عورت: اسلام کے زیر سایہ 

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

 اسلام کے جن پہلوؤں پر دشمنانِ اسلام کی جانب سے اعتراضات کیے جاتے ہیں ان میں سے ایک پہلو اس کا نظامِ خاندان اور اس میں عورتوں کے حقوق ہیں۔ اس پہلو پر ماضی میں بھی اعتراضات کیے جاتے رہے ہیں اور اب بھی کیے جا رہے ہیں ۔ بالخصوص جب یورپ میں صلیبی جنگوں کے نتیجے میں اسلام مخالف لہر اٹھی تو مشتشرقین کا ایک گروہ پیدا ہوا اور اس نے اسلام میں حقوق نسواں کو نشانہ بنایا، بالخصوص جب ہندوستان میں مسلم حکم رانی کا زوال ہوا تو انگریزوں کے ساتھ ہندوستان میں عیسائی مشنریز بھی آئیں ۔ ان لوگوں نے اسلام پر مختلف طرح کے اعتراضات کیے۔ بعد میں جب ہندو احیاء پرستی کو غلبہ حاصل ہواتو بھی اسلام کے اس پہلو پر برابر اعتراضات کیے گئے اور یہ بات ہم سب کے علم میں ہے کہ آج بھی اسلام کے حقوقِ نسواں کے خلاف مخالفین اسلام کی مہم جاری ہے اور وہ برابر ان کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

 یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوتی ہے کہ اسلام میں عورتوں کے حقوق کو نشانہ وہ لوگ بنا رہے ہیں، جن کے یہاں عورتوں کی پیدائش کو منحوس سمجھا جاتا ہے، جن کے یہاں عورتوں کو پیدا ہونے سے پہلے ہی ماں کی کوکھ میں مار دیا جاتا ہے، جن کے مذہب میں  عورتوں کو نہ کسی بھی طرح کے حقوق عطا کیے ہیں اور نہ ان کے کلچر میں عورتوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔

  ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں لڑکوں اور لڑکیوں کے تناسب میں خاصا فرق پایا جاتا ہے۔ ہر دس سال پر جو اعداد و شمار آرہے ہیں، انھیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ آزادی کے بعد سے ایک ہزار لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد آٹھ سو اور نوسو کے درمیان رہتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جدید ترین آلات کے ذریعہ معلوم کر لیا جاتا ہے کہ رحم مادر میں جس جنین کی پرورش ہو رہی ہے وہ لڑکا ہے یا لڑکی ہے؟ اگر وہ لڑکی ہوتی ہے تو اسے قتل کر دیا جاتا ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ قانون سازی کے ذریعہ بھی اس گھنائونے عمل پر روک نہیں لگائی جا سکی ہے۔

اسلام پر اعتراضات وہ لوگ کرتے ہیں، جن کے یہاں عورتوں کو مردوں کا ضمیمہ سمجھا جاتا ہے، شوہر کے مرنے کے بعد عورت کو اس کا حق نہیں دیا جاتا۔ ’ستی‘ کی رسم تو ختم ہو گئی ہے، لیکن موجودہ دور میں اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ شوہر کے مرنے کے بعد بیوی کو عزت والی زندگی گزارنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ ہمارے یہاں سے تھوڑے فاصلے پر متھورا سے قریب ’بندرا بن‘ میں پچاس ہزار کے قریب بیوہ عورتیں وہاں کی گلی  کوچوں میں ماری ماری پھر رہی ہیں ۔ اسلام کے حقوق پر وہ لوگ اعتراض کر رہے ہیں، جن کے یہاں بوڑھے ماں باپ کو اپنے ساتھ نہیں رکھا جاتا اور اگر رکھا جاتا ہے تو حقارت آمیز طریقے سے۔ چنانچہ ہمارے ملک عزیز میں کئی ہزار اولڈ ایج ہومس قائم ہو چکے ہیں، جہاں بوڑھے ماں باپ کا زندگی گزارنا ان کا مقدر بن جاتا ہے۔

اسلام پر اعتراضات کرنے والے  یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے عورتوں کو ان کی زندگی کے ہر مرحلے میں : بچپن میں، جوانی میں، بڑھاپے میں پر دور میں عورتوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھا ہے۔ لیکن یہ عجیب و غریب بات ہے کہ ان لوگوں میں یہ ہمت پیدا ہو گئی ہے کہ وہ لوگ اسلام میں عورتوں کے حقوق پر اعتراضات کریں۔

مختلف مذاہب میں عورتوں کے حقوق: ایک جائزہ

 زمانہ قدیم میں یونانی تہذیب اور رومی تہذیب میں عورتوں کو انتہائی ذلت والی حیثیت دی گئی تھی۔ ان کی اس حالت زار کا اس بات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس دور میں یہ جملہ زبان زد عام و خاص تھا کہ ’ آگ سے جل جانے، سانپ سے ڈسے جانے کا علاج ممکن ہے، لیکن عورت کے شر کا مداوا ممکن نہیں ۔ عورت تمام دنیاوی آفات کی جڑ ہے‘۔ رومن تہذیب میں عورتوں کو تمام تر بنیادی حقوق سے محروم رکھا جاتا تھا۔ یہ ان تہذیبوں کا حال ہے جن کو اپنے زمانے میں اعلیٰ ترین اور ترقی یافتہ سمجھا جاتا تھا۔

