عمرہ: فضائل اور احکام

 مفتی محمد عارف باللہ القاسمیؔ

دو بے سلے کپڑے پہن کرخانہ کعبہ کے پاس پوری دنیا سے سمٹ کرپروانے کی طرح جمع ہونا، اس کے ارد گرد چکر لگانا اوراس کے قرب وجوار میں واقع وادیوں میں دیوانہ وار دوڑنا ہوسکتا ہے کہ میزان عقل میں ایک دیوانگی محسوس ہو لیکن یہ ایسی دیوانگی ہے جس کی تمنا لاکھوں عقل مندوں کے دلوں میں پوشیدہ ہے،درحقیقت یہ دیوانگی نہیں بلکہ اپنے پالن ہار خداکے ساتھ اپنی شیفتگی ووارفتگی کے اظہار کا ایک بہترین طریقہ ہے کہ اس کے ذریعہ اس کی محبت کا عملی اظہار ہوتا ہے اور اپنی تمام تر خواہشات اور پسندیدگی کو چھوڑ کر اللہ کے حکم کی تابعداری کرتے ہوئے بندہ یہ ثابت کرتا ہے کہ خدا کو پانے کے لئے خدا کی ہر آواز پر ہم سراپا’’ لبیک ‘‘ہیں، اس کی جستجو میں اس کی را ہ کی بادیہ پیمائی کی تمام شرطیں ہمیں منظور ہیں، ہم پر ہماری خواہشات کی حکمرانی نہیں، بلکہ خدا کی حکمرانی ہے کے وہ جس اندا ز میں ہمیں اپنے در پر بلانا چاہے ہم بصد شوق’’ لبیک اللہم لبیک‘‘کے ترانے گنگناتے ہوئے حاضر ہیں، بس ہماری صرف ایک یہی آرزو ہے کہ ہمارا خدا ہمیں مل جائے۔

عمرہ کی شرعی حیثیت:

خانہ کعبہ کی زیار ت بھی اتنی اہم ہے کہ وہ بھی ایک عبادت ہے اور اس سے بھی اللہ کا تقرب نصیب ہوتا ہے، حج اور عمرہ دو ایسی عبادتیں ہیں جن کی ادا ئیگی کے لئے بندگان خدا دور دور سے خانہ کعبہ کے پاس جمع ہوتے ہیں، عمرہ کا معنی زیارت ہے، یہ پوری عمر میں ایک مرتبہ سنت مؤکدہ ہے۔ ایک صحابیؓ نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ کیا عمرہ واجب ہے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ واجب نہیں ہے البتہ تم عمرہ کرو کیونکہ عمرہ کرنا افضل ہے، (ترمذی :۸۵۳)اس حدیث کی روشنی میں فقہاء نے یہ صراحت کی ہے کہ اس سے عمرہ کا مسنون ہونا ہی معلوم ہوتا ہے، (فتح القدیر:کتاب الحج،باب الفوات)

عمرہ کی فضیلت:

ہر عبادت جو اللہ کے لئے کی جائے اس میں انسانوں کی بے شمار بھلائیاں پوشیدہ ہوتی ہیں اور ان کو انجام دینے والا بے شمار نیکیوں اور اس میں مضمر فوائد کا مستحق بن جاتا ہے، عمرہ کے بارے میں رسو ل اللہ ﷺ کا ارشاد ہے :

العمرۃ الی العمرۃ کفار ۃ لما بینہماوالحج المبرور لیس لہ جزاء الا الجنۃ (بخاری:۱۶۵۰)

’’ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک کے تمام گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مبرور کا بدلہ تو جنت ہی ہے ‘‘

حضرت عبد اللہ ابن مسعود ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

تابعوا بین الحج والعمرۃ فانہما ینفیان الفقر والذنوب کما ینفی الکیر خبث الحدید والذہب والفضۃ (ترمذی:۷۳۸)

’’تم حج اور عمرہ بار بار کرتے رہا کرو کیونکہ یہ دونوں فقر(غربت)اور گناہوں کو اس  طرح دور کرتے ہیں جیسے آگ کی بھٹی لوہے اور سونے اور چاندی کے میل کچیل اور زنگ کو صاف کرتی ہے‘‘

حضرت ابو ہریرہؓ رسول اکرم ﷺ کا یہ ارشاد گرامی نقل کرتے ہیں :

وفد اللہ عزوجل ثلاثۃ الغازی والحاج والمعتمر(نسائی:۳۰۷۰)

’’اللہ کے تین وفد ہیں اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے، حج کرنے والے اور عمرہ کرنے والے‘‘

ایک دوسری روایت میں رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد گرامی منقول ہے :

الحجاج والعمار وفد اللہ ان دعوہ اجابہم وان استغفروہ غفرلہم(ابن ماجہ:۲۸۸۳)

’’حج اور عمرہ کرنے والے اللہ کے وفد ہیں اگر وہ اللہ سے دعا کریں تو اللہ ان کی دعا قبول کرے اور اگر وہ اللہ سے مغفرت طلب کریں تو اللہ ان کی مغفرت کردے‘‘

