حکمت عملی میں بنیادی تبدیلی ضروری

عالم نقوی

ہماری حکمت عملی میں بنیادی انقلابی تبدیلیوں Paradigm Shift کی ضرورت ہے اس کے بغیر  آنے والے  حالات کا مقابلہ مشکل سے مشکل تر  ہوتا چلا جائے گا۔ اس وقت بھی حالات اُس سے زیادہ خراب ہیں جتنے ننگی آنکھوں سے نظر آتے ہیں۔ اور مستقبل میں ہمارے اندازوں سے کہیں زیادہ خراب ہونے والے ہیں۔

رخائن صوبے میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ چھوٹی سی  کمزور میانمار  حکومت کے سلوک اور اس پر ستاون مسلم ملکوں کے بے شرمانہ رد عمل نے جو فی الواقع  بدترین بے حسی اور بے غیرتی سے عبارت ہے سنگھ پریوار اور اس کی سبھی’’  مودی۔ یوگی۔ کھٹّر حکومتوں ‘‘کی ہمتیں بڑھا دی ہیں۔ یمن و سیریا اور عراق و پاکستان کے حالات، جہاں یہودی، عیسائی یا ہندو نہیں، مسلمان ہی مسلمانوں کا خون بہا نے میں مصروف ہیں، اُنہیں بتا رہے ہیں کہ بھارت کے بیس بائیس یا پچیس کروڑ مسلمانوں کے ساتھ بھی  وہ سب کچھ کیا جا سکتا ہے جو ہسپانیہ، فلسطین، بوسنیا، افغانستان، یمن اور سیریا میں ہو چکا ہے یا  مسلمانوں کی داخلی کمزوریوں کی بنا پر آج بھی ہو رہا ہے۔

دو سال قبل ہم نے لکھا تھا کہ ’’بھارت میں ہندو اکثریت میں سہی (80 فیصد ) لیکن 20 فیصد غیر ہندو بھی یہاں سیکڑوں ہزاروں سال سے رہ رہے ہیں  اور اِن پچیس تیس کروڑ لوگوں کو نہ بحر ہند میں پھینکا جا سکتا ہے نہ بحیرہ عرب اور خلیج بنگال میں اور نہ  انہیں گنگا، جمنا، گوداوری اور گھا گرا  میں ڈبویا جا سکتا ہے۔ اور بظاہر کوئی ایسی صورت بھی نہیں کہ سبھی بیسپچیس کروڑ  غیر ہندوؤں کو نیلئی (آسام )بھاگل پور (بہار ) یا احمدآباد (گجرات ) کی طرح نسلی صفائے Ethnic Cleansing  کا شکار بنا کر ان سے پوری طرح چھٹکارا پا لیا جائے ‘‘ لیکن ان دو برسوں  کے دوران یمن، سیریا اور رخائن کے تجربے اور اس پر ستاون مسلم ملکوں کے رد عمل نے اہل ایمان کے دائمی دشمنوں اور ان کے سبھی قدرتی اور غیر قدرتی دوستوں کو   بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے ! کیا ہمیں صورت حال کی اس سنگینی کا احساس ہے ؟

 ہم پوری شرح صدر کے ساتھ لکھ رہے ہیں کہ کشمیر، فلسطین، یمن، سیریا، کرد ستان اور رخائن کے مسائل پلک جھپکتے میں حل کیے جا سکتے ہیں اگر دنیا کے سارے مسلمان ’ اُمَّتِ واحِدہ‘  کی طرح   ہر طرح کے ظلم اور نا انصافی کے خلاف متحد ہوکر ’’بنیان مرصوص ‘‘( سیسہ پلائی ہوئی دیوار) بن جائیں ! اہل ایمان کے دائمی دشمن (اَلیَہُود وَالَّذِین َاَشرَکُو ا۔ المائدہ 82) آج اِسی  لیے شیر  ہو رہے ہیں کہ مسلمان اُمَّت کے ’جسدِ واحد‘ کے بجائے رنگ، نسل، مسلک، مذہب اور فرقوں کے متعدد جسموں  میں بٹے ہوئے ہیں اور جہاں  وہ یہودی، عیسائی یا مشرکین  کے ظلم سے محفوظ ہیں وہاں   اُنہوں نے اَپنوں ہی میں اَپنے دشمن پیدا کر رکھے ہیں اور  خود  اَپنے  ہی دِینی بھائیوں کے گلے کاٹنے، خود کش دھماکے کرنے کو جہاد سمجھ رہے ہیں !ہم کیا سمجھتے ہیں کہ ہمارے دُشمن یہ سب نہیں جانتے؟کیا بَنِی آدم کے کھلے ہوئے دشمن اِبلیس(عَدُوِّ مُبین ) نے اپنے بندوں کو یہ نہیں بتایا ہوگا کہ اُس کی(یعنی شیطانِ مَردُود کی) پیدا کی ہوئی اِس صورت حال کو اَہلِ ایمان کی سرکوبی کے لیے کس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے ؟

اللہ سبحانہ تعالی ٰ نے اہل ایمان کی بقا و استحکام اور دشمنوں کی تمام اقسام سے دفاع اور بچاؤ کے لیے جو طریقے بتائے ہیں وہ قرآن میں آج بھی موجود ہیں :

’پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوجائیں اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں۔ تمام  و کمال اخلاقی، انفرادی، اور معاشرتی  ہدایات، اور باہمی اخوت و انفاق  اور خدمت خلق کے اصول سب کے سب اِن ہی دونوں بنیادی احکامات  میں داخل ہیں۔ اس کے علاوہ  اہل ایمان کو چھوڑ کر اور کسی کو اپنا رہبر و پیشوا اور ولی و سر پرست نہ بنائیں، ہر طرح کی سربلندی و سرفرازی کا معیار  صرف اور صرف ’تقوائے الہی‘ کو جانیں  رنگ، نسل، قبیلے زبان اور خود ساختہ مسلک و مذہب کو نہیں، ہرگز نہیں۔ اور بہر حال و بہر صورت اپنی اپنی استطاعت و صلاحیت کے مطابق قوت حاصل کریں یعنی خود  کو ’ طاقتور‘ بنائیں۔ حصول ِقوّت میں علم، جسم معاش اور آلات حرب و ضرب سب شامل ہیں۔ یہ سارے کام وہ ہیں جن کا حکم ہمیں اللہ نے دیا ہے اِس لیے اِن میں سے کچھ بھی ناممکن نہیں۔ اِس کے علاوہ کامیابی و کامرانی اور امن و آشتی کے دائمی  قیام کا کوئی اور نسخہ ہمیں نہیں معلوم۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    اگر اس دنیا کی بات کی جائے تو انسان واحد ہستی ہے جو ذی شعور اور تہذیب و تمدن کی خالق واقع ہُوئی ہے. انسان نے ارتقائی منازل طے کر کے باقی جانداروں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور اپنے ہوش و حَواس سے اپنے وجود اور کائنات کی کھوج میں نئے عُلوم اور نظریات کو جَنم دیا ہے. یہ عُلوم اور نظریات انسان کے ذہن میں اُٹھنے والے سوالات کے جوابات کا عکس ہیں جو انسان کے وجود، اس کا دنیا و کائنات سے تعلق وغیرہ پر مَبنی ہیں. جتنے عُلوم، نظریات بشمول مذاہب ہیں وہ اپنی فطرت میں سماجی ہیں کیونکہ وہ انسانی وجود سے متعلق ہیں اور انسانی ذہن کی پیداوار ہیں. جیسے جیسے انسان نے ارتقائی منازل طے کیں وقت کے ساتھ وہ عُلوم اور نظریات بھی تغیر و تبدل کا شکار ہوتے گئے کیونکہ نظریات بنیادی طور پر دنیا و کائنات کو سمجھنے کے لئے ایک پیمانے کا کام دیتے ہیں اور جب تجربات و مشاہدات سے عُلوم میں اضافہ ہوتا ہے تو وہ نظریات بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہیں. اگر نئے حالات سے مطابقت نہیں رکھتے، نئے سوالات کے خاطر خواہ جوابات نہیں مہیا کرسکتے یا موجودہ مسائل کا تسلّی بخش حَل نہیں پیش کر سکتے تو وہ نظریات، اگر ان میں لَچک ہے، تو اپنے آپ کو بدلتے ہیں ورنہ پھر نیست و نابود ہو جاتے ہیں. نہ جانے کتنے نظریات اب تک آئے اور مِٹ گئے. اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ہر عِلم، ہر نظریے اور ہر فلسفے کا مطمحِ نظر اور فِکر کا مَحور انسان ہی ہے. جو فِکر اور نظریہ انسان کے موجودہ حالات میں مسائل کا حَل نہ دے سکا کوئی، رہنمائی نہ دے سکا وہ مِٹ گیا مگر انسان حالات کا مقابلہ کرتے آگے بڑھتا گیا اور نئے نظریات جَنم لیتے گئے. مگر ظُلم و استبداد تب شروع ہُوا جب ایک پیراڈائم شِفٹ ہوئی جس میں ترتیب ہی اُلٹ دی گئی. کچھ طاقتور گروہوں نے انسان کو نظریے کے تابع کردیا اور خود اس نظریے کے ٹھیکیدار بَن بیٹھے. اس ترتیب نے انسان کی حیثیت کو بُری طرح متاثر کیا اب انسان اپنے ہی بنائے گئے نظریات کا مطیع و فرمانبردار ٹھہرا جس سے اس کا استحصال کیا گیا. وہ مقدّس حیثیت جو کبھی انسان کی تھی اب وہ اسی کے بنائے ہوئے نظریات کی ہوگئی اور جب نظریات مقدّس بَن جائیں تو انسان کی ان پر قربانی جائز ٹھہرتی ہے. یہی وجہ ہے کہ رَشیا میں کمیونزم کے نام پر لاکھوں انسانوں کا قتل کیا گیا اور آج بھی مذہب کے نام پر انسانی جانوں کا ذِیاں ہورہا ہے. جب تک اس ترتیب کو پھر صحیح نہیں کیا جائیگا، جب تک انسان کو اس کی کھوئی ہوئی حیثیت اور عَظمت دوبارہ واپس نہیں مِلے گی تب تک انسان اپنے ہی بنائے ہوئے بُتوں کو سَجدہ کرتا رہے گا اور فرسودہ نظریات پر اپنی جان قُربان کرتا رہے گا. یہ باوَر کرانا ہوگا کہ انسان نظریات کے لئے نہیں بَنا بلکہ نظریات انسان کے لئے بَنے ہیں اس لئے بَدلنا یا مِٹنا نظریات کو ہے انسان کو نہیں.

تبصرے بند ہیں۔