عیدالفطرکیسے منائیں

عبدالعزیز
حضرت ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر اور عید قربان کے دن عید گاہ کی طرف نکلتے اور سب سے پہلے نماز شروع کرتے پھر نماز سے فارغ ہوکر لوگوں کی طرف رخ کرکے کھڑے ہوتے۔ لوگ بدستور اپنی صفوں میں بیٹھے رہتے۔ پھر آپ انھیں وعظ و نصیحت فرماتے اور وصیت کرتے اور احکام صادر فرماتے اور کہیں آپ کو کوئی لشکر بھیجنا ہوتا تو اس کو روانہ فرماتے یا کوئی خاص حکم دینا ہوتا تو وہ بھی دیتے پھر واپس ہوتے۔ (بخاری و مسلم)
یہ ہے اسلامی تہوار منانے کا فطری طریقہ جو اس حدیث میں ہمارے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ تہوار کے روز آپ اور آپ کے صحابہؓ ذمہ داریوں سے غافل نہیں ہوجاتے تھے اور نہ وہ کسی طرح کے لہو و لعب میں مبتلا ہوتے تھے۔ عید کا دن مسلمانوں کی خوشی اور مسرت کا دن ہوتا ہے۔مسلمان رمضان میں مسلسل ایک مہینہ روزہ رکھ کر خدا کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ عید کے دن انھیں امید ہوتی ہے کہ خدا ان کے عمل کو ضرور قبول فرمائے گا اور ہر طرح کی برائیوں سے پاک کرکے انھیں پاکیزہ زندگی عطا کرے گا۔ عید کے دن آخرت کی خوشی اور کامیابی کی امید دلاتا ہے۔ عید کی خوشی کوئی معمولی خوشی نہیں ہوتی۔ یہ خوشی مسلمانوں کی زندگی اور قومی و ملی حیات کی علامت ہے۔ عید کی خوشی اور امت مسلمہ کو دنیا کی دوسری قوموں کے مقابلہ میں ایک امتیازی شان بخشتی ہے۔ دنیا نے خوشی منانے کے جو طریقے بھی ایجاد کئے ہیں ان میں بنیادی طور پر اس کا لحاظ رکھا گیا ہے کہ وہ آدمی کیلئے لطف مدارات کا سامان ہوں۔ اس غرض کیلئے عام طور پر گمراہی اور عامیانہ پن کی وجہ سے دنیا نے راگ رنگ اور گانے بجانے کا سہارا لیا ہے۔ اسلام نے عید منانے کا جو طریقہ سکھایا وہ یہی نہیں کہ ہر طرح کی برائیوں اور نقائص پاک ہے بلکہ حسن و صداقت، پاکیزگی اور انبساط کا اعلیٰ ترین مظہر بھی رہی ہے۔ خوشی اور مسرت کے اظہار کا اس سے بڑھ کر اور کامل طریقہ ممکن نہیں۔ اسلام کا سکھایا ہوا طریقہ اعلیٰ ترین تہذیب کا نمونہ ہے۔ اسلام نے انسانی زندگی کیلئے وہی شعار پسند کیا جو انسانی فطرت کے مطابق ہے اور صحت مند زندگی کی علامت ہے۔
انسان خدا کا بندہ ہے، یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہی نہیں بلکہ زندگی کا سب سے وجد انگیز پہلو بھی یہی ہے۔ اسلامی تہذیب کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں خدا پرستی کے جذبات کی پوری رعایت پائی جاتی ہے۔ جذبۂ عبودیت انسان کی سب سے بڑی قیمتی متاع ہے۔ اس جذبہ میں معلوم نہیں زندگی کے کتنے دلکش نغمات پنہاں ہیں۔ بندے اور خدا کا رشتہ ایک ایسا رشتہ ہے جس پر دنیا کی تمام لطافتیں اور رعنائیاں نثار کی جاسکتی ہیں۔ انسان کیلئے مجدد شرف اور حقیقی کیف و انبساط کی چیزوں اور نسبت ہے جو اس کے اور خدا کے درمیان پایا جاسکتا ہے۔
ہزار جاں گرامی فدا بایں نسبت
اسلام نے عید منانے کا جو طریقہ سکھایا ہے اس سے اس تعلق کا جو خدا اور بندے کے درمیان پایا جاتا ہے، بخوبی اظہار ہوتا ہے۔ عید میں خوشی کا اظہار خاص طور سے نماز اور تکبیر کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔ اظہار مسرت کے علاوہ یہ خدا کے حضور بندے کی جانب سے ادائے شکر بھی ہے۔ مومن کی نگاہ میں سب سے زیادہ محبوب اور راحت بخش حالت وہی ہے جس میں اس تعلق کا اظہار بدرجہ اتم ہوتا ہے جو خدا اور بندے کے درمیان پایا جاتا ہے۔ ظاہر ہے حالت رکوع و سجود سے بڑھ کر کون سی حالت ہوسکتی ہے جس کو یہ خصوصیت حاصل ہو۔
نماز اپنی عبودیت اور خدا کی آقائی اور اس کی عظمت و کبریائی کے اظہار کا بہترین و کامل ذریعہ ہے۔ خدا اور اس کے بندے کے درمیان پائے جانے والے تعلق و نسبت کا یہ اظہار زندگی کا سب سے شیریں نغمہ ہے۔

تبصرے بند ہیں۔