انسان اور زمین کی حکومت (قسط 72)

رستم علی خان

چنانچہ حضرت داود کے بھائی کہنے لگے طالوت بادشاہ سے کہ چونکہ داود کبھی کسی جنگ میں شریک نہیں ہوا اور نہ ہی اس نے کبھی لڑائی دیکھی ہے اس لیے جالوت سے ہم لڑیں گے اور اسے مار گرائیں گے- اور حضرت داود کے دوسرے بھائی بھی آگے آئے اور داود کی جگہ جالوت سے لڑنے اور اسے مار گرانے کی بات کو کہا-

تب بادشاہ طالوت نے انہیں وہ زرہ دی کہ جو حضرت شموئیل نے اسے دی تھی کہ یہ زرہ جس کے بدن پر موافق آئے گی اسی کی ہاتھ سے جالوت مارا جائے گا اور وہی جنگ کو فتح کرے گا اور اللہ تعالی اسے بنی اسرائیل کی بادشاہت عطا فرمائے گا- اور ایک دوسری روایت میں بیان ہوا ہے کہ طالوت نے خواب دیکھا تھا کہ یہ زرہ جس کے بدن پر پوری آوے گی وہی جالوت پلید کو مارے گا اور بادشاہ ہو گا- الغرض طالوت نے وہ زرہ انہیں پیش کی- سب نے پہن کر دیکھی لیکن کسی کے بدن پر پوری نہ آئی- جب حضرت داود نے پہنی تو آپ کے بدن پر ٹھیک آئی- تب طالوت نے آپ سے کہا کہ تم جاو میدان جنگ میں اور ضرور تمہارے ہاتھوں سے جالوت پلید مارا جائے گا-

تب حضرت داود نے عہد پکا کر کے وہ زرہ اپنے بدن پر پہن کر اور وہ تین پتھر جو لشکر کیساتھ آتے وقت راستے میں ملے تھے اور جنہوں نے کہا تھا ہمیں اٹھا کر لیجا ہم جالوت کو ماریں گے یا مارنے میں تمہارے کام آئیں گے- اور مروی ہے کہ یہ تین پتھر ان پتھروں میں سے تھے کہ جن سے اللہ تعالی نے قوم لوط کو ہلاک کیا تھا- القصہ حضرت داود تیاری کر کے میدان جنگ میں جالوت کے سامنے گئے- جالوت نے غرور اور تنتنے سے کہا کہ اے جوان تو مجھ سے کس ہتھیار سے لڑنا پسند کرے گا- حضرت داود نے مٹھی کھول کر پتھر دکھاتے ہوئے کہا اے جالوت میں تیرے ساتھ ان پتھروں سے لڑوں گا- اللہ نے چاہا تو ان پتھروں سے تیرا سر توڑ کر تجھے ہلاک کر دوں گا-

تب جالوت نے کہا کہ بادشاہوں کیساتھ پتھروں سے لڑنا نہیں چاہئیے اور اس سے بڑی حماقت کیا ہو گی کہ بجائے نیزے تلوار یا چوب کے تو چھوٹے چھوٹے پتھر لیکر ایک بادشاہ سے مقابلہ کرنے کو آیا ہے- حضرت داود نے فرمایا اے جالوت تو کوئی بادشاہ نہیں درحقیقت ایک کتا ہے اور کتوں کو پتھروں سے مارا جاتا ہے- تب جالوت نے غرور سے کہا، اے جوان تو چلا جا، ناحق مارا جائے گا- میں تجھے دیکھتا ہوں کہ تو نہایت ضعیف اور غریب ہے- اور چھوٹے چھوٹے تین پتھر ہاتھ میں لیکر مجھ سے لڑنے کو آیا ہے-

حضرت داود علیہ السلام نے فرمایا بھلے تجھے اپنی طاقت و قوت پر غرور ہے لیکن یاد رکھ میں خدا کے حکم سے لڑنے کو آیا ہوں جو صاحب قوت اور بزرگ و برتر ہے- اور یہ کہ اس نے مجھے قوت عطا کی ہے کہ تجھے اور تیرے لشکر کو ان پتھروں سے مار ڈالوں- یہ کہہ کر ایک پتھر اس کے سر پر مارا جس سے مردود کی کھوپڑی کھل گئی اور جہنم واصل ہوا- اور باقی دونوں پتھر اس کے لشکر پر مارے- ایک پتھر داہنی طرف والے لشکر پر مارا اور دوسرا بائیں طرف والے لشکر کے مارا اور پورا لشکر ہلاک ہوا-

