عیدالفطر- مساوات و اخوت کی عالمی تقریب

عبدالعزیز
عیدالفطر دو اسلامی تہواروں میں سے ایک ہے۔ یہ ایک عالمی اجتماع ہے۔ اس لئے منعقد ہوتا ہے کہ بندگانِ خدا اجتماعی طور پر اپنے بنانے والے کا شکریہ ادا کریں اور اس حقیقت کا اعلان کریں کہ’’ اللہ اکبر ، اللہ اکبر لااِلٰہ الااللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد‘‘ اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اللہ ہی سب سے بڑا ہے۔ ساری تعریفیں اللہ ہی کیلئے ہیں۔
شکر گزاری اس بات کی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سارے انسانوں کو بھلائی اور رہنمائی کیلئے قرآن جیسی کتاب نازل کیا۔ قرآن کریم رمضان کے آخری عشرے کی ایک رات میں نازل کیا گیا ہے۔ وہ نعمت و رحمت بھری رات تھی، جس نے دنیا کے سامنے زندگی گزارنے کا سیدھا راستہ متعین کیا اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے فیصلہ کر رہا ہے کہ یہی کتاب ساری دنیا کو سیدھی راہ چلنے میں مدد کرسکتی ہے۔ دنیا کو امن و سلامتی کا گہوارہ بناسکتی ہے۔ اسی لئے وہ لیلۃ القدر تھی۔ اسی کی نسبت مالک کائنات نے فرمایا:
’’قرآن کریم نازل کیا گیا لیلۃ القدر میں اور تم جانتے ہو کہ لیلۃ القدر کیاہے؟ وہ ایک ایسی رات ہے جو ہزاروں مہینوں سے بہتر ہے‘‘۔ (القرآن)
افسوس! آج یہ بات مسلمانوں کے ذہنوں سے نکل چکی ہے۔ وہ عید کو ایک تہوار کے سوا کچھ نہیں سمجھتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم بھی دنیا کی قوموں سے ایک قوم ہیں۔ ہمارا ایک مذہب ہے اور سال میں دوبار تہوار منالیتے ہیں۔ نئے اور اچھے لباس زیب تن کرلیتے ہیں۔ اسے رسم دنیا سمجھ کر برت لیتے ہیں۔ اگر آپ ان سے یہ کہئے تو وہ چونک پڑیں گے جیسے ان کیلئے یہ بالکل نئی اور انہونی بات ہے۔
جب عالم یہ ہو تو وہ کیسے سمجھ سکتے ہیں کہ سیویاں کھانا اور نئے لباس پہننا جشن کی نشانی نہیں ہے بلکہ سب اللہ کی اطاعت میں جھکے ہوں اور زبانیں اللہ کی یاد سے تر ہوں تو یہ سب سے عظیم اور سب سے بڑا جشن ہے۔
یہی تو وجہ ہے کہ رمضان ہر سال آتا ہے، عید ہر سال ہوتی ہے لیکن مسلمانوں پر کوئی اثر چھوڑ کر نہیں جاتی۔ رمضان سے پہلے جو عادات و اطوار ایک مسلمان کے ہوتے ہیں وہی رمضان اور عید کے بعد بھی ہوتے ہیں، وہ سمجھتا ہے کہ تیس انتیس دن کی اطاعت اور غلامی کے بعد اب وہ بندہ آزاد ہے۔ اس کے فرائض ختم ہوگئے۔ اس کا یہ فرض نہیں ہے کہ جس قرآن کو وہ رمضان بھر پڑھتا ہے جس کی ہدایت خاص یہ ہے کہ ’’تم خیر امت ہو تم کو اس لئے برپا کیا گیا ہے کہ تم نیکی کا حکم کرو اور بدی سے روکو اور اللہ پر ایمان لاؤ‘‘۔
وہ رمضان کے روزے ختم کرتے ہی بھول جاتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ قرآن ثواب دینے والی ایک کتاب کا نام ہے۔ وہ ایک تحریک، ایک ہدایت، ایک رحمت نہیں ہے۔
اسی قرآن کے پڑھنے والے جہاں رہتے تھے، اپنے اثرات چھوڑتے تھے جب وہ جمع ہوتے تھے تو ایک امتیازی شان پیدا ہوتی تھی۔ دنیا ان کا خیر مقدم کرتی تھی۔ لوگ جمع ہونے والوں کو اچھی نگاہ سے دیکھتے ،وہ کہتے تھے یہ لوگ مسلمان ہیں، خیر و برکت کے سرچشمہ ہیں۔ وہ اپنے مالک سے ان کے وجود کیلئے دعا کرتے تھے۔ ان کے وجود سے نہ صرف خوش ہوتے بلکہ ان کو ٹھنڈک ملتی تھی۔
آج عیدالفطر کے اجتماع کو سامنے رکھئے اور اس کے اثرات کا جائزہ لیجئے تو آپ نہ یہ روز یادگار کہلانے کا مستحق ہوسکتا ہے اور نہ ہی عیش و شادمانی کی گھڑی کہا جاسکتا ہے۔ جب یہ جشن تھا تو قرآن نے پہلے ہی اعلان کیا تھا: ’’اے مسلمانو! اگر تم خدا سے ڈرتے رہے اور اس کے احکام سے سرتابی نہ کی تو وہ تمام عالم میں تمہارے لئے ایک امتیاز پیدا کرے گا‘‘۔
اب اس تنگی کو ختم کرنا ہے تو مسلمان قرآنی تعلیمات کی روشنی میں از سر نو اپنے مشن کا آغاز کریں۔ قرآن و سنت کو قانون کا ماخذ سمجھیں اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کریں۔ پھر دیکھئے یہی رمضان کے روزے کس طرح ہماری دنیا بدل سکتے ہیں۔ کس طرح یہی عید انقلاب کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ کس طرح دنیا ہماری عزت و توقیر کیلئے ہاتھ بڑھا سکتی ہے۔ اسلامی شعور کے ساتھ جب روزے رکھے جائیں گے توہمارے دلوں میں تقویٰ، خدا خوفی اور پرہیزگاری پیدا کریں گے اور یہ عید الفطر کا اجتماع تنظیم و اتحاد، اخوت و محبت کی وہ خصوصیت ہمارے اندر پیدا کرے گا کہ انسانیت اس سے بیک وقت فائدہ اٹھائے گی۔ جب ہم انسانیت کے خادم بن کر سامنے آئیں گے، ان کی پریشانیوں میں کمی کریں گے۔ ان کے مسائل سلجھائیں گے۔ ان کے ساتھ غم اور خوشی کے روز و شب گزاریں گے تو وہ ہمیں امین سمجھ کر اپنے معاملات سپرد کریں گے۔ وہ بے دھڑک ہماری رہنمائی میں چلنا گوارا کریں گے۔ ان کو دنیا لاکھ کھینچے گی مگر وہ ہماری صداقت اور دیانت کے اس طرح قائل ہوجائیں گے، اس کی کشش ساری کششوں پر غالب آجائے گی پھر ہم شوق سے کہہ سکیں گے کہ ’’اسلام ساری دنیا کیلئے رحمت ہے۔ اسلام ایک عالمی تحریک ہے۔ عیدالفطر اسی عالمی تحریک کا ایک پاکیزہ تہوار ہے جو انسانی رشتوں کو مضبوط سے مضبوط تر بناتا ہے۔ اخوت اور مساوات کا سبق دیتا ہے‘‘۔

تبصرے بند ہیں۔