عید الفطر: فضائل اوراعمال

 مفتی محمد صادق حسین قاسمی

اللہ تعالی نے اسلام میں دو عیدیں رکھی ہیں ،اور دونوں عیدوں کی نرالی شان اور انوکھا امتیاز ہے ۔عید الفطر رمضان المبارک کے ایک مہینہ کے روزوں کی تکمیل کے بعد بطور ِ انعام خوشی ومسرت کا دن ہے۔ اسلام میں ہر موقع پر انسانوں کے لئے تعلیمات وہدایات عطاکی گئیں ہیں ،اور خوشی ومسرت کے اظہار کے طریقے بھی بتائے گئے ہیں ،یقینا یہ اسلام کی خصوصیت ہے ۔دنیا میں پائے جانے والے دیگر مذاہب کے یہاں بھی عید کا دن ہوتا ہے ،جس میں وہ لوگ بھی خوشی کااظہار کرتے ہیں لیکن ان کے یہاں خوشی کے دن کے لئے کچھ خاص ہدایات نہیں ہے ،جس کی وجہ سے دیکھا جاتا ہے کہ وہ لوگ اپنی عیدوں کے دن حدود کو تجاوز کرجاتے ہیں ،اخلاقی قدروں کو پامال کرتے ہیں ،تہذیب ومروت کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں ،اور فرطِ جذبات میں جائز وناجائز کو فراموش کرکے بہت ساری خلافِ شرافت واخلاق چیزوں کا ارتکاب کرتے ہیں ۔اس کے برخلاف اسلام میں عید کے پُر مسرت موقع کے لئے بھی نہایت عمدہ ترین تعلیمات،پاکیزہ ہدایات اور مقصدِ حقیقی کو اجاگر کرنے والی ترغیبات دی گئی ہیں ۔آئیے ذیل میں مختصراً عید الفطر کے فضائل اور اس دن کے اعمال کو ملاحظہ کرتے ہیں ۔

عید الفطر کی فضیلت:

    عید کہتے ہیں جس میں اللہ کے احسان و انعام کا بندوں پر اعادہ ہو ، انعامِ الہی کا دن بار بار بندوں کے لئے آئے،اور مختلف انعامات و احسانات سے بندوں کو نوازا جائے۔( رد المحتار:3/44ریاض)رمضان المبارک میں جب بندوں نے مکمل اطاعت اور فرماں برداری کرتے ہوئے ایک مہینہ کو گذارلیا تو اللہ تعالی نے اپنے ان محنت اور حکم کو پورا کرنے والے بندوں کو انعام سے نوازنے او رمغفرت فرمانے کے لئے عید کا دن رکھا ،عید ین کی راتوں کو لیلۃ الجائزہ ( انعام کی رات ) اور عید ین کے دنوں کو یوم الجائزہ ( انعام کادن ) کہاجاتا ہے ۔نبی کریم ﷺ نے ایک حدیث میں فرمایا:اعطیت امتی خمس خصال فی رمضان لم تعطہن امۃ قبلھم ۔۔۔۔ویغفرلھم فی اخرلیلہ قیل یا رسول اللہ اھی لیلۃ القدر قال لا ولکن العامل انمایوفی اجرہ اذاقضی عملہ ۔(مسند احمد:7717)رمضان المبارک میں میر ی امت کو پانچ چیزیں خاص طور پر دی گئی ہیں جو پہلی امتوں کو نہیں ملی جن میں ایک یہ ہے کہ:رمضان کی آخری رات میں روزہ داروں کی مغفرت کی جاتی ہے ،صحابہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! کیا یہ شب ِ مغفرت شب ِ قدر ہے ،آپﷺ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ دستور یہ ہے کہ مزدور کو کام ختم ہونے کے وقت مزدوری دی جاتی ہے ۔ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ :جب عید الفطرہوتی ہے تو (آسمانوں پر )اس کانام لیلۃ الجائزہ سے لیاجاتا ہے اور جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اللہ تعالی فرشتوں کو تمام شہر وں میں بھیجتے ہیں وہ زمین پر اتر کر تمام گلیوں ،راستوں کے سروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایسی آواز سے جس کو جنات اور انسان کے سوا ہر مخلوق سنتی ہے پکارتے ہیں کہ اے محمد ﷺ کی امت اس کریم رب کی بارگاہ کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطا کرنے والا ہے اور بڑے بڑے قصور کو معاف فرمانے والا ہے ،جب لوگ عید گاہ کی طرف نکلتے ہیں تو اللہ تعالی فرشتوں سے دریافت کرتے ہیں کہ کیا بدلہ ہے اس مزدور کا جو اپنا کام پورا کرچکا ؟فرشتے عرض کرتے ہیں کہ ہمارے معبود اور ہمارے مالک اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کی مزدوری پوری پوری دے دی جائے ۔اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اے فرشتو !میں تمہیں گواہ بناتا ہو ں میں نے ان کو رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلہ اپنی رضا اور مغفر ت عطا کردی ۔اور اپنے بندوں سے خطاب فرماکر ارشاد فرماتے ہیں کہ اے میرے بندو مجھ سے مانگو ،میری عزت کی قسم !میرے جلال کی قسم آج کے دن اس اجتماع کے دن اپنی آخرت کے بارے میں جو سوال کروگے عطا کروں گا ،اور دنیا کے بارے جو مانگو گے اس میں تمہاری مصلحت پر نظر کروں گا،میری عزت کی قسم جب تک میرا خیال رکھو گے میں تمہاری لغزشوں پر ستاری کرتا رہوں گا ،میری عزت کی قسم اور میرے جلال کی قسم میں تمہیں مجرموں اور (کافروں ) کے سامنے رسوا نہ کروں گا ۔بس اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ،تم نے مجھے راضی کرلیا اور میں تم سے راضی ہوگیا،فرشتے اس اجر و ثواب کو دیکھ کر جو اس افطار کے دن ملتا ہے خوشیا ں مناتے ہیں ۔(فضائل الأوقات للبیہقی:65دار الکتب العلمیہ بیروت) روزہ دار عید کے دن گناہوں سے بخشابخشایا اور صاف ستھرا ہوکر اپنے گھر کو لوٹتا ہے اور انعامات الہی سے فیض یا ب ہو کر اور پرودگار عالم کی عطا وبخشش سے بہرور ہوکر واپس آتا ہے ۔