 یہودیت کو الہامی مذہب کی حیثیت حاصل تھی۔ لیکن اس کی مذہبی کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ عورت کو جنت سے نکلوانے والی ایک عورت (حوا) تھی۔ اس نے آدم کو بہکایا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو دو سزائیں دیں : ایک تو یہ سزا دی کہ ہر مہینہ وہ ایک خاص حالت سے گزرتی ہے اور دوسری سزایہ کہ اس کو پوری زندگی کے لیے مردوں کا غلام بنا دیا گیا۔ اسے کوئی حق نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کچھ کرے۔

 عیسائیت میں عورت کو شیطان کا دروازہ کہا جاتا ہے، اس کو اتنا منحوس و مبغوض سمجھا جاتا ہے کہ ایک شر یف، دین دار، پرہیزگار، متقی عیسائی کی آئیڈیل زندگی یہ ہے کہ وہ اس گندگی میں ملوث ہی نہ ہو۔ اس کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ نکاح ہی نہ کرے۔

 مندر جہ بالا دونوں تہذیبوں اور مذہبوں میں عورتوں کو ملکیت کا حق حاصل نہیں تھا۔ ان میں عورت کو خود ایک مال سمجھا جاتا ہے۔ ان کے یہاں عورت کو صرف مردوں کی جنسی خواہش کو پورا کرنے کا آلہ سمجھا جاتا ہے۔ یورپ، جو اپنے ترقی کے دعوے کرتا ہے، وہاں عیسائیت کے غلبے کے نتیجے میں اسی طرح کے تصورات عام تھے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ یورپ میں انسانی حقوق بیداری مہم تین سو سال سے چل رہی ہے، لیکن اس طویل عرصے میں عورتوں کے حقوق کی طرف سے کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ عورت کو تعلیم کا حق، ملکیت کا حق اور دوسرے تمام معاشرتی، سماجی اور تہذیبی و تمدنی حقوق بیسویں صدی عیسوی میں جا کر حاصل ہوئے ہیں ۔اس سے پہلے اسے کسی بھی قسم کے  حقوق حاصل نہیں تھے۔

 ہندو مذہب میں عورتوں کو اتنا حقیر اور ذلیل بیان کیا گیا ہے کہ انسانی ذہن اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ’منو سمرتی‘ ہندو مذہب کی ایک مشہور مذہبی کتاب ہے۔ اس میں جہاں ذات پات کے متعلق تفصیلی بیان ہے، وہیں عورتوں کے متعلق بھی بیانات موجود ہیں ۔ اس میں لکھا ہے کہ :’’آگ، پانی سانپ اور عورت، یہ چار چیزیں ہلاکت والی ہیں ۔ انسانوں کو ان سے ہوشیار رہنا چاہیے۔ جھوٹ، بے عقلی، فریب، حماقت، لالچ، ناپاکی،بے رحمی، یہ عورتوں کی خصوصیات ہیں ۔ عورت کا کام شوہر کی خدمت کرنا ہے، شوہر کے مرنے کے بعد اس کو جینے کا حق نہیں ہے‘‘۔ ان ریت رواجوں کا ایک طویل عرصے تک دور دورہ رہا۔ جو عورتیں اپنے شوہر کی چتا (میت) کے ساتھ جل مرتی تھیں، ان کے مندر قائم کیے جاتے تھے اور ان میں ان کی پوجا کی جاتی تھی۔

  کچھ اسی طرح کی صورت حال زمانۂ جاہلیت میں عربوں میں بھی پائی جاتی تھی۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کوئی تہذیب ہو، مذہب ہو، حتی کے جدید ترین تہذیب، جو اپنے بارے میں بلند باگ دعوے کرتی ہے، اس میں عورتوں کو کبھی مردوں کے مساوی حقوق عطا نہیں کیے گئے۔ عربوں کے کئی قبیلے ایسے تھے جو لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے۔ اس زمانے میں الٹرا سائونڈ اور اس طرح کے دیگر آلات ایجاد نہیں ہوئے تھے، جس سے معلوم ہو سکتا ہو کہ حمل میں جس کی پرورش ہو رہی ہے وہ لڑکا ہے یا لڑکی؟ وضع حمل سے پہلے گڈھا کھود لیا جاتا تھا۔ اگر لڑکی پیدا ہوتی تو اسے فورا زمین میں زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ ریت کی بڑی سی پوٹلی بنا کے رکھی جاتی تھی۔ لڑکی پیدا ہوتی تو اس کے منھ پر وہ پوٹلی رکھ دی جاتی تھی، تاکہ اس کا دم گھٹ جائے۔ عرب کے صحرا کے متعلق یہ بات بہت مشہور ہے کہ لڑکیوں کی پیدائش پر انھیں اس میں پھینک دیا جاتا تھا۔ تاریخ کی کتابوں میں اس سے متعلق بڑے دردناک واقعات ملتے ہیں ۔

