برادران وطن میں دعوت کا فریضہ اب امت مسلمہ کے ذمہ ہے!

محمد خالد داروگر

(دولت نگر، سانتاکروز، ممبئی)

مودی حکومت کے برسراقتدار میں آنے کے بعد ملک کے حالات بڑی تیزی کے ساتھ خراب سے خراب تر ہوتے جارہے ہیں۔ اقلیتیں خاص طور پر مسلمان فرقہ پرستوں کا نشانہ بنتے اور بنائے جارہے ہیں ان کو ذہنی، جسمانی اور مالی طور پر منصوبہ بند طریقے سے اذیت میں مبتلا کیا جارہا ہے۔ فرقہ پرست اس میں کامیاب ہونے کے بعد اب دلتوں پر نشانہ سادھا جارہا ہے اس میں بھی وہ کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اس ظلم و زیادتی اور ناانصافی کے خلاف کوئی موثر آواز اٹھتی دکھائی نہیں دے رہی تھی بلکہ ہر طرف سناٹا ہی سناٹا نظر آرہا تھا کوئی مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے تیار نہیں ہورہا تھا۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا والوں نے اپنی آتما مودی حکومت کے ہاتھوں بیچ چکے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کی زیادتیوں کے خلاف کون آواز بلند کرنے کی ہمت کرے، اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اللہ تعالیٰ ان ہی کے درمیان میں سے ایسے لوگوں کو اٹھایا جن کے بارے میں تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ سپریم کورٹ کے چار معزز سینئیر ججوں جسٹس جے چیلا میشور، جسٹس رنجن گوگوئی، جسٹس مدن بھیم راؤ لوکر اور جسٹس کورین جوزف کو ملک کے بگڑتے ہوئے حالات نے ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے پر مجبور کر دیا اور وہ یک زبان ہوکر پکار اٹھے اور کہا” اس ملک میں جمہوریت کو خطرہ لاحق ہے” اور متنبہ کیا کہ” عدلیہ نہ بچی تو جمہوریت بھی محفوظ نہیں رہے گی” ان کی حق گوئی اور بیباکی کو سن کر حکومت سناٹے میں آگئی اور اسے فی الوقت کچھ سجھائی نہیں دے رہا ہے کہ وہ کونسا قدم اٹھائے کہ وقتی طور پر اس بحران پر قابو پایا جاسکے۔ یہ چاروں معزز سینئیر جج صاحبان حکومت وقت سے خوف زدہ نہیں ہوے، بلکہ اس کو اپنا فرض جان کر اپنی بات کو عوام کے سامنے رکھ دیا۔

اب بحیثیت امت مسلمہ کی اس ملک میں ہماری کیا ذمہ داری ہے گو کہ ہم یہاں پر ستائے اور پریشان کیے جارہے ہیں لیکن حق کا دامن ہمیں ہر حال میں تھامے ہوئے رکھنا ہے اور ظلم و ناانصافی کے اٹھ کھڑے ہونا ہماری پہچان ہونا چاہیے اور اس ملک میں سب سے بڑا ظلم جو صدیوں سے ہو رہا ہے وہ ہے شرک، اللہ تعالیٰ نے شرک قرآن مجید ظلم عظیم کہا ہے، اس ملک میں ایک اللہ کو چھوڑ کر ہر چیز کی پوجا اور پرستش کی جارہی ہے لیکن ہمارے اندر یہ احساس ابھرتا ہی نہیں کہ برادران وطن کو شرک کرنے کے بھیانک انجام سے خبردار کیا جائے، حالانکہ بہار ہو کہ خزاں ہمیں تو حکم اذاں ہے لا الہ الا اللہ، حکومت کے ذریعے پیدا کیے گئے منصوبہ بند اسلام اور مسلم مخالف ماحول تاکہ کوئی اسلام کی طرف راغب نہ ہو، ایسے نازک اور پرآشوب حالات میں جماعت اسلامی ہند مہاراشٹر نے ریاستی سطح پر 12 تا 21 جنوری برادران کے لیے ایک دعوتی مہم” اسلام برائے امن، ترقی و نجات ” ( Islam For Peace Progress And Salvation ) کا اہتمام کر رہی ہے جس کے ذریعے سے اسلام کے پیغام امن کو برادران وطن میں پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ اس کے لیے جدید زرائع ابلاغ کا بھرپور استعمال کیا جائے گا۔