عید الفطر کے مسنون اعمال:

    عید الفطر کے دن چند اعمال مسنون ہیں ،جن کا اہتمام کرنا چاہیے ۔

صبح جلد اٹھنا:

    یعنی نمازِ فجر کے لئے عام دنوں میں جس وقت اٹھتے ہیں ،اس سے پہلے اٹھنا تاکہ وقت پر نمازِ فجر ادا ہواور جلد از جلد ضروریات اور غسل وغیرہ سے فارغ ہواجاسکے۔صحابہ کرام ؓ کا معمول تھا کہ وہ نمازِ فجر میں نمازِ عید کی تیاریوں سے فارغ ہوجاتے تھے ۔چناں چہ حضرت ابن عمر ؓ کے بارے میں منقول ہے : حضرت ابن عمر ؓ رسول اللہ ﷺ کی مسجد میں فجر کی نماز پڑھتے تھے اور پھر اسی حال میں عیدگاہ کی طرف نکل پڑتے تھے۔( عیدالفطر کے فضائل:193)

 غسل کرنا:

    عید کے دن اہتمام کے ساتھ غسل کرنا سنت ہے ۔ویستحب یوم الفطر للرجل الاغتسال ۔( فتاوی ہندیہ:1/165بیروت)نبی کریم ﷺ سے منقول ہے :ان رسول اللہﷺ قال : یامعشر المسلمین ھذا یوم جعلہ اللہ عیدا للمسلمین فاغتسلوا ۔۔۔(موطا امام مالک:141)کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اے مسلمانوں کی جماعت!اللہ تعالی نے اس دن کو مسلمانوں کے لئے عید کا د ن بنایا ہے ،لہذا تم اس دن غسل کرو۔

 مسواک کرنا:

     مسواک اگرچہ وضو کے موقع پر کرنا بھی سنت ہے ،لیکن خاص عید کے موقع پر بھی سنت ہے ،کیوں کہ عید اجتما ع کا دن ہے اور صفائی وستھرائی کے ساتھ شریک ہونے کا حکم دیا گیا ہے ،اس لئے مسواک مزید صفائی کا باعث بھی ہے ۔( رد المحتار:۳/۴۸ )

 اچھے کپڑے پہننا:

    عید کے دن صاف ستھرے کپڑے پہنناسنت ہے ،اپنے پاس موجود تمام کپڑوں میں جو اچھا ہو اسے پہنے ،چاہے نیا جوڑا ہو یا دھوکر پہنے۔ولبس احسن الثیاب ،جدیدا کان اوغسیلا۔( بدائع الصنائع :2/249)حضرت حسن ؓ نبی کریم ﷺ کاارشاد نقل فرماتے ہیں کہ :امرنا رسول اللہ ﷺ ان نلبس اجود مانجد ۔۔۔( طبرانی:2692)کہ ہمیں نبی کریم ﷺ نے یہ حکم فرمایاکہ ہم اپنی حیثیت کے مطابق اچھا لباس پہنیں ۔

