عیدالفطر۔ انعام کا دن

روزوں کی خوشی،تراویح کی خوشی،لیلۃ القدر اور اللہ تعالی کی طرف سے روزہ داروں کے لیے رحمت و بخشش اور عذاب جہنم سے آزادی کی خوشی

مولانامحمدجہان یعقوب

اسلامی اسپرٹ کیاہے؟ اللہ تعالی کاشکربجالانا، لوگوں کی خوشیوں میں شریک ہونا ، دوسروں کے حقوق ادا کرنا اوردنیاکو خوشیوں کامحوربنانے میں کرداراداکرنا
اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں:اے فرشتو!میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کو رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلہ میں اپنی رضا اور مغفرت عطا کر دی
عید الفطرکاتہوار روزوں کی تکمیل کی خوشی میں منایا جاتا ہے۔ رمضان المبارک کا مہینہ گویا تیاری اور احتساب کا مہینہ تھا۔ اس کے بعد عید کا دن گویا نئے عزم اور نئے شعور کے ساتھ زندگی کے آغازاور دوبارہ نئے حوصلوں کے ساتھ مستقبل کی طرف اپنا سفر شروع کرنے کا دن ہے۔ یوں کہیے کہ رمضان ایک اعتبار سے سمٹنے کا لمحہ تھا، اورعیدسعید ازسرِ نو پھیلنے اور آگے بڑھنے کا لمحہ۔ روزے میں آدمی دنیا سے اور دنیا کی چیزوں سے ایک محدود مدت کے لیے کٹ گیا تھا، وہ اپنی خواہش کو روکنے پر راضی ہوا تھا، اب عیدکے دن سے وہ دوبارہ بلند مقصد کے لیے متحرک ہوتا ہے۔ گویایہ آغازحیات کادن ہے۔روزہ جس طرح محض بھوک ، پیاس نہیں ، اسی طرح عید محض کھیل تماشے کا نام نہیں۔ دونوں کے ظاہر کے پیچھے گہری معنویت چھپی ہوئی ہے۔ روزہ وقتی طور پر عالم مادی سے کٹنا اور عید دوبارہ عالم مادی میں واپس آجانا ہے۔عید کا پیغام ہے کہ مسلمان نئی ایمانی قوت اور نئے امکانات کی روشنی میں ازسرِ نو زندگی کی جدوجہد میں داخل ہوں، ان کا سینہ اللہ کے نور سے وشن ہو، ان کی مسجدیں اللہ کے ذکر سے آباد ہوں۔
عید الفطر دراصل بہت سی خوشیوں کا مجموعہ ہے: ایک رمضان المبارک کے روزوں کی خوشی، دوسری قیام شب ہائے رمضان وتراویح کی خوشی، تیسری نزول قرآن، چوتھی لیلۃ القدر اور پانچویں اللہ تعالی کی طرف سے روزہ داروں کے لیے رحمت و بخشش اور عذاب جہنم سے آزادی کی خوشی۔ یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر اسے مومنوں کے لیے خوشی کا دن قرار دیا گیاہے۔
اسلام ایک مکمل دین اورکامل ضابطہ حیات ہے،جس کے خوشی غمی کے طورطریقے بھی اپنے ہیں،تاکہ اس دین کے ماننے والوں کی انفرادیت قائم رہے۔الحمدللہ!حدیث کے الفاظ میں :یہ ایساواضح دین ہے جس کے دن اوررات برابرہیں۔یہی وجہ ہے کہ اسلام نے عیدکی خوشی منانے میں بھی اپنے نام لیواں کوبے مہارنہیں چھوڑا،بلکہ عیدکی ابتداسے لے کرانتہاتک اس پرمسرت تہوارکوحضوراقدس ﷺ کی سنتوں سے لبریزفرمادیا۔خوشی کی خوشی عبادت کی عبادت۔عیدکی سنتیں ملاحظہ فرمایئے!
نماز عید کی تیاری کے سلسلے میں اپنے ناخن تراشیں، مسواک کریں، غسل فرمائیں، نئے کپڑے ہوں تو وہ پہنیں یا دھلے ہوئے اچھے کپڑے زیب تن فرمائیں، خوشبو لگائیں۔مردحضرات فجر کی نماز محلے کی مسجد میں با جماعت ادا فرمائیں اور کوشش کریں کہ عید گاہ جلد پہنچ جائیں۔عیدالفطر کے دن کچھ کھا کر نماز کے لیے تشریف لے جائیں،گر کھجوریں دستیاب ہوں تو طاق عدد میں کھجوریں کھا لیں یا پھر اور کوئی میٹھی چیز بھی کھا سکتے ہیں۔ایک راستے سے جائیں اور دوسرے راستے سے واپس آئیں تاکہ اس طرح مختلف راستے آپ کی عبادتوں کے گواہ بنتے جائیں۔آتے جاتے تکبیرات تشریق:اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ ا لا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمدپڑھتے رہیں،جن میں اللہ تعالی کی کبریائی کااظہاراوراپنی بندگی کااقرارہے۔سب سے اہم کام جو نماز عید سے پہلے کر لینا سنت ہے۔ وہ فطرانے کی ادائیگی ہے۔
