عورتوں کا بگاڑ امت مسلمہ کے لئے سم قاتل

عزیر احمد

ایک مضبوط معاشرے کی بنیاد مضبوط خاندان ہے، اور ان دونوں کی سب سے اہم بنیاد عورت ہوتی ہے، عورت کی عزت، اس کا وقار، اس کی سربلندی ہی معاشرے کی ترقی کا ضامن ہے، کسی بھی قوم کے لئے عورت ہی کل سرمایہ ہے، اگر عورت بگڑ جائے تو قوم اخلاقی برائیوں کے دلدل میں پھنس کر زوال کا شکار ہوجائے، اسی وجہ سے اس عورت کی بڑی فضیلت آئی ہے جو اپنی عصمت و عزت کی حفاظت کرتی ہے اور اپنے شوہر کی امانت میں خیانت نہیں کرتی ہے.

اگر کوئی معاشرہ زوال پذیر ہوتا ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ اس کے عورتوں کا بگڑ جانا ہے، ایک عورت جب آبرو باختہ ہوتی ہے تو اس کا اثر صرف اس تک محدود نہیں ہوتا ہے، بلکہ اس کے اثرات کافی دور تک محسوس کئے جاتے ہیں، شیطان برائیوں کو مزین کرکے پیش کرتا ہے، عورتیں چونکہ ناقص العقل ہوتیں ہیں، اسی وجہ سے وہ دام فریب میں جلد آتیں ہیں.

جب سے حقوق نسواں کی تنظیمیں ظہور پذیر ہوئیں، مسلم معاشرے میں لڑکیوں کی تعلیم و تربیت میں اضافہ ضرور ہوا، مگر اس کا ایک منفی پہلو یہ نکلا کہ برائی کا گراف بڑھ گیا، کیونکہ انہوں نے تعلیم کو تو ضرور حاصل کرلیا، مگر عزت کیا ہوتی ہے اور عزت کے معانی کیا ہوتے ہیں وہ بھول گئیں.

حقوق نسواں کی تنظیموں نے انہیں سمجھایا کہ صدیوں سے عورتیں مردوں کی غلامی کرتیں آئیں ہیں، وہ ایک ٹی وی کی طرح استعمال ہوتیں ہیں جن کا ریموٹ کنٹرول بچپن سے لیکے شادی تک باپ اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے، اور شادی کے بعد کسی اور کے ہاتھ میں تھما دیتا ہے، دونوں اسی ریموٹ کنٹرول سے جیسا چاہتے ہیں ایک لڑکی کو چلاتے ہیں، لڑکی کی اپنی کوئی لائف نہیں ہوتی، غرضیکہ قسم کی قسم کی باتوں سے ان کے دلوں میں انہیں کے ماں باپ بھائی یا پھر شوہر کے خلاف زہر بھر دیتی ہیں، اور یہ عورتیں اتنی احمق ہوتی ہیں کہ انہیں ان لفظوں کے پیچھے چھپی خطرناکی نظر ہی نہیں آتی، انہیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اگر وہ شوہر کا کام کرتیں ہیں یا باپ کا کام کرتیں تو وہ غلامی کیسی، غلامی تو اس وقت ہوتی ہے جب انہیں سستے داموں پہ بیچا جاتا ہے، کبھی ان کے حسن کو پروڈکٹ پہ، کبھی انہیں کو بازار حسن میں، ان کی ہر چیز بکتی ہے، ادائیں بکتی ہیں، اشارے بکتے ہیں، غمزے اور عشوہ طرازیاں بکتی ہیں، انہیں شمع محفل بنایا جاتا ہے کبھی نوٹ دیکر، کبھی بے غیرتی سے اپنے ہی بہن بیٹیوں کو آگے کرکے، ان سے ریسٹورینٹ میں کام کروایا جاتا ہے، ان سے نوکری کروائی جاتی ہے، غرضیکہ ان سے ہر قسم کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے جسمانی بھی، مالی بھی اور ذہنی بھی، ان کے ذہنوں سے عزتوں کا تصور ختم کرکے سیکس ان کے لئے ایک قسم کا Fun بنا دیا جاتا ہے، جس کے ساتھ چاہیں رات بتائیں، اور جس کے چاہیں وقت گزاریں، یا اگر ایسا نہ کریں بھی تو کم سے کم وہ اس طرح ہوجائیں کہ ان کے لئے شوہر وغیرہ کی کوئی اہمیت نہ رہ جائے، حالانکہ وہ نہیں سمجھ پاتیں کہ وہ ناچتی دونوں صورتوں میں ہیں، بس فرق یہ ہے کہ ایک میں اپنوں (شوہر، باپ، بھائی) کے لئے، جبکہ دوسرے میں غیروں کے لئے، حالانکہ شوہر وغیرہ کا کام کرنا غلامی یا ناچنا نہیں کہا جاسکتا کیونکہ ایک عورت سے یہی مطلوب و مقصود ہے اور یہی مضبوط خاندان کی بنیاد ہے.