ہمارا ملک اتنا وسیع وعریض ہے کہ فریضہ دعوت دین کا کام کسی ایک جماعت کا کام نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا کام ہے کہ ساری مسلم جماعتوں مل جل کر اس کو انجام دینا چاہیے یا پھر جو لوگ اس کام کو انجام دینے کی کوشش کر رہے ہیں ان کے ساتھ اپنا دست تعاون بڑھانا چاہیے۔ یہ اتنا اہم کام اور ذمہ داری ہے کہ اس کو سمجھنے کے لیے اپنے تصور میں ذرا حجتہ الوداع ( 10 ہجری ) کے منظر کو ذہن میں لایئے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ایک جم غفیر سے مخاطب ہیں۔ اس تاریخی موقع کے پس منظر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی 23 برس کی محنت شاقہ تھی، جس کے نتیجے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جزیرہ نمائے عرب کے لوگوں پر اتمام حجت کرکے دین غالب کر دیا تھا۔ لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مجمع کو مخاطب کرکے فرمایا: ( الا ھل بلغت؟ ) لوگو سنو! کیا میں نے پہنچا دیا؟ اس پر پورے مجمع نے یک زبان ہوکر جواب دیا: کہ ہاں ہم گواہ ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رسالت کا حق ادا کردیا، آپ نے امانت کا حق ادا کردیا ( یہ قرآن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اللہ کی امانت تھی جو آپ نے ہم تک پہنچا دی )، آپ نے امت کی خیر خواہی کا حق ادا کردیا اور آپ نے گمراہی اور ضلالت کے اندھیروں کا پردہ چاک کر دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ جواب لیا اور تینوں دفعہ انگشت شہادت آسمان کی طرف اٹھاکر پکارا:

اللھم اشھد! اللھم اشھد! اللھم اشھد!

اے اللہ تو بھی گواہ رہ، یہ مان رہے ہیں کہ میں نے تیرا پیغام انہیں پہنچا دیا۔ اور پھر فرمایا: ( فلیبلغ الشاھد الغائب ) کہ اب پہنچائیں وہ لوگ جو یہاں موجود ہیں ان لوگوں کو جو یہاں موجود نہیں ہیں۔ گویا میرے کندھے سے یہ بوجھ اتر کر اب تمہارے کندھوں پر آگیا ہے۔ اگر میں صرف تمہاری طرف رسول بن کر آیا ہوتا تو بات آج پوری ہوگئی ہوتی، مگر میں رسول ہوں تمام انسانوں کے لیے جو قیامت تک آئیں گے۔

چنانچہ اب اس دعوت اور تبلیغ کو ان لوگوں تک پہنچانا امت مسلمہ کے ذمہ ہے۔ اس ملک میں بڑے بڑے دینی مدارس موجود ہیں، فلاحی ادارے موجود ہیں، دینی تنظیمیں اور جماعتیں بھی موجود ہیں جو مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہمہ تن سرگرم عمل ہیں لیکن جہاں تک فریضہ دعوت دین کا تعلق اس سے ان کی طرف سے مسلسل غفلت برتی جارہی ہے جس کا نتیجہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ مسلمان بری طرح ابتلا و آزمائش کے لامتناہی دور سے گذر رہے ہیں اور ابتلا و آزمائش کے یہ بادل اسی وقت چھٹینگے جب ہم فریضہ دعوت دین کو اولیت دینگے۔

تبصرے بند ہیں۔