اور دوسری روایت میں لکھا ہے کہ پتھر کو فلاخن میں رکھ کر مارا جو سیدھا جالوت مردود کے سینے پر پڑا جس سے وہ مردود گرا اور جہنم واصل ہوا- اور پتھر کے دو ٹکڑے ہو کر ایک ٹکڑا لشکر کے داہنی طرف گرا اور سب کو جہنم رسید کیا- اور دوسرا ٹکڑا لشکر کے بیچ میں گرا اور وہ سب درہم برہم ہو کر بھاگے- اور اسی بھاگ دوڑ میں کئی ایک جہنم رسید ہوئے اور باقی میدان چھوڑ کر بھاگے- چنانچہ ارشاد ہوا؛ "پس شکشت دی بنی اسرائیل نے قوم جالوت کو اللہ کے حکم سے اور مار ڈالا داود نے جالوت کو-"

تب طالوت نے حضرت داود سے کہا مآشآء اللہ تمہاری بڑی قوت ہے کہ تم نے اکیلے جالوت کو اس کے پورے لشکر سمیت مار ڈالا اور مجھ کو کیا طاقت تھی کہ میں اس کا مقابلہ کرتا اور اسے مار ڈالتا-

اور تفسیر میں لکھا ہے کہ جب طالوت جنگ پر جانے لگا تو حضرت داود کے باپ نے بھی اپنے بیٹوں کو جنگ پر بھیجنے کی خواہش ظاہر کی- تب حضرت شموئیل نے اس سے کہا کہ مجھے اپنے بیٹے دکھاو- تب داود کے باپ نے ان کے چھ بھائیوں کو دکھلایا جو قد آور تھے اور داود کو نہ دکھلایا کہ یہ کمزور اور زرا چھوٹے قد کے تھے اور بھیڑ بکریاں چرایا کرتے تھے- تب حضرت شموئیل نے انہیں زرہ دی سب نے پہن کر دیکھی کسی کے بدن پر پوری نہ آئی- تب داود کے باپ سے پوچھا کہ تمہارا کوئی اور بیٹا بھی ہے- انہوں نے کہا کہ ہے لیکن وہ کمزور اور چھوٹے قد کا ہے اور کبھی جنگ میں شریک نہیں ہوا نہ کبھی لڑائی دیکھی ہے- حضرت نے فرمایا آپ کو بلوایا اور زرہ پہنا کر دیکھی تو ٹھیک آئی- پھر پوچھا کہ تم جالوت کا مقابلہ کر کے اسے مارو گے- داود نے جواب دیا کہ وہ ضرور ایسا کریں گے- تب آپ کو پتھر دیا کہ اسے جالوت کو مارنا تو ضرور جہنم رسید ہو گا- چنانچہ جب مقابلہ ہوا تو حضرت داود نے پتھر فلاخن میں رکھ کر مارا جالوت مکمل لوہے کی زرہ زیب تن کیے ہوئے تھا- وہ پتھر اس زرہ کو چیرتا ہوا اس مردود کے جسم کے پار ہوا جس سے جالوت جہنم واصل ہوا- اور پتھر لشکر میں جا کر گرا جس سے بگھدڑ مچ گئی اور بہت سے لوگ جہنم رسید ہوئے اور باقی میدان چھوڑ کر بھاگ گئے اور بنی اسرائیل کو اللہ نے فتح دی۔

روایت ہے کہ جب طالوت نے جالوت سے لڑائی پر فتح پائی تو بنی اسرائیل نے اس سے کہا کہ تم نے جو وعدہ کیا تھا کہ جالوت کو جو مارے گا اس کو آدھی سلطنت اور اپنی بیٹی بیاہ دوں گا- پس اب اپنا وعدہ پورا کر اور اپنی آدھی سلطنت داود کے نام کرو اور اپنی بیٹی بھی اس سے بیاہ دو- طالوت نے کہا نہیں میں ایسا نہیں کر سکتا کہ بیٹی میری خوبصورت ہے اور داود کا رنگ زرد اور سانولا ہے اور قد کاٹھ اور جسمانی طور پر بھی قبول صورت ہی ہے- پس میں اسے اپنی بیٹی نہ دوں گا- ادھر جب حضرت داود علیہ السلام کو اس بات کی خبر ہوئی کہ طالوت ایسا کہتا ہے تو آپ نے بھی انکار کر دیا کہ اگر اسے منظور نہیں اور وہ ایسا کہتا ہے تو میں بیاہ نہیں کروں گا-

مروی ہے کہ طالوت نے آخر حضرت داود سے اپنی بیٹی کو بیاہ دیا اور آدھی سلطنت ان کے نام کر دی- اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ بیٹی سے بیاہ نہ کیا بلکہ صرف آدھی سلطنت دی پھر جب طالوت مارا گیا تو حضرت داود نے اس کی بیٹی سے نکاح کیا اور ساری سلطنت پر قابض ہوئے اور عدل و انصاف سے بادشاہی کرتے رہے-

