غالب اکیڈمی کے سالانہ طرحی مشاعرے میں میری طبع آزمائی

احمدعلی برقیؔ اعظمی

مصرعہ طرح : اپنا احوالِ دلِ زار کہوں یا نہ کہوں (غیر متداول کلام غالبؔ )

ہے جو کہنا مجھے اے یار کہوں یا نہ کہوں
’’ اپنا احوالِ دلِ زار کہوں یا نہ کہوں ‘‘

اپنا میں تجھ کو مددگار کہوں یا نہ کہوں
کس قدر ہوگیا لاچار کہوں یا نہ کہوں

کب ملے گی تجھے تخریب سے آخر فرصت
قصرِ دل کا تجھے معمار کہوں یا نہ کہوں

جو کبھی سرخئ اخبار نہیں بن پاتا
منظرِ کوچہ و بازار کہوں یا نہ کہوں

میں نے سینچا ہے جسے خونِ جگر سے اپنے
میں اسے گلشنِ بے خار کہوں یا نہ کہوں

ٹوٹ جائے نہ بھرم چارہ گری کا تیری
کس لئے رہتا ہوں بیمار کہوں یا نہ کہوں

تیرے دستورِ زباں بندی سے ڈرلگتا ہے
کس طرح چلتی ہے سرکار کہوں یا نہ کہوں

تیز تلوار سے ہے ایک صحافی کا قلم
آج کی سُرخئ اخبار کہوں یا نہ کہوں

آج جس حال میں برقیؔ ہے ترے ہوتے ہوئے
خود کو میں مُفلس و نادار کہوں