آج کے دور میں ایک جملہ بہت ساری لبرل ٹائپس کی لڑکیاں استعمال کرتیں ہیں، "کیا ایک عورت انڈیپنڈنٹ نہیں ہوسکتی”، بالکل انڈیپنڈنٹ ہوسکتی ہے، مگر ایک بات یاد رکھنی چاہیئے کہ ایک انڈیپنڈنٹ عورت لوگوں کی نظر میں ایک انڈیپنڈنٹ مال کی حیثیت رکھتی ہے جو چاہے چوری کرے، اور جو چاہے لوٹے کھسوٹے، اسی وجہ سے سب سے زیادہ انڈیپنڈنٹ ایک طوائف ہی ہوتی ہے، جس کی اپنی لائف ہوتی ہے، اور اپنا اسٹائل، نہ کوئی روکنے والا، اور نہ ہی  کوئی منع کرنے والا، جو چاہے کرے، آزاد ہے.

اس کے بالمقابل جو شریف لڑکی ہوتی ہے، وہ کبھی اپنے آپ جو آزاد نہیں کرتی ہے، بلکہ وہ چاہتی ہے کہ اس کا ہر عمل قران و سنت کے احکام کے مطابق ہوں، وہ کوئی ایسا کام نہ کرے جو اس کی عزت و آبرو کے خلاف  ہو، یا اس پہ ہلکا سا بھی دھبہ لگانے والا ہو.

لڑکیوں کی تعلیم ضروری ہے، کیونکہ وہی آنے والی نسل کی پہلی درسگاہ ہوتیں ہیں، مگر اس کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت بھی ضروری ہے، انہیں عزت، عصمت، اور ان کی حفاظت سب کچھ سکھانا ضروری ہوتا ہے، اور اس کے ذمہ دار ماں باپ ہیں، کیونکہ وہی گھر کے ذمہ دار ہوتے ہیں، اور ان سے ان کی ذمہ داری کے بارے میں کل قیامت کے دن ضرور پوچھا جائے گا.

آج کے دور میں مسلم معاشرہ اتنا زیادہ زوال پذیر ہوتا ہے کہ لوگ دھیرے دھیرے غیرت نام کی چڑیا سے ناواقف ہوتے جارہے ہیں، ایک بیٹی کیا کررہی ہے، کہاں جارہی ہے، کس سے بات کرتی ہے، اجنبیوں سے کہیں اس کے تعلقات تو نہیں، کسی بھی قسم کی پرواہ ماں باپ کو نہیں ہوتی ہے، بیٹی یونیورسٹی جارہی ہے، یا بوائے فرینڈ گرل فرینڈ کا کھیل کھیلنے جارہی ہے باپ کو اس کے بارے میں کچھ فکر ہی نہیں ہوتی ہے، بلکہ یہاں تک سنا جاتا ہے کہ چاند راتوں میں شہروں میں خود ماں باپ اپنی بیٹیوں کو بازاروں میں بھیجتے ہیں کہ فلاں جگہ ایک آدمی مہندی لگاتا ہے، وہاں جاکے لگوا لو، اچھا لگاتا ہے، پھر جس طرح بے غیرتی کا مظاہرہ کرکے بیٹی کو اجازت دیتا ہے، اسی طرح بیٹی بھی خوب اچھے سے باپ کی اجازت کا فائدہ اٹھاتی ہے، پھر یوں ہوتا ہے کہ چاند تو ہوتا ہے پر رات نہیں ہوتی.

مسلمانوں کو اس مسئلے پہ غور کرنی کی ضروت ہے، جس تیزی سے برائیاں اپنا پر پھیلاتی جارہی ہیں، اگر انہیں روکنے کی کوشش نہ کی گئی تو وہ دن دور نہیں جب زلزلوں کی کثرت ہوجائے گی، مصیبتوں اور آزمائشوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجائے گا، اور اللہ رب العالمین کی لاٹھی برسنا شروع ہوجائے گی.

اسلام میں جتنا اخلاق، عصمت و عفت اور پاکدامنی پہ زور دیا گیا ہے، اتنا کسی اور مذہب میں نہیں دیا گیا ہے، ہر مسلمان مرد اور عورت کو پاکباز رہنے پہ ابھارا گیا ہے، اور اس کے بدلے میں جنات النعیم کا وعدہ کیا گیا ہے، ہر مسلمان پاکدامن بنے اسی وجہ سے نظریں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا، غلطی سے کسی اجنبی لڑکی پہ نظر پڑجائے تو دوسری نظر ڈالنے سے روک دیا گیا ہے، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ آج اسی مذہب کے ماننے والے اپنے مذہب کو صرف مسجدوں تک محدود کرتے جارہے ہیں، بقیہ گھر میں کیا ماحول ہے، خود کیا کررہے ہیں، اس سے وہ بے نیاز ہوتے جارہے ہیں، بے حیائی، بے پردگی کے لئے باقاعدہ جواز کے فتنے تلاش کئے جارہے ہیں، اگر حقیقت میں عورت کی اصلاح و تربیت پہ زور نہ دیا گیا تو ہر گھر کمزور ہوتا چلا جائے گا، اور جب گھر کمزور ہوگا تو خاندان بھی کمزور ہوگا، پھر خاندان کی کمزوری پورے مسلم معاشرے کے لئے سم قاتل کی مانند ہوگی، یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ برائی یہ متعددی بیماری کی طرح ہوتی ہے، اگر ایک عورت اس بیماری کا شکار ہوجائے تو وہ دو تین عورتوں کو اس بیماری کا مریض ضرور بنا دیتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کو حدیث میں فتنہ سے تعبیر کیا گیا ہے، عورت کا فتنہ اس کا برباد ہوجانا اور اس کے دل سے عزت و عصمت کی حفاظت کا تصور نکل جانا ہے.

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