عیدی

شیما نظیر ( حیدرآباد)

سالم عید کی نماز پڑھ کر جیسے ہی گھر کی جانب چلا اسے ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی اسکا پیچھا کررہا ہو
اس نے دو تین مرتبہ رک کر دیکھا بھی لیکن کوئی نظر نہی آیا…….
……….پھر اس نے سوچا کہ شائد اسکا وہم ہو

کچھ اور آگے جا کر وہ سرعت سے پیچھے پلٹا اس نے دیکھا کہ……….
ایک چھوٹا دس گیارہ سالہ لڑکا اسکے پیچھے پیچھے چھپتے چھپاتے چل رہا ہے …..جسکے ہاتھ میں ایک مضبوط لکڑی تھی
وہ قریب تھا کہ اسپر حملہ کرتا اسنے اپنا بچاؤ کرلیا اور اس بچہ کے ہاتھ سے لکڑی چھین کر پھینک دیـا
اور اس سے معلوم کیا کی یہ سب وہ کیا کررہا تھا اور کیوں……
بچہ کچھ بتا نہی رہا تھا……
سالم نے پولیس کو پکڑوانے کی بات کی جب بچہ نے رو رو کر ساری داستان کہنا شروع کی…..
دراصل میں ایک یتیم لڑکا ہوں میرے چھوٹے دو بھائی بھی ہیں میرے ایک رشتہ کے چاچا ہیں ہم ماں باپ کے مرنے کے بعد وہیں رہتے ہیں
وہ روز کم سے بھیک مانگنے لگواتے ہیں اور جب جاکے ہمیں کھانا دیتے ہیں
آج انھوں نے کہا کہ عید ہے بہت سارے پیسے لاؤں نہی تو کھانے کو نہی دینگے اور میرے چھوٹے بھاءیوں کو بھی نہی کھلائیں گےـ….؛
سالم نے کہا تو تم.مانگ سکتے تھے؟ یہاں عید گاہ کے پاس بھی تو کتنے لوگ تھے

اس بچہ نے ایک سرد اہ بھری اور کہا میں نے مانگنے کو کوشش کی مگر بچہ ہوں اسلیئے سب بڑے لوگ دھکیل کے دور کردیتے ہیں اور بوڑھے ضعیفوں کو بھیک دے رہے ہیں کسی ایک صاحب نے یہ دس روپیئے دیئے جبکہ مجھے آج کم سے کم تین سو روپیئے لیجانے ہیں ورنہ کھانا…….
اسنے اپنی زبان باہر کی اور تھوک نگلتے یوئے کہا کل سے بھوکا ہوں بھیا
میں نے سوچا آپ کو مار پڑے گی تو میں کسی بہانے اپکا بٹوہ چرا لوں گا
میلے کچیلے کپڑے پہنے
بے ترتیب گالوں پر سے بہتے آنسوؤں کو دونوں ہاتھوں سے پوچھتے
جب اسنے یہ داستان سنائی تو سالم کا دل پسیج گیا
اسنے اس لڑکے سے کہا اٹھو
اور چلو میرے ساتھ
اور اسے اپنے گھر لایا
اسے نہانے کو کہا صاف کپڑوں کا ایک جوڑا پہنوایا
اور پیٹ بھر کر کھانا کھلانے کے بعد
اسنے کہا سنو
کیا نام یے تمھارا
جانو
جانو یہ کیسا نام
بس میری ماں مجھے جانو بلاتی تھی
شائد جان محمد ہے
اچھا جان محمد تم اسکول میں پڑھوگے؟
اسنے کہا کہ میں نے تو اسکول دیکھا بھی نہی
مگر میرے وہ چاچا جنکے گھر ہم رہتے ہیں وہ کبھی مجھے پڑھنے نہی دیں گے
وہ سب تم مجھ پر چھوڑدو
پھر سالم نےاپنے ایک کانسٹیبل دوست کے ساتھ انکے گھر گیا اور انھیں پولیس میں لیجانے کا کہہ کر ڈرایا دھمکایا اور کہا کہ ان تینوں بچوں کا ہم ایک ہاسٹل میں ایڈمیشن کروارہے ہیں عید کی چھٹیاں ختم ہوتے ہی ہم یہ کام کریں گے
اور خبردار رب تک ان بچوں پر کوئی ظلم نہ ہو
جب وہ چلنے لگا تو جانو نے اسکے قریب آکر اسکے گال پر اپنے لب چسپاں کردیئے
اور معصوم لبوں سے یوں گویا ہوا
” بھیا نے اچھی عیدی دی”
حیرت و استعجاب میں ڈوبا وہ اسے دیکھتا رہ گیا……
اور اس گال پر بھاری پن محسوس ہوا ایسا لگ رہا تھا آج سچی معنوں میں اسے کسی نے عیدی دی ہو۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