عید الفطر: اہمیت اور آداب

اسامہ شعیب علیگ 

عید الفطر اہلِ اسلام کا ایک مذہبی تہوار ہے۔اس کو عیداس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ ہر سال واپس لوٹ کر آتی ہے اور بار بار آتی رہتی ہے۔اس کے ایک معنی خوشی اور مسرت کے بھی ہیں اور فطر کے معنی روزہ کھولنے کے ہیں،ا س دن سے روزہ کا سلسلہ ختم ہوتا ہے ،لہٰذا اس تہوار کو عید الفطر کا نام دیا گیا ہے۔حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’عید الفطر وہ دن ہے جب لوگ رمضان کے روزوں سے فارغ ہوتے ہیں اور عید ا لاضحی وہ دن ہے جب لوگ قربانیاں کرتے ہیں‘‘(ترمذی:781)
اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے لیے صرف دو عیدیں ہیں۔بعض لوگوں نے جو دوسری عیدیں ایجاد کر رکھی ہیں وہ بدعت ہیں اور شریعت میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
عید کا آغاز 624ء ؁ میں ہوا۔ نبی کریمﷺ کی ہجرت سے پہلے اہلِ مدینہ دو عیدیں مناتے تھے،جن میں وہ لہوو لعب میں مشغول رہتے تھے اور بے راہ روی کے مرتکب ہوتے تھے۔آپﷺ نے دریافت کیا کہ ان دونوں کی حقیقت کیا ہے؟لوگوں نے عرض کیا کہ عہدِ جاہلیت سے ہم اسی طرح دو تہوار مناتے چلے آرہے ہیں۔آپ ﷺ نے فرمایا! اللہ تعالی نے اس سے بہتر دو دن تمہیں عطا کیے ہیں،ایک عید الفطرکا دن اور دوسرا عید الاضحی کا دن(ابوداؤد:1134)
صدقہ فطر ادا کرنا:
عید الفطر کی مناسبت سے ایک اہم کام صدقہ فطر کی ادائیگی ہے۔روزے کے دوران انسان سے جو بھول چوک یا غلطی ہوتی ہیں ،اس کی تلافی کے لیے رسول اللہﷺ نے صدقہ فطر کا حکم دیا ہے۔حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ آپﷺ نے صدقہ فطر روزوں کو لغو اور گندی باتوں سے پاک کرنے کے لیے اور مساکین کی روزی کے لیے مقرر فرمایا(ابوداؤد:1609)
صدقہ فطر کی مشروعیت نماز سے پہلے تک ہے،بہتر ہے کہ اسے رمضان ہی میں ادا کردیا جائے تا کہ غرباء و مساکین بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔ یہ ہر مسلمان مرد عورت چھوٹے بڑے ،سب پر فرض ہے۔اس کی مقدار ایک صاع، گندم کے علاوہ (تقریبا ڈھائی کلو گرام)اور گندم، نصف صاع ہے ۔اس کے برابر قیمت ( تقریبا60 روپئے)بھی دی جا سکتی ہے۔
چاند رات میں عید الفطر کی تیاری:
چاند رات ،عید الفطر کی تیاری اور اسے منانے کے حوالے سے ہمیں اسلامی تعلیمات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔چاند رات دراصل عبادت اور فضیلت کی رات ہے۔اس رات رمضان رخصت ہوجاتا ہے اور اللہ تعالی ’مزدور‘ کو اس کی ’ مزدوری‘ دیتا ہے،ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ ہم نے ایک مہینہ میں کیا کھویااورکیا پایا؟رمضان المبارک کی برکتوں اور رحمتوں سے خود کواور اپنے اہل و عیال کو جہنم سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی یا نہیں؟اللہ تعالی سے اپنی مغفرت کرا ئی یا نہیں؟اس لیے ہمیں اس رات اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہیے اور مغفرت اور دعاؤں کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے یا کم از کم ایسے اعمال انجام نہیں دینے چاہیے جو اللہ تعالی کے غضب کو دعوت دیتے ہوں ۔
