عوام کی عدالت میں سپریم کورٹ کا مقدمہ

 ندیم عبدالقدیر

جمہوریت لڑکھڑا رہی ہے اور اس کا ایک اہم ستون ڈگمگا رہا ہے۔ ہمیں خوش ہونا چاہئے کہ ہم ایسے ملک میں ہیں جہاں ضمیر ابھی پوری طرح مردہ نہیں ہوا ہے۔ اس کے رگ و پے میں اب بھی زندگی کی تھوڑی رمق باقی ہے۔ عدلیہ کے تئیں ججوں کی بے چینی نے ہمیں  ناانصافی کے صحرا میں  نخلستان کی امید  دی ہے۔

سپریم کورٹ میں ججوں کی درجہ بندی میں دوسرےنمبر سے لے کر پانچویں نمبر تک کے یہ جج حضرات جب نامہ نگاروں سے خطاب کررہے تب  ان کے چہروں پر بے چینی کی لکیریں بکھری ہوئی تھیں۔  جسٹس گوگوئی نے کہا کہ یہ قوم کا ان پر قرض  تھاجو وہ ادا کرنا چاہتے تھے اور انہوں نے یہ قرض ادا کردیا۔ آخریہ قرض تھا کیا؟اور وہ کیا محرکات تھے جنہوں نے جج حضرات کو اپنی دستارِ فضیلت اتار کر ایک عام آدمی کی طرح میڈیا کے سامنے انصاف کی فریاد کرنے پر مجبور کردیا؟

ان جج حضرات نے میڈیا کے ذریعے عوام الناس کو مطلع کیا  کہ عدلیہ میں سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے۔ چیف جسٹس ’دیپک مسرا‘ من مانے ڈھنگ سے قوانین، ضوابط اور قواعد کو بالائے طاق رکھ کر کام کررہے ہیں۔ ججوں کی تقرری کے معاملے سے شروع ہوئی بے چینی  ناانصافی، جانبداری، ہٹ دھرمی اور اختیارات کے غلط استعمال کے کئی واقعات کو سہتے اور برداشت کرتے آخر کار جسٹس لویا کے معاملے میں پھوٹ پڑی۔

 اس کی شروعات اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تقرری میں مودی حکومت کی ہٹ دھرمی سے ہوئی۔ پولیٹیکل سائنس( علم سیاسیات) میں ایک نظریہ(تھیوری)  پڑھایاجاتا ہے جسے ’تھیوری آف سیپریشن آف پاور‘ یعنی ’اختیارات کی تقسیم ‘ کہتےہیں۔ کالج میں جب یہ تھیوری پڑھائی جاتی تھی تب مجھے  اکتاہٹ یا بورنگ  محسوس ہوتی تھی لیکن اب پتہ چلا کہ جمہوریت میں امن و امان کیلئے یہ نظریہ کتنا  لازمی  ہے۔

یہ قانون کہتا ہے کہ جمہوریت میں اختیارات کی تین مراکز ’ پارلیمنٹ‘، ’کابینہ‘ اور’ عدلیہ‘ ایک دوسرے کے اختیارات یا کام کاج میں دخل اندازی نہیں کریں گی۔ مودی حکومت چاہتی ہے کہ ججوں کی تقرری کا اختیار اس کے پاس رہے، جبکہ ججوں کاکہنا یہ ہے کہ ایسا کرنا عدلیہ میں حکومت کی دخل اندازی  ہے  جوکہ جمہوریت کے بنیادی اصولوں سے انحراف ہوگا۔ یہیں جمہوریت کے دونوں مراکز یعنی حکومت اور عدلیہ   ایک دوسرے سے دست و گریباں  ہوگئے۔

معاملہ اس وقت بگڑنا شروع ہوا   جب  مودی حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے ۷؍مہینے بعد ہی آئین میں ترمیم کرکے عدالتوں کے ججوں کی تقرری کے اختیارات ایک کمیشن کو سو نپنے  کی کوششیں شروع  کردیں۔ کمیشن میں حکومت کے ہی لوگوں کو بھی  بٹھانے کے انتظام کئے گئے۔ کمیشن کے قیام کےلئے بل لایا گیا  اور آئین میں ۹۹؍ویں ترمیم کرکے اس بل  کو دونوں ایوانوں میں منظور کرکے صدر جمہوریہ سے دستخط بھی لے لئے گئے لیکن تب ہی عدلیہ نے انگڑائی لی اور ۱۰؍مہینے بعد ہی سپریم کورٹ کی ۵؍رکنی بینچ نے اس نو  وارد کمیشن کوغیر آئینی قرار دے کر ختم کردیا۔ عدلیہ کے اس عمل پر مودی حکومت چراغ پا ہوگئی۔ الیکشن اور ای وی ایم کی کامیابی کے زعم میں  حکومت جب کسی کو بھی خاطر میں لانے کو تیار نہیں ہے تو پھر بھلا اس معاملے میں وہ کیسے اپنے قدم پیچھے لے سکتی تھی۔ انتقام کے طور پر حکومت نے اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تقرری میں اپنا کردار نبھانے میں ٹال مٹول کرنے کا رویہ اپنانا شروع کیا۔