ان روایات سے عمرہ کی فضیلت بخوبی معلوم ہوجاتی ہے کہ اس سے ہر لمحہ معصیتوں میں گرفتار بندوں کو معافی ملتی ہے،فقر وافلاس دور ہوتا ہے، گناہوں کی صفائی ہوتی ہے اور اللہ کا ایسا قرب نصیب ہوتا ہے کہ اللہ سے جو مانگیں اللہ عنایت کردیتا ہے،اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے چار مرتبہ عمرہ کیا (بخاری :۱۶۵۲)

عمرہ کی ادائیگی کے طریقے:

عمرہ کی ادائیگی کے تین طریقے ہیں:

(۱)’’افراد العمرۃ‘‘:یعنی حج کے مہینوں میں صرف عمرہ کی ادائیگی کی نیت سے احرام باندھے اوراس کے بعد حج کرنے کا ارادہ نہ ہو یا حج سے فراغت کے بعد عمرہ کرے یا حج کے مہینوں کے علاوہ کسی اورمہینہ میں عمرہ کرے یہ سب’’ افراد العمرۃ‘‘ ہیں۔

(۲)’’تمتع‘‘یعنی عمرہ کے ساتھ حج کا بھی ارادہ ہو البتہ ابتداء ً  صرف عمرہ کا احرام باندھے اور عمرہ کی ادائیگی کے بعد احرام کھول دے پھر حج کے لئے احرام باندھے اور حج کی ادائیگی کرے۔

(۳)’’قران‘‘ حج اور عمرہ دونوں کے لئے ایک ساتھ احرام باندھے اور دونوں کو ایک ساتھ ادا کرے۔

ان تینوں طریقوں میں سے ہر ایک طریقہ پر عمرہ کی ادائیگی ہو جاتی ہے جیساکہ کتب فقہ میں اس کی صراحت موجود ہے، الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے:

وکیفما ادی العمرۃ علی ای وجہ من ہذہ الوجوہ تجزی عنہ ویتادی فرضہا عند القائلین بفرضیتہا کماتتادی سنیتہا علی القول بسنیتہا (الموسوعۃ الفقہیۃ:حرف العین، عمرہ)

’’ان طریقوں میں سے کسی بھی طریقہ پر عمرہ کرے وہ اسے کافی ہوگا اور عمرہ کو فرض کہنے والوں کے نزدیک فرضیت ادا ہوجائے گی جیساکہ سنت کہنے والوں کے نزدیک اس کی سنیت ادا ہوجائیگی‘‘

(1)  افراد العمرۃ:

 ’’افراد العمرۃ‘‘ کی تفصیل یہ ہے کہ احرام کے قواعد وضوابط اور اس کے آداب کی رعایت کرتے ہوئے احرام باندھ کر دو رکعت نماز پڑھ لے بعدازاں عمرہ کی ان الفاظ میں نیت کرلے:

اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اُرِیْدُ الْعُمْرَۃَ فَیَسِّرْہَا لِیْ وَتَقَبَّلْہَا مِنِّیْ اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ

’’اے اللہ میں عمرہ کرنا چاہتا ہوں اسے میرے لئے آسان بنادیجئے اور میری جانب سے اسے قبول بھی کر لیجئے، بیشک آپ سننے والے اور جاننے والے ہیں ‘‘

لیکن ان ہی الفاظ میں نیت کرنا یا زبان سے نیت کرنا ضروری نہیں صرف عمرہ کی نیت کرلینا کافی ہے چاہے دل ہی میں نیت کرلے یا ان الفاظ کے علاوہ جس زبان سے وہ واقف ہواس زبان میں نیت کرلے۔ اس لئے کہ حج ہو یا عمرہ۔ اس کی نیت کے الفاظ کو زبان سے ادا کرنا ضروری نہیں جیساکہ حج کے بارے میں علامہ حصکفی تحریر فرماتے ہیں :

فیصح الحج بمطلق النیۃ ولو بقلبہ (درمختار:کتاب الحج،فصل فی الاحرام الخ)

’’مطلق حج کی نیت سے چاہے وہ دل ہی دل میں کیوں نہ ہو حج صحیح ہو جائے گا‘‘

البتہ ان الفاظ کے ذریعہ زبان سے نیت کرنا بہتر ہے جیساکہ علامہ شامی تحریر فرماتے ہیں :

ان الذکر باللسان حسن لیطابق القلب(حوالہ سابق)

’’زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا بہتر ہے تاکہ زبان بھی دل کے موافق ہوجائے‘‘