الحمدللہ!تمام ترتنزل وادباراوردینی تعلیمات کے سلسلے میں سستی،تساہل وتکاسل کے باوجودبھی اکثرمسلمانوں کی عیدمیں اسلامی اسپرٹ کی جھلک موجودہے۔ عیدمیں اسلامی اسپرٹ کیاہے؟ اللہ تعالی کو یاد کرنا اوراس کاشکربجالانا، اپنی خوشیوں کے ساتھ لوگوں کی خوشیوں میں شریک ہونا ،اپنے مقصد کو حاصل کرتے ہوئے دوسروں کے حقوق ادا کرنا اور اس بات کے لیے عمل کرنا کہ اللہ کی دنیا ساری انسانیت کے لیے خوشیوں کامحوربن جائے۔چناں چہ ایک ماہ روزہ دارانہ زندگی گزارنے کے بعد مسلمان عیدالفطرکے دن آزادی کے ساتھ کھاتے پیتے ہیں۔ اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے دو رکعت نمازعید اجتماعی طور پر پڑھتے ہیں۔ نمازعیدکے بعدمسلمان ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں،ایک دوسرے کومبارک باددیتے اور اپنی کوتاہیوں،زیادتیوں اور غلطیوں کی معافی طلب کرتے ہیں۔صدقہ وخیرات کے ذریعے معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کی مدد کرتے ہیں۔یہ سب چیزیں عید کی اسپرٹ کوظاہرکرتی ہیں۔
آئیے!آخرمیں شعب الایمان میں درج اس حدیث مبارکہ پرغورکرتے ہیں،جس میں ہمارے لیے بڑی خوش خبریاں ہیں:
اللہ کے حبیب ﷺ نے ارشادفرمایا: جب عید الفطر کی رات ہوتی ہے توآسمانوں میں اس کا نام انعام کی رات رکھاجاتا ہے اور جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اللہ رب العزت فرشتوں کو تمام شہروں کی طرف بھیجتے ہیں، وہ زمین پر اتر کر تمام گلیوں کے سروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ایسی آوازسے، جس کوجن و انس کے سوا ہر مخلوق سنتی ہے، پکارتے ہیں کہ اے امتِ محمدیہ ﷺ!اس ربِ کریم کی بارگاہ کی طرف چلو، جو بہت زیادہ عطا کرنے والا ہے اور بڑے سے بڑے قصور کو معاف فرمانے والا ہے،پھر جب لوگ عید گاہ کی طرف نکلتے ہیں تو حق تعالی شانہ فرشتوں سے دریافت فرماتے ہیں :کیا بدلہ ہے اس مزدور کا جو اپنا کام پورا کر چکا ہو؟وہ عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے معبود اور مالک! اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کو اس کی مزدوری پوری پوری ادا کر دی جائے،تو اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں:اے فرشتو!میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کو رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلہ میں اپنی رضا اور مغفرت عطا کر دی۔(بروایت امام بیہقی)
سچ پوچھیے توحقیقت میں عیدصرف ان لوگوں کی ہے جنہوں نے رمضان المبارک کے دنوں کوروزے وتلاوت اورراتوں کوتہجدوتراویح اورآہ سحرگاہی سے مزین رکھا۔روزہ خوروں اللہ کے چوروں سے معذرت کے ساتھ۔حدیث کایہی فیصلہ ہے۔عیدکے موقع پرفیشن اورتفریح ،فنکشنوں اورپارٹیوں کی آڑمیں اللہ تعالی کے غضب کودعوت دینے والے اللہ تعالی کی پکڑ سے ڈریں۔شریعت نے عیدکاآغازنمازوسنتوں سے کرکے ہمیں یہی درس دیاہے کہ ایک مسلمان خوشی کے موقعوں پربھی اسلام سے آزادنہیں ہوسکتا۔اللہ تعالی ہمیں ان خوش قسمتوں میں شامل فرمائے جن کے لیے حدیث بالامیں مژدہ رضاومغفرت سنایاگیاہے۔آمین۔

تبصرے بند ہیں۔