 خوشبو لگانا:

    عید کے دن جو اچھی خوشبو میسر ہو اسے لگانے کا اہتمام کرنا بھی سنت ہے ۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے :امرنا ان نلبس اجودمانجد،ان نتطیبب باجود مانجد۔( طبرانی:2692) کہ آپ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اپنی حیثیت کے مطابق اچھا لباس پہنیں ،اور اپنی حیثیت کے مطابق اچھی خوشبو لگائیں ۔یستحب۔۔۔ویمس طیبا۔( بدائع الصنائع:2/249)

 صدقہ ٔ فطر اداکرنا:

    اگر کسی نے عید سے قبل صدقہ ٔ فطر ادانہ کیا ہو تو نمازِ عید کو نکلنے سے قبل صدقہ ٔ فطر بھی اداکرنا سنت ہے۔ویستحب ۔۔وداء صدقۃ الفطر قبل الصلاۃ ۔( فتاوی ہندیہ :1/165)اور حدیث ِ رسول میں ہے:ان النبیﷺ امر بزکاۃ الفطر قبل خروج الناس الی الصلاۃ۔(بخاری:1419)کہ نبی ﷺ نے صدقہ ٔ فطر لوگوں کے عید کی نماز کی طرف نکلنے سے پہلے اداکرنے کا حکم دیا۔

 نماز کے لئے جلدجانا:

    نمازِ عید کے لئے جلد عیدگاہ جانابھی سنت ہے اور نبی کریمﷺ کا معمول رہا۔چناں چہ مروی ہے:کان النبی ﷺ یغدو الی المصلی۔( بخاری:925)کہ آپ ﷺ عید گاکی طرف جلد تشریف لے جاتے تھے۔والتبکیر۔۔۔وھوالمسارعۃ الی المصلی ۔( فتاوی ہندیہ:1/165)

 عید گاہ پیدل جاناـ:

    عیدگا ہ کے لئے پیدل جانا سنت ہے ۔حضرت علی ؓ سے مروی ہے :والسنۃ ان تخرج الی العید ماشیا ۔( ترمذی:487)کہ سنت یہ ہے کہ عید کی نماز کے لئے پید ل نکلیں ۔لیکن سواری کے ذریعہ بھی جاسکتے ہیں ۔والخروج الی المصلی ماشیا۔۔۔ولاباس بالرکوب فی الجمعۃ والعیدین والمشئی افضل فی حق من یقدر علیہ ۔( فتاوی ہندیہ:1/165)

 راستہ میں کرتکبیر کہنا:

   عید گاہ جاتے ہوئے تکبیر کہنا سنت ہے ۔نبی کریمﷺ کے بارے میں منقول ہے:ان رسول اللہﷺ کان یخرج یوم الفطر فیکبرحتی یاتی المصلی۔(مصنف ابن شیبہ:5479)کہ نبی ﷺ عید الفطر کے دن عیدگاہ کے لئے نکلتے تو تکبیر کہتے یہاں تک کہ عیدگا پہنچ جاتے۔عید الفطر میں تکبیر آہستہ کہنا چاہیے ۔( فتاوی تاتارخانیہ:2/92دکن)(اوروہ کلمات یہ ہیں :اللہ اکبر ،اللہ اکبر ، لا الہ الااللہ واللہ اکبر ،اللہ اکبر وللہ الحمد۔

 آمد ورفت کا راستہ بدلنا:

      ایک راستے سے عید گاہ جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا چاہیے ، نبی کریم ﷺ کا ایسے ہی معمول تھا۔کان النبی ﷺ اذا کان یوم عید خالف الطریق ۔( بخاری:938)کہ رسول اللہ ﷺ عید کے دن راستہ تبدیل فرمایاکرتے تھے۔اس کے ذریعہ حاضر ہونے والوں کی کثرت کا اظہار ہوتا ہے۔( ردالمحتار:3/49)

 نماز سے پہلے کچھ کھاکرجانا:

   عید الفطر میں نماز سے پہلے کھاناچندکھجور ہی سہی مگر کھاکر جانا مسنون ہے۔نبی کریم ﷺ کے بارے میں مروی ہے:ان رسول اللہ ﷺ کان لایخرج حتی یاکل ۔( ابن ماجہ:1746)کہ رسول اللہﷺ عید الفطر کے کچھ کھائے بغیر نہیں نکلتے تھے۔عید الفطر چوں کہ روزوں کے بعد آتی ہے ،اس کے لئے کچھ کھانے کی ترغیب آئی ہے ۔واما الذوق فیہ ،فلکون الیوم یوم الفطر۔( بدائع الصنائع:2/249)کسی بھی میٹھی چیز کااستعمال یا کم از کم کوئی بھی چیز نماز ِ عید کو جانے سے پہلے کھالینامستحب ہے۔( کتاب الفتاوی:3/87)