نیت کے بعد’’ تلبیہ ‘‘کہے۔ ’’تلبیہ ‘‘کسی بلانے والے کے بلاوے کو قبول کرنے کو کہتے ہیں، چونکہ حج یا عمرہ کرنے والا احکم الحاکمین کی دعوت کو قبول کرکے اس کے در پر حاضر ہوتا ہے اوراس کے حکم کی تعمیل میں ’’ لبیک اللہم لبیک‘‘ کا نغمہ گنگناتے ہوئے اس کے در پر جبیں فرسا ہوتا ہے اس لئے ان کلمات کوتلبیہ کہا جاتا ہے رسو ل اللہ ﷺ سے ’’تلبیہ ‘‘کے الفاظ منقول ہیں :

لَبَّیْکَ اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ،لَبَّیْکَ لاَ شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لاَ شَرِیْکَ لَکَ(بخاری:۱۴۴۸)

اس موقع پر’’تلبیہ ‘‘کہنا یااللہ تعالی کی تعظیم پر مشتمل کوئی ذکرکرنااحناف کے نزدیک احرام کے صحیح ہونے کے لئے شرط ہے اس لئے اس کے بغیر احرام صحیح نہ ہوگا جیسا کہ الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے :

فلا یصح الاحرام بدون التلبیۃ او ما یقوم مقامہا(الموسوعۃ الفقہیۃ:حرف العین،عمرہ)

’’تلبیہ یا اس کے قائم مقام دوسرے کسی ذکر کے بغیر احرام صحیح نہ ہوگا ‘‘

 تلبیہ کہتے ہی محرم بن جائے گا اور اس پر وہ تمام چیزیں حرام ہوجائیں گی جو احرام کی حالت میں حرام ہیں۔

یہاں یہ بات بھی ذہن نشیں رہنی چاہئے کہ تلبیہ کہنا اس وقت بند کیا جائے گا جب پہلے طواف سے پہلے حجر اسود کو بوسہ لے لیا جائے یا استلام یا اس کی جانب اشارہ کرلیا جائے چناں چہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے :

یلبی المعتمر حتی یستلم الحجر(ابوداؤد:۱۵۵۱)

عمرہ کرنے والا حجر اسود کا بوسہ لینے تک تلبیہ کہتا رہے گا

مکہ مکرمہ پہونچنے کے بعد مسجد حرام پہونچ جائے، اب وہ منزل آگئی جس کی دیدار کی تمنا دل میں انگڑائیاں لے رہی تھی اور یہاں سے دور اپنے ملک میں رہتے ہوئے جس کا تذکرہ آنکھوں کو آبدیدہ کر دیا کرتا تھاچناں چہ مسجد حرام میں داخل ہوتے وقت درود شریف پڑھی جائے اور پھر عام مساجد میں داخل ہونے کی دعا:’’اللہم افتح لی ابواب رحمتک‘‘ پڑھتے ہوئے حرم شریف میں داخل ہواجائے ذرا آگے بڑھتے ہی سرچشمہ ہدایت خانہ کعبہ پر نگا ہ پڑتی ہے، یہ وقت دعا کی قبولیت کا ہے اس لئے اس موقع کو قیمتی جانتے ہوئے اپنے لئے اور اعزہ واقارب اور تمام مسلمانوں کے لئے دنیوی واخروی فوز وفلاح اوررشد وہدایت کی دعا کی جائے اور یہ دعا کی جائے کہ اللہ اس دیا ر مقدس کی حاضری کی سعادت بار بار عنایت فرمائے، بہتر یہ ہے کہ اس قیمتی وقت کے لئے پہلے سے ہی دعا سونچ لی جائے۔

دعا سے فراغت کے بعد خانہ کعبہ عمرہ کا ایک رکن طواف کو انجام دینے کے لئے جحر اسود کے سامنے آئے اور طواف کی یہ نیت کرلے ’’اے اللہ ! تیری خوشنودی کے لئے میں عمرہ کا طواف کرتا ہوں اسے آسان کردیجئے اورقبول فرمالیجئے، ان دنوں بہت زیادہ ازدحام ہونے کی وجہ سے چونکہ ہر شخص کا حجر اسود کے قریب آنا ممکن نہیں، اس لئے اگر آسانی سے دوسروں کو تکلیف میں مبتلا کئے بغیرحجر اسود تک رسائی ہو سکے تو اس کے قریب آجائے اور کانوں تک ہاتھ اٹھاکر بسم اللہ اللہ اکبرکہے اور اگر بآسانی حجر اسود کو بوسہ لینا ممکن ہو تو بوسہ لے کر طواف کا یہیں سے آغاز کیاجائے اور اگر بوسہ لینا ممکن نہ ہو توہاتھ چھونا بہتر ہے اور اگر ازدحام کی وجہ سے اس کی بھی بٓاسانی گنجائش نہ ہوتو صرف اس کی جانب اشارہ کرلیا جائے،دوسرے کو تکلیف دے کر خانہ کعبہ کے قریب جانا یا حجر اسود کوبوسہ لینایا اسے ہاتھ سے چومنا مکروہ ہے اس سے بچنا ضروری ہے، ان دنوں عام طور پر حجر اسود پر عطر لگا ہوتا ہے ایسی صورت میں اس کو نہ تو بوسہ دینا چاہئے اور اور نہ چھونا چاہئے اس لئے کہ حالت احرام میں عطر لگانا منع ہے اگر بوسہ لینے سے یا چھونے سے عطر لگ گیا تو کفارہ واجب ہوجائے گا:

وقالوا فی من استلم الحجر فاصاب ید ہ من طیبہ ان علیہ کفارۃ(بدائع الصنائع)

’’فقہا ء نے کہا ہے کہ اگر کسی نے حجر اسود کا بوسہ لیا اور اس کے ہا تھ میں اس کی خوشبو لگ گئی تو اس پر کفارہ ہے‘‘

 اور اگر خانہ کعبہ کے قریب آنا ممکن نہ ہو تو ان دنوں آسانی کے لئے حجر اسود کے سامنے علامتی طور پر ایک سیاہ لکیر بنائی گئی ہے اور دیواروں پر سبز لائٹ کے ذیعہ اس مقام کو واضح کیا گیا ہے اسی جگہ سے حجر اسود کی جانب اشارہ کرکے بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر طواف شروع کیا جائے اور ہر بار یہیں سے طواف شروع کرے اور یہیں پر ختم کرے اسی طرح سات چکر لگائے، ایک طواف مکمل کرکے دوسرے طواف کو شروع کرنے سے پہلے بوسہ لیا جائے یا استلام (ہاتھ سے چھونا )یا اشارہ کیا جائے،حتی کہ آخری طواف مکمل کرنے کے بعد بھی بوسہ لیا جائے یا بوسہ ممکن نہ ہونے کی صورت میں استلام یا اشارہ کیا جائے۔

اس طواف کے ہر چکر میں یہ مسنون ہے کہ چادر اس طرح لپیٹی جائے کہ دائیں ہاتھ کے بغل سے نکل کر بائیں کاندھے پر رہے اور دایاں کاندھا کھلا رہے، فقہی اصطلاح میں اس کو ’’اضطباع‘‘ کہتے ہیں، طواف سے فراغت کے بعد چادر کو درست کرلیا جائے۔

نیز اس طواف میں مردوں کے لئے یہ بھی مسنون ہے کہ ابتدائی تین طواف میں بہادروں کی طرح کسی قدر سینہ نکال کر چلے اسی کو ’’رمل‘‘ کہتے ہیں، بقیہ چار طواف میں ’’رمل‘‘ کے بغیر چکر لگائے۔ اور اگر ابتدائی تین چکر میں رمل چھوٹ جائے تو آخری چار چکر میں اس کے بدلے رمل نہیں کیا جائے گاکیونکہ آخری چار چکر میں نہ کرنا ہی مسنون ہے، البتہ اگر رمل نہ کر سکے یا آخر کے چار میں رمل کرلے یا ہر ایک چکر میں رمل کرلے تویہ خلاف سنت اور مکروہ تنزیہی تو ہوگا لیکن اس سے دم یا کفارہ وغیرہ لازم نہ ہوگا(رد المحتار:فصل فی الاحرام)

طواف کے دوران رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان دعا کا کثرت سے اہتمام کرنا چاہئے رسول اللہ ﷺ سے اس جگہ یہ دعا منقول ہے :

رَبَّنَا آتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِیْ الآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ(ابوداؤد،باب الدعاء فی الطواف)

’’اے ہمارے پروردگار ! ہمیں دنیا کی بھی بھلائی عطا فرمائیے اور آخرت کی بھی،اور ہمیں آگ کے عذاب سے بھی بچائیے‘‘

طواف کے دوران تلاوت قرآن کے بجائے دعا کرنا اور ذکر خداوندی میں مشغول ہونا زیادہ بہتر ہے کیونکہ طواف سے متعلق روایات میں قرآن کریم کی تلاوت کا تذکرہ نہیں ملتا ہے بلکہ دعاؤں کا ہی تذکرہ ملتا ہے چناں چہ علامہ شامی اس پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں :

و الحاصل ان ہدی النبی ﷺ ہوالافضل ولم یثبت عنہ فی الطواف قراء ۃ بل الذکر وہو المتوارث من السلف والمجمع علیہ فکان اولی

خلاصہ کلام یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ  کا عمل ہی افضل ہے اور آپ ﷺ سے طواف میں تلاوت قرآن ثابت نہیں ہے بلکہ ذکر ثابت ہے اور یہی اسلاف سے منقول ہے اور اسی پر اتفاق ہے اس لئے یہی زیادہ بہتر ہوگا(رد المحتار:فصل فی الاحرام، مستحبات الطواف)

