شیخ رحمان اکولوی کے ’مضامین‘: ایک جائزہ

وصیل خان

  ادب ایک ایسی جولان گاہ ہے جہاں زندگی کے مختلف مدو جزر اورگوشے زیر بحث لائے جاتے ہیں ۔ سماجی اور معاشرتی سطح پر زندگی میں جو تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اس کا گہرائی کے ساتھ تجزیہ کیا جاتا ہے اور ان نکات پر خاص طور سے توجہ مرکوز کی جاتی ہے جہاں جہاں زندگی اپنے اصول و قوانین سے منحرف نظر آتی ہے جس کے سبب سماج میں ایک ناخوشگوار فضا قائم ہوتی ہے۔ جس طرح سماجی مصلحین کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ سماج کے اندر امن و آشتی کے قیام کیلئے حتی المقدورکوشش کریں اسی طرح ادیب بھی اپنی اس اہم ترین ذمہ داری سے کبھی بری الذمہ نہیں ہوسکتا کہ وہ سماجی ناہمواریوں اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ان تمام محرکات شر سے تسامح برتے اور خاموش رہ جائے۔ ڈاکٹر شیخ رحمان اکولوی بساط ادب کے ایسے ہی ایک حساس اور ذمہ دا ر ادیب ہیں جو وقتاً فوقتاً ہی سہی قارئین کو ادب سے روشناس کراتے رہتے ہیں ۔ ایک طرف جہاں وہ طنزو مزاح کے ذریعے اپنے قلم کو نشتر بناتےہیں اور سماج میں پنپ رہی ان نامحمودخباثتوں کو اجاگر کرنے سے نہیں چوکتے وہیں سنجیدہ نثر نگاری کے ذریعے اپنی بات رکھنے کے ہنر سے بھی واقف ہیں ۔

اس ضمن میں ان کی تصنیف کردہ ’آل از ویل ‘ بلا عنوان، سرخاب کے پر اور الف سے قطب مینار جیسی کتابیں بطور حوالہ پیش کی جاسکتی ہیں جن میں انہوں نے طنزو مزاح کے ایسے پھول کھلائے ہیں جن کی خوشبوقارئین کو مسحور کردیتی ہے لیکن ان پھولوں میں وہ کانٹے بھی ہوتے ہیں جو اچانک چبھ جاتے ہیں اور یہ احساس دلاتے ہیں کہ زندگی صرف پھولوں کی کیاری نہیں ،کانٹوں کی جھاڑی بھی ہے جس سے احتیاط اور دامن بچائے بغیر پھولوں تک رسائی ممکن نہیں ۔ ان کا یہی متوازن طرز تحریر انہیں قاری سے قریب کرتاہے۔

’مضامین ‘ ان کی تازہ ترین کتاب ہے جو اس وقت ہمارے پیش نظر ہے۔ یہ کتاب نہ صرف ان کی سنجیدہ نثر نگاری کا ثبوت فراہم کرتی ہے بلکہ یہ بھی بتاتی ہے کہ سماج کے مختلف گوشوں پران کی بڑی گہری نظرہے،وہ کسی ماہر غوطہ زن کی طرح سمندر کی تہوں سے گراں قدر موتی نکال لاتے ہیں ۔ کتاب کل دس مضامین پر مشتمل ہے جن میں معلومات عامہ کے ساتھ کچھ نئے نئے انکشافات بھی کئے گئے ہیں ۔ اس ضمن میں ’ اردو کا پہلا نیشنلسٹ شاعر امیر خسرو،ادب سنیما اور منشی پریم چند، سرسید احمد خاں کی ظرافت اور مولانا محمد علی جوہر کی خوش مزاجی جیسے مضامین بطور مثال پیش کئے جاسکتے ہیں ، اس کے علاوہ ’  اردو میں لطائف و ظرائف : ایک سرسری جائزہ میں انہوں نے تحقیق و مشاہدات کے کچھ دل آویز رنگ بکھیرے ہیں ۔امیر خسروکے تعلق سے ان کی تحریر کا یہ اقتباس دیکھیں ۔

’’ہندوستان میرا وطن ہے میں اس زمین پر پیدا ہوا ہوں ، یہ سبزہ زاروں اور کوہساروں کا ملک ہے جہاں ہر طرف باغ ہیں پھول ہیں ۔ وہ گل کوزہ، صدبرگ، بیل، کیوڑہ، چمپا، مولسری دونہ کرنا، سیوتی وغیرہ پھولوں کی تعریف کرتے اور انہیں خراسانی پھولوں سے بہتر و برتر جانتےہیں  اور کہتے ہیں خراسانی پھول رنگ برنگے اور خوبصورت تو ہیں مگر ہندوستانی پھولوں کی طرح خوشبودار نہیں ، آنکھوں کو بھلے ہی اچھے لگتے ہیں ، روح کو شاد نہیں کرتے۔ وہ ہندوستانی عورتوں کی خوبروئی و دلربائی کے شیدائی تھے۔ ہندوستانی حسیناؤں کو وہ حسین ترین قرار دیتے ہیں ۔ ’’ خراسانی عورتیں سرخ وسفید ضرور ہیں مگر وہاں کے پھولوں کی طرح ان میں خوشبو نہیں ، روم اور روس کی عورتیں برف کی سل کی مانند سفید اور ٹھنڈی ہوتی ہیں ۔ تاتاری نازنینوں کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نہیں ہوتی۔ ختن والیوں میں نمکینی نہیں ۔ سمرقندی اور قندھاری عورتو ں میں مٹھاس کی کمی ہے او ر مصری حسیناؤں میں چستی و چالاکی نہیں ۔ ‘‘

کتاب کی اہمیت حیرت انگیز انکشافات کے سبب مزید بڑھ جاتی ہے جس سے قاری کے تحیر اور معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔ زبان سہل اور شگفتہ ہے لیکن کہیں کہیں کمزور ہوگئی ہے اس کے علاوہ کمپوزنگ کی غلطیاں مزید الجھن پیدا کرتی ہیں جن پر قابو پانا ضروری تھا۔

نام کتاب:  مضامین ، مصنف :  ڈاکٹر شیخ رحمان اکولوی (9371323967 )، صفحات: 88، قیمت :  75/-روپئے ، ملنے کے پتے : مکتبہ جامعہ لمٹیڈ دہلی نمبر ۶اوراس کی شاخیں  ث صالحہ بک ٹریڈرس،مومن پورہ ناگپور نمبر 18 عزیزنیوز پیپرس ایجنسی پھلاری گلی اکولہ نمبر6  ( مہاراشٹر)شعیب بکڈپو، بالاپور، ضلع اکولہ (مہاراشٹر)

تبصرے بند ہیں۔