بیاد ناصرؔ کاظمی

ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی

گُل ہوئی دو مارچ کو شمعِ ادب کی روشنی

چل دئے سوئے جناں جس وقت ناصرؔکاظمی

۔

ہے مشامِ جاں معطر اُن کی غزلوں سے ابھی

اُن کے گلہائے سخن میں ہے ابھی تک تازگی

۔

عہدِ حاضر میں تھے عصری آگہی کے وہ نقیب

اُن کی غزلوں میں ہے مضمر سوز و سازِ زندگی

۔

مِٹ نہیں سکتے کبھی ان کے نقوشِ جاوداں

شہرۂ آفاق ہیں اُن کے سرودِ سرمدی

۔

دل کی دھڑکن تھی سبھی کے اُن کی اردو شاعری

دامنِ دل کھینچتی ہے جس کی اب تک دلکشی

۔

ہیں سبھی گرویدہ ان کے فکر و فن کے آج تک

ہے نشاطِ روح کا ساماں حدیثِ دلبری

۔

’ برگِ نے ‘ ہو ’پہلی بارش‘ یا ’نشاطِ خواب‘ ہو

اُن کی عصری معنویت کم نہیں ہوگی کبھی

۔

لوح دل پر مُرتسم ہیں اُن کے یادوں کے نقوش

مرجعِ اہلِ نظر ہے اُن کی برقی شاعری

تبصرے بند ہیں۔