عید کی نماز عیدگاہ میں اداکرنا:

    عید کی نماز عید گاہ میں اداکرنا سنت ہے۔نبی کریم ﷺ کے بارے میں منقول ہے:کان رسول اللہ ﷺ یخرج یوم الفطر والاضحی الی المصلی۔( بخاری:908)کہ رسو ل اللہﷺ عید الفطر اور عید الاضحی کے دن عیدگاہ تشریف لے جایاکرتے تھے۔والخروج الیھا ای الجبانۃ لصلاۃ العید ،سنۃ۔( درمختار مع الشامی:3/49)لیکن اگر کوئی شخص کسی معقول عذر کی وجہ سے مثلا کسی مسجد کی امامت یا مرض وغیرہ کی وجہ سے شہر سے باہر عید گاہ نہ جاسکے ،اس پر کوئی گناہ نہیں ،اور جو عید گاہ آبادی کے اندر آچکی ہو تو اس میں نما زپڑھنے او رعام بڑی مسجدوں میں نماز پڑھنے کے درمیان فضیلت میں کوئی فرق نہیں ۔( کتاب النوازلـ:5/350)

عید سے قبل نفل نہ پڑھنا:

      عید کے دن فجر کی نماز کے بعدعید کی نماز سے پہلے گھرمیں یا کسی بھی جگہ کوئی بھی نفل نماز نہ پڑھیں ۔( رد المحتار:3/50)بعض لوگ عید گاہ پہنچ کر نمازِ عید سے قبل نمازیں پڑھتے ہیں اور پوچھنے پر کہتے ہیں کہ ہم فجر کی نماز پڑھ رہے ہیں ،تو اجتماعی طور پر عید گاہ میں قضا پڑھنا طرح طرح کی چہ می گوئیوں اور انتشار کا سبب بنتا ہے؛اس لیے اس طریقہ سے احتراز لازم ہے ۔اول تو مسلمان کی یہ شان نہیں ہے کہ کوئی نماز قضا کرے اور اگربالفرض نماز قضا ہوجائے تو اسے برسر عام پڑھنے کے بجائے گھر میں ادا کرے تاکہ اپنی کوتاہی مخلوق کے سامنے نہ آسکے۔(کتاب المسائل:1/472)

عید کی مبار ک بادی دینا:

    عید کے دن مبارک باد دینے میں کوئی حرج نہیں ، بلکہ اگر خرابیوں سے بچ کر ہو تو مستحب ہے ،کیوں کہ صحابہ وتابعین کے کئی اقوال وافعال سے عید کی مبارک باد ثابت ہے۔اسی وجہ سے محقق فقہائے کرام نے عید کے دن ’’ تقبل اللہ منا ومنکم ‘‘کے ذریعہ مبارک باددینے کو جائز ومستحب ہونے کا حکم بیان کیا ہے ۔( الموسوعۃ الفقہیۃ :14/,99البحرا لرائق :2/277)حضرت واثلہ ؓ سے مروی ہے کہ: انہوں نے عید کے دن نبی کریم ﷺ سے ملاقات کی اور ’’تقبل اللہ مناومنکم ‘‘کہا تو آپ ﷺ نے بھی ’’تقبل اللہ منا ومنکم ‘‘ فرمایا۔( السنن الکبری للبیہقی:(5814

عید کی نماز کے بعد معانقہ کرنا:

   عید کی نماز کے بعد ملنا اور معانقہ یا مصافحہ کرنا امر مسنون نہیں ہے ،ہاں اگر کسی سے اسی وقت ملاقات ہویا نماز کے کچھ فصل کے بعد محض ملاقات کی نیت سے مصافحہ یا معانقہ کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔( کتاب المسائل:1/478)اس لیے کہ شریعت میں مصافحہ کسی مسلمان سے ملاقات کے بعد ہے نہ کے نماز کے بعد۔( رد المحتار:9/548)الغرض ضروری سمجھے بغیر اور عید کی سنت نہ قرار دیتے ہوئے اگرعید کی نماز کے علاوہ وقت میں معانقہ کرے تو کرسکتے ہیں ۔چناں چہ مفتی رشید احمد لدھیانوی ؒ لکھتے ہیں :معانقہ بھی اس میں شامل ہے یعنی نماز کے فورا بعد معانقہ بھی جائز نہیں ہے ،ویسے عید کے دن بوقت ملاقات مصافحہ ومعانقہ درست ہے۔( احسن الفتاوی :1/354)

تبصرے بند ہیں۔