍۴۹ ]عائشہ ہانم ( بارہویں صدی ہجری) نے ۱۱۵۴ھ میں ایک مسافر خانہ تعمیر کرایا تھا جس کو ’ سبیل عائشہ ہانم ‘ کہا جاتا تھا۔ اس کے اوپر انھوں نے قرآن کی تعلیم کے لیے ایک مکتب قائم کیا تھا اور ان دونوں کے مصارف کے لیے بہت سی جائیدادیں وقف کر دی تھیں اور اپنے ورثاء کو ان کا متولّی بنا دیا تھا۔ [ عمر رضا کحالۃ،اعلام النساء،۳؍۱۹۴ ]یمن کے سلطان الملک المظفر کی بیوی مریم نے زبید میں المدرسۃ المجاھدیۃ قایم کیا، اس میں یتیم اور غریب بچوں اور دیگر طالب علموں کو داخل کیا، اس میں امام، مؤذن اور معلّم کو رکھا اوراس کے مصارف کے لیے وقف کا معقول نظم کیا۔[عمر رضا کحالۃ،اعلام النساء،۵؍۴۰]السیدۃ ملکۃ بنت ابراہیم البعلیۃ الدمشقیۃ نے خواتین کے لیے مخصوص ایک رباط قائم کیا، جس میں قرآن مجید کے حفظ اور حدیث نبوی کی تعلیم کا نظم کیا۔[ عمر رضا کحالۃ،اعلام النساء،۲؍۳]

صحابیات و تابعیات کی علمی خدمات

علوم اسلامیہ کی اشاعت و ترویج کا کام عہدِ نبوی اور عہدِ صحابہ ہی سے شروع ہو گیا تھا اور خواتین نے اس میں سرگرمی سے حصہ لیا تھا۔۔امہات المومنین میں خاص طور پر حضرت عائشہؓ اور حضرت ام سلمہؓ نے بڑے پیمانے پر امت کو علمی فیض پہنچایا ہے۔حضرت عائشہؓ نہایت ذہین اور غیر معمولی حافظہ کی مالک تھیں ۔ چنانچہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہوئی ہر بات کو اس کی صحیح ترین اور کامل ترین شکل میں یادرکھا اور آپ کے جن اعمال کا مشاہدہ کیا ان کو بھی پوری طرح سمجھ کر اپنے ذہن میں محفوظ رکھا۔وہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد پچاس(۵۰) برس تک زندہ رہیں اور مسلمانوں کی دونسلوں تک آپؐ کی تعلیمات کو پہنچانے کا ذریعہ بنیں ۔وہ ایک قسم کا’ زندہ ٹیپ ریکارڈ‘ بن کر تقریباًنصف صدی تک امت کے حق میں فیض رسانی کا ذریعہ بنی رہیں ۔(ڈاکٹر فریدہ خانم، امہات المومنین، الرسالہ بک سینٹر، نئی دہلی ۲۰۰۱ء، ص۹۔۱۰)

حضرت عائشہؓ سے دوہزار دوسودس(۲۲۱۰) احادیث مروی ہیں ۔ان سے دو سو ننانوے(۲۹۹) صحابہ وتابعین نے روایت کی ہے، جن میں سڑسٹھ( ۶۷)خواتین تھیں ۔ حضرت ام سلمہؓ کا شمار فقہائے صحابیات میں ہوتاہے۔علامہ ابن قیمؒ نے لکھاہے کہ اگر ان کے فتاویٰ جمع کیے جائیں تو ایک رسالہ تیار ہوسکتاہے۔[ اعلام الموقعین، ابن قیم، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، ۱۹۹۶ء،۱؍۱۰۔۱۲]ان سے ایک سو ایک (۱۰۱)صحابہ وتابعین نے روایت کی ہے، جن میں تیئس(۲۳)خواتین ہیں ۔احادیث کی روایت میں صحابیات، تابعیات اور بعد کی خواتین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔یہاں صرف چند مشہور خواتین کا تذکرہ کیا جا رہا ہے:

سید التابعین حضرت سعید بن المسیبؒ (م۹۴ھ)بڑے علم و فضل کے مالک تھے۔ ان کے حلقۂ درس سے بے شمار لوگوں نے فائدہ اٹھایا اور ان سے احادیث روایت کیں ۔ ان کی صاحب زادی ’درّۃ‘ نے ان سے مروی تمام احادیث حفظ کرلی تھیں ۔خلیفۂ وقت عبد الملک بن مروان(م۸۶ھ) نے اپنے بیٹے اور ولی عہد ولیدکے لیے ان کا رشتہ مانگا، لیکن ابن المسیب ؒ نے انکار کردیا اور ان کا نکاح اپنے ایک شاگرد ابن ابی وداعہ سے کردیا۔ نکاح کے کچھ روز کے بعد جب شوہر حضرت ابن المسیبؒ کی علمی مجلس میں جانے لگے تو بیوی نے کہا: اجلس أعلّمک علم سعید۔’’یہیں رہیے۔ (میرے والد )حضرت سعیدؒ کے پاس جو علم ہے وہ میں ہی آپ کو دے دوں گی۔‘‘( ابن الحاج، المدخل، ۱؍۲۱۵،ابن سعد،الطبقات، ۵؍۱۳۸، ابو نعیم، حلیۃ الاولیاء، ۲؍۱۶۷)

امام مالک بن انسؒ (م۱۷۹ھ)کی صاحب زادی کو پوری مؤطا یاد تھی۔ان کے بارے میں بیان کیاگیاہے کہ وہ اپنے والد کے حلقۂ درس میں دروازے کی اوٹ سے شریک رہتی تھیں ۔ احادیث پڑھنے میں کوئی شخص غلطی کرتا تو وہ دروازہ کھٹکھٹادیاکرتی تھیں ۔ امام مالک سمجھ جاتے اور پڑھنے والے کی اصلاح کردیتے تھے۔[ابن فرحون، الدیباج المذھّب فی أعیان علماء المذھب، ۱؍۸۶]

فاطمہ بنت منذر بن زبیر بن العوام عظیم محدثہ اور فقیہہ تھیں ۔انہوں نے بہت سی احادیث کی روایت کی ہے،خاص طور پر اپنی دادی حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ سے۔ان کی بیش تر روایات ان کے شوہر حضرت ہشام بن عروہ ؒ (م۱۴۶ھ)کے واسطے سے مروی ہیں ۔
نفیسہ بنت الحسن بن زید بن الحسن بن علی بن ابی طالب(م ۲۰۸ھ)،جو امام جعفر صادقؒ کی بہو تھیں ، بڑی صاحبِ علم و فضل خاتون تھیں ۔ وہ ا پنے شوہر اسحاق مؤتمن کے ساتھ مدینہ سے مصر چلی گئیں تو وہاں ان کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ چنانچہ لوگ علم کی پیاس بجھانے کے لیے جوق درجوق ان کے گھر کا رخ کرتے تھے۔ان کے شاگردوں میں سب سے مشہورنام امام شافعیؒ کا ہے، جو ان سے علمی استفادہ کے لیے برابر ان کے گھر تشریف لے جایا کرتے تھے۔ سیدہ نفیسہ حدیث اور تفسیرِ قرآن دونوں کی بڑی عالمہ تھیں ۔ انہیں پورا قرآن حفظ تھا۔ وہ احادیث بھی روایت کرتی تھیں ۔ مورخین نے دونوں میدانوں میں ان کی عظمت ومہارت کا تذکرہ کیاہے۔زرکلی نے لکھاہے: عالمۃ بالتفسیر والحدیث[الزرکلی، الاعلام، ۸؍ ۴۴ ]

’’وہ تفسیر اور حدیث کی عالمہ تھیں ۔‘‘سیدہ نفیسہ کی علمی عظمت کا اعتراف ہی ہے کہ تاریخ میں ان کی شہرت ’نفیسۃ العلم‘ کے نام سے ہے۔

مساجد میں خواتین کے حلقے

آج ہمارے درمیان اس موضوع پر مباحثے جاری ہیں کہ مساجد میں خواتین کا داخلہ جائز ہے یا نہیں ؟جب کہ ابتدائی صدیوں میں خواتین کے علمی دروس کی مجلسیں منعقد ہونا ایک عام بات تھی۔ وہ اپنے گھروں میں ، دوسروں کے گھروں میں ،مسجدوں میں ، مدارس اور رباطات میں ،باغات میں اور دیگر مقامات میں مسندِتدریس پر بیٹھتی تھیں اور ان سے استفادہ کرنے والوں میں مرد اور خواتین دونوں ہوتے تھے۔ اسلام میں تین مسجدوں (مسجدِ حرام، مسجدِ نبوی اور مسجد اقصیٰ) کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ مؤرخین نے صراحت کی ہے کہ ان سب میں خواتین کی علمی مجلسیں منعقد ہوتی تھیں اور وہ باقاعدہ درس دیتی تھیں۔

مسجد حرام میں درس دینے والوں میں ام محمد سارہ بنت عبدالرحمن المقدسیۃ،مسجد نبوی میں درس دینے والی خواتین میں ام الخیر وام محمد فاطمہ بن ابراہیم بن محمود بن جوھر البعلبکی المعروف بالبطائحی،قاضی القضاۃ شیخ تقی الدین سلیمان بن حمزہ کی بیوی زینب بنت نجم الدین اسماعیل المقدسیۃ، ام محمد زینب بنت احمد بن عمر المقدسیۃاورمسجد اقصیٰ میں درس دینے والی خواتین میں ام الدرداء التابعیۃاورام محمد ھدیۃ بنت علی بن عسکر البغدادی (۸ ؍ ویں صدی ہجری) شہرت رکھتی ہیں۔