مگر معاملہ اس کے بر عکس ہوتا ہے۔اس رات بازاروں میں نوجوان لڑکے لڑکیوں کا اس قدر اختلاط ہوتا ہے کہ اللہ کی پناہ.. شانوں سے شانے ٹکراتے ہیں،جب کہ روایتوں میں آتا ہے کہ’’ تم میں سے کسی کے سر میں لوہے کی سوئی چبھوئی جائے ،یہ اس بات سے بہتر ہے کہ اس کا جسم کسی ایسی عورت سے چھو جائے جو اس کے لیے حلال نہیں ہے‘‘(بیہقی:5455)
اس رات آپس میں چھیڑ چھاڑ اور ہنسی مذاق ہوتا ہے، گرل فرینڈا ور بوائے فرینڈایک دوسرے کے لیے تحفے خریدتے ہیں ، خواہ والدین یا بھائی بہن کے لیے خریدیں یا نہ خریدیں،لڑکیاں بے پردہ گھومتی ہیں،اجنبی مردوں کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر چوڑیاں پہنی جاتی ہے یا مہندی لگوائی جاتی ہے،یہ بھی زنا کی ایک شکل ہے ۔حدیثِ نبوی ہے :
حضرت ابوہریرۃؓ سے مروی ہے کہ نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا :آدمی کے لیے اس کے حصہ کا زنا مل کر رہے گا،شہوت کی نظر سے دیکھنا آنکھوں کا زنا ہے،شہوانی باتوں کا سننا کانوں کا زنا ہے،اس موضوع پر گفتگو کرنا زبان کا زنا ہے، پکڑنا ہاتھ کا زنا ہے،اس کے لیے چل کر جانا پیروں کا زنا ہے،خواہش اور تمنا دل کا زنا ہے اور شرم گاہ یا تو زنا کا عمل کر بیٹھے گی یا ارتکاب سے رک جائے گی(بخاری:)
یہ کام اس وقت انجام پاتے ہیں، جب رمضان کوگذرے ہوئے ایک دن بھی نہیں ہوتااور ان کو عید کے نام پر کیا جاتا ہے جب کہ عید، رمضان المبارک کے ذریعے ایک مہینہ کی ٹریننگ کے بعد تربیت کو ناپنے کا ذریعہ ہے کہ اب ہم اس خوشی کے موقع پر کون سا رویہ اختیار کریں گے؟وہ جو شیطان کو پسند ہے یا وہ جس کی اللہ اور اس کے رسولﷺ نے تعلیم دی ہے اوراس میں ہم اپنے نفس کی پیروی کریں گے یا احکامِ شریعت کی اتباع کریں گے؟
اس وقت والدین ،خاص کر ماں کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں اور بچیوں کی عید کی تیاری میں کن چیزوں کا خیال رکھ رہی ہیں،ان کے لباس اور زیب و زینت کے سامان میں اسراف و تبذیر اور نمائش سے کام لے رہی ہیں،جو اللہ تعالی کو سخت ناپسند ہے اور جس کو شیطانی عمل کہا گیا ہے یا حکمت اور تدبر سے ان کے دلوں کو خوش کر رہی ہیں کہ یہ ان کا حق ہے۔قرآن کریم نے اسراف اور فضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کا بھائی قرار دیا ہے۔ان المبذرین کانوا اخوان الشیاطین ۔وکان الشیطان لربہ کفورا (بنی اسرائیل:27)
فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی نا شکرا ہے