  ان تمام باتوں سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ عرب میں بھی عورتوں کو کوئی حیثیت نہیں حاصل تھی۔ وراثت میں ان کو حق نہیں دیا جاتا تھا۔

اسلام میں عورت کا مقام

 یہود کے یہاں آدم اور حوا کے بارے میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ حوا، آدم ؑ کو جنت سے نکلوانے کا سبب بنیں ۔ قرآن مجید میں آدم اور حوا ؑ کا واقعہ بہت سے مقامات میں تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ ہر جگہ قرآن مجید نے دونوں کا تذکرہ کیا ہے کہ شیطان نے آدم اور حوا کو جنت سے نکلوایا۔ کسی ایک مقام پر بھی حوا کو قصوروار قرار نہیں دیا ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ انسان بہ حیثیت انسان محترم ہے۔ اس معاملے میں مرد اور عورت کے درمیان قرآن کوئی تفریق نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

  وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ (الاسراء: 70)

 ’’اور ہم نے بنی آدم کو مکرم بنایا‘‘۔

 بنی آدم میں مرد بھی شامل ہیں اور عورتیں بھی۔ قرآن نے قتل اولاد سے سختی سے منع کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

 وَلاَ تَقْتُلُواْ أَوْلادَکُمْ (الاسراء: 31)

  اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔

  اس میں قرآن کوئی تفریق نہیں کرتا۔مقتول خواہ بچہ ہو یا بچی، لڑکا ہو یا لڑکی۔ قرآن  کے الفاظ بہت واضح ہیں ۔ اس نے ’اولاد‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ اے لوگو! اپنی اولاد کو فقر و فاقہ کے خوف سے قتل مت کرو۔قرآن عورت کو نصف انسایت قرار دیتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی نوازش ہے۔ وہ کسی کو لڑکے دیتا ہے، کسی کو لڑکیاں عطا فرماتا ہے، کسی کو دونوں دیتا ہے اور کسی کو دونوں سے محروم کر دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 لِلَّہِ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ یَخْلُقُ مَا یَشَاء ُ یَہَبُ لِمَنْ یَشَاء ُ إِنَاثاً وَیَہَبُ لِمَن یَشَاء ُ الذُّکُورَ۔ أَوْ یُزَوِّجُہُمْ ذُکْرَاناً وَإِنَاثاً وَیَجْعَلُ مَن یَشَاء ُ عَقِیْماً إِنَّہُ عَلِیْمٌ قَدِیْر(الشوریٰ: 49۔50)

  اللہ زمین اور بادشاہی کا مالک ہے۔ جو کچھ چاہتا ہے، پیدا کرتا ہے۔ جسے چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکے لڑکیاں ملا جلا کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے۔وہ جاننے والا اور قدرت رکھنے والا ہے۔

 اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ کس کو کس سے نوازنا چاہیے ؟ حکمت کے تحت جس کو چاہتا ہے نوازتا ہے۔ کس کے یہاں لڑکا پیدا ہوگا، کس کے یہاں لڑکی پیدا ہوگی ؟اس میں انسانی کوششوں کا کوئی دخل نہیں ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت پر مبنی ہے۔

 اسلام نے عورت سے بہ حیثیت عورت کے محبت کرنا سکھایا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے :

حبب الی من الدنیا النساء و الطیب (حدیث)

’’دنیا کی چیزوں میں سے دو چیزیں مجھ کو محبوب ہیں :عورت اور خوشبو‘‘۔

 ایک حدیث میں ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ عورتیں اونٹوں پر بیٹھی ہوئی تھیں ۔ایک صحابی اونٹوں کو ہانک رہے تھے۔ اس زمانے میں اونٹوں کو ہانکنے والے اشعار پڑھا کرتے تھے توان کو سن کر اونٹوں کی رفتار تیز ہو جایا کرتی تھی۔ صحابی نے شعر پڑھنا شروع کیا  تو اونٹوں کی رفتار تیز ہو گئی۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

   رویدک سوقاً بالقواریر (حدیث)

  اونٹوں کو آہستہ ہانکو، تیز مت ہانکو، اس لیے کہ ان پر آب گینے رکھے ہوئے ہیں ۔

 ’قارورہ ‘  شیشی کو کہتے ہیں ۔ اس کی جمع قواریر ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے عورتوں کی کتنی لطیف تشبیہ دی ہے اور کتنے خوبصورت انداز میں ان کے ساتھ رعایت  برتنے کی تاکید کی ہے۔

 قرآن مجید کی بہت سے تعلیمات میں عورت اور مرد دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جو حقوق عورت کے لیے بیان کیے گئے ہیں، ٹھیک وہی حقوق مردوں کے بیان کیے گئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