اسلامی تاریخ میں دمشق کی مسجد اموی کی بھی غیر معمولی اہمیت ہے۔ اس میں بھی خواتین کی درس وتدریس کی مجلسیں قائم ہوتی تھیں ۔ابن بطوطہ نے اپنے سفر نامے میں لکھاہے کہ اس نے مسجدِ اموی کی زیارت کی اور وہاں متعدد خواتین، مثلاً زینب بنت احمد بن ابراہیم اور عائشہ بنت محمد بن مسلم الحرّانیۃ سے حدیث کی سماعت کی۔

خواتین۔ اکابرِ امت کی معلّمات

اسلام کے دورِ عروج میں خواتین کے افادہ کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ان سے دیگر خواتین بھی استفادہ کرتی تھیں اور مرد بھی فیض اٹھانے میں پیچھے نہیں رہتے تھے۔ اس پر نہ صحابہ اور تابعین نے نکیر کی اور نہ بعد کی صدیوں میں محدثین اور فقہاء نے کبھی اس پر پابندی عائد کرنے کی کوشش کی۔ خواتین کے فخر کے لیے یہ بات کافی ہے کہ ان کی مجلسوں میں بڑے بڑے علماء و فقہاء و محدثین حاضر ہوتے تھے اور ان سے استفادہ کرتے تھے۔ یہاں تاریخِ اسلام کی چند اہم شخصیات اور ان کی معلّمات کا تذکرہ کیا جاتا ہے :
امام ذہبیؒ (م۷۴۸ھ)نے اپنی کتاب’ معجم شیوخ الذھبی‘ میں ،اسی طرح علامہ ابن حجرؒ (م۸۵۲ھ) نے اپنی کتاب’ المعجم المؤسس للمعجم المفہرس‘ میں اپنی بہت سے معلّمات اور شیخات کا ذکر کیاہے۔انہوں نے الدرر الکامنۃ في أعیان الماءۃ الثامنۃاور انباء الغمر فی أنباء العمر میں بہت سی خواتین کا تذکرہ کیاہے۔ان کے شاگرد علامہ سخاویؒ (م۹۰۲ھ)نے اپنی کتاب الضوء اللامع لأھل القرن التاسع کی ایک جلد خواتین کے لیے خاص کی ہے۔ انہوں نے ایک ہزار ستّر(۱۰۷۰)خواتین کا تذکرہ کیاہے، جن میں سے زیادہ تر محدثات و فقیہات تھیں ۔ علامہ جلال الدین سیوطیؒ (م ۹۱۱ھ)نے متعدد خواتین سے علم حاصل کیا۔ مثلاً ام ہانی بنت الھووینی، ام الفضل بنت محمد المقدسی، خدیجہ بنت ابی الحسن المقن،نشوان بنت عبداللہ الکنانی،ھاجر بنت محمد المصریۃ، امۃ الخالق بنت عبداللطیف العقبی وغیرہ۔ انہوں نے اپنی معجم اور دیگر مؤلفات میں ان کا تذکرہ کیا ہے اور ان کی روایات بیان کی ہیں ۔علامہ ابن حزمؒ (م۴۵۶ھ) کی تعلیم وتربیت میں متعدد خواتین کا اہم کردار ہے، جنہوں نے انہیں قرآن کریم کی تعلیم دی،لکھنا پڑھنا سکھایا اور ان میں شعری ذوق پیداکیا۔ اس کا ابن حزمؒ نے برملا اعتراف کیاہے۔خطیب بغدادیؒ (م۴۶۳)نے طاہرہ بنت احمد بن یوسف التنوخیہ سے سماعت کی، جو بڑی محدثہ اور فقیہہ تھیں ۔ جلیلۃ بنت علی بن الحسن الشجری نے عراق اور شام کا سفر کیا توعلامہ سمعانیؒ (م۵۶۲ھ)اور دیگر علمائے کبار نے ان سے فیض اٹھایا۔ابوعمر ومسلم بن ابراہیم الازدی الفراھیدیؒ (م ۲۲۲ھ) نے ستّر(۷۰) خواتین سے روایت کی ہے۔اس طرح ابوالولیدہشام بن عبدالملک الطیالسیؒ (م۲۲۷ھ) کے شیوخ میں بھی ستّر(۷۰) خواتین کا نام ملتاہے۔ حافظ ابن عساکرؒ (م۵۷۱ھ) نے جن خواتین سے استفادہ کیا اور ان سے احادیث روایت کیں ان کی تعداد اسّی(۸۰)سے متجاوز ہے۔ ابوعبداللہ محمد بن محمود بن النجارؒ (م ۶۴۳ھ)کے اساتذہ اور شیوخ میں تین ہزار (۳۰۰۰) مرد اور چار سو(۴۰۰) خواتین تھیں ۔ حافظ ابن حجر ؒ نے تقریب التہذیب میں تیسری صدی ہجری کے اوائل تک آٹھ سو چوبیس(۸۲۴) خواتین کے نام ذکر کیے ہیں ، جنھیں روایتِ حدیث میں شہرت حاصل تھی۔ علم حدیث کی اشاعت و ترویج کے میدان میں زمانہ کے اعتبار سے بھی کتابیں لکھی گئی ہیں ، مقام کے اعتبار سے بھی اور عمومی انداز میں بھی۔[ مثلاً ملاحظہ کیجیے: آمال قرداش بنت الحسین، دور المرأۃ فی خدمۃ الحدیث فی القرون الثلاثہ الاولیٰ، وزارۃ الاوقاف، الدوحۃ،۱۴۲۰ھ،صالح یوسف معتوق، جہود المرأۃ فی روایۃ الحدیث ( القرن الثامن الھجری)، دار البشائر الاسلامیۃ، بیروت، الدکتور محمد بن عزوز،جھود المرأۃ الدمشقیۃ فی روایۃ الحدیث الشریف،الشیخ مسھور حسن سلمان، عنایۃ النساء بالحدیث النبوی، عالیۃ عبد اللہ محمد بالطو، الاستاذۃ المساعدۃ بکلیۃ اعداد المعلّمات بمکۃ المکرمۃ، تراجم المحدثات من التابعیات و مرویاتھن فی الکتب الستۃ: جمع و دراسۃ و تعلیق،(رسالۃ ماجستیر)ڈاکٹر محمد اکرم ندوی (آکسفورڈ) نے محدثات پر غیر معمولی اور زبردست کام کیاہے۔ انہوں نے چالیس جلدوں میں دس ہزار سے زائد ایسی خواتین کا تذکرہ جمع کردیاہے جنہوں نے چودہ سو برس کے عرصے میں حدیثِ نبوی کی روایت، تعلیم وتدریس اور تصنیف و تالیف کی خدمت انجام دی ہے۔ان کی کتاب کا نام ہے: الوفاء في أسماء النساء: تراجم نساء الحدیث النبوی الشریف۔ اس کی پہلی جلدحال میں شائع ہوئی ہے۔ بقیہ جلدوں کی اشاعت ابھی ہونی ہے، البتہ اس کا مقدمہ انگریزی زبان میں Al-Muhaddithat(The women Scholars in Islam)کے نام سے شائع ہوگیاہے۔

علمِ حدیث کے علاوہ اسلامیات کے دیگر میدانوں ، مثلاً تفسیرِ قرآن، علم قراء ت اور فقہ میں بھی خواتین کی عظمت مسلّم تھی۔ مشہور تابعیہ حضرت ام الدرداء الصغریٰ، جن کا نام ھجیمۃ بنت حیی الاوصابیۃ تھا، انہیں علم قراء ت میں مہارت حاصل تھی۔[ ابن الجزری المقری، غایۃ النہایۃ فی طبقات القرّاء )فاطمہ نیشاپوریہ(چوتھی صدی ہجری) حافظۂ قرآن، عالمہ، مفسّرہ، اور فقیہہ کی حیثیت سے مشہور ہوئیں ۔ انھیں علمِ قراء ت میں بھی کمال حاصل تھا۔ حج کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لے گئیں تو وہاں درس دینا شروع کیا۔ رفتہ رفتہ ان کا حلقۂ درس وسیع ہوتا گیا اور ان کی شہرت دور دراز علاقوں تک پہنچ گئی۔ اسی وجہ سے انھیں ’ مفسّرہ فاطمہ نیشاپوریہ ‘ کہا جاتا تھا۔[عمر رضا کحالۃ،أعلام النساء،۴؍۱۴۷۔۱۴۸ ]ام العز بنت محمد بن علی بن ابی غالب العبدری الدانی(۶۱۰ھ) کو قراء اتِ سبعہ میں مہارت حاصل تھی۔ [عمر رضا کحالۃ،أعلام النساء،۳؍۲۶۹ ]خدیجۃ بنت ہارون (م۶۹۵ھ) عمدہ قاریہ تھیں ۔ ان کو قراء اتِ سبعہ میں مہارت حاصل تھی۔ فنِ قراء ت کی کتاب ’الشاطبیۃ‘ انہیں پوری ازبر تھی۔ [عمر رضا کحالۃ،أعلام النساء،۱؍۳۴۵ ] خدیجۃ بنت قیم البغدادیۃ(م۶۹۹ھ) قرآن مجید کی بہت عمدہ قاریہ تھیں۔ بہت سے لوگوں نے ان سے تجوید اور قراء ت کا علم حاصل کیا تھا۔ وعظ و ارشاد کی مجلسیں منعقد کرتی تھیں، جن میں لوگ بڑی تعداد میں سریک ہوتے تھے۔ [عمر رضا کحالۃ،أعلام النساء،۱؍۳۳۹ ]سلمیٰ بنت محمد الجزری( نویں صدی ہجری) اپنے وقت کی مشہور قاریہ تھیں ۔ دس(۱۰) قراء توں کے ساتھ قرآن پڑھتی تھیں ۔[ بدوی خلیل، شھیرات النساء،ص۱۴۵ ] فاطمہ بنت محمد بن یوسف بن احمد بن محمد الدیروطی (نویں صدی ہجری) بڑی عالمہ و فاضلہ خاتون تھیں۔ انھیں علمِ قراء ت میں مہارت حاصل تھی۔ ان سے عورتوں اورمردوں کی ایک بڑی جماعت نے استفادہ کیا۔[عمر رضا کحالۃ،أعلام النساء،۴؍۱۴۱ ]امۃ الواحد بنت الحسین بن اسماعیل(م ۳۷۷ھ)فقہ شافعی میں غیر معمولی درک رکھتی تھیں۔ اس کے علاوہ علم الفرائض، حساب اور نحو کی بھی ماہر تھیں ۔ حدیث کی بھی روایت کرتی تھیں ۔ فاطمہ البغدادیۃ کو فقہ حنبلی کے تمام اصول و فروع میں خوب مہارت حاصل تھی۔ انہیں علامہ ابن قدامہؒ المقدسی کی کتاب المغنيپوری ازبر تھی۔ ان سے فقہ حنبلی کے بارے میں کوئی سوال کیاجاتاتو اس کا نصوص کی روشنی میں جواب دیتی تھیں۔ انہوں نے فقہ کی تعلیم علامہ ابن تیمیہؒ (م۷۲۸ھ) سے حاصل کی تھی۔[ابن رجب، الذیل علی طبقات الحنابلۃ، ۴؍۴۶۷]ست الوزراء (م۶۳۷ھ) کو فقہ حنفی میں مہارت حاصل تھی۔ انھوں نے امام ابو حنیفہ ؒ (م ۱۵۰ھ)کی فقہ کا زیادہ تر حصہ یاد کر رکھا تھا۔ [ عمر رضا کحالۃ،أعلام النساء،۲؍۱۷۴ ]

