علیحدگی

ذیشان الٰہی

اس نے الماری سے

اپنے سارے کپڑے چھانٹ چھانٹ کر

بیگ کے اندر ٹھونس لیے ہیں

کچھ دن پہلے

مرے دلائے سوٹ اٹھا کر آتش دان میں جھونک دیے ہیں

دیواروں پر ٹنگی ہوئی تصویریں پھاڑ کے

خود کو مجھ سے الگ کیا ہے

میرے بخشے(سہاگ رات کے) کنگن

مجھ پر دے مارے ہیں

اور گملوں سے

اپنے لگائے ہوئے پھولوں کے پودے نوچ کے پھینک دیے ہیں

وہ اپنی دانست میں

 مجھ سے جڑی ہوئی ہر یاد مٹا کر چلی گئی ہے

شکن زدہ بستر پر لیکن

خوشبو اپنی بھول گئی ہے

تبصرے بند ہیں۔