  فَاسْتَجَابَ لَہُمْ رَبُّہُمْ أَنِّیْ لاَ أُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنکُم مِّن ذَکَرٍ أَوْ أُنثَی بَعْضُکُم مِّن بَعْض  (آل عمران: 195)

  ’’اللہ تعالیٰ نے یہ بات طے کر دی ہے کہ کوئی عمل والا جو عمل کرے گا، میں اس عمل کو ضائع نہیں کروں گا، چاہے وہ مرد ہویا عورت ہو۔ تم ایک دوسرے کی جنس سے ہو‘‘۔

 مندرجہ بالا آیت سے کئی باتیں معلوم ہوتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عمل کے اعتبار سے کسی کے درمیان کوئی تفریق نہیں کی جائے گی۔ جو بھی عمل کی سوغات لے کر جائے گا اللہ تعالیٰ  کے یہاں اسے شرف قبولیت دیا جائے گا اور مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا جاے گا۔

 قرآن مجید میں جتنے احکام بیان ہوئے ہیں ان تمام میں مردوں کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ اس لیے کہ زبان میں مردوں ہی کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے اور اس کا اطلاق عورتوں پر بھی ہوتا ہے۔ لیکن قرآن کے چند مقامات ایسے ہیں جہاں قرآن بہت زیادہ زور دینا چاہتا ہے، وہاں اس نے خاص طور سے مردوں کا تذکرہ کرنے کے ساتھ ساتھ عورتوں کا بھی تذکرہ صراحت سے کیا ہے، ان میں سے ایک یہ آیت بھی ہے۔ اس سے زیادہ واضح ایک آیت ہے، جو سورہ احزاب میں ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے نیک بندوں کے اوصاف بیان کیے گئے ہیں اور بتایا گیا ہے کہ اللہ کے نیک بندے کیسے ہوتے ہیں ؟ جب وہ عمل کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو بھر پور بدلہ دیتا ہے۔ اس آیت میں اللہ کے نیک بندوں کی دس صفات بیان کی گئی ہیں ۔ ان میں مردوں کا بھی تذکرہ ہے اور عورتوں کا بھی تذکرہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

  إِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْقٰنِتَاتِ وَالصّٰدِقِیْنَ وَالصّٰدِقَاتِ وَالصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰبِرَاتِ وَالْخٰشِعِیْنَ وَالْخٰشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصّٰئِمِیْنَ وَالصّٰئِمَاتِ وَالْحٰفِظِیْنَ فُرُوجَہُمْ وَالْحٰفِظَاتِ وَالذّٰکِرِیْنَ اللَّہَ کَثِیْراً وَالذّٰکِرَاتِ أَعَدَّ اللَّہُ لَہُم مَّغْفِرَۃً وَأَجْراً عَظِیْما(الاحزاب: 35)

’’ اسلام والے، ایمان والے، اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والے، سچ بولنے والے، صبر کرنے والے۔ خشوع اختیار کرنے والے، صدقہ و خیرات کرنے والے، روزہ رکھنے والے، شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے اور اللہ کو یاد کرنے والے، یہ چاہے مرد ہوں یا عورت، اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے اجر عظیم کا وعدہ کر رکھا ہے۔

 ہم سب جانتے ہیں کہ عورت کی چار حیثیتیں ہو تی ہیں : عورت بہ حیثیت بیٹی، عورت بہ حیثیت ماں، عورت بہ حیثیت بہن اور عورت بہ حیثیت بیوی۔  چاروں کے بارے میں قرآن نے ان کے الگ الگ حقوق بیان کیے ہیں، ان کا تذکرہ کیا ہے، اور ان کی فضلیت بیان کی ہے۔

عورت بہ حیثیت بیٹی یا بہ حیثیت بہن

 اللہ کے رسول ﷺ نے ایک مجلس میں فرمایا:

 جس شخص کی تین بیٹیاں ہوں، وہ ان کو پالے پوسے، کھلائے پلائے، ان کو ادب سکھائے، علم سے نوازے۔ جب وہ بڑی ہو جائیں تو ان کی شادی کر دے تو اس کے لیے جنت ہے۔ ایک صحابی نے عرض کیا :اے اللہ کے رسول ﷺ! اگر کسی کے پاس دو ہوں تو؟ آپؐ نے فرمایا دو کے لیے بھی یہی حکم ہے۔ صحابی خاموش ہو گئے اور اللہ کے رسول ﷺ خاموش ہو گئے۔ بعد میں ان صحابی سے ان کے شاگرد نے پوچھا : اگر کسی پاس ایک لڑکی ہو تو ؟ صحابی بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺکا انداز ایسا تھا کہ  اگر میں ایک لڑکی کے بارے میں پوچھتا تو آپ اس کے بارے میں بھی یہی بات فرماتے۔

 ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: جس شخص کے یہاں لڑکی ہوئی، اس کی اس نے پرورش کی  اور لڑکوں کو اس پر ترجیح نہیں دی، اس کے لیے جنت ہے۔ بعض احادیث میں اس طرح کی صراحت بہنوں کے لیے بھی ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ جس شخص کی تین بہنیں ہوں، وہ ان کی پرورش کرے، ان کو ادب سے نوازے، ان کی شادی کر دے، اس کے لیے جنت ہے۔