خواتین کا ایک اہم ترین اعزاز

علمِ حدیث کے میدان میں خواتین کے شرف اور فخر کے لیے یہ بات کافی ہے کہ جہاں احادیث کی روایت کرنے والے مردوں کی بڑی تعداد کو متّہم کیاگیا ہے، ان پر وضعِ حدیث کا الزام لگایا گیا ہے اور ضعف کی وجہ سے ان کی روایات قبول نہیں کی گئی ہیں ، وہاں ایک عورت بھی ایسی نہیں پائی گئی جو اس ’عیب‘ سے داغ دار ہو۔ امام الجرح والتعدیل علامہ شمس الدین ذہبیؒ (م۷۴۸ھ) نے صاف الفاظ میں اس کی شہادت دی ہے۔ انہوں نے لکھاہے:

وما علمت فی النساء من اتّھمت، ولامن ترکوھا( ذہبی،میزان الاعتدال، ۴؍۶۰۴)

’’مجھے نہیں معلوم کہ روایتِ حدیث میں ایک بھی عورت متّہم ہوئی ہو اور نہ محدثین نے ضعف کی وجہ سے کسی ایک عورت کو ترک کیاہے۔‘‘

خواتین۔ مردوں سے آگے

تاریخِ اسلام میں ایسی بھی بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ کتاب و سنت کے فہم اور علوم اسلامیہ کی نشر و اشاعت میں خواتین کا کردار مردوں سے بڑھ کررہا ہے۔ اس طرح انھوں نے عملی طور پر ثابت کردیا ہے کہ عورتوں کے ’ناقص العقل‘ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے اندفہم و استنباط اور ابلاغ و ترسیل کی صلاحیتیں مردوں سے کم تر ہوتی ہیں ۔یہاں چند ایسی ممتاز خواتین کا تذکرہ دل چسپی سے خالی نہ ہوگا :

مشہور تابعیہ حضرت حفصہ بنت سیرینؒ (۱۰۱ھ)بلند پایہ کی محدثہ تھیں ۔ فہمِ قرآن میں بھی ان کا مقام بہت اعلیٰ تھا۔ علم قرا ء ت میں ان کو اس قدر مہارت حاصل تھی کہ جب ان کے بھائی محمد بن سیرینؒ کو کوئی مشکل پیش آتی تو فرماتے:’’حفصہ سے پوچھو کہ وہ کیسے پڑھتی ہیں ؟‘‘

شیخہ صالحہ(چھٹی صدی ہجری)، عبدالواحد بن محمد بن علی بن احمد الشیرازی(جو ابوالفرج کے لقب سے مشہورتھے)کی صاحب زادی اور زین الدین علی بن ابراہیم بن نجا(جو ابن النجیّہ کے نام سے معروف تھے)کی والدہ تھیں ۔شیخ ابوالفرج اپنے وقت میں شام کے مشہور شیخ اور فقہ حنبلی کے امام تھے۔ فقہ میں ان کی متعدد تصانیف ہیں ۔انہوں نے کتاب الجواھر کے نام سے تیس(۳۰)جلدوں میں ایک تفسیر لکھی تھی۔ ان کی صاحب زادی نے وہ پوری تفسیر یادکرلی تھی۔ زین الدین بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے ماموں سے تفسیر پڑھتاتھا۔ جب میں اپنی والدہ کے پاس آتا تو وہ مجھ سے دریافت کرتیں کہ آج تمہارے ماموں نے کس سورہ کی تفسیر بیان کی؟اور انہوں نے کیا کیا باتیں بتائیں ؟جب میں ان سے بتاتا تو وہ پوچھتیں کہ فلاں سورہ کی تفسیر میں انہوں نے فلاں بات بتائی کہ نہیں ؟میں جواب دیتا : نہیں ، تو وہ فرماتیں :تمہارے ماموں نے فلاں آیت کی تفسیر میں فلاں فلاں باتیں چھوڑ دی ہیں ۔ [زین الدین ابوالفرج البغدادی،کتاب الذیل علی طبقات الحنابلۃ لابن رجب، مطبعۃ السنۃ المحمدیۃ القاہرۃ، ۱۹۵۳، ۱؍۴۴۰]

فاطمہ بنت محمد بن احمد السمرقندی(م ۵۸۱ھ)فقہ حنفی میں بہت شہرت رکھتی تھیں ۔ ان کے والد مشہور محدث اور فقیہ تھے۔ فاطمہ نے ان سے فقہ کی تعلیم حاصل کی اور اس میں کمال پیداکیا۔ انہیں اپنے والد کی کتاب تحفۃ الفقہاء پوری ازبر تھی۔ فقہ میں ا ن کی مہارت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ ان کے والد کے پاس کوئی استفتاآتاتو وہ اپنی صاحب زادی سے مشورہ کرتے تھے،پھر وہ جواب تیار کرتیں اور اس پر باپ اور بیٹی دونوں کے دستخط ہوتے۔ فاطمہ کا نکاح ان کے والد نے اپنے عزیز شاگرد علاؤ الدین ابوبکر بن مسعود الکاسانی سے کردیا تھا۔ کاسانی کو ان کی تصنیف بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع کی وجہ سے علمی دنیا میں بہت شہرت حاصل ہوئی۔ فاطمہ کا علمی فیض نکاح کے بعد بھی جاری رہا۔وہ اپنے گھر میں درس کے حلقے لگاتی تھیں ۔ان سے بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے استفادہ کیا۔شیخ کا سانی بہت بڑے فقیہ تھے۔ ان کا لقب’ملک العلماء‘ تھا، لیکن ان کی بیوی فاطمہ ان سے بڑھ کر تھیں ۔ سوانح نگاروں نے لکھاہے:

انھا کانت تنقل المذھب نقلا جیداً، وکان زوجھا الکاسانی ربّما یھم في الفتویٰ فتردّہ الی الصواب، وتعرّفہ وجہ الخطأ، فیرجع الی قولھا۔

’’وہ (حنفی)مسلک کی بہت اچھی طرح ترجمانی کرتی تھیں ۔ان کے شوہر کا سانی کو بسااوقات کوئی مسئلہ بیان کرتے ہوئے وہم ہوجاتاتو فاطمہ اس کی تصحیح کردیتی تھیں اور انہوں نے کیا غلطی کی ہے؟ یہ بھی بتادیتی تھیں ۔ چنانچہ کاسانی ان کی تصحیح کوقبول کرلیتے تھے۔‘‘

[ فاطمہ السمرقندیہ کے حالات کے لیے ملاحظہ کیجئے: ابن ابی الوفاء القرشی، الجواھر المضیءۃ فی طبقات الحنفیۃ،۴؍۱۲۲۔۱۲۴،زینب بنت علی العاملی،الدرّ المنثور فی طبقات ربّات الحذور، ص ۳۶۷، ابن قطلوبغا،تاج التراجم، ص ۲۵۲، ۳۲۷۔ ۳۲۸، عمر رضاکحالۃ،اعلام النساء، ۴؍۹۴۔۹۵، طاش کبری زادہ، مفتاح السعادۃ،، ۲؍۲۴۷۔ ۲۴۸،محمد خیررمضان یوسف، المؤلفات من النساء،ص۸۴۔۸۶]