خانہ کعبہ سے تقریبا چھ گز کے فاصلہ پر حطیم واقع ہے حطیم اور خانہ کعبہ کے درمیان خانہ کعبہ سے متصل چھ گزکا اندرونی حصہ درحقیقت خانہ کعبہ ہی کا حصہ ہے، قریش نے خانہ کعبہ تعمیر کرتے وقت تعمیری اسباب میں کمی کی وجہ سے اس حصہ کو چھوڑ دیا تھا،رسول اللہ ﷺ نے بھی اس کو اسی حال پر اس خوف سے باقی رکھا کہ اس سے دشمنان اسلام کو اسلام مخالف فتنہ پیدا کرنے کا موقع مل سکتا تھا،حضرت عبد اللہ ابن زبیرنے رسول اللہ ﷺ کی مرضی کے موافق اس کی تعمیر کی، بعد میں حجاج ابن یوسف نے اپنی عہد حکومت میں اس کو توڑ کر قریش کی بنائی ہوئی حالت پر تعمیر کردیاان حالات میں اس وقت کے علماء نے یہ فتوی دیا کہ اب اس کو اسی حال میں رہنے دیا جائے ورنہ خانہ کعبہ بادشاہوں کا کھلونا بن جائے گا اور ہر ایک اپنی مرضی کے موافق اس کی تعمیر کرتا رہے گا جس سے اس کی عظمت پامال ہوگی۔ اس لئے طواف کے دورا ن اس بات کا خیال رکھا جائے کہ حطیم سے باہر طواف کیا جائے اگر اس کے اندر سے طواف کیا گیا تو طواف صحیح ناقص رہے گا اور اس چکر کو دوبارہ کرنا ہوگا اور دوبارہ نہ کرنے کی صورت میں ا س نقصان کی تلافی کے لئے دم دینا ہوگا(فتح القدیر:باب الجنایات،فصل طاف طواف القدوم محدثا)

طواف کے لئے باوضو ہونا ضروری ہے اگر طواف کے دوران وضو ٹوٹ جا ئے تو طواف روک کر وضو کر لیا جائے پھر بقیہ طواف کو مکمل کیا جائے بے وضو طواف کرنے کی صورت میں قربانی واجب ہوگی۔

طواف کے دوران سلام ومصافحہ اور دینی اور ضروری باتیں کرنے کی گنجائش ہے، رسو ل اللہ ﷺ کا ارشاد ہے :

الطواف حول البیت مثل الصلاۃ الا انتم تتکلمون فیہ فمن تکلم فیہ فلا یتکلم الا بخیر(ترمذی:باب ماجاء فی الکلام فی الطواف)

’’خانہ کعبہ کا طواف نماز کی طرح ہے صرف فرق یہ ہے کہ تم طواف میں بات کرتے ہو چناں چہ جو اس میں بات کرے توبس نیک اور بھلی بات ہی کرے‘‘

طواف کی تکمیل کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا واجب ہے اور ان دورکعتو ں کو مقام ابراہیم میں ادا کرنا بہتر ہے لیکن ازدحام کی صورت میں جبکہ مشقت اور دوسروں کو تکلیف پہونچنے کا اندیشہ ہو تو اس سے بچنا ہی بہتر ہے کیونکہ اس جگہ اسے ادا کرنا ضروری نہیں جب کہ دوسروں کو تکلیف پہونچانے سے بچنا ضروی ہے اور یہ نماز مسجد حرام میں کہیں بھی پڑھی جاسکتی ہے، حتی کہ اگر مسجد حرام میں ادا کئے بغیر کوئی اپنے گھر واپس آجائے اور اپنے گھر پر اسے ادا کرے پھر بھی ادا ہوجائیگی البتہ ایسا کرنا ناپسندیدہ ہے،مقام ابراہیم یا اس سے قریب ترین جگہ میں اسے ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ (رد المحتار:فصل فی الاحرام)

اس نماز کی ادائیگی کے بعد سعی کے لئے جانے سے پہلے بہتر ہے کہ ملتز م سے چمٹ کر دعا کرے کیونکہ ملتزم ان پندرہ جگہوں میں سے ایک ہے جہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں، علامہ ابن ہمام تحریر فرماتے ہیں :

فی رسالۃ الحسن البصری ان الدعاء مستجاب ہناک فی خمسۃ عشرموضعا:فی الطواف،وعند الملتزم وتحت المیزاب،وفی البیت، وعند زمزم، وخلف المقام، وعلی؍ الصفا، وعلی المروۃ وفی السعی وفی عرفات، وفی مزدلفۃوفی منی وعند الجمرات،وذکر غیرہ انہ یستجاب عند رویۃ البیت وفی الحطیم(فتح القدیر:باب الاحرام،فصل فی فضل ماء  زمزم)

’’حضرت حسن بصری کے رسالہ میں مذکور ہے کہ مکہ میں پندرہ جگہوں پر دعائیں قبول ہوتی ہیں :طواف میں، ملتزم کے پاس،میزاب کے نیچے،خانہ کعبہ کے اندر،زمزم کے پاس،مقام ابراہیم کے پیچھے،صفا اور مروہ پر،سعی کے دوران عرفات میں مزدلفہ میں منی میں اور جمرات کے پاس اور حسن بصری کے علاوہ دیگر لوگوں نے یہ ذکر کیا ہے کہ دعا خانہ کعبہ کے دیدار کے وقت اور حطیم میں قبول ہوتی ہے‘‘