 محدثین نے یہ کہا ہے کہ اس بات کا امکان ہے کہ ایک ہی ہو اور اس بات کا بھی امکان ہے کہ الگ موقع کی ہو۔ کسی موقع پر اللہ کے رسول نے بیٹی کے بارے میں فرمایاہو اور کسی موقع پر بہن کے بارے میں ۔ ظاہر ہے کہ جب باپ کا انتقال ہو گیا ہو تو نھائی پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ بہنوں کی کفالت کرے۔

عورت بہ حیثیت ماں

اسلام نے ماں کو جو مقام دیا ہے اس کا دنیا کے کسی مذہب اور کسی تہذیب میں کوئی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

 وَقَضَی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْْنِ إِحْسٰناً إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِندَکَ الْکِبَرَ أَحَدُہُمَا أَوْ کِلاَہُمَا فَلاَ تَقُل لَّہُمَا أُفٍّ وَلاَ تَنْہَرْہُمَا وَقُل لَّہُمَا قَوْلاً کَرِیْما۔وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْراً (الاسراء: 23)

 ’’ اور تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ صرف اسی کی عبادت کرو اور اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کو پہنچے اور وہ تمھارے پاس رہیں تو تم اف بھی نہ کرو، نہ ان کو جھڑکو اور ان کے ساتھ اچھا برتائو کرو اور نرمی اور خوش دلی کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو اور دعا کرو کہ اے پروردگار! ان پر رحم فرما جس طرح انھوں نے بچپن میں میرے ساتھ رحم  کا معاملہ کیا ‘‘۔

احادیث میں بھی والدین کے حقوق بہت بہت زور دیا گیا ہے۔ ایک صحابی اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھتے ہیں کہ میرے حسنِ سلوک کا سب سے اچھا مستحق کون ہے؟ آپ ؐ فرماتے ہیں تمھاری ماں ۔ وہ صحابی کہتے ہیں : اس کے بعد کون؟ آپؐ فرماتے ہیں : تمھاری ماں ۔ وہ صحابی پھر سے پوچھتے ہیں : اس کے بعد کون؟ آپؐ پھر وہی جواب دہراتے ہیں : تیری ماں ۔ چوتھی مرتبہ پھر وہ صحابی یہی سوال دہراتے ہیں، تو آپ ﷺ فرماتے ہیں : تیرا باپ‘‘۔

ایک مرتبہ اللہ کے رسول ﷺ نے جہاد کاا علان کیا۔ ایک صحابی آتے ہیں اور وہ بھی اس نیک کام میں اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں ۔ اللہ کے رسول ﷺ ان سے سوال کرتے ہیں : کیا تمھارے والدین زندہ ہیں ؟ وہ کہتے ہیں : ہاں میری ماں زندہ ہیں ۔ آپ ؐ نے ان سے فرمایا: جائو اور ان کی خدمت کرو۔ اللہ کے رسول نے جہاد جیسے عظیم الشان عمل سے، جس کی قرآن و حدیث میں بہت فضیلت آئی ہے، ماں کی خدمت کو افضل بتایا۔ ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ وہ اللہ کے رسول ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ میں جہاد میں جائوں گا۔ انھوں نے کہا کہ میرے والدین مجھے روکتے رہے، ان کو میری ضرورت ہے، اس کے باوجود میں ان کو چھوڑ کر جہاد کے لیے آگیا ہوں ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: جائو، جس طرح ان کو رلا کر آئے ہو، اسی طرح ان کو ہنسائو۔

عورت بہ حیثیت بیوی

اسلام میں بیوی کے بھی بہت سے حقوق بیان کیے گئے ہیں ۔ جو حقوق مردوں کے بیان کیے گئے ہیں ٹھیک ویسے ہی حقوق عورتوں کے بھی بیان ہیں ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

 وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْْہِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْْہِنَّ دَرَجَۃ (البقرۃ: 228)

 ’’عورتوں کے لیے معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں، جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں ۔ البتہ مردوں کو ان پر ایک درجہ حاصل ہے۔‘‘