علمِ حدیث کے میدان میں شیخ ابوالحجاج جمال الدین یوسف المزّی (م ۷۴۲ھ)کی خدمات سے اسلامیات سے دل چسپی رکھنے والا ہر طالب علم اچھی طرح واقف ہے۔ خاص طور سے فن اسماء الرجال میں انہیں یدِطولیٰ حاصل تھا۔ ان کی تصانیف : تہذیب الکمال في أسماء الرجال، تحفۃ الأشراف بمعرفۃ الأطراف اور المنتقی من الفوائد الحسان فی الحدیث اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں ۔شیخ مزی کو جتنی مہارت اور شہرت علم حدیث اور رجال کے میدان میں تھی، اتنی ہی، بلکہ اس سے زیادہ مہارت اور شہرت سے ان کی زوجہ عائشہ بنت ابراہیم بن صدیق (جو ام فاطمہ کے لقب سے مشہور تھیں )علم تجوید و قراء تِ قرآن کے میدان میں بہرہ ور تھیں ۔ وہ بہترین قاریہ تھیں ۔۷۴۱ھ میں اسّی(۸۰)برس کی عمر میں ان کا انتقال ہوا۔ نصف صدی سے زائد عرصہ انہوں نے قرآن کی تعلیم و تدریس میں گزارا اور ہزاروں مردوں اور عورتوں نے ان سے استفادہ کیا۔ ان سے یہ فن سیکھنے والوں میں ان کی صاحب زادی امۃ الرحیم زینب بھی تھیں ،جو مشہور مفسر، محدث اور مؤرخ علامہ ابن کثیر الدمشقیؒ (م۷۷۴ھ) کی زوجہ تھیں ۔ ابن کثیرؒ جہاں شیخ مزّی کے مشہور تلامذہ میں سے ہیں ، وہیں انہوں نے اپنی خوش دامن صاحبہ سے بھی علمی استفادہ کیاتھا۔ ابن کثیرؒ نے ان کا تذکرہ بڑے اچھے انداز میں کیاہے:
’’اپنے زمانے کی عورتوں میں کثرتِ عبادت، تلاوتِ قرآن اور فصاحت و بلاغت اور صحیح ادا کے ساتھ قرآن پڑھانے کے معاملے میں کوئی دوسرا ان کا ہم سر نہ تھا۔ انہوں نے بہت سی عورتوں کا قرآن ختم کروایا اور بے شمار عورتوں نے ان سے قرآن پڑھا۔‘‘
ان کے بارے میں ابن کثیرؒ کے اس جملے نے توچونکادیا:

’’ان کی طرح کی قراء ت کرنے سے بہت سے مرد حضرات عاجز تھے۔‘‘(ابن کثیر، البدایۃ والنھایۃ،دا ر احیاء التراث العربی، ۱۹۸۸ء،۲۱؍۱۱۳)

خواتین اور تصنیف و تالیف

البتہ جہاں تک علوم اسلامیہ میں تصنیف و تالیف کا معاملہ ہے، اس سلسلے میں خواتین بہت پیچھے رہی ہیں ۔ شیخ محمد خیر رمضان یوسف نے تذکرہ و تراجم کی کتابوں میں بہت غائرانہ انداز سے تفتیش و تفحّص کے بعد اپنی کتاب المؤلِّفات من النساء ومؤلَّفاتھن في التاریخ الاسلاميمیں ۱۲۰۰ھ تک چھتیس( ۳۶)مؤلِّفات کا تذکرہ کیا ہے اور لکھا ہے کہ ان کی کتابوں کی تعداد عربی زبان میں سو (۱۰۰) سے زیادہ نہ ہوگی۔[محمد خیر رمضان یوسف، المؤلفات من النساء ومؤلفاتھن فی التاریخ الاسلامی،دارابن حزم بیروت، ۲۰۰۲ء، ص ۵۔۶]انہوں نے اس موضوع پر بھی اظہارِ خیال کیاہے کہ خواتین کی جانب سے تصنیف و تالیف میں کمی کے اسباب کیاہیں ؟ انہوں نے تین اسباب بیان کیے ہیں :

۱۔ تصنیف وتالیف ذہنی سکون واطمینان اور کسی حدتک فرصت وفراغت کا تقاضا کرتی ہے،جب کہ خواتین اپنی فطری مصروفیات، مثلاً حمل، ولادت، رضاعت، بچوں کی پرورش اور گھریلو کاموں میں مصروفیت وغیرہ کی وجہ سے بیش تر اوقات اس سے عموماً محروم رہتی ہیں۔

۲۔ خواتین کی رغبت عموماً تحریر وتصنیف کے مقابلے میں کہنے سننے کی طرف زیادہ رہتی ہے۔اسی لیے ان کی صلاحیتوں کا اظہار شاعری، ادب، لغت اور انسانی و وجدانی علوم میں دیگر میدانوں کے مقابلے میں زیادہ ہواہے۔ علم حدیث کی بنیاد سماع وروایت پر ہے، اس کے لیے تحریر شرط نہیں ہے، اسی لیے اس میں خواتین کی صلاحیتوں کا غیر معمولی اظہار ہواہے اور ہزاروں کی تعداد میں محدّثات پیداہوئی ہیں۔

۳۔ خواتین کی بہت سی تصنیفات، جو ایک عرصہ تک امت کے درمیان متداول تھیں ، حوادثِ زمانہ کی نذر ہوگئیں اور مورخین اور تذکرہ وتراجم کی کتابیں تالیف کرنے و الوں نے ان صاحبِ تصنیف خواتین کے حالات لکھنے سے تغافل برتا۔اس لیے کہ عموماً پردہ نشیں خواتین کے حالات جمع کرنے میں بہت دشواریاں تھیں ۔[محمد خیر رمضان یوسف، المؤلفات من النساء ص۱۳۔۱۵)

موجودہ دور میں خواتین کی علمی خدمات

یہ بات بڑی خوش آئند ہے کہ گزشتہ دو صدیوں میں تعلیمِ نسواں کو فروغ ملا ہے اور خواتین کے لیے تحصیلِ علم کے مواقع بڑھے ہیں۔ دینی و عصری تعلیم کے مراکز، مدارس اور جامعات قائم ہوئے ہیں ، جن میں طالبات کو داخلہ ملا ہے اور ان کے لیے مخصوص درس گاہیں بھی قائم کی گئی ہیں ۔اس طرح خواتین کو اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے اور اپنے جوہر دکھانے کے لیے وسیع میدان ہاتھ آیا ہے، زیورِ علم سے آراستہ ہوکر انھوں نے درس و تدریس کا کام بھی سنبھالا ہے، اس طرح ان کا علمی فیض عام ہوا ہے اور امت کو ان سے فائدہ پہنچا ہے۔

قرآنیات اور سیرت نگاری کے میدان میں بیسویں صدی کی خواتین میں ڈاکٹر عائشہ عبدالرحمن بنت الشاطی (۱۹۱۳۔۱۹۹۸ء)کا نام بہت نمایاں ہے۔انہوں نے عربی زبان وادب کی اعلیٰ تعلیم قاہرہ یونی ورسٹی سے حاصل کی، پھر مختلف ممالک میں تدریسی خدمت انجام دیں ، لیکن پھر ان کا رجحان قرآنیات کی طرف ہوا۔ وہ جامعۃ القرویین مراکش میں شعبۂ تفسیر میں پرفیسر رہی ہیں ۔ وہ پہلی خاتون ہیں جس کے جامع ازہر میں لیکچر ہوئے۔ انہیں بہت سے ایوارڈز سے نوازا گیا، جن میں سے ایک عالم اسلام کا اعلیٰ اعزاز کا شاہ فیصل ایوارڈ ہے، جو انہیں ۱۹۹۴ء میں اسلامیات اور خاص طور پر قرآنیات کے میدان میں اعلیٰ خدمات انجام دینے پر دیاگیا۔ بنت الشاطی کی تصانیف کی تعداد چالیس(۴۰) سے زائد ہے۔ خاندانِ نبوت کی خواتین پر ان کی تیارکردہ سیریز میں أمّ النبي، نساء النبي،بنات النبي اور زینب بطلۃ کربلا شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ قرآنیات پر ان کی تصانیف میں التفسیر البیاني للقرآن الکریم، الاعجاز البیاني للقرآن الکریم، القرآن والتفسیر العصري اور مقال في الانسان اہمیت رکھتی ہیں ۔تفسیرِ قرآن میں ان کا ایک خاص منہج ہے، وہ یہ کہ جس موضوع پر مطالعہ مقصود ہو اس سے متعلق قرآن کی تمام آیات جمع کرلی جائیں ،پھر ان پر غور وفکر کیاجائے تو اس سے نئے نئے معانی مستنبط ہوتے ہیں ۔علومِ قرآن اور اصولِ تفسیر سے متعلق ان کی اور بھی آراء ہیں ، جو ان کی کتابوں میں مذکور ہیں ۔ انہوں نے اعتراف کیاہے کہ یہ منہجِ تفسیر انہوں نے اپنے استاذ شیخ امین الخولی(۱۸۹۵۔۱۹۶۶ء)جو ان کے شوہر بھی تھے، سے حاصل کیاہے۔

زینب الغزالی (م۱۴۲۶ھ) کا شمار موجودہ دور کی ان خواتین میں ہوتا ہے جنھیں اپنی دعوتی اور تحریکی سرگرمیوں کی وجہ سے عالمی سطح پر شہرت حاصل ہے۔ وہ اخوان المسلمون سے وابستہ سرکردہ خواتین میں سے تھیں ۔ ان کی پوری زندگی اسلام کی راہ میں جدو جہد اور قربانی سے عبارت ہے۔ عرصہ تک انھوں نے قید بند کی صعوبتیں برداشت کیں ۔ آزادی ملی تو اپنا سارا وقت درس و تدریس، وعظ و ارشاد اور تصنیف و تالیف میں گزارا۔ یوں تو دینی موضوعات پر ان کی متعدد تصانیف ہیں ، لیکن ان میں سب سے اہم ان کی تفسیر ہے جو’ نظرات فی کتاب اللہ‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ اس کی پہلی جلد سورۂ ابراہیم تک (۷۱۱؍ صفحات) ۱۴۱۴ھ میں دار الشروق قاہرہ سے شائع ہوئی تھی۔ مکمل تفسیر (۱۳۰۰؍ صفحات) دار التوزیع و النشر الاسلامیہ قاہرہ سے منظر عام پر آئی۔ اس تفسیر میں دعوتی اسلوب نمایاں ہے۔ [زینب الغزالی اور ان کی تفسیر کے بارے میں تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے : مرجان عثمانی، مصر کی بیٹی زینب الغزالی، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلیشرز نئی دہلی، ۲۰۱۶ء]