نیز طواف سے فراغت کے بعد سعی سے پہلے آب زمزم خوب سیراب ہوکر پینے کے بعد سعی کے لئے نکلے  (ہدایہ: باب الاحرام)

سعی:

سعی کا معنی ہے چلنا اور دوڑنا۔ شرعی اصطلاح میں صفا اور مروہ کے سات چکر لگانے کو’’سعی‘‘ کہتے ہیں (الموسوعۃ الفقہیۃ) حضرت ہاجرہ اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل کے لئے پانی کی تلاش میں صفا اور مروہ کے درمیان سات چکر لگائیں تھیں اللہ نے اس کو قیامت تک کے لئے اس طرح زندہ کردیا کہ اسے حج اور عمرہ کے افعال میں شامل کردیا چناں چہ احناف کے نزدیک ’’سعی‘‘حج اور عمرہ دونوں میں واجب ہے جیسا کہ ہدایہ میں مذکور ہے:

السعی بین الصفا والمروۃ واجب ولیس برکن (ہدایہ:کتاب الحج، باب الاحرام)

’’صفا اور مروہ کے درمیان سعی واجب ہے رکن نہیں ہے ‘‘

عمرہ کرنے والے کو طواف کے نماز سے فراغت کے بعد صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنی ہے، اب اس پہاڑی کے چند علامتی پتھر باقی رکھے گئے ہیں، رسول اللہ ﷺنے صفا کے قریب پہونچ کر قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت کی جس میں صفا اور مروہ دونوں کو ’’شعائر اللہ‘‘ کہا گیا ہے، ان دونوں کے شعائر اللہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ دونوں اللہ کے دین کی نشانیوں میں سے ہیں اس لئے کہ ان کے درمیان سعی کرنا مناسک حج میں سے ہے اور حج اسلام کا ایک رکن ہے اس لئے ان دونوں کی بڑی اہمیت ہے، عمرہ کرنے والا ’’صفا ‘‘پر آکر خانہ کعبہ کی طرف رخ کرے اور دعا میں ہاتھ اٹھانے کی طرح دونوں ہاتھ اٹھا کر ’’اللہ اکبر لا الہ الا اللہ‘‘ کہہ کر دعا کرے رسول اللہ ﷺ سے اس جگہ یہ دعا منقول ہے :

لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لاَ شَرِیْکَ لَہٗ، لَہٗ الْمُلْکُ وَلَہٗ الْحَمْدُ،وَہُوَ عَلیٰ کُلِّ شَیٔ قَدِیْرٌ، لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ اَنْجَزَ وَعْدَہٗ وَنَصَرَ عَبْدَہٗ وَہَزَمَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہٗ (مسلم: باب حجۃ النبی ﷺ )

’’اللہ کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اس کے لئے پورے عالم کی فرمانروائی ہے اور وہی قابل تعریف ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ تنہا ہے جس نے اپنا وعدہ پورا کیا اپنے بندے کی مدد کی اورتنہا تمام لشکروں کو شکست دی‘‘

لیکن اسی دعا کا پڑھنا ضروری نہیں بلکہ بہتر ہے کسی کو یہ دعا یاد نہ ہو تو اللہ کی کلمہ طیبہ کہہ کر تکبیر کہہ لے اور جو دعا کرسکے کرلے۔

دعا سے فارغ ہو کرصفا سے اتر کر مروہ کی طرف روانہ ہوجائے، صفا سے اتر تے ہوئے یہ دعا منقول ہے :

اَللّٰہُمَّ اَحْیِنِیْ عَلیٰ سُنَّۃِ نَبِیِّکَ  وَتَوَفَّنِیْ عَلیٰ مِلَّتِہٖ  وَاَعِذْنِیْ مِنْ مَضَلاَّتِ الْفِتَنْ بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرّٰحِمِیْنَ

’’اے اللہ مجھے اپنے نبی کی سنت پر زندہ رکھ اور آپ کی شریعت پر مجھے موت دے اور اے ارحم الراحمین مجھے فتنوں کی گمراہیوں سے بچالے‘‘

سعی اس طرح کی جائے گی کہ چلنے کی رفتار معتدل ہو،البتہ ’’میلین اخضرین‘‘ کے مابین مردوں کو تیز تیز چلنا چاہئے آج کل’’ میلین اخضرین ‘‘کے حصہ کو سبز روشنی اور سبز ستونوں کے ذریعہ نمایاں کیا گیا ہے،اس حصہ میں سعی کے دوران یہ دعا زبان پر ہو:

رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعَزُّ الْاَکْرَمُ

’’اے اللہ مغفرت فرمادے اور رحم فرمادے بیشک تو ہی باعزت اور سب سے زیادہ قابل تکریم ہے ‘‘