 یہ قرآن کریم کا اعجاز بیان ہے کہ وہ کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ بات کہہ دیتا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مردوں کے حقوق بیان کیے ہیں اور ان کے فرائض بھی بیان کیے ہیں ۔ اسی طرح اس میں عورتوں کے حقوق اور ان کے فرائض بھی بیان کر دیے گئے ہیں ۔ گویا اس میں کہا گیا ہے کہ مردوں کے حقوق عورتوں کے فرائض ہیں اور عورتوں کے حقوق مردوں کے فرائض ہیں ۔ البتہ ساتھ ہی یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ مردوں کو یک گونہ عورتوں پر فضیلت حاصل ہے۔ اس میں جو فضیلت بیان کی گئی ہے اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ مرد عورتوں پر حکم راں ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ عورتیں مردوں کی تابع دار نہیں ۔ سسٹم میں کوئی ایک سربراہ ہوتا ہے۔ نظام خاندان سربراہ مرد بھی ہو سکتا تھا اور عورت بھی۔ اسلام نے خاندان کی سربراہی مرد کو عطا کی ہے۔ ایک کمپنی کو اچھی طرح سے  چلانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا کوئی سربراہ ہو۔ مختلف اسباب سے کمپنی کا کسی کو سربراہ بیانا جاتا ہے اور کمپنی کے تمام ملازمین کو اس بات کا پابند کیا جاتا ہے کہ اس کا حکم بجا لائیں ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے اس کے علاوہ تمام لوگوں کو اس سے کم تر حقوق دیے گئے ہیں ۔ یہ صرف ایک انتظامی سہولت ہوتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح  نظام خاندان کو چلانے کے لیے اسلام نے مرد کو اختیارات دیے ہیں ۔ اصلاً غلط فہمی  اس سے پیدا ہوتی ہے کہ بہت سے لوگوں نے ’قوام‘ کا ترجمہ ’حکمراں ‘ کیا ہے۔ یہ ایک غلطی ہے۔ قوام کے معنی حکم راں ہیں ہی نہیں ۔ قوام کے اصل معنی ہیں ’منتظم‘، کسی ادارے کو چلانے والا، مصارف پورے کرنے والا، خرچ چلانے والا۔

اس طرح مرد کو جو خصوصی اختیار دیا گیا ہے، اس کا مطلب عورت کی حق تلفی نہیں ہے، بلکہ محض انتظامی ضرورت سے مرد کو تھوڑی سی فضیلت دی گئی ہے، ورنہ ازدواجی زندگی میں عورت کے جو حقوق بیان کیے ہیں، وہ بے مثال ہیں ۔ خاندان کا وجود نکاح سے ہوتا ہے۔ نکاح میں عورت کی مرضی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ کوئی نکاح لڑکی کی اجازت اور مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا، حتی کہ لڑکی کے والدین کو بھی اس پر اپنی مرضی تھوپنے کا حق نہیں ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک لڑکی اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں آئی اور کہا :اے اللہ کے رسولﷺ! میرے باپ نے میرا نکاح اپنے بھتیجے کے ساتھ طے کر دیا ہے، جب کہ مجھے یہ رشتہ منظور نہیں ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم کو یہ رشتہ منظور نہیں تو تمہارا نکاح نہیں ہو سکتا۔ وہ لڑکی فورا ً بول پڑی: اے اللہ کے رسولﷺ! مجھے یہ رشتہ منظور ہے۔ میں تو صرف یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ اسلام میں عورتوں کو کیا حقوق دیے گئے ہیں ۔

 نکاح ایک معاہدہ ہے۔ نکاح جنسی تعلق قائم کرنے کا ایک جائز طریقہ ہے۔ نکاح کے نتیجے میں مرد کی بھی جنسی خواہش پوری ہوتی ہے اور مردوں کی بھی۔ لیکن اسلام کا عورت کو یہ اعزاز ہے کہ اس نے اس کو مہر کا حق دیا۔ مہر کوئی فیس نہیں ہے، کوئی چارج نہیں ہے۔ وہ تو عورت کا اعزاز ہے۔ حتی کہ اسے دوسرے مذاہب کے لوگ بھی محسوس کرتے ہیں ۔ کسی زمانے میں ہندوستان کے سابق وزیر اعظم جناب اٹل بہاری واجپائی نے بھی کہا تھا کہ ’’اسلام میں نکاح کے وقت عورت سے اس کی مرضی پوچھی جاتی ہے، اس سے اجازت لی جاتی ہے، اس کو مہر دیا جاتا ہے۔ یہ ہمیں بڑا اچھا لگتا ہے۔‘‘ مرد پر یہ لازم کیا گیا کہ وہ عورت کو خرچ دے، نفقہ دے، عورت چاہے جتنی مال دار ہو، اس کے باپ کھاتے پیتے گھر سے تعلق رکھتے ہوں، چاہے شادی کے  بعد بھی اس کے باپ نے اس کو اچھی خاصی پراپڑتی اس کو دی ہو۔ اس کے باوجود اس کو اپنے شوہر سے نفقہ مانگنے کا حق ہے۔

اسلام کے مخالفین اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام نے عورت کو گھر میں بند کر دیا ہے، اسے ملازمت سے روکا ہے۔ حالاں کہ یہ کتنی نادادنی والی بات ہے۔اسلام نے تو عورت کو یہ سہولت فراہم کی ہے کہ گھر بیٹھے اس کو ساری سہولیات مل رہی ہیں ۔ عورتوں سے کہا گیا ہے کہ تم کو کچھ نہیں کرنا ہے۔ یہ تو اس کا اعزاز ہے، چہ جائے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اس کو کم تر حیثیت دی گئی ہے۔ یہ بات بھی صحیح ہے کہ عورت کو کسب معاش سے روکا گیا ہے۔ عورت کما سکتی ہے، لیکن جو کچھ وہ کمائے گی وہ اس کی ہوگی۔ اسلام نے آج سے چودہ سو (1400) سال قبل عورت کو ملکیت کا حق دیا۔ عورت اپنے باپ کے یہاں سے کچھ لائے، اس کو شوہر سے مہر ملے، وہ کچھ مال کمائے۔ شوہر کو اس میں سے ایک پیسہ بھی اس کی اجازت کے بغیر لینا جائز نہیں ہے۔

