اُردن کے کنگ کی ہندوستانی آمد

ڈاکٹر مصطفی کمال الدین دہلوی

اُردن کے کنگ عبد اللہ ثانی بن الحسین 3د ن کی سرکاری دورہ پر 27فروری کو ہندوستان پہنچ چکے ہیں ۔ اس سلسلے میں ہندوستان دو رخی علاقائی اور بین الاقوامی مذاکرات پر ان سے گفتگو کر نے کے لیے تیارہے۔ شاہ بن الحسین کے اس خصوصی دورہ میں ہندوستا ن میں مشرقی وسطی کی اہم پالیسیوں کو مزید مضبوط کیا جائیگا۔ یہ دورہ وزیر اعظم نریندرمودی کا دورہ مشرقی وسطی کے کچھ دن بعد ہی عمل پذیر ہو رہا ہے۔ واضح رہے کہ پچھلے مہینے ہی وزیر اعظم نریندرمودی اردن، متحدہ عرب امارات اور عمان گئے تھے،جو تاریخی اہمیت کا حامل ماناگیا ہے۔پچھلے 30سالوں میں ہندستان کی طرف سے ارد ن جا نے والا یہ پہلا وفد تھا، جس سے دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید مضبوطی آئیگی۔ ا س سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے اردن کے شاہ الحسین کا دورہ بھی کا فی اہم مانا جا رہا ہے۔ لازمی طور پر ان کایہ دورہ تجارتی، سرمایہ کاری اور تکنیکی اہمیت کا حامل ہے،لیکن بیشتر لوگ اس بات پر متعجب ہیں کہ اردن اور ہندوستان کس طرح انتہا پسندی کے خاتمہ کے لیے ایک دوسرے کا تعاون کریں گے۔ اس موقع پر یہ بات بھی کافی دلچسپ ہوگی کہ کنگ الحسین دہلی کے وگیان بھون میں ہو نے والے ایک پروگرام میں کس طرح داعش اور القاعدہ سے ملنے والی دھمکیوں کا توڑ پیش کریں گے۔ اس موقع پرعالی جناب الحسین ماہرین تعلیم، اسلامک اسکالرز اور مسلم طبقات سے آنے والے نمائدوں سے بھی براہ راست گفتگو فرمائیں گے۔خاص طور پر اسلامی ثقافت اور جدت پسندی سے متعلق عنوان پر گفتگو فرمائیں گے۔’ این ڈی ٹی وی‘ کے حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ یہ عنوان خود کنگ الحسین طے کیا ہے۔ وہیں وگیان بھون کے عالیشان ہال میں کنگ الحسین کے بھائی شہزادہ غازی بن محمد کی تحریرکر دہ کتاب ’A thinking person’s guide to Islam‘ کا بھی اجرا وزیر اعظم ہندکے دست مبارک سے کیا جائیگا۔ دہشت گردی کا سامنا کر نے میں سب سے اہم بات یہ آئی ہے کہ ہندوستان مسلمانوں کی اکثریت شدت پسندی مخالف ہے۔ شہزادہ غازی بن محمد جو کہ امام الانبیاٗ ﷺ کے خانوادے سے ہیں ، وہ اس اہم موضوع پر گہری نظر رکھتے ہیں اور انتہا پسندی سے کیسے لڑاجائے موصوف اچھی طرح جانتے ہیں ۔ اس کتاب کا پیش لفظ خود شاہ الحسین نے لکھا ہے جو بذات خود شدت پسندی کے خلاف ہیں ۔ اس کے علاوہ وہ یروشلم میں واقع مسجد الاقصی کے ذمہ داروں میں سے ہیں ۔

وزیر اعظم نریندرمودی کے سابقہ دورہ کے دوران اُردن کے ساتھ آپسی تجارت وسرمایہ کاری،دفاع اورشدت پسندی کے خلاف تحریک پر بھی دونوں ممالک کے درمیان بات چیت ہوئی تھی۔شدت پسند مخالف افسران کے مطابق بہت سے ہندوستانیوں نے وطن واپسی کی ہے جو داعش کے ساتھ تھے۔ یہ لوگ عراق، شام اور افغانستان ودیگر ممالک میں انتہا پسندی کی کارکردگی میں شامل تھے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ جب شاہ الحسین نے عقابہ کی ملاقاتیں شروع کیں جن میں ان کا مقصد دہشت گردی کے خلاف کام کر نا تھا تو انہوں نے وزیر اعظم نریندرمودی کو بھی اس میں شامل کیا تھا۔ اب یہ بات مسلم ممالک اور بھارت کو بھی واضح ہوگئی ہے کہ دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے ان رہنمائوں کی بھی ضرورت ہے۔ جو عوام میں موجود ایسے گروپوں کو سمجھا سکیں جو انتہا پسندی پھیلاتے ہیں ۔ اس کے لیے اہم ہے کہ کس طرح ان فراد کے درمیان اسلام کے صحیح نظریہ کو پیش کیا جائے۔عالمی صوفی کانفرنس جو دہلی میں ہوئی تھی، اس میں وزیر اعظم ہند نے اللہ تعالی کے 99صفاتی ناموں کا تذکرہ کیا تھا اور کہاتھا کہ ان میں سے ایک بھی دہشت پسندی کے لیے نہیں ہے اور اس کے پہلے 2نام الرحمان اور الرحیم ہیں ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے تمام طبقات مثلا:سنی، شیعہ، دیوبندی، بریلوی ودیگر ایک ہی پلیٹ فارم پر آکر دہشت گردی کے خلاف حکومت کے ساتھ ہیں ۔ اس طرح اسلامی فقہ کے ماہرین اور تقریبا ہر مسلم لیڈر انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلا ف اپنی آواز بلند کر رہا ہے۔ مارچ2016میں ہونے والی بین الاقوامی صوفی فورم اور اکتو بر 2017میں جمعیۃ علمائے ہند کی طرف سے ہونے والا امن اور ایکتا سمیلن میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی غیر اسلامی ہے، غیر وطنی ہے، غیر انسانی ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے مکاتب فکر مثلا جمعیت اہلحدیث اور جماعت اسلامی ہند نے بھی زور دار طریقے سے دہشت گردی ار انتہا پسندی کی مخالفت میں آواز یں بلند کیں اور درحقیقت انہوں نے دہشت گردی کے نظریات کو اسلام کے اصولوں سے الگ کیا اور عوام کو اجاگر کیا۔

میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق شاہ الحسین نئی دہلی کے وگیان بھون میں ہندوستان کے متعدد مذاہب کی موجودگی اور ان کا باہمی ربط وضبط کی نشاندہی کریں گے۔ خاص طور سے شاہ الحسین نے دہلی کا انتخاب کیا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ آخر کس طرح ہندوستان داعش کی حرکات سے محفوظ رہے۔ یقینی طور پر ہندوستان ایک کثیر مذہبی ولسانی ملک ہے۔ ایک طرف قدیم ویدک دھرم، گوتم بدھ کی روایات اور مہاویر جین اور گرونانک کی عدم تشدد کی تعلیمات تو دوسری طرف اسلام کا نظریہ توحید نے تمام ہندوستانیوں کو ایک پلیٹ فارم پرکھڑا کر دیا ہے۔ ہندوستان میں مذہب اسلام حضور محمد ﷺ کے دور میں پہنچ گیا تھا اور کیرلا میں ہندوستان کی پہلی مسجد ساتویں صدی عیسوی کی اوائل میں تعمیر ہوئی تھی جیسا کہ تاریخ میں درج ہے۔ لہذا ہندوستان کی تہذیبی اور ثقافتی تکثیریت میں یہ بات بخوبی موجود ہے کہ وطن عزیز نے انتہا پسندی اور شدت پسند نظریات کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کر کے پوری دنیا میں کو ایک پیغام دیا ہے۔قزاکستان،سودان اور لاتویا میں رہے ہندوستان کے سفیر اشوک سجن ہر نے لکھا ہے کہ وزیر اعظم نریندرمودی اور شاہ عبد اللہ الحسین دونوں اس بات کے خلاف آواز اٹھائیں گے۔انتہا پسندنظریات کو پاک رکھنے کی کوششوں سے متعلق گفتگو کی جائیگی اور ہندوستان واردن نہ صرف یہ کہ دہشت گردی سے طاقت اور سختی سے مقابلہ کریں گے بلکہ ان نظریات کو بھی عام کریں گے جو آپسی رواداری اور پیار ومحبت پر مبنی ہوں ، تاکہ دہشت گردی کے خلاف لوگ کھڑے ہوں ۔ شاہ عبد اللہ الحسین کی اس کوشش نے ان کو عالمی سطح پر تعاون دلایا ہے۔ وہ تکفیریت کے سخت خلاف ہیں۔

اُردن کی راجدھانی ’امان اعلامیہ میں مسلم دانشور اور علماء جمع ہوئے تھے، ان حضرات نے 3نکات پر اپنا اجما ع کیا تھا نمبر 1:تکفیریت کا انکار،2 :ان کے خون اور ان کے مال سے احراز،3:ان فتوئوں کا انکار جو درست نہ ہوں ۔متوسط اسلامی نظریات اور ثقافت کی اس اجتماع میں کنگ عبداللہ الحسین نے کہا کہ اسلام انتہا پسندی اور شدت پسندی کے خلاف ہے اور مذہبی آزادی، انصاف اور امن کا پیامبر ہے اور غیرمسلموں سے اچھے تعلقات کی تعلیم دیتا ہے۔اسلام بہتر دوستی، اچھی بات بتا نے اور دنیا بھر میں امید جگا نے کی رہنمائی کرتا ہے۔اس موقع پر بہت سے ہندوستانی اسلامک علما جن میں اے پی ابو بکر مصلیار،مولانا محمود مدنی اور پروفیسر اختر الواسع ودیگر موجودتھے۔ ان سب کا یہ نظرہے کہ اگر ’امان اعلامیہ‘ کی پوری طرح پیروی کی جائے تو یقینا یہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمہ کا سب بنے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