عورت ہی ہمیشہ مظلوم نہیں ہوتی ہے!

احساس نایاب

 اکیسویں صدی میں جب کہ دنیا کے ہر کونے میں مرد اور خواتین کو ہرمیدان میں برابر کے حقوق  دئے گئے ہیں، جس کی وجہ سے خواتین کی بڑی تعداد ہر میدان میں مرد کے شانہ بشانہ کھڑی اپنی کامیابی کا پرچم لہرارہی ہیں، پھر بھی اس کو مظلوم کا نام دیکر، عورت غلط بھی ہو تو اسی کو صحیح ٹھہراتے ہوئے اس کی بے جا حمایت میں ایک بڑا ہجوم اکٹھا ہوجاتا ہے،اور حقیقت کو جانے سمجھے بغیر مرد کو غلط ثابت کرنے کی کوشش میں لگ جاتا ہے۔ ماناکہ عورت نازک صنف ہونے کی وجہ سے بظاہربےقصور نظر آتی ہے اور ہمدردی کی مستحق ہے، لیکن ضروری نہیں کہ ہر جگہ ہر مرتبہ عورت ہی صحیح اور مرد غلط ہوں،کیونکہ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ بیچارے مرد بھی چند عورتوں کی سازشوں کا شکار بن کر اپنی جان گنوا چکے ہیں، اس لئے ہر مرتبہ عورت ہی مظلوم نہیں ہوتی بلکہ بسااوقات عورت کے ظلم کا شکار بنے مرد بھی مظلوموں کی فہرست میں شمار ہوتے ہیں، اور جس طرح مظلومیت کا ہتھیار عورت اپنے دفاع کے لئے استعمال کرکےآسانی سے لوگوں کی حمایت حاصل کرلیتی ہے اس کے آگے ایک پہاڑ جیسا مضبوط انسان بھی ڈھیر ہوجاتا ہے، رسوائی اور ذلت کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔

 مثال کے طورپرایک واقعہ کولے لیں جس میں ایک نوجوان جس کا تعلق ایک عزت دار گھرانے سے تھا، ایک دن اُس کے ساتھ ایک ایسا حادثہ رونما ہوا جس نے اُس معصوم سے اسکی زندگی چھین لی، وہ غیرت مندنوجوان اپنی عزت کی خاطرخودہی اپنی جان کادشمن بن بیٹھااورپھراس نے وہی خطرناک کام کیاجوانسان مایوسی اوربے چارگی کی حالت میں کرتاہے۔ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ ایک دن وہ نوجوان بس میں سفرکررہاتھا۔ سفر کے دوران اچانک بس میں بریک لگانے کی وجہ سے جھٹکے سے اس کاتوازن بگڑگیا اور وہ پاس کھڑی لڑکی سے جا ٹکرا یا، حالاںکہ یہ ٹکرانابالکل غیرشعوری تھا۔ لڑکی بغیر کچھ سوچے سمجھے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی خاطر چیخنے چلانے لگی، اورشورمچانے لگی کہ اس نوجوان نے مجھ سے بدتمیزی کی ہے،مجھے چھیڑرہاہے، پھر کیا تھا بس میں سوار لوگوں کی بھیڑ اُس نوجوان پہ ٹوٹ پڑی، اس معصوم کوزدوکوب کرنے لگے، وہ بے قصور اورمعصوم نوجوان اپنی بے گناہی کی دہائی دیتا رہا لیکن کسی کو اسکی بےگناہی نظر نہیں آئی، کیونکہ اُس وقت ہر ایک کی نظر میں وہ لڑکی ہی مظلوم تھی، کچھ پل پہلے جو مسافر نوجوان کو دیکھ کر مسکرارہے تھے ابھی وہ تمام اس پہ بھڑک پڑے، گالی گلوج دے کر اس کو ذلیل و رسوا کیا گیا، اور وہ نوجوان اس حادثہ سے ابھی سنبھلا بھی نہیں تھا کہ اسکی عزت کی دھجیاں بس سے نکل کر سارے شہر میں اڑنے لگیں، راستے سے گذرتے ہوئے تیکھی اورنفرت بھری نظروں کو جھیلتا ہوا وہ جب گھر پہنچا تو نیو زچینل پہ بس والی لڑکی بیٹھی اپنی مظلومیت کا رونا رورہی تھی اور نیوز اینکر چلا چلا کر اپنا گلا پھاڑتے ہوئے نوجوان کو ریپسٹ، درندہ، بلاتکاری کہہ کر اسکو سزا دینے کی مانگ کررہا تھا اور تو اور موقعہ پہ موجود کسی فتنہ پرورانسان نے اس غلط فہمی کی ویڈیو بناکر سوشل میڈیا اور نیوز چینلس کو شیئر کردی تھی جس میں اس نوجوان کا چہرہ صاف نظر آرہا تھا اور حقیقی سچائی جانے بغیر نیوز چینلس نے اپنی ٹی آر پی کی خاطر اس بے قصور نوجوان کو ذلیل وبدنام کر اسکا حال اور مستقبل دونوں کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، خود کو مظلوم کہنے والی لڑکی بھی جھوٹی شہرت کے لئے بےقصور نوجوان پہ بےتکے الزامات لگاتے ہوئے مگرمچھ کے آنسو بہارہی تھی، جس کی قیمت اُس بیچارے بےقصور نوجوان کو اپنی جان دیکر چکانی پڑی۔