موجودہ دور کی مفسّرات میں ایک اہم نام محترمہ نائلہ ہاشم صبری کا ہے، جو فلسطین کے مشہور مفتی اور خطیب شیخ ڈاکٹر عکرمہ سعید صبری کی زوجہ ہیں ۔ ان کی سرگرمیاں علمی اور عملی دونوں میدانوں میں ہیں ۔ وہ بہت سے رفاہی اداروں اور سماجی تنظیموں سے وابستہ ہیں ۔ ان کی متعدد تصانیف دینی موضوعات پر شائع ہوئی ہیں ، جن میں سے ایک ’کواکب النساء‘ ہے، جس میں پانچ سو(۵۰۰) سے زائد خواتین کے تذکرے جمع کیے ہیں ۔ ان میں امہات المومنین، صحابیات، محدثات، فقیہات، زاہدات اور حکوت و سیاست اور شعرو ادب سے دل چسپی رکھنے والی خواتین شامل ہیں ۔ انھوں نے المبصر لنور القرآن کے نام سے ایک مبسوط تفسیر لکھی ہے، جس کا پہلا ایڈیشن گیارہ (۱۱) جلدوں میں ، جب کہ دوسرا ایڈیشن ۲۰۰۸ء میں سولہ (۱۶) جلدوں میں شائع ہوا ہے۔ یہ تفسیر بالمأثور کی ایک نمائندہ تفسیر ہے، جس میں حالاتِ حاضرہ سے ربط کا خصوصی اہتمام کیا گیا ہے۔ [ اس تفسیر کے تجزیاتی مطالعہ کے لیے ملاحظہ کیجیے: عفاف عبد الغفور حمید، من جھود المرأۃ، المبصر لنور القرآن : اول جھد کامل فی التفسیر للمرأۃ حدیثاً، مقالہ پیش کردہ دوسری بین الاقوامی قرآن کانفرنس، زیر اہتمام تنظیم مرکز بحوث القرآن، جامعہ ملایا، کوالا لمپور، ملیشیا، فروری ۲۰۱۲ء)
ان کے علاوہ خواتین کے ذریعہ تیار ہونے والی تفسیروں میں ماجدہ فارس الشمری کی التوضیح و البیان فی تفسیر القرآن (۸؍ جلدیں ) فوقیہ ابراہیم الشربینی کی تیسیر التفسیر (۴؍ جلدیں )، فاطمہ کریمان حمزہ کی اللؤ لو والمرجان فی تفسیر القرآن اور ترکی زبان میں سمرا کورون کی تفسیر القاری (۱۳؍ جلدیں ) خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔

خواتین نے جزئی تفسیریں بھی لکھی ہیں، مختلف زبانوں میں قرآن مجید کے مکمل یا نامکمل ترجمے کیے ہیں اور علوم القرآن کے مختلف پہلوؤں پرکتابیں بھی تصنیف کی ہیں ۔ ان میں قراء ت، تجوید، فصاحت و بلاغت، تدبرِ قرآن،ا قسام القرآن اور لغوی و بلاغی موضوعات و مباحث شامل ہیں ۔ قرآنیات کے علاوہ حدیث، سیرت اور فقہ میں بھی خواتین کی علمی کاوشیں اہمیت رکھتی ہیں ۔ موجودہ دور میں عالم عرب میں علوم اسلامیہ میں تصنیف و تالیف کی خدمات انجام دینے والی خواتین میں حنان لحام، عفاف عبد الغفور حمید، لطیفہ قزامل، ہیفاء عثمان، علامہ محمد ناصر الدین الالبانی کی صاحب زادیاں : حسانۃ اور سکینۃ، امانی بنت عاشور، عزیزہ یونس، وسیمہ عبد المحسن، ام معن، ربیعۃ الکعبی، سعاد عبد الحمید، آمال محمد عبد الرحمن، صباح عبد الکریم، منیرہ الدوسری، سحر سویلم، ہند شلبی، عائشہ غلوم، سحر عبد العزیز، کاملہ ا لکواری، صفیہ عبد الرحمن السحیبانی، اسماء المرائط، عصمۃ الدین کرکرا، موینہ طراز، نادیہ شرقاوی، فاطمہ ماردینی اور فاطمہ اسماعیل خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں ۔ ان کی تصانیف نے علوم اسلامیہ میں قابل قدر اضافہ کیا ہے۔

برِّصغیر میں خواتین کے ذریعے علمی کاموں کی سرپرستی

برِّ صغیر ہند میں بھی علومِ اسلامیہ کے فروغ میں خواتین کی زرّیں خدمات ہیں ۔ انھوں نے اشاعتِ علم کی سرپرستی کی ہے اور اعلیٰ معیار کے علمی کام انجام دیے ہیں۔

مغل حکم راں اورنگ زیب ( م ۱۱۱۸ھ )کی صاحب زادی زیب النساء نے شیخ صفی الدین ولی قزوینی سے قرآن مجید کا فارسی زبان میں ترجمہ کروایا تھا۔ ساتھ ہی امام رازی (م ۶۰۶ھ) کی تفسیر کبیر کا بھی فارسی ترجمہ کروایا تھا۔[ڈاکٹر علاؤ الدین خاں ، عہد اورنگ زیب میں علماء کی خدمات،ص۱۷۳۔۱۷۴،ڈاکٹر ظفر الاسلام، مقالہ: عہد وسطیٰ کے ہندوستان کی فارسی تفسیریں ۔ ایک تعارفی مطالعہ، سہ ماہی علوم القرآن، علی گڑھ، جولائی۔ دسمبر ۱۹۸۵ء،ص۱۳۳]ماضی قریب میں ریاست بھوپال کی حکم راں نواب خواتین نے علمی سرپرستی کی مثال قائم کی ہے۔انہوں نے خوب فیاضی سے تعلیمی اداروں کی مالی امداد کی ہے اور خطیر سرمایہ صرف کرکے علمی کام کرایے ہیں ۔ نواب سکندر جہاں بیگم(م۱۸۶۸ء) نے شیخ احمد داغستانی سے ترکی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ کروایا۔ ان کی صاحب زادی اور جانشین نواب شاہ جہاں بیگم نے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج علی گڑھ کا بھر پور مالی تعاون کیا۔ انہوں نے مولانا جمال الدین وزیر ریاست بھوپال سے پشتوزبان میں قرآن مجید کا ترجمہ کروایا۔[ عبدالصمد صارم الازھری،تاریخ التفسیر، ادارۂ علمیہ لاہور، ۱۹۶۶ء]ان کی صاحب زادی اور جانشین نواب سلطان جہاں بیگم نے بہت سی دینی درس گاہوں اور تعلیمی اداروں کو مالی امداد فراہم کی، جن میں علی گڑھ، دیوبند اور ندوہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں ۔[مولانا محمداسلم جیراج پوری، خواتین، ص۲۲۹۔۲۳۶]انہوں نے ہی سیرۃ النبی کی تالیف کے لیے علامہ شبلی نعمانیؒ کو گراں قدر مالی تعاون دیا۔[ ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی، آثار شبلی، دار المصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ،]جس زمانے میں دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤکی مرکزی عمارت زیرتعمیر تھی،ریاست بہاول پور کی خاتون محترمہ فلک احتجاب نے اس مد میں اپنے جیبِ خاص سے پچاس ہزار روپے عطا کیے تھے۔ علامہ شبلی نعمانیؒ نے انہیں ’زندہ زبیدہ خاتون‘ کا لقب دیاہے اور ان کی فیاضی اور علم دوستی کی تحسین کی ہے۔ [مقالات شبلی، ۸؍۸۸]

اسلامیات میں کام کرنے والی چند اہم خواتین

بر صغیر میں خواتین کے ذریعے انجام پانے والے علمی کاموں کا دائرہ تفسیر، حدیث، فقہ، سیرت نبوی، تاریخ اور اسلامیات کے دیگر مضامین پر محیط ہے۔ اردو تفاسیر میں ماضی قریب میں ہندوستان میں محترمہ ثریا شحنہ کی ’تبیین القرآن فی تفسیر القرآن‘ (طبع حیدرآباد، انڈیا ۲۰۱۲ء) اور پاکستان میں محترمہ شکیلہ افضل کی ’تسہیل البیان فی تفسیر القرآن‘ (طبع لاہور، ۲۰۱۳ء) شائع ہوئی ہیں ۔ اہلیہ مولانا عزیز گلؒ (نو مسلمہ، م ۱۹۶۶ء) نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر انگریزی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ کیا تھا، لیکن غالباً وہ زیورِ طبع سے آراستہ نہ ہو سکا۔ [عبد الصمد صارم، تاریخ التفسیر]ڈاکٹرفریدہ خانم (سابق پروفیسر شعبۂ اسلامک اسٹڈیز، جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی) نے اپنے والد مولانا وحید الدین خاں کے انگریزی ترجمۂ قرآن پر نظر ثانی کی ہے اور ان کی تفسیر ’تذکیر القرآن‘ کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے۔ڈاکٹر فرحت ہاشمی نے اپنے ادارہ’ الھدیٰ انٹرنیشنل‘ کے ذریعے قرآن فہمی کی ایک کام یاب تحریک برپا کی ہے۔ان کی قرآن کلاسز کو عالمی شہرت حاصل ہوئی ہے۔ ترجمۂ قرآن اور تفسیر پر مشتمل ان کے لیکچرز کی سی ڈیز اور ڈی وی ڈیز اور کیسٹس خواتین کے درمیان دنیا بھر میں مقبول ہیں ۔ ان کا ترجمۂ قرآن بھی چند سال قبل (دو جلدوں میں ) الہدیٰ پبلی کیشنز اسلام آباد سے شائع ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ ہندو پاک میں علومِ قرآن کے مختلف پہلوؤں پر خواتین کی تصنیفات کی ایک معتد بہ تعداد ہے، جن کا یہاں تذکرہ کرنا ممکن نہیں۔