ازدواجی زندگی اور اسلامی تعلیمات

ازدواجی زندگی میں مرد  اور عورت دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ عورتوں سے کہا گیا ہے کہ تم شوہروں کی اطاعت کرو:

فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَیْْبِ بِمَا حَفِظَ اللّہُ(النساء: 35)

 ’’جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں ‘‘۔

 اسی طرح مردوں کو اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ تم عورتوں کے حقوق کو ادا کرو۔ ان کے ساتھ اچھا برتائو کرو:

 وَعَاشِرُوہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِن کَرِہْتُمُوہُنَّ فَعَسَی أَن تَکْرَہُواْ شَیْْئاً وَیَجْعَلَ اللّہُ فِیْہِ خَیْْراً کَثِیْراً(النساء: 19)

 ’’ ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔ اگر وہ تمھیں نا پسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمھیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو‘‘۔

  کتنی عظیم الشان تعلیم ہے۔ یہ نہیں کہا گیا کہ اگر بیوی کی تین چار باتیں نا پسند ہوں، یہ نہیں کہا گیا کہ عورت کا کوئی رویہ تم کو ناپسند ہو، بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ اگر تم عورتوں کے پورے وجود کو ناپسند کرتے ہو، یہ سوچو کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں بہت کچھ خیر رکھا ہو۔ کسی مرد کو اجازت نہیں ہے کہ اگر وہ اپنی بیوی کو ناپسند کرتا ہو تو اس پر ظلم ڈھائے، اسے ستائے، نہ اس کے حقوق ادا کرے اور نہ اپنے سے علیحدہ کرے کہ وہ کہیں اور نکاح کر سکے، بلکہ اس کو لٹکا کر رکھے۔ اسلام نظامِ رحمت ہے۔ اس نے نکاح کے بعد زوجین کے حقوق بیان کرنے کے ساتھ ان کے درمیانتنازع پیدا ہو جانے کی صورت میں مصالحت کی چیزیں بیان کی ہیں ۔ اگر دونوں کے درمیان کسی وجہ سے مسائل پیدا ہوں تو انھیں اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ مل جل کر آپس ہی میں انھیں حل کر لیں ۔ اگر دونوں اس میں کام یاب نہ ہو سکیں تو ان کے خاندان والے مل جل کر اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں ۔ بزرگوں کو اس معاملے میں ان کی سرپرستی  کرنی چاہیے اور ان کے مسائل حل کرنے چاہییں ۔اس کے باوجود اگر ان کے درمیان اتنی منافرت بڑھ گئی ہو کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ نہ رہ سکیں، تو اسلام نے اجازت دی ہے کہ ان کے درمیان علیحدگی کرا دی جائے۔

 اس وقت طلاق کو لے کر پورے ملک میں زبردست ہنگامہ برپا ہے۔ میاں بیوی اگر کسی وجہ سے ایک ساتھ نہ رہ سکیں تو اسلام نے انھیں ایک دوسرے سے الگ ہونے ہے۔ اسلام نے اس سلسلے میں شوہر طلاق کا اور بیوی کو خلع کا حق عطا کیا ہے۔

 یہ اسلام کی کتنی عظیم الشان نعمت ہے۔ اگر میاں بیوی کے درمیان سخت نفرت پیدا ہو گئی ہو، وہ گھٹ گھٹ کر زندگی گزار رہے ہوں، تو کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ وہ الگ ہو جائیں اور اپنی اپنی راہ لیں ۔ مرد کہیں اور نکاح کر لے اور عورت کہیں اور نکاح کر لے۔ اس طرح دونوں از سر نو خوش گوار زندگی گزاریں ۔ جن مذاہب میں طلاق کا کوئی آپشن نہیں تھا، ان کے ماننے والے بھی مجبور ہوئے طلاق کو اپنے قوانین میں شامل کرنے کے لیے۔ عیسائیت میں طلا ق کا آپشن نہیں تھا۔ ہندو مت میں طلاق کا آپشن نہیں تھا۔ بعد میں جو قوانین بنائے گئے ان میں یہ لوگ مجبور ہوئے ہیں کہ میں طلاق کو بھی شامل کریں ۔