 افسوس ہوتا ہے ایسے حالات کو دیکھ کر کہ یہاں پہ کوئی محفوظ نہیں رہا، نہ مرد نہ عورت، کیونکہ آج کوئی پیشہ اعتماد کے قابل نہیں رہا، چاہے وہ محافظ کہلانے والی پولس ہو یا انصاف دلانے والے وکیل یا ہندوستان کا چوتھا ستون کہلانے والی میڈیا، کیونکہ ہر شخص اورہر پیشہ بکاؤ مال کی طرح فروخت ہورہا ہے اور مظلوموں، عام انسانوں کی آواز کہلانے والی میڈیا سچ اورحق کو چھوڑ کر محض بزنس پلیٹ فارم بن کر رہ گیا ہے اور اپنے مفاد کے لئے اپنا فرض  اپنی ذمہ داریوں کو بھلاکر اپنا ایمان، دھرم بیچ رہا ہے، یا یوں کہنا غلط نہیں ہوگا کہ سارے سنگھی رنگ میں رنگ کر وہی دکھارہے ہیں، جس کا حکم ان کے آقاؤں نے دیا ہے،جس میں ایک طبقے کو منصوبہ بندی طریقے سے گھیر کر بدنام کیا جاسکے، اور افسوس ان کی سازشوں میں پھنس کر چند بےوقوف اورناعاقبت اندیش افرادسستی شہرت کی چاہت میں ان کی اس خطرناک سازش کا شکار بن جاتے ہیں۔

 ماناکہ دنیا بھر میں کئی معصوم خواتین مردوں کے ظلم و زیادتی کا شکار ہورہی ہے اور اس بات کو جھٹلایا بھی نہیں جاسکتا،لیکن ان بھولی بھالی خواتین کی آڑ میں چند ایسی عورتیں بھی موجود ہیں جس نے نام نہاد مظلومیت کا ڈھونگ کر کے بےگناہ مردوں کی زندگیوں کو تباہ وبرباد کردیا ہے،ان کی زندگی کو عذاب بناکے رکھ دیا ہے، اور اس میں اہم کردار میڈیا ادا کرتی ہے، جو کسی بھی چھوٹے سے مسئلہ اور مدعا کو مرچ مسالہ لگاکر پیش کرتا ہے، حقیقت کو چھپاکر جھوٹ کا پرچار کرتا ہے، اپنے مفاد کی خاطر یہ گودی میڈیا جو آج مودی سرکار کے ہاتھوں بکاہوا ہے، تبھی تو آئے دن نیوز چینلس میں مذہب کے نام پہ ڈیبیٹس کیے جاتے ہیں، جہاں شریعت کو نشانہ بنانے کے لئے چند نام نہاد علماء کو بلایا جاتا ہے،جن میں اتنی قابلیت نہیں ہوتی کہ وہ ان کی سازش کو سمجھ سکیں اور ایسے نام کے علماء کو مہرہ بناکر انکی آڑمیں باقی علماء اور ہماری شریعت کا مذاق اڑایا جاتا ہے، دراصل ڈیبیٹ کے دوران جان بوجھ کر بدزبانی کی جاتی ہے اورڈیبیٹ میں شریک مسلمانوں کی ترجمانی کرنے والے شخص کو اس قدر اکسایا جاتا ہے کہ کوئی بھی انسان بھڑک کر اپنا آپا کھو بیٹھے، جس کی وجہ سے میڈیا کو کھُل کر آگ اگلتے ہوئے اسلام کو بدنام کرنے کاپوراپورا موقع مل جائے، چاہے معاملہ طلاق کا ہو یا عورت کے پردہ کا لیکن ان کے نشانہ پہ ہمیشہ مسلمان ہی ہوتے ہیں اور وہ اُس وقت تک گلاپھاڑ کر چلاتے ہیں جب تک جھوٹ کو سچ نہ ثابت کردیں۔