الغرض جب طالوت نے دیکھا کہ بسبب جالوت کو مار گرانے اور اسرائیل کو فتحیاب کروانے کے تمام لشکری حضرت داود سے بہت عقیدت و موافقت رکھتے ہیں- تب اس کے دل میں خوف ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ میری ساری سلطنت چھین لیں- یعنی اس سبب کہ لشکر تو ویسے ہی داود کی قوت و عظمت کا قائل ہے اور تمام سپاہ ان سے عقیدت رکھتی ہے- سو اگر کبھی داود کو ساری سلطنت کا لالچ یا خیال آیا تو وہ لشکر کو ساتھ لیکر ضرور بغاوت کرے گا اور ساری سلطنت پر قابض ہو جائے گا-

پس اسی خیال کے تحت طالوت نے حضرت داود علیہ السلام کو مار ڈالنے کا قصد کیا- ادھر حضرت داود علیہ السلام پہاڑ کے کنارے ایک مسجد بنا کر عبادت میں مشغول و مصروف ہوئے- اور وہاں آپ کے علاوہ اور ستر آدمی عابد بھی آپ کیساتھ عبادت میں مشغول رپتے- تب بنی اسرائیل کے وہ لوگ کہ جو حضرت داود سے بغض اور حسد رکھنے لگے تھے آپ کی عظمت و مرتبے کی وجہ سے انہوں نے طالوت سے کہا کہ داود کیساتھ بہت سے عابد جمع ہوئے ہیں پس اگر وہ دعا کریں گے تو ہم ضرور برباد ہو جاویں گے جیسے کہ ہم سے پہلے لوگ ہوتے رہے ہیں- اور یہ کہ سلطنت تیری ساری چھینی جاوے گی- تب طالوت نے ان سے مشورہ مانگا کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہئیے- تب ان لوگوں نے کہا کہ ہم تیرے اور تیری سلطنت کے خیرخواہ ہیں سو ہمارا مشورہ ہے کہ داود اور اس کے ساتھی عابدوں کو مار دینا چاہئیے تاکہ وہ ہم پر کوئی بددعا نہ کر سکیں-

چنانچہ جب طالوت نے یہ سنا تو ان لوگوں کی باتوں میں آ گیا اور ایک لشکر کثیر ساتھ لیکر داود کے مارنے کو جہاں ان کی عبادت گاہ تھی رات کے وقت ان کو جا گھیرا اور ننگی تلوار ہاتھ میں لیکر چاہا کہ مسجد اندر گھس کر مع عابدوں کے داود علیہ السلام کو مار ڈالے- خدا کی مرضی ایسی ہوئی کہ نیند نے ان پر غلبہ کیا- آخر طالوت مع لشکر سب سو گئے- تب حضرت داود نے مسجد سے باہر نکل کر دیکھا کہ طالوت مع لشکر کے سویا پڑا ہے- اور اللہ نے حضرت داود کو خبردار کیا طالوت کے ارادوں سے تب حضرت داود نے اس کی ننگی تلوار لیکر ایک پتھر پر ماری اور اس کے دو ٹکڑے کر کے اس کے پیٹ پر تلوار اور پتھر اور ایک ٹکڑا کاغذ کا لکھ کر رکھ دیا- اور چراغ بجھا دیا-

اس کاغذ کے ٹکڑے پر لکھا تھا- اے طالوت ! یہ تیری تلوار میں نے پتھر پر مار کر دو ٹکڑے کر دئیے- اور اگر تیرے پیٹ پر مارتا تو دو ٹکڑے کر ڈالتا اور تجھ کو یا کسی کو خبر نہ ہوتی تب کون تیری فریاد کو پنہچتا- بہتر یہ ہے کہ تو یہاں سے اٹھ کر چلا جا- اور عابدوں کے مارنے کا قصد مت کر دنیا اور آخرت میں گنہگار ہو گا- پس جب روز روشن ہوا طالوت اٹھ کر دیکھتا ہے کہ اپنی تلوار اور ایک پرزہ کاغذ کا اور دو ٹکڑے پتھر کے پیٹ پر ہیں- ڈر کے اٹھ کھڑا ہوا- اور جب کاغذ پر لکھی تحریر پڑھی تو پشیمان ہوا اور واپس بیت المقدس چلا گیا- اور حضرت داود علیہ السلام دوبارہ اپنی عبادت میں مشغول ہوئے- پھر طالوت نے چند سپاہی پیچھے بھیجے کہ تم جاو اور داود اور اس کے ساتھ عابدوں کی اس جماعت کو شبخون مار کے قتل کر آو- تب وہ مردود حضرت داود اور عابدوں کو مارنے کے لیے گئے-

تبصرے بند ہیں۔