اس لیے اگر اللہ تعالی نے آپ کو مال سے نوازا ہے تو اس کی اتنی نمائش نہ کریں کہ غریبوں کا زندہ رہنا مشکل ہو جائے،بہت قیمتی کپڑے اور دوسری چیزیں اپنے بچوں پر نہ لادیں کہ ان کو دیکھ کر خود پر رونا آئے،اسی لیے کہا گیا ہے کہ غریب کے گھر کے سامنے گوشت کی ہڈیاں یا پھلوں کے چھلکے نہ پھیکے جائیں کہ اس کے بچے بھی دیکھ کر مانگنے لگیں اور وہ بے چارہ غم کے آنسو پی کر جلتا رہے۔
عید الفطر کی دعوتیں:
صاحبِ مال کو عیدکے موقع پر غریبوں کا خاص خیال رکھنا چاہیے تا کہ وہ اور ان کے بچے بھی اس خوشی میں شامل ہو سکیں۔انھیں اس دن اپنے گھروں میں بلانا چاہیے اور خو دبھی ان کے یہاں جانا چاہیے، تاکہ ان کو الگ تھلگ ہونے کا احساس نہ ہو۔وہ یہ نہ بھولیں کہ آج مسلمانوں میں غریبوں کی تعداد زیادہ ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثریت نے زکوۃ دینا چھوڑ دیا ہے، جس کو اللہ تعالی نے غریبوں کے لیے مقرر کیا ہے۔اس سنہرے اصول کو سکھ قوم نے اپنا لیا ،اسی وجہ سے ان میں بھکاری ڈھونڈھنے پر شاید ہی آپ کو ملے ۔
عموماً ایساہوتا ہے کہ لوگ اپنا اسٹیٹس دیکھ کر دوست احباب کو بلاتے اور ان کی دعوتیں کرتے ہیں اور غریبوں کو درکنار کر دیتے ہیں۔اس سے اجتناب کرنا چاہیے ۔نبیِ کریم ﷺ نے غریبوں کا خاص خیال رکھنے کی بارہا تاکید کی ہے۔ حضرت ابوہریرۃؓ سے مروی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا؛بیواؤں اور مسکینوں کی خبرگیری کرنے والا،اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔(راوی حدیث کہتے ہیں کہ)میرا گمان ہے کہ آپﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ وہ اس عبادت کرنے والے کی طرح ہے جو سست نہیں ہوتا اور اس روزے دار کی طرح ہے جو ناغہ نہیں کرتا(بخاری:5353)
دوسری طرف عید الفطر کے موقع پر غریب بھی صبر و شکر سے کام لے کر قناعت کا تاج اپنے سر پر رکھیں۔اپنے دلوں میں اللہ تعالی سے شکوہ نہ کریں کہ وہ ہمیں کیوں نہیں دیتا اور نہ اپنے بیوی بچوں کو دوسروں کے مال پر حسرت کرنے دیں۔پیوند لگے کپڑوں میں تقوی وصبر کے ساتھ جو شان ہے وہ ریشمی لباس میں نہیں۔اللہ تعالی نے جن کو غریب بنایا ہے وہ مالداروں سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے اور وہ انبیاء کرام کے طریقے پر ہیں، اگر وہ صبر و شکر سے کام لیں اور لالچ یا سوال کی ذلت نہ اٹھائیں۔حضرت اسامہ بن زیدؓ روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:’’میں جنت کے دروازے پر کھڑا ہوا تو (میں نے دیکھا کہ) اس میں داخل ہونے والے زیادہ ترمساکین ہیں اور مال دار لوگوں کو (حساب کے لیے) روکا ہوا تھا۔البتہ جہنمیوں کو جہنم کی طرف لے جانے کا حکم دے دیا گیا تھا(بخاری:5196)
اس لیے عید کے دن اللہ تعالی سے شکوہ شکایت کرنے کی ضرورت نہیں۔عام دن کی طرح یہ دن بھی گذر جائے گا۔رب کعبہ کی قسم دنیا کی رنگینیاں انہی کو ستاتی ہیں جو موت سے غافل ہیں اور اسی کو کل سمجھتے ہیں ، اس لیے ایک دن کی خاطر غریبی کو داغدار نہ ہونے دیں ۔اللہ تعالی اس کا بہترین اجر عطا فرمائے گا(ان شاء اللہ )
