غالب انسٹی ٹیوٹ میں انشا اللہ خاں انشا پر سمینار اختتام پذیر

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیرِ اہتمام ’’انشا اللہ خاں انشا اورہندوستانی روایت‘‘ کے عنوان سے دو روزہ سمینارکے دوسرے روز مقالہ نگار ،علمااور دانشوروں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ سمینار کاپہلا اجلاس صبح دس بجے شروع ہوا۔ اس اجلاس میں ڈاکٹر سہیل انور نے ’’انشا اللہ خاں انشا ہندوستانی روایت کے آئینے میں‘‘کے عنوان سے مقالہ پیش کیا،ڈاکٹر سہیل انور نے اپنے مقالے میں انشا کے اشعار سے مثالیں پیش کرکے کہا کہ انشا نہ صرف ہندوستانی تہذیب کو پوری طرح سمجھتے تھے بلکہ اسے ایک تخلیقی تجربہ بناکر پیش کرنے کاہنر بھی بخوبی جانتے تھے۔

ڈاکٹر ریحان حسن نے’’انشا اور مصحفی کے معرکے پر ایک نظر‘‘ کے عنوان سے اپنے مقالے میں کہا کہ ادبا کے معرکے وقتی طورپر جوبھی تلخی پیدا کریں لیکن اس سے زبان و ادب کوکافی فائدہ ہوتا ہے۔ انشا اور مصحفی کے معرکے کی آج ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ اس سے نئے الفاظ شاعری میں داخل ہوئے۔ڈاکٹر مرزاشفیق حسین شفق نے ’’انشا کی عشقیہ شاعری‘‘کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ انشا کی ایک ایسی شبیہہ ہمارے سامنے پیش کی گئی ہے جس کوشوخی اور معرکہ آرائی سے خاص شغف تھا۔لیکن جب ہم اُن کی شاعری پر نظر کرتے ہیں توان کے یہاں عشقیہ مضامین کو برتنے کاایک خاص ہنر نظر آتا ہے۔ پروفیسر کوثر مظہری نے اپنے مقالے میں انشا کی مشہور تصنیف’’دریائے لطافت‘‘ کے حوالے سے کہا اس بات پر زور دیاکہ دریائے لطافت کی قرأت کی اہمیت آج بھی مسلم ہے۔

اس اجلاس کی صدارت کے فرائض مشہور نقاداور انشائیہ نگار پروفیسر خالد محمود نے انجام دیے۔ پروفیسر خالد محمود نے اپنی صدارتی تقریر میں انشاکی تخلیقات کے تنوع اور کشادہ ذہنی کاذکر کرتے ہوئے کہاکہ غالب انسٹی ٹیوٹ مبارکباد کا مستحق ہے کہ اس نے اس اہم موضوع کاانتخاب کیا۔انہوں نے مزید کہا کہ اردومیں غالب اور میر کی شہرت سے دوسرے ایسے شاعر جو غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں ہمارے ذہن سے محوہوگئے۔ سمینار کادوسرے اجلاس میں ثاقب فریدی نے ’’انشا کے قصائد‘‘،شعبہ اردو بنارس ہندو یونیورسٹی کے استاد عبدالسمیع نے ’’انشا اللہ خاں انشا کی ہندوستانیت، انتظار حسین کی نظر میں‘‘، علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے استاد پروفیسر مولیٰ بخش نے ’’رانی کیتکی کی کہانی اردو افعال کی زبانی‘‘ اورشعبہ اردوجامعہ ملیہ اسلامیہ کے استاد پروفیسر احمدمحفوظ نے ’’کلاسیکی شاعری میں الفاظ کی اہمیت، کلامِ انشا کے خصوصی حوالے سے‘‘کے عنوان سے مقالات پیش کیے۔

اس اجلاس میں پروفیسر عبدل بسم اللہ نے بھی پُرمغز مقالہ پیش کیا۔اس اجلاس کی صدارت غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پرووفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے فرمائی۔ پروفیسرصدیق الرحمن قدوائی نے اپنی صدارتی تقریر میں کہاکہ مجھے خوشی ہے کہ انشا کی شاعری اور ان کی نثری تصنیفات کے تقریباً تمام پہلوؤں پر بہت عمدہ مقالے پڑھے گئے۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے سمیناروں کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ ہم نئی نسل کے لکھنے والوں کوزیادہ سے زیادہ موقع دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس سے انشا کے فن اور ان کے عہدکو سمجھنے میں بڑی مدد ملے گی۔

سمینار کے تیسرے اور آخری اجلاس میں ڈاکٹر محمد شاہد خان، ڈاکٹر احمد امتیاز، ڈاکٹر علی اکبرشاہ اور ڈاکٹر سرورالہدیٰ نے مقالے پیش کیے۔ اس اجلاس کی صدارت مشہور نقاد افسانہ نگار اور شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی کے سابق صدر پروفیسر ابن کنول نے فرمائی۔

اپنی صدارتی تقریر میں پروفیسر ابنِ کنول نے کہا انشا اللہ خاں انشا کے مقام و مرتبہ سے انکار نہیں کیا جاسکتا وہ اردو کے پہلے قواعد نویس ہیں جنہوں نے قواعد کے اندر بھی ہندوستانی تہذیب کو فروغ دیا۔ ہمارے قواعدنگار انشا کے انہیں اصولوں کوملحوظ رکھتے تو آج ہماری زبان میں موجودہ صورت کے مقابلے کافی وسعت پیدا ہوچکی ہوتی۔

سمینار میں شرکاء کی طرف سے بھی اہم سوالات اٹھائے گئے اور مقالات پرسیرحاصل تبصرے بھی پیش کیے گئے۔سمینار کے اختتامی کلمات کو ادا کرتے ہوئے غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر رضاحیدر نے تمام مقالہ نگار، اجلاس کے صدوراور سامعین کا شکریہ ادا کیا۔

تبصرے بند ہیں۔