 اسلام کے نظامِ طلاق کے بارے میں عوام میں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں ۔ اسلام نے طلاق کو چند شرائط کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ طلاق واقع ہونے کے بعد بھی اسلام کوشش کرتا ہے کہ اگر اب بھی ان کے درمیان اگر مصالحت کی کچھ گنجائش موجود ہو تو ان کے درمیان مصالحت کی کوشش کی جائے۔ اسلام کہتا ہے کہ اگر طلاق دینا شوہر کی مجبوری ہو تو وہ طلاق دے کر چھوڑ دے۔ بیوی کو حیض کی حالت میں طلا ق نہ دے، بلکہ پاکی کی حالت میں طلاق دے۔ پاکی کی وہ حالت جس میں اس نے اس سے جنسی تعلق قائم نہ کیا ہو۔ طلاق دینے کے بعد شوہر پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بیوی کو اپنے گھر سے نہ نکالے، بلکہ اسے اپنے گھر ہی میں رکھے اوروہیں اسے عدت گذارنے کا موقع دے۔ عدت تین مہینے کی ہوتی ہے۔ تین مہینہ ایک لمبا عرصہ ہوتا ہے۔ بیوی اسی گھر میں رہے گی، زیب و زینت اختیار کرے گی، بیوی کو اپنے رویے پر غور کرنے کا اور شوہر کو اپنے رویے پر غور کرنے کا موقع ملے گا۔ بیوی کی عدت پوری ہونے سے قبل شوہر رجوع کر سکتا ہے۔ اس کے لیے اسے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ۔ وہ زبان سے کہہ دے یا دونوں میاں بیوی کی حیثیت سے رہنے لگیں، رجوع ہوگیا۔ اگر عدت پوری ہو گئی تو عورت کہیں اور نکاح کرنے کے لیے آزاد ہے۔ سابق شوہر سے بھی نئے مہر کے ساتھ اس کا نکاح ہو سکتا ہے۔

عورت کا حق وراثت

 اسلام کا ایک امتیاز یہ ہے کہ اس نے وراثت میں عورتوں کا حصہ متعین کیا۔ دیگر مذاہب میں اسے صرف نرینہ اولاد کا حق سمجھا جاتا تھا اور عورتیں اس سے بالکلیہ محروم رہتی تھیں ۔ اسلام نے نہ صرف انھین مستحق وراثت قرار دیا، بلکہ تفصیل سے ان کے حصے بھی بیان کیے، ان کی ادائیگی کی تاکید کی اور ان کا حق غصب کرنے والوں کو دردناک سزا کی وارننگ دی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

   لِّلرِّجَالِ نَصیِبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاء  نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ أَوْ کَثُرَ نَصِیْباً مَّفْرُوضاً(النساء: 7)

’’مردوں کے لیے اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتے داروں نے چھوڑا ہو، خواہ تھوڑا ہو یا بہت اور یہ حصہ اللہ کی طرف سے مقرر ہے‘‘۔

اسلام کے زیر سایہ عورت بہت سکون و اطمینان کے ساتھ زندگی بسر کرتی ہے۔ البتہ چوں کہ بہت سے مسلمان اسلام کی ان تعلیمات پر عمل نہیں کرتے اور اسلام کے عطا کردہ حقوق سے اسے محروم کرتے اور اس پر ظلم ڈھاتے ہیں ۔ اس بنا پر دوسروں کو اعتراضات کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ ضرورت ہے کہ ہم پوری خوش دلی کے ساتھ عورتوں کو وہ حقوق دیں، جن کی ادائیگی کی اسلام نے تاکید کی ہے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کریں، جس کا اسلام نے پابند کیا ہے۔

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    اسلام نے عورت کو قید نہیں کیا بلکہ انہیں ہوس پرستوں کی غلیظ نگاہوں سے بچا کر محفوظ کیا اور معاشرے میں عزت والا مقام دیا ہے, اسلام کی دی ہوئی آزادی اور مغرب کی دی ہوئی آزادی میں یہ فرق ہے کہ:
    ٫ اسلام صرف تربیت کی بنیاد پر آزادی دیتا ہے جب کہ مغرب جسم کی نمائش کی بنیاد پر آزادی دیتا ہے ، اسلام نے عورت کو اسکی پاک حدود میں رہتے ہوئےمعاشرے کے لئے کارآمد بنایا جبکہ مغرب نے عورت کو نمائش اور چارہ بنا کر معاشرے میں بکاؤ مال بنایا جہاں عورت کا کپڑا جتنا چھوٹا ہوتا جاتا ہے اسکی ” قیمت” میں اضافہ ہوتا رہتا ہے .! جس معاشرے میں عورت کی مارکیٹ ویلیو با حثیت کماڈٹی ہو اس کا موازنہ اسلام سے کرنا نا انصافی ہی ہو گی !

    عورت کے حقوق کے تحفظ کا مفہوم انفرادی، معاشرتی، خاندانی اور عائلی سطح پر عورت کو ایسا تقدس اور احترام فراہم کرنا ہے جس سے معاشرے میں اس کے حقوق کے حقیقی تحفظ کا اظہار ہو لیکن آج کل عورتوں کو ننگا کرنا اور اشتہارات میں نچوانا ہی حقوق کا اصل مفہوم سمجھا جاتا ہے .

تبصرے بند ہیں۔