عیدالفطر: ایک جشن شکرانہ !

عبدالعزیز

تقریب اگر سالانہ منائی جائے تو اسے عام طور پر سالگرہ کی تقریب یا سالگرہ کا جشن کہتے ہیں۔ عید ہر سال منائی جاتی ہے۔ یہ ایک سالگرہ ہ ہے۔ قرآن مجید کی سالگرہ ہے۔ رمضان کا مہینہ اس کے شانِ نزول کا مہینہ ہے۔

شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنِ (بقرہ) َ ۔

’’رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے‘‘۔

اس سالگرہ کا تعلق ایک عبادت سے ہے جو رمضان کے آغاز سے شروع ہوتی ہے اور رمضان کے اختتام پر خدا کے شکر کے طور پر دو رکعت نماز پڑھ کر ختم کی جاتی ہے۔ اس عبادت سے ملتا ہے کیا؟ قرآن مجید میں رمضان کے روزوں کے دو مقاصد بیان کئے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ مسلمانوں میں تقویٰ اور پرہیزگاری کی صفت پیدا ہو۔

’’تم پر روزے فرض کر دیئے گئے جس طرح تم سے پہلے انبیائؑ کے پیروؤں پر فرض کئے گئے تھے، اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی!‘‘ (سورۃ البقرہ)  دوسرے یہ کہ مسلمان اس نعمت و رحمت کا شکر ادا کریں جو خدا نے رمضان میں قرآن مجید نازل کرکے عطا کی ہے۔
’’جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز فرمایا، اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکر گزار بنو‘‘۔ (البقرہ)

قرآن سراسر رحمت و نعمت ہے۔ نوع انسان پر اگر کوئی سب سے بڑی رحمت و نعمت ہے تو وہ قرآن مجید ہے۔ اللہ کی نعمتیں تو بے شمار ہیں۔ یہ ہوا، پانی اور یہ غلے اور کائنات میں پھیلی ہوئی دوسری چیزیں سب اللہ کی نعمتیں ہیں جو اس کی تسبیح کر رہی ہیں لیکن یہ نعمتیں محض انسان کے جسم کیلئے ہیں ان سے روح کو کوئی غذا نہیں ملتی۔ روح کیلئے، اس کے اخلاق اور اس کی اصل انسانیت کیلئے اگر کوئی نعمت عظمیٰ ہے تو وہ قرآن مجید ہے۔ ایک سچا مومن اللہ جل شانہٗ ہدایت سمجھتا ہے اور ہر کام کیلئے رہبری و رہنمائی حاصل کرتا ہے۔ قرآن ایک پاکیزہ اور نہایت صاف ستھری زندگی گزارنے کا راستہ بتاتا ہے۔ ہر انسان کو قرآن واضح الفاظ میں یہ بتاتا ہے کہ خدا کے ساتھ اس کا تعلق کیسا ہو، اپنے والدین کے ساتھ، اپنی اولاد کے ساتھ، دنیا کے تمام بنی نوع انسان کے ساتھ حتیٰ کہ جمادات و حیوانات کے ساتھ، خدا کی دی ہوئی تمام مختلف نعمتوں کے ساتھ اس کا برتاؤ کیسا ہونا چاہئے۔ قرآن مجید انسان کے چھوٹے بڑے ادنی اور اعلیٰ تمام معاملات میں رہنمائی کرتا ہے اور ان چیزوں سے منع کرتا ہے جن سے انسانوں کی شخصیت کے نشو و نما میں کسی قسم کا خلل پڑتا ہو۔ وہ انسانوں کو ایسی چیزیں بتاتا ہے جن پر عمل کرنے سے انسان کی شخصیت کی نشو و نما ہوتی ہے۔ رمضان کا مہینہ ہر انسان کو جو قرآن کے مطابق اپنی زندگی بسر کرنا چاہتا ہے اس کیلئے یاد دہانی اور یاد آوری کا مہینہ ہے۔ انسانی زندگی کو موت سے پہلے یہ موقع بار بار نصیب ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کا احتساب کرکے سنبھل جائے!