سیرتِ نبویؐ پر بھی خواتین نے محبت، عقیدت اور تحقیق کے ساتھ خامہ فرسائی کی ہے اور معیاری کتابیں تصنیف کی ہیں ۔ ڈاکٹر رؤفہ اقبال (علی گڑھ) کی کتاب ’عہد نبویؐ کے غزوات و سرایا‘ اور محترمہ نجمہ راجہ یٰسین (تلنگانہ) کی کتاب ’ عہدِ نبویؐ کا بلدیاتی نظم و نسق‘ ہندوستان اور پاکستان دونوں جگہوں سے شائع ہوئی ہے۔ محترمہ شہناز کوثر (لاہور) اور محترمہ نگہت ہاشمی ( بہاول پور) نے سیرت کے مختلف پہلوؤں کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا ہے۔ ڈاکٹر سعدیہ غزنوی کی کتابیں ’نبی کریم ﷺ بہ طور ماہر نفسیات‘ اور’ اسوۂ حسنہ اور علم نفسیات‘ سیرت کے ایک اہم موضوع پر روشنی ڈالتی ہیں ۔ محترمہ عطیہ خلیل عرب نے مشہور عرب ادیب توفیق الحکیم کی کتابِ سیرت’ محمد ﷺ‘ اور محترمہ عذرا نسیم فاروقی نے جدید دور کے مشہور سیرت نگار ڈاکٹر اکرم ضیاء العمری کی کتاب ’المجتمع المدنی فی عصر النبوۃ ‘ کو اردو کا جامہ پہنایا ہے۔ محترمہ ام عبد منیب نے سیرت نبوی پر ایک ضخیم انسائیکلو پیڈیا (۶۸۸؍ صفحات) سوال و جواب کے طرز پر تیار کیا ہے۔ جناب حافظ محمد عارف گھانچی نے سیرت پر اردو زبان میں لکھی جانے والی نئی تصنیفات کی جو کتابیات تیار کی ہے اس میں خواتین کے ذریعے لکھی جانے والی کتابوں کی تعداد اسّی (۸۰) متجاوز ہے۔[ ملاحظہ کیجیے: جدید اردو کتابیاتِ سیرت (۱۹۸۰۔ ۲۰۰۹ء) دار العلوم التحقیق کراچی، ۲۰۰۹] ظاہر ہے، اس میں خواتین کی کتبِ سیرت کا استیعاب ممکن نہ تھا، دوسرے اس میں ایک محدود زمانے کا احاطہ کیا گیا ہے۔

محترمہ مریم جمیلہ(م۱۴۳۳ھ) نے اسلامیات کے میدان میں جو ضدمت انجام دی ہے وہ انتہائی لائقِ ستائش ہے۔ انھوں نے مغربی فکرو تہذیب اور اس کی مادہ پرستانہ قدروں پر پورے اعتماد کے ساتھ بھرپور تنقید کی، سیکولرزم اور جدیدیت پر مبنی نظریات کا محاسبہ کیا اور فکر اسلامی کا کام یاب دفاع کیا۔ ان کی تحریریں معذرت خواہانہ لب و لہجہ سے پاک ہیں ۔انھوں نے اسلام کو موجودہ دنیا کے لیے بہ طور متبادل پیش کیا۔ انگریزی زبان میں ان کی تسانیف، جن کی تعداد تقریباً تین درجن ہے، اسلامی لٹریچر میں قابل قدر سرمایہ کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ ان میں سے متعدد کتابوں کا اردو میں ترجمہ ہو چکا ہے۔[ مریم جمیلہ کی تصانیف اور افکار کے تعارف کے لیے ملاحظہ کیجیے:مجتبیٰ فاروق، مریم جمیلہ۔ مغرب کی بے باک ناقد، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی، ۲۰۱۸ء]
اسلامی تاریخ میں لکھنے والی موجودہ دور کی خواتین میں ایک معتبر نام پروفیسر نگار سجاد ظہیر کا ہے۔ ان کے ادارہ’ قرطاس ‘نے اسلامی تاریخ پر دیگر مصنفین کی متعدد طبع زاد کتابیں اور قدیم عربی کتابوں کے تراجم شائع کیے ہیں ۔خود موصوفہ کی کتابیں (مطالعہ تہذیب، شعوبیت، عرب اور موالی، مختار ثقفی، حجاج بن یوسف، خوارج،جدید ترکی وغیرہ) فنِ تاریخ میں ان کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت پیش کرتی ہیں۔

دیگر ممالک میں بھی خواتین نے اہم دینی و علمی خدمات انجام دی ہیں ۔ خاص طور سے مغربی ممالک میں خواتین کے قلم سے اسلامیات کے مختلف پہلوؤں پرقابل قدر تصانیف معرضِ وجود میں آئی ہیں ۔ ان میں وہ خواتین بھی ہیں جن کا تعلق دیگر مذاہب سے ہے، لیکن انھوں نے اسلامیات سے دل چسپی لی ہے اور جو تحقیقات پیش کی ہیں انھیں عالمی پیمانے پر قبولِ عام حاصل ہوا ہے۔

خواتین کی علمی ترقی میں جامعات کا کردار

گزشتہ صدی کے اوائل سے لڑکیوں کی تعلیم کا رجحان بڑھا، ان کے لیے مخصوص تعلیمی ادارے قائم ہوئے اور عصری جامعات میں بھی انھیں داخلہ کے مواقع ملے تو ان کی علمی صلاحیتوں کو جلا ملی اور انھوں نے اسلامیات کے مختلف میدانوں میں ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالات تحریر کیے۔ یہ مقالات علوم اسلامیہ کے تمام موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں ۔ ان سے خواتین کے تخلیقی کمالات کا بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان میں قدیم و جدید مفسرین کے مناہجِ تفسیر کا تعارف کرایا گیا اور ان کا تجزیاتی و تنقیدی مطالعہ کیا ہے، سماجی، معاشی اور سیاسی موضوعات پر قرآن و حدیث کی روشنی میں بحث کی گئی ہے،سیرتِ نبوی کے مختلف پہلوؤں پر عصر حاضر کے تناظر میں تحقیق کی گئی ہے، نئے پیش آمدہ سماجی اور فقہی مسائل کا جائزہ لیا گیا ہے اور مقاصدِ شریعت کی روشنی میں ان کا حل پیش کیا گیا ہے۔

عصری جامعات کا قیام عرب اور مسلم ممالک میں بڑے پیمانے پر ہوا ہے۔ ان میں سے بعض مخلوط تعلیم فراہم کرتی ہیں۔ ان میں طلبہ کے ساتھ طالبات داخلہ لے کر تعلیم حاصل کرتی ہیں اور بعض تعلیمِ نسواں کے لیے خاص ہیں ۔ ان اداروں میں طالبات کے ذریعے اسلامیات پر خاصا کام ہوا ہے اور بڑی تعداد میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کے مقالے تیار ہوئے ہیں ۔ بر صغیر ہند وپاک میں بھی طالبات میں اعلیٰ تعلیم کے تحصیل کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے اور وہ عصری جامعات میں داخلہ لے کر ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کر رہی ہیں ۔ پاکستان اور ہندوستان دونوں جگہوں پر عصری جامعات میں دینیات (Theology) اور اسلامیات (Islamic Studies) کی فیکلٹیز قائم ہوئی ہیں اور ان کے تحت قرآن، حدیث، سیرت، اسلامی تاریخ اور دیگر مضامین کے الگ الگ شعبے قائم ہوئے ہیں اور ان کے تحت طالبات نے تحقیقی مقالات لکھے ہیں ۔ خاص طور سے پاکستان کی عصری جامعات میں طالبات کے ذریعہ علوم اسلامیہ پر خاصا کام ہوا ہے۔[ جناب محمد عاصم شہباز نے پاکستان کی بیس(۲۰) جامعات میں اسلامیات میں کی گئی پی ایچ ڈیز کی فہرست تیار کی ہے۔ اس کے مطابق کل آٹھ سو سڑسٹھ(۸۶۷) میں سے ایک سو تیرہ(۱۱۳)مقالات خواتین کے ہیں ۔] کسی قدر کام ہندوستان میں بھی ہو رہا ہے۔ لیکن افسوس کہ ان تحقیقی مقالات میں سے صرف چند ہی زیورِ طبع سے آراستہ ہو سکے ہیں۔ اس بنا پر عصری جامعات میں خواتین کے ذریعہ انجام پانے والے علمی کاموں کا نہ کما حقّہ تعارف ہو سکا ہے اور نہ ان سے استفادہ کی کوئی سبیل نکل سکی ہے۔

مستقبل کا منظر نامہ 

علومِ اسلامیہ کے میدان میں خواتین کی موجودہ پیش رفت کو اطمینان بخش کہا جاسکتا ہے، لیکن ان سے مزید کی توقع رکھنا بے جا نہ ہوگا۔ جس طرح ان کا ماضی درخشاں اور تاب ناک رہا ہے اسی طرح مستقبل میں بھی امید ہے کہ ان کے ذریعہ علوم اسلامیہ کے مختلف میدانوں میں قابلِ قدر اور معیاری کام سامنے آئے گا۔ اس تعلق سے چند پہلوؤں کی طرف توجہ دلانا معلوم ہوتا ہے۔

۱۔ عربی زبان کی اچھی صلاحیت:

علوم اسلامیہ میں کام کرنے کے لیے عربی زبان میں مہارت ضروری ہے۔ اس لیے کہ تمام مصادر و مراجع اسی زبان میں ہیں ۔ اگر چہ بہت سی قدیم کتابوں کا دیگر زبانوں میں ترجمہ ہو گیا ہے، لیکن اب بھی خاصا بڑا سرمایہ عربی زبان میں ہے۔ پھر یہ کہ جن کتابوں کا ترجمہ ہو گیا تھا، ان سے کام چلانے کے بجائے محقق کے لیے ضروری ہے کہ وہ براہ راست اصل کتابوں سے رجوع کرے اور ان کے حوالے دے۔ مجھے ان لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو عربی زبان سے واقفیت نہیں رکھتے، پھر بھی بڑی جرأت کے ساتھ علوم اسلامیہ میں تحریر و تصنیف کا کام انجام دیتے ہیں اور خود کو محقق کہلانا پسند کرتے ہیں۔