 حال ہی میں زی ہندوستان نامی نیوز چینل میں ڈیبیٹ کے دوران معروف عالم دین مفتی اعجازارشد کو اس قدر بھڑکایا گیااور اکسایا گیا کہ انہوں نے اپنا آپا کھودیا، لیکن یہاں پہ بداخلاقی اور جہالت کی پہل فرح نامی عورت کے تھپڑ سے ہوئی، سپریم کورٹ کی وکیل لکشمی ورماعرف فرح نے مفتی اعجازارشد کو تھپڑ مارا اور تھپڑ کے جواب میں مفتی اعجازارشدنے بھی اپنے دفاع میں اُس عورت پہ پلٹ وار کیا، ویسے دیکھا جائے تو مفتی اعجازارشد کا ردعمل فطری اورجائز تھا، کیوں کہ ان کی جگہ پہ کوئی اور ہوتا تو وہ بھی یہی کرتا، لیکن پھر بھی یہاں پہ غلطی تو دونوں کی تھی، جنہوں نے عورت پہ ہاتھ اٹھایا، ان کی اور جس نے پہل کی اسکی،لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ دوسرا تھپڑ جواب کے طور پہ اپنے دفاع میں رسیدکیا گیا اور ہر انسان کو اپنے دفاع کاپورا پورا حق ہے۔

 جب ایک عورت لائیو پروگرام میں ساری دنیا کے آگے یہ بھول سکتی ہے کہ وہ ایک عورت ہے تو مرد کیسے یاد رکھے گا کہ وہ عورت ہے، جبکہ یہی عورت خود کو مرد کے برابر ہونے کا دعویٰ کرتی ہے،اور جو عورت ہر لحاظ میں برابری کے حقوق کی مانگ کرتی ہے، وہ ہر دور میں مردوں پہ بھاری نظر آتی ہے، اور سوچنے والی بات یہ بھی ہے کہ کیا اگر مفتی اعجازارشد مار کھاکر وہاں سے خاموش چلے آتے تو دنیا انہیں جینے دیتی ؟؟؟ بالکل نہیں! طعنے کس کر ان کا جینا حرام کردیتی اور آج جس طرح لائیو ڈیبیٹ کے دوران ایک عورت نے تھپڑ مارا کل کو اس سے حوصلہ پاکردوسری عورتیں بھی اپنے ساتھی ڈیبیٹرپراس طرح کاحملہ کرسکتی تھی اورپھر یہ سب کچھ معمول ہوجاتا اورسستی شہرت کے لئے علمائے کرام کو بےعزت کرنا، تھپڑ مارنا میڈیا کا شیوہ بن جاتا، ویسے بھی آج کے دور میں جب ایک بچہ اپنے بچاؤ میں پلٹ وار کرسکتا ہے تواتنا بڑا انسان کیسے نہیں کریگا،چاہے وہ بچاؤ اپنی جان کا ہو یا عزت،غیرت کا ہو اور اگر کوئی شخص پلٹ وار کرنے کے بجائے ذلت، رسوائی، بےعزتی برداشت نہ ہونے کی صورتحال میں خودکشی کرلیتا ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا ؟

جس نے ہاتھ اٹھانے میں پہل کی وہ یا وہ چینلس جو ڈیبیٹ کے نام پہ عوام میں انتشار پیدا کرتے ہوئے ایک دوسرے کو بھڑکا کر آپس میں لڑواتے ہیں ؟ اور ان کا ساتھ دے رہی ہیں چند بکی ہوئی عورتیں جو خود کو مسلم خواتین کی ہمدرد کہتی ہیں، لیکن انہیں بس دولت اور شہرت کی چاہ ہے، جس کے لئے انہوں نے اپنا ایمان،اپناضمیر سب کچھ بیچ کر دشمنانِ اسلام کے ہاتھوں کی کٹھ پتلیاں بن کر ان کے اشاروں پہ ناچ رہی ہیں، اس لئے ایسی عورتوں کو کبھی اتنی معصوم اور مظلوم نہ سمجھیں کہ ان کی مظلومیت کا ظلم ہر شخص کو سہنا پڑے اور نہ ہی اس گودی میڈیا کے جھانسے میں آئیں، بلکہ ان کا بائیکاٹ کریں اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی تیاری کریں، جس کے لئے ایک ذمہ دار قلمکار، بےباک صحافی نے شمشیربےنیام کے ذریعہ اپنی رائے پیش کی ہے، جس میں انہوں نے کئی بار اس بات پہ زور دیا ہے کہ قوم کی خاطر ہماری اپنی الیکٹرانک میڈیا کتنی اہم ہے، آج سچ میں افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے پاس سب کچھ ہے لیکن میڈیا نامی طاقتور ہتھیار نہیں ہے، جو ہماری آواز بن کر دشمن کے آگے گرجتا اور دفاع میں کھڑا ہوتا،کاش ہمارا بھی الیکٹرانک میڈیا ہوتا تو آج ہمیں دنیا کے آگے اس طرح سے ذلیل و رسوا تو نہیں ہونا پڑتا۔

تبصرے بند ہیں۔