رمضان المبارک کے روزے کا دوسرا مقصد جس کیلئے وہ فرض کئے گئے ہیں وہ یہ ہے کہ روزہ داروں میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو۔ تقویٰ اور بھی چیزوں سے پیدا ہوتی ہے لیکن روزہ تقویٰ حاصل کرنے کا سب سے کارگر ذریعہ ہے۔ تقویٰ کیا چیز ہے؟ تقویٰ یہ ہے کہ انسان اللہ کی نافرمانی سے بچے اور اس کی فرماں برداری اختیار کرے۔ روزہ مسلسل ایک مہینہ تک اسی کی مشق کراتا ہے۔ پانی جیسی طیب اور حلال چیز کے پینے سے بھی انسان تھوڑی دیر تک محض اللہ کے حکم سے رک جاتا ہے اور جیسے ہی اس کا حکم ہوتا ہے پھر پینے لگتا ہے۔ گویا کھانے، پینے، مباشرت سے آدمی رکا رہتا ہے اور یہ اس وقت تک جب تک کہ خدا کا حکم نہیں ہوتا، خدا کی اجازت نہیںملتی۔ ایک روزہ دار دنیا کو دکھانے کیلئے سب کچھ چاہے تو کرسکتا ہے، مگر وہ ایسا نہیں کرتا۔ محض خدا کے حکم سے ہی وہ روزہ رکھتا ہے۔ اور خدا کے حکم سے ہی وہ روزہ رکھتا ہے اور خدا کے حکم سے روزہ کھولتا ہے۔ اس طرح خدا جس چیز کا حکم دیتا ہے اس کو بجالانے کی عادت ہوتی ہے۔ گویا آدمی اپنے نفس پر اتنا قابو پالے کہ وہ اس کے بے جا مطالبات اللہ تعالیٰ کے قانون کے خلاف نہ منواسکے۔ یہی غرض و غایت ہے جس کیلئے روزے فرض کئے گئے ہیں جولوگ روزے کی تکمیل کرتے ہیں اور قرآن مجید کو سرچشمۂ ہدایت مان کر ان احکامات اور ان اصولوں کو صحیح تسلیم کرتے ہیں ان کے خلاف جو چیز بھی ہو اس کو رد کردیتے ہیں، خواہ وہ کہیں سے بھی آرہی ہو۔

رمضان المبارک کے زمانے میں قرآن مجید کو جس نے اس نظر سے دیکھا اور سمجھا تو اس نے حقیقت میں اللہ کی نعمت کا صحیح شکر ادا کیا اور وہی سب سے زیادہ مبارکباد کا مستحق ہے اور وہ اسی نئے جذبے اورنئے انقلاب کے ساتھ عید کے دن خدا کے سامنے جھک جاتا ہے کہ رمضان المبارک کا ایک حق جو اس پر تھا، اس نے اسے ٹھیک ٹھیک ادا کیا۔

اس تصور زندگی کے ساتھ اگر ہم عید مناتے ہیں اور زندگی کو واقعی اللہ تعالیٰ نے جو دین اپنی وحی اور اپنے رسول کے ذریعہ بھیجا ہے اس کی سربلندی کیلئے سر دھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں تو سمجھنا چاہئے کہ ہم رضائے الٰہی کے مطابق یہ جشن شکرانہ منا رہے ہیں۔ قرآن نے واضح الفاظ میں بیان کیا ہے کہ ’’کہہ دو کہ میری نماز، میری تمام عبادت، میرا جینا مرنا جو کچھ ہے اللہ کیلئے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے‘‘۔

حقیقت یہی ہے کہ جب ہم خدا کے دین سے یا اس کے کسی اہم جز سے غافل ہوجائیں تو یہ ہمارے لئے سب سے بڑا ماتم ہے اور ہمارے لئے سب سے بڑا جشن یہ ہے کہ ہم دین کے اصول کلیات سے اچھی طرح واقف ہوں اور ہماری زبان اس کی یاد سے تر ہو۔ ہمارے سر اس کی اطاعت میں جھکے ہوں اور ہمارے دل اس کے خوف اور محبت سے لبریز ہوں۔

ہم اب ایک نئی صدی میں بڑے جوش و خروش کے ساتھ داخل ہوئے ہیں ، یہ سمجھ کر کہ اب ہم دنیا کیلئے وسیلۂ عبرت اور مثالِ عبرت نہیں بنیں گے بلکہ دنیا کی قومیں ہمارے لئے وسیلہ عبرت اور مثال عبرت بنیں گی اور ہمارا دور اقبال واپس آئے گا۔ اور ہم پھر اس نئی صدی میں نئے جذبے اور انقلاب کے ساتھ آگے بڑھیں گے اور خدا کا یہ وعدہ پورا ہوکر رہے گا: ’’اے مسلمانو! اگر تم خدا سے ڈرتے رہے اور اس کے احکام سے سرتابی نہ کی تو وہ تمام عالم میں تمہارے لئے امتیاز پیدا کرے گا‘‘۔ (القرآن)

تبصرے بند ہیں۔