اس موقع پر ایک لطیفہ بیان کر دینا بے موقع نہ ہوگا۔ ڈاکٹر عائشہ عبد الرحمن بنت الشاطی عربی زبان و ادب کی ایک عظیم اسکالر ہیں ۔وہ ایک سمینار میں ہندوستان تشریف لائیں ۔ واپس جانے کے بعد انھوں نے ایک مجلس میں اپنے تأثرات بیان کیے تو یہ بھی کہا کہ میں نے دنیا میں بہت سے عجائبات دیکھے ہیں ۔ ایک عجوبہ یہ بھی ہے کہ مجھے ہندوستان میں یہ معلوم ہوا کہ وہاں کے بعض ایسے لوگوں نے قرآن مجید کا ترجمہ کیا ہے جنھیں عربی زبان نہیں آتی۔

عربی زبان سے ناواقفیت کے نتیجے میں محققین سے بڑی دل چسپ غلطیاں سرزد ہوتی ہیں ۔ اس وقت صرف ایک مثال کافی ہوگی۔ پاکستان کی ایک یونی ورسٹی سے میرے پاس ایک طالبہ کا پی ایچ ڈی کا مقالہ Evaluationکے لیے بھیجا گیا، جس میں قرآن اور سائنس کی روشنی میں ’ نظریۂ ارتقاء‘ کا جائزہ لیا گیا تھا۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میری نظر سے ان کا یہ جملہ گزرا:’’ ارتقاء عربی لفظ ’رقی‘ سے بنا ہے۔ قرآن پاک کی کسی بھی آیت میں لفظ ’ارتقاء‘ یا ’رقی‘ استعمال نہیں ہوا، جب کہ احادیثِ مبارکہ میں ’رقی‘ کا لفظ موجود ہے‘‘۔اس لیے کہ قرآن مجید میں مجرّد اور مزید (رقی اور ارتقاء) دونوں صیغوں میں یہ لفظ موجود ہے۔ [ملاحظہ کیجیے سورۂ ص، آیت۱۰، سورۂ الاسراء، آیت ۹۳]

ہندوستان میں طالبات کے لیے مخصوص تعلیم کے ادارے قائم ہیں ۔ ان کا نصاب عموماً ہلکا رکھا گیا ہے۔ اس کے پیچھے غالباً یہی منطق کارفرما ہے کہ عورتیں ’ناقص العقل‘ ہوتی ہیں ، اس لیے ان پر زیادہ بوجھ ڈالنا مناسب نہیں ، حالاں کہ اگر ان کا نصاب وہی رکھا جائے جو طلبہ کے لیے ہے اور ان کی تعلیم و تدریس کے لیے طلبہ کے مثل سہولتیں فراہم کی جائیں تو طلبہ کے مثل ان کی قابلیتوں میں بھی نکھار آ سکتا ہے۔

۲۔ جملہ مواد کا استحضار

محقق کے لیے ضروری ہے کہ جس موضوع پر وہ کام کرنا چاہتا ہے، اس پر اب تک جتنا کام ہو چکا ہے، اس سے واقف ہو جائے۔ جدید اصطلاح میں اسے ’لٹریچر سروے‘ کہا جاتا ہے۔ بعض حضرات اسے بالکل اہمیت نہیں دیتے۔ وہ دوسروں کی تحریریں دیکھنا اپنی توہین سمجھتے ہیں اور بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ میری تحریر بالکل طبع زاد ہے، میں نے کسی سے استفادہ نہیں کیا ہے، حالاں کہ علمی دنیا میں یہ رویّہ پسندیدہ نہیں ہے۔ سابقہ کاموں کو دیکھنا اس لیے ضروری ہے کہ مباحث کی تکرار نہ ہو۔ جو کام پہلے ہو چکا ہے اسے دوبارہ کرنا تحصیلِ حاصل ہے۔ لٹریچر سروے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ محقق کا ذہن موضوع کے نئے پہلوؤں کی طرف منتقل ہوتا ہے اور بسا اوقات وہ ایسے مباحث اٹھانے یا ان کے دلائل فراہم کرنے میں کام یاب ہوجاتا ہے جو اس سے پہلے کے محققین کے حاشیۂ خیال میں نہیں آئے تھے۔ چوں کہ تمام دست یاب لٹریچر تک رسائی اور فراہمی زحمت طلب ہوتی ہے، اس کے لیے کتب خانوں میں آمد و رفت کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے اس معاملے میں بسا اوقات محقق خواتین تن آسانی کا شکار ہو جاتی ہیں اور وہ بہ آسانی مل جانے والے لٹریچر پر اکتفا کر لیتی ہیں ۔

۳۔ تحقیقی معیار

بعض محقق سمجھتے ہیں کہ اپنی بحثوں میں قدماء یا متاخرین کے زیادہ سے زیادہ حوالے دینا تحقیق کا ا علیٰ معیار ہے۔ چنانچہ ان کی تحریروں میں حوالوں کی بھر مار ہوتی ہے۔ مقالہ یا بحث کا آغاز کرتے ہی وہ حوالہ دینا شروع کر دیتے ہیں اور اختتام تک کچھ کچھ وقفے سے حوالے دیتے چلے جاتے ہیں ۔ وہ ذرا رک یہ سوچنے کی زحمت نہیں کرتے ہیں کہ اس جگہ کسی سابق مصنف کا حوالہ دینے کی ضرورت بھی ہے یا نہیں ؟ کوئی عام سی بات، جو ہر شخص کہہ سکتا ہے، یا وہ بہ آسانی ہر کسی کی سمجھ میں آسکتی ہے، اس کا حوالہ دینے کی ضرورت کیا ہے؟ حوالہ دینے کے جوش میں انھیں یہ بھی خیال نہیں رہتا کہ وہ جس کتاب کا حوالہ دے رہے ہیں اس کا معیار کیا ہے؟ چنانچہ وہ بے تکلّف ثانوی بلکہ ثالثی درجے کی کتابوں کو بھی اپنے مراجع میں شامل کر دیتے ہیں ۔ ضروری نہیں کہ جتنی کتابوں کا مطالعہ کیا گیا ہے، سب کا کسی نہ کسی طرح حوالہ دے دیا جائے، بلکہ ہونا یہ چاہیے کہ صرف بہ قدرِ ضرورت حوالے دیے جائیں اور ان باتوں کے حوالے دیے جائیں جن کی واقعی ضرورت ہو اور جن سے کوئی استدلال کیا جا رہا ہو۔

۴۔ اسلام کی صحیح ترجمانی 

آج اسلام پر چہار جانب سے فکری یلغار ہے۔ پہلے شمشیر و سناں اور توپ و تفنگ سے حملے کیے جاتے تھے اور طاقت کے زور سے علاقوں پر قبضہ کیا جاتا اور انسانوں کو غلام بنا لیا جاتا تھا۔ آج باطل افکار کے ذریعہ عقلوں پر قبضہ کیا جا تا اور ذہنوں کو غلام بنایا جاتا ہے۔آج اسلام پر طرح طرح کے اعتراضات کیے جا رہے ہیں ۔ اس پر دہشت گردی کا لیبل چسپاں کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کا نظامِ خاندان زد پر ہے اور اس میں عورتوں کے حقوق کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس کے نظامِ سیاست کو موردِ الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ غرض مختلف پہلوؤں سے اسلام کو مطعون کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ باطل کا مقابلہ اسی کے ہتھیاروں سے کیا جائے اور اس کے اعتراضات کا جواب اسی کے اسلوب و انداز اور معیار کے مطابق دیا جائے۔ صدرِ اسلام میں خواتین نے اسلام اور رسولِ اسلام کے دفاع میں اہم خدمات انجام دی ہیں اور غیر معمولی قربانیاں پیش کی ہیں ۔ آج بھی وہ علم و تحقیق کے میدان میں اپنی خدمات پیش کر سکتی ہیں اور دفاعِ اسلام کا فریضہ بہ حسن و خوبی انجام دے سکتی ہیں ۔

۵۔ نسائی مباحث و مسائل کی درست تشریح

آج عالمی سطح پر خود نام نہاد مسلم خواتین کا ایک ایسا گروپ تیار ہو گیا ہے جو اسلامی مسلّمات و اقدار پر حملے کرنے میں پیش پیش ہے۔ وہ مردوں اور عورتوں کے درمیان ہر سطح پر ہر اعتبار سے مساوات چاہتا ہے۔ یہ خواتین کہتی ہیں کہ قرآن سماج میں ’رجالی تسلّط‘ کا علم بردار ہے۔ اسلام کے نظامِ خاندان پر ان کا اعتراض یہ ہے کہ اس میں خواتین کو دبا کر رکھا گیا ہے اور انہیں بہت سے حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ اس صورتِ حال میں ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ علم و تحقیق سے لیس ایسی مسلم خواتین سامنے آئیں جو نسائی مباحث و مسائل کی درست تشریح کریں ۔ وہ واضح کریں کہ عمل اور اس کے اجر میں اسلام نے مردوں اور عورتوں کے درمیان مساوات رکھی ہے، لیکن نظامِ خاندان میں اس نے دونوں کا دائرہ کار الگ الگ رکھا ہے۔ اسلام میں حقوقِ نسواں کی درست تعبیر و تشریح وقت کی ضرورت ہے۔ اس ضرورت کو مسلم خواتین بہ حسن و خوبی پورا کر سکتی ہیں ۔