’لتھرا‘ نامی ایک وکیل نے مرکزی  حکومت کے اس ٹا ل مٹول کے رویے کے خلاف ایک عرضی داخل کی اور عدالت سے عرض کیا   کہ وہ   اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تقرری میں تاخیر پر مرکز سے باز پرس کرے۔ یہ مقدمہ سپریم کورٹ کی  دو رکنی بینچ کے سامنے  سماعت کےلئے پیش ہوا۔ بینچ نے ۲۷؍اکتوبر کو اس پر شنوائی کی اور مرکزی حکومت کو نوٹس بھیجنے کا عندیہ ظاہر کرتے ہوئے اگلی سماعت کی تاریخ ۱۴؍نومبر مقرر کی۔ اگلی تاریخ سے پانچ دن پہلے ہی   ہمارے عزت مآب چیف جسٹس نے اچانک ہی بغیر کسی سبب کےاس مقدمہ  کی شنوائی کو اُس بینچ سے لے کر نئی تین رکنی بینچ کے حوالے کردیااور خود اس بینچ کے سربراہ بن گئے۔ ؟  اتنی ہی نہیں بلکہ  پہلی ہی شنوائی میں مقدمہ کو خارج بھی کردیا۔ چیف جسٹس  کی اس مقدمہ میں دلچسپی، ناقابل یقین عجلت پسندی، نئی بینچ کو مقدمہ حوالے کر نے ، خود اس بینچ کا سربراہ بن جانے  اور پہلی ہی شنوائی میں مقدمہ کو خارج کردینے کے عمل نے سب کو سکتے میں ڈال دیا۔

 بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ مختلف معاملا ت کو چیف جسٹس نےاپنی مرضی سے بغیر کسی صلاح و مشورہ کے کسی بھی بینچ کو سونپنے کا کام بھی شروع کیا۔ سپریم کورٹ میں کچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں جن کے فیصلے ہمارے سماج، ملک، حکومت ریاستوں اور عوام پر دور رس اثرات مرتب کرتے ہیں۔ چیف جسٹس نے سنگین اور نازک معاملات بھی اپنی مرضی سے جونیئر بینچ کے حوالے کرنا شروع کردیا۔یکے بعد دیگر ایسے کئی واقعات ہوئے جب اہم مقدمات کی شنوائی سینئر بینچ کو چھوڑ کر چیف جسٹس نے جونیئر بینچوں کےحوالے کردی۔

  اس برتاؤ نے دیگر اعلیٰ ججوں میں تشویش پیدا کی۔ دیگر ججوں نے کئی بار چیف جسٹس کو سمجھایا بھی، لیکن انہوں نے گویا کہ ایک بھی نہیں سننے کی قسم کھا رکھی تھی۔ دو مہینے پہلے چاروں ججوں نے چیف جسٹس کو اپنی شکایات کا ایک مکتوب بھی ارسال کیا لیکن چیف جسٹس کے طرزِ عمل میں کوئی فرق نہیں آیا۔ جمعہ کے روز ججوں نے جسٹس لویا کی پراسرار موت کے مقدمہ کی شنوائی کے بارے میں صبح ایک بار پھر سے چیف جسٹس سے ملاقات کی اور انہیں مشورہ دیا کہ یہ انتہائی سنگین معاملہ  ہے اس کی شنوائی کسی سینئر بینچ کے حوالے کرنی چاہئے لیکن چیف جسٹس   ۱۰؍ویں نمبر کے جج کو ہی یہ مقدمہ سونپنے پر اڑے رہے۔

جسٹس لویا کی موت پرسرار طریقہ پر ہوئی تھی۔ جسٹس لویا سہراب الدین فرضی انکاؤنٹر معاملے کی شنوائی کررہے تھے، جس معاملے میں بی جےپی کے صدر امیت شاہ بھی ملزم ہیں۔    جسٹس لویا کی بہن نے اس قتل پر کئی سوال اٹھائے تھے۔ اتنے اہم مقدمہ میں چیف جسٹس کی ہٹ دھرمی، تانا شاہی اور سرکار کے تئیں جھکتے رویہ نے آخر کار   ججوں کے ضبط کا باندھ  توڑ ہی دیا۔ انہیں محسوس ہوا کہ اب کوئی در نہیں بچا ہے۔ چاروں ججوں نے ضمیر کی آواز پر لبیک کہا اور انصاف کے دیوتا انصاف کی فریاد لے کر میڈیا کے سامنے حاضر ہوگئے۔ جمہوریت لڑکھڑا رہی ہے اور اس کا ایک اہم ستون ڈگمگا رہا ہے۔ ہمیں خوش ہونا چاہئے کہ ہم ایسے ملک میں ہیں جہاں ضمیر ابھی پوری طرح مردہ نہیں ہوا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