پھر مروہ پہاڑی پر پہونچ کر قبلہ رخ ہوکر تکبیر اور تہلیل کہے اور دعا کرے اس جگہ بھی آپﷺ سے وہی دعا منقول ہے جو صفا پر آپ نے پڑھی،اس طرح ایک سعی مکمل ہوگئی،اسی طرح سات سعی کرنی ہے آخری سعی بھی صفا سے شروع ہوگی اور مروہ پرختم ہوگی، یہاں یہ بات ذہن نشیں رہے کہ ان جگہوں پر دعاؤں اور اذکار میں مشغول ہونامستحب ہے ضروری نہیں، اسی لئے اگر کوئی کسی وجہ سے دعا یا ذکر نہ کرسکے تو بھی سعی ہو جائے گی

سعی کے صحیح ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ صفا سے شروع کرکے اسے مروہ پر ختم کیا جائے اگر غلطی سے مروہ سے شروع کردیا جائے تو اس پہلے’’ شوط‘‘(چکر)کا اعتبار نہ ہوگا بلکہ یہ لغو قرار دیا جائے گادوسرے شوط میں جب صفا سے مروہ کی طرف روانہ ہو گا وہ پہلا شوط ہوگا۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا:

ابدأ بما بدأ اللہ بہ فبدأ بالصفا(مسلم:۲۱۳۷)

’’سعی اس جگہ سے شروع کرو جس کا تذکرہ اللہ نے پہلے کیا ہے اللہ نے صفا کا تذکرہ پہلے کیا ہے‘‘

جو شخص سعی پر قادر ہو اس کے ذمہ خوداپنے پاؤں سے چل کر سعی کو انجام دینا واجب ہے چناں چہ ایسا قادر انسان اگر سواری پر سعی کرے گا تو دم واجب ہوجائے گایا دوبارہ سعی کرنی ہوگی (الموسوعۃ الفقہیۃ :حرف السین،سعی)

سعی کے لئے یہ مسنون ہے کہ سعی طواف کے فورا بعد کرلی جائے، سعی اور طواف میں بلاعذر زیادہ فاصلہ نے ہو،بلاعذر زیادہ فاصلہ مکروہ اور ناپسندیدہ ہے البتہ اس سے دم وغیرہ واجب نہیں ہوتا ہے،اسی طرح سعی کے تمام اشواط بھی ایک ساتھ انجام دینا مسنون ہے ان کے درمیان بلاعذر فاصلہ مکروہ اور ناپسندیدہ ہے لیکن اگر کسی فرض نماز کے لئے یا جنازہ کی نماز کے لئے سعی کے تسلسل کو جاری نہ رکھ سکا ہے تو یہ فاصلہ مکروہ بھی نہیں ہے بلکہ ان حالات میں سعی کو روک کر نماز میں مشغول ہونا ہی بہتر ہے (حوالہ سابق)

نیز یہ مسنون ہے کہ باوضوسعی کی جائے البتہ بلا وضو یا ناپاکی کی حالت میں بھی سعی صحیح ہوجاتی ہے اگرچہ یہ خلاف سنت ہے (حوالہ سابق)

طواف کی طرح سعی سے فراغت کے بعد بھی دو رکت نفل پڑھنا احناف کے نزدیک مسنون ہے، تاکہ جس طرح دونوں کی ابتداء حجر اسود کے بوسہ یا اس کی جانب اشارہ سے ہوئی اسی طرح دونوں کا اختتام بھی نفل نماز کی ادائیگی پر ہو۔

جس طرح طواف کے دوران ضروری اور دینی باتیں کرنا،کچھ کھانا پینا یا نماز میں مشغول ہونا جائز ہے اسی طرح سعی میں بھی جائز ہے اور ہر وہ لایعنی یا دنیاوی کام اس میں مکروہ ہے جو خشوع وخضوع یا ذکر ودعا یا سعی کے تسلسل کے منافی ہو (حوالہ سابق)

سعی کے مذکورہ آداب کی رعایت کرتے ہوئے جب سعی کرلی گئی تو اس کے بعد سرکے بال مکمل مونڈھنا یا چھوٹے کروانا ہے اس کے بعدصرف عمرہ کرنے والا احرام سے باہر آجائے گا اور احرام کے تمام ممنوعات اس کے لئے حلال ہوجائیں گے۔

(۲)تمتع:

افراد العمرۃ ہی کی طرح تمتع کرنے والا عمرہ کے سارے مناسک ادا کرے گا، عمرہ کے احرام سے حلال ہونے کے بعد حج کا احرام باندھے گا اور مناسک حج ادا کرے گاالبتہ متمتع ہونے کے لئے یہ ضروی ہے کہ عمرہ حج کے مہینوں میں ہی کرے اگر عمرہ حج کے مہینوں سے پہلے کر لیا تو پھر تمتع نہ ہوگااسی طرح عمرہ اور حج دونوں ایک ہی سال میں ہونا ضروری ہے اگر اس سال حج کے مہینوں ہی میں عمرہ کیا توآئندہ سال حج کرنے سے متمتع نہیں ہوگاجیسا کہ الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے:

یشترط للمتمتع ان یکون عمرتہ فی اشہر الحج……یشترط فی التمتع ان تودی العمرۃ والحج فی سنۃ واحدۃ (الموسوعۃ الفقہیۃ:تمتع)

’’تمتع کرنے والے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کا عمرہ ایام حج ہی میں ہو ……تمتع میں یہ شرط ہے کہ عمرہ اور حج ایک ہی سال میں ادا کیا جائے‘‘

تمتع کرنے والے پر تمتع کی ہدی لازم ہوتی ہے یعنی بکری یا بدنہ یا گائے یا اونٹ کا ساتواں حصہ قربان کرنا اس وقت اس پر واجب ہوجاتا ہے جب یہ اپنے حج کا احرام باندھتا ہے البتہ اس کو ابھی ذبح نہیں کیا جا ئے گا بلکہ یوم النحریعنی ۱۰؍ذی الحجہ کو ہی ذبح کیا جائے گا۔ (حوالہ سابق)

(۳)قران:

قران کرنے کی صورت میں حج اور عمرہ دونوں کے افعال ومناسک ایک ہی احرام میں ادا کئے جاتے ہیں چناں چہ قران کرنے والا احناف کے نزدیک پہلے عمرہ کے لئے طواف اور سعی کرلے گااور احرام نہ کھولے گابلکہ اس کے بعدحج کے لئے طواف اور سعی کرے گا اور حج کے دیگر مناسک اسی احرام میں ادا کرنے کے بعد احرام کھولے گا۔

عمرہ۔ رمضان میں :

یوں تو عمرہ سال کے پانچ دن یعنی عرفہ اور اس کے بعد چار دن کے علاوہ پورے سال میں جب بھی کیا جائے ادا ہوجاتا ہے کیونکہ اس کے لئے پورا سال وقت ہے حج کی طرح اس کا وقت متعین نہیں ہے لیکن رمضان میں عمرہ کرنے کی اس ماہ کی خصوصیت کی وجہ سے کچھ زیادہ فضیلت ہے جیسا کہ ایک روایت میں یہ فضیلت بیان کی گئی ہے کہ رمضان میں عمرہ کرنا ثواب کے اعتبار سے ایک حج کرنے کے برابر ہے (ترمذی :۸۶۱)

کسی کی طرف سے عمرہ کرنا:

حج اور عمرہ دونوں ایسی عبادتیں ہیں جس میں شریعت نے یہ گنجائش رکھی ہے کہ ایک انسان دوسرے کے بدلے میں بھی حج وعمرہ کرسکتا ہے۔ نیز عمرہ میں یہ گنجائش بھی ہے کہ عمرہ کرانے والے کا اس سے عاجز ہونا کوئی ضروری نہیں ہے بلکہ عمرہ کرانے والا اگر خود عمرہ کرنے پر قادر ہو پھر بھی کسی دوسرے کو اپنے بدلے میں عمرہ کے لئے بھیج سکتا ہے (الموسوعۃ الفقہیۃ:عمرہ)

یہاں یہ بات بھی ذہن نشیں رہے کہ عمرہ میں کسی واجب کو چھوڑنا مکروہ تحریمی ہے، چھوڑنے والا گنہگار ہوتا ہے اور اس پر اس کی وجہ سے دم لازم ہوجاتی ہے البتہ کسی سنت کو چھوڑنا ناپسندیدہ ہے لیکن اس سے دم وغیرہ لازم نہیں ہوتی ہے۔ (حوالہ سابق)

اللہ ہم سب کو حج اور عمرہ کی فضیلت سے بار بار سرفراز فرمائے کیونکہ یہ ایسی عبادت ہے کہ ہر مومن اس انتظار میں ہے کہ خداکی طرف سے اسے بلاوا مل جائے جو لوگ بار بار اس فضیلت سے سرفراز ہورہے ہیں یا جنہیں ایک مرتبہ بھی اس کا موقع مل گیا ہے وہ اسے خداکی طرف سے ایک قیمتی عنایت سمجھتے ہو ئے اس کا بھر پور حق ادا کرنے کی کوشش کریں اور دیار مقدس کی حاضری کو آخری حاضری جانتے ہوئے زیادہ سے زیادہ زادراہ حاصل کرکے ہی واپس ہوں کہ پتہ نہیں زندگی کے انقلاب میں سے کوئی انقلاب ہماری موت کا پیغام تو نہیں ؟یا کہیں یہ موقع ہماری زندگی کا ایسا موقع تو نہیں کہ اس کے بعد دیار مقدس کے تذکرے تو ہمارے کانوں میں پڑیں لیکن زیارت ہمارے نصیبہ میں خدا کی طرف سے نہ لکھے جانے کی وجہ سے ہم اس کے تذکرے کو صرف سن کر مرغ بسمل کے طرح صرف تڑپ کے نہ رہ جائیں ؟اللہم وفقنا وجمیع المسلمین

تبصرے بند ہیں۔