نئے موضوعات، جن پر کام کرنے کی ضرورت ہے

تحقیق کی دو صورتیں عام طور پر رائج ہیں : ایک یہ کہ کسی مخطوطے کے چند نسخے حاصل کر لیے جائیں اور ان کا موازنہ کرتے ہوئے اس مخطوطے کو ایڈٹ کر دیا جائے۔ کسی نسخے میں کون سا لفظ چھوٹ گیا ہے؟ کس نسخے کی عبارت میں تھوڑا سا فرق ہے؟ اور داخلی شہادتوں کی روشنی میں کون سا نسخہ سب سے زیادہ معبتر ہے؟ ان چیزوں کی وضاحت کر دی جائے۔ عالمِ عرب میں اس طرز کا کام بڑے پیمانے پر ہوا ہے۔ اس طرح قدیم مصادر و مراجع کے نئے تحقیق اڈیشن منظرِ عام پر آئے ہیں ۔ تحقیق کی دوسری صورت یہ ہے کہ کسی شخصیت کو لے کر اس کے حالاتِ زندگی بیان کر دیے جائیں اور اس کی علمی، دینی یا رفاہی خدمات کا تعارف کرا دیا جائے، یا کسی مصنف کی کتابوں کا تعارف کراتے ہوئے اس کے منہجِ تالیف سے بحث کی جائے، یا کسی دور کو متعین کر کے اس میں ہونے والے کاموں کا تجزیہ کیا جائے اور اس دور کی اہم شخصیات کا تذکرہ کر دیا جائے۔تحقیق کی یہ دونوں صورتیں افادیت رکھتی ہیں اور ان کے مطابق بڑے پیمانے پر کام ہوا ہے اور ہو رہا ہے، لیکن میرے استاذ گرامی مولانا سید جلال الدین عمری صدر ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ اور امیر جماعت اسلامی ہند کہتے ہیں کہ تحقیق کی اعلیٰ صورت یہ ہے کہ فکری موضوعات پر کام کیا جائے اور ایسے مباحث اٹھائے جائیں جن میں سماج کو درپیش نت نئے مسائل کا حل پیش کیا گیا ہو۔

الحمد للہ اسلامیات کے میدان میں بحث و تحقیق کا کام بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے اور خواتین بھی اس میں سرگرمی سے حصہ لے رہی ہیں ۔ لیکن زیادہ تر کام روایتی انداز کا ہے۔ تیزی سے بدلتی دنیا میں ضرورت ہے کہ جو بہت سے نئے موضوعات سامنے آرہے ہیں ان پر اعلیٰ تحقیقی کام انجام دیا جائے۔ یہ موضوعات بہت سے ہیں اور ان کا دائرہ عقائد و الٰہیات، تہذیب و معاشرت، سیاست و معیشت، بین الاقوامی امور و مسائل اور دیگر میدانوں کو محیط ہے۔ مثال کے طور پر وجود باری تعالیٰ، اس کی صفات اور شانِ الوہیت کی تفہیم جدید، اسلام کا تصوّرِ توحید اور منکرینِ خدا، متشککین اورملحدین کے اعتراضات و شبہات کا تنقیدی جائزہ، حاکمیتِ الٰہ کا تصوّر، وحدۃ الوجود اور اسلامی تصورِ توحید، وحی و رسالت کا قرآنی تصور اور عقل انسانی کی نارسائی، ایمان بالغیب کی تفہیم جدید، قرآن مجید اور سائنسی حقائق کے درمیان تطبیق اور موافقت یا مخالفت کے پہلوؤں کی تحقیق، نئے دستوری، سیاسی اور سماجی مسائل میں سنتِ نبویؐ سے استفادہ کے حدود، نئے حالات میں اسلامی زندگی کی تشکیل میں اجتہاد کے امکانات، نئے احکام کے استنباط میں مقاصدِشریعت کی رعایت، بدلتے ہوئے حالات میں نئے علم کلام اور فقہ کی تدوین، اسلامی حدود و تعزیرات کی معقولیت کا اثبات، ارتداد اور آزادئ ضمیر کا مسئلہ، نفاذِ حدود میں جدید وسائل و ذرائع سے استفادہ کے حدود، مذاہب اور تہذیبوں کے درمیان مکالمہ کی ضرورت اور اس کے حدود، اسلامی فلسفۂ تاریخ کی تدوینِ نو، نئے تناظر میں معاشرہ میں عورت کا مقام اور اس کے سیاسی و سماجی حقوق، وراثت، شہادت اور طلاق وغیرہ میں عورت کے ساتھ مرد سے مختلف سلوک کی حکمتیں ، عائلی قوانین کی اصلاح: تعدّدِ ازواج کے حق کی تحدید، طلاق کے اختیار کو بعض آداب کا پابند بنانا، حقِ خلع کی تجدید، مطلقہ کے حقوق، ایک ساتھ تین طلاق کا مسئلہ، اسلامی ریاست میں قانون سازی اور انتظامِ مملکت میں غیر مسلموں سے اشتراک کے حدود، مسلمان اقلیتوں کا سیاسی موقف، بین الاقوامی تعلقات، مشترکہ عالمی مسائل کے حل میں غیر مسلموں کے ساتھ اشتراک کی بنیادیں ، معاشی ترقی کے اسلامی حدود، گلوبلائزیشن کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا تنقیدی جائزہ، حرمتِ سود کی حکمتیں ، سود کا جواز فراہم کرنے والے نظریات کا علمی و تنقیدی جائزہ، غیر سودی معیشت کا تنقیدی جائزہ، اسلامی بینکنگ اور فنانس کے مختلف پہلو، اسلامی بنیادوں پر انشورنس کی تنظیم جدید، وغیرہ۔[ پروفیسر محمد نجات اللہ صدیقی نے اپنے کتابچے میں ان موضوعات کی نشان دہی کی ہے جن پر موجودہ حالات میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ملاحظہ کیجیے: معاصر اسلامی فکر : چند توجہ طلب مسائل، ہدایت پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرس، نئی دہلی،۲۰۱۶]

یہ چند موضوعات ہیں جن کی نشان دہی کی گئی ہے۔ اس طرح کے دیگر بہت سے موضوعات کی فہرست تیار کی جاسکتی ہے جو محققین کی نظرِ کرم کے منتظر ہیں ۔ ان موضوعات پر خواتین بھی دادِ تحقیق دے سکتی ہیں۔

خواتین کے علمی کاموں کے تعارف کی ضرورت

واقعہ یہ ہے کہ اسلامی علوم میں خواتین کی خدمات کا کما حقہ تعارف اب تک نہیں کرایا جاسکاہے اور نہ ان کے بارے میں عموماً لوگوں کو کچھ معلومات ہیں ۔تذکرہ و تراجم کی کتابیں بھی ان کے ذکر سے تقریباً خاموش ہیں ۔مثال کے طور پر ابن الجزری المقریؒ (م ۸۳۳ھ)نے اپنی کتب غایۃ النھایۃ في طبقات القرّاء میں تین ہزار نوسو پچپن(۳۹۵۵)قاریوں کا تذکرہ جمع کیاہے،جن میں سے قاریات صرف تین (۳) ہیں ۔اسماعیل بغدادی نے اپنی کتاب ھدیۃ العارفین في أسماء المؤلّفین وآثار المصنّفین میں صرف دو(۲) صاحبِ تصنیف خواتین کا ذکر کیاہے۔ اسی طرح زرکلی کی الأعلام میں تیرہ(۱۳)اور عمر رضا کحالہ کی أعلام النساء میں صرف دس(۱۰)ایسی خواتین کا تذکرہ ہے جنہوں نے کسی موضوع پر تصنیف و تالیف کا کام کیاہے۔

خواتین کی خدمات سے بے خبری کا اندازہ ایک واقعہ سے لگایاجاسکتاہے۔ چھ برس قبل جب میری بھتیجی عزیزہ ندیم سحر عنبریں کے پی ایچ ڈی مقالے کے لیے عنوان کے انتخاب کا مرحلہ درپیش تھا، میں نے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ ’تفسیر وعلوم قرآنی میں خواتین کی خدمات ‘پر کام کرے۔ مشورہ کے لیے میں شعبۂ اسلامک اسٹڈیز، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی کے استاد اور سرپرست پروفیسر اخترالواسع کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے فرمایا کہ تفسیرِ قرآن میں خواتین کا کوئی قابلِ ذکر کام نہیں ہے، اس لیے اسے پی ایچ ڈی کا موضوع نہیں بنایا جا سکتا۔ میں نے جب ان کے سامنے موضوع کی اہمیت بیان کرنی چاہی تو انہوں نے فرمایا:کسی ایک خاتون کا نام بتائیے، جس نے کسی زبان میں قرآن مجید کی مکمل تفسیر لکھی ہو؟میں نے عرض کیا : تحقیق اسی کا نام ہے،معلوم ہوجائے گا کہ کسی خاتون نے تفسیر نہیں لکھی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ تلاش وجستجو سے کوئی تفسیر نکل آئے۔بالآخر یہ موضوع منظور ہوا اور جب کام مکمل ہوا تو اس کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ عربی، ترکی اور اردو میں ایک درجن سے زیادہ خواتین کی مکمل تفسیریں موجود ہیں، جن میں سے بعض بہت مبسوط اور ضخیم مجلدات پر مشتمل ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے بہت سی جزئی تفسیریں (سورتوں اور آیات)لکھی ہیں ، کئی زبانوں میں قرآن مجید کے ترجمے کیے ہیں۔ اس کے علاوہ قرآنی موضوعات پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالات سیکڑوں کی تعداد میں ہیں۔ یہی حال اسلامیات کے دیگر میدانوں کا ہے کہ ان میں خواتین کے کاموں سے عموماً بے خبری ہے۔ ضرورت ہے کہ خواتین کے علمی کاموں کے تعارف کی طرف توجہ دی جائے، انھیں تحقیق کا موضوع بنایاجائے اور ان کو نمایاں کیاجائے۔

***

تبصرے بند ہیں۔