اسی ضمن میں ایک سب سے اہم اور خاص بات یہ ہے کہ عید کے دن مسلم نوجوان لڑکے لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد اہتمام کے ساتھ فلم دیکھنے سینما ہال جاتی ہے ۔اسی وجہ سے سلمان خان نے عید پر اپنی فلم ریلیز کرنے کی تاریخ متعین کر رکھی ہے۔یہ مسلم قوم کی پستی کی انتہا ہے کہ لوگ عید کو اس وجہ سے بھی جانیں۔اس کا تذکرہ بڑی شان اور فخریہ انداز میں کیا جاتا ہے کہ عید پر تو سلمان خان کی فلم’ ہٹ‘ ہے۔ہم سب کو اس سے اجتناب کرنا ہوگا تاکہ ایسا نہ محسوس ہو کہ رمضان کے جاتے ہی شیطان آزاد ہو کر اپنا کام انجام دینے لگے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ عید کے موقع پر ہمیں فلسطین،عراق،افغانستان،برما اور مصر وغیرہ کے مسلمان،خصوصاً وہاں کے معصوم بچوں کو نہیں بھولنا چاہیے ۔ اگر ہم ان کے لیے یہاں سے کچھ کر نہیں سکتے تو کم از کم ان کی پریشانیوں اور مسائل کو یاد کرتے ہوئے اللہ تعالی سے دعا تو کر سکتے ہیں کہ ان کے مسائل حل کرے اور انھیں بھی ہماری طرح خوشیاں منانے کا موقع عنایت کرے۔
عید کی سنتیں:

(1)غسل کرنا(2)حسبِ استطاعت نئے کپڑے پہنا(3)خوشبو لگانا(4)کھجور کھانا،حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ عیدالفطر کی نماز کے لیے نکلنے سے پہلے چند کھجوریں تناول فرماتے تھے ۔عموماًان کی تعداد طاق ہوتی تھی(بخاری:9530)
(5)عید گاہ پیدل جانا اور ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا۔ اس سے ہر قدم پر ثواب ملتا ہے اور غیروں کو مسلمانوں کی اجتماعیت کا بھی احساس ہوتا ہے ۔حضرت ابورافعؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ عید کی نماز کے لیے پیدل تشریف لے جاتے تھے اور جس راستے سے جاتے تھے ،اس کے علاوہ دوسرے راستے سے واپس آتے تھے(ابنِ ماجہ:1300)
(6) راستے میں تکبیریں (اللہ اکبر اللہ اکبر،لاالہ الا اللہ،واللہ اکبر اللہ اکبر و للہ الحمد)پڑھتے ہوئے جانا ،ہم سب کو اس کا اہتمام کرنا چاہیے،نوجوان طبقہ عموماً آپس میں ہوہااور دنیا بھر کی بکواس کرتا ہوا جاتا ہے۔ اس سے اجتناب کرنا چاہیے، تا کہ اللہ تعالی کی حمد ہو اور دوسرے محسوس کریں کہ آج کوئی خاص دن ہے ۔اس سے غیروں پر رعب بھی پڑتا ہے۔یہ نہیں کہ مرے مرے انداز میں منہ لٹکائے چلے جا رہے ہیں۔
(7) خطبہ سننا:نمازِ عید الفطر کے بعد امام خطبہ دیتا ہے ،اس کو سن کر جانا چاہیے،اکثر لوگ نماز ختم ہوتے ہی بھاگنے لگتے ہیں۔خطبہ میں عید الفطر سے متعلق مذہبی ذمہ داریوں کی تلقین کی جاتی ہے،اللہ تعالی سے اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کی معافی مانگی جاتی ہے ،عالمِ اسلام اور بنی نوع انسانیت کی بھلائی کے لیے خصوصی دعائیں کی جاتی ہیں،جن کو قبولیت کا شرف حاصل ہوتا ہے۔حدیثِ نبوی ہے:
نبیﷺ نے فرمایا! جب عید الفطر کا دن آتا ہے تو اللہ تعالی فرشتوں کے سامنے اپنے بندوں پر فخر فرماتا ہے اور پوچھتاہے:اے میرے فرشتو! اس مزدور کی کیا جزا ہے جو اپنا کام مکمل کر دے ؟فرشتے عرض کرتے ہیں:اس کی جزا یہ ہے کہ اس کو پورا اجر و ثواب عطا کیا جائے ۔اللہ تعالی فرماتا ہے:اے میرے فرشتو!میرے بندوں اور باندیوں نے اپنا فرض ادا کیا پھر وہ (نمازِ عید کی صورت میں) دعا کے لیے نکل آئے ہیں،میری عزت و جلال،میرے کرم اور میرے بلند مرتبہ کی قسم!میں ان کی دعاؤں کی ضرور قبول کروں گا،اللہ تعالی پھر فرماتا ہے: بندو! گھروں کو لوٹ جاؤ، میں نے تمہیں بخش دیااور تمہارے گناہوں کو نیکیوں میں بدل دیا۔نبیِ کریم ﷺ فرماتے ہیں! پھر وہ بندے (عید کی نماز سے) اس حال میں لوٹتے ہیں کہ ان کے گناہ معاف ہو چکے ہوتے ہیں۔
خواتین کا عیدگاہ میں جانا:

عید کی نماز کے لیے خواتین اور بچے بچیوں کو بھی لانا چاہیے۔حضرت امِ عطیہؓ سے مروی ہے کہ آپﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم عید الفطر اور عید الاضحی کے روز پردہ نشین دوشیزاؤں،چھوٹی بچیوں اور حائضہ عورتوں کو عیدگاہ کے لیے نکالیں البتہ حائضہ عورتیں نماز کی جگہ سے علیحدہ رہیں گی ، اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں گی۔میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ :بعض عورتیں ایسی بھی ہیں جن کے پاس چادر نہیں ہوتی۔فرمایا! جس عورت کے پاس چادر نہ ہو ،وہ اپنی بہن سے لے لے(بخاری:974)
عیدگاہ کے منتظمین کو اس کے لیے پردے اور دوسری ضروریات کا انتظام کرنا چاہیے۔اس سے شوکتِ اسلام کا اظہار ہوتا ہے اور مرد عورتیں بچے عیدگاہ میں اللہ تعالی کے سامنے سجدہ ریز ہو کر دعائیں کرتے ہیں تو اگر کسی ایک کی بھی دعا قبول ہو گئی تو یہ تمام حاضرین کے لیے باعثِ برکت ہو گی۔تنگ نظر علما اس کی مخالفت کیوں کرتے ہیں ، معلوم نہیں ۔جب کہ یہی عورتیں اور لڑکیاں بے تحاشا بازاروں، یونیورسٹیوں، کالجوں ، میلوں اور عرسوں وغیرہ میں شریک ہوتی ہیں،تب ان کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔
البتہ خواتین کو عیدگاہ آتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ پردے میں ہوں،خوشبونہ رکھی ہو،مردوں سے الگ ہو کراور راستے کے کنارے دب کر چلیں۔خوشبو کے سلسلے میں نبی کریمﷺ نے فرمایا:’’ جب عورت خوشبو لگا کر نکلتی ہے اور کسی مجلس کے پاس سے گذرتی ہے تو وہ ایسی اور ویسی ہے یعنی زانیہ ہے(ابوداؤد:4173)
شوال کے چھ روزے رکھنا:
اللہ تعالی نے مسلمانوں کے لیے رمضان کے بعد والے مہینہ یعنی شوال میں چھ نفلی روزے رکھے،تاکہ رمضان کے جاتے ہی عبادات و اذکار کا سلسلہ ختم نہ ہو جائے اور ان کا ثواب ایک سال کے روزے کے برابر رکھا کہ انسان اس کی طرف مائل ہو۔احادیث میں اس کی بہت فضیلت بیان ہوئی ہیں۔حضرت ابوایوبؓ سے مروی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا!جس نے ماہِ رمضان کے روزے رکھے، اس کے بعد شوال میں چھ روزے رکھے تو اس کو عمر بھر روزے رکھنے کا ثواب مل جائے گا(مسلم:1165)

تبصرے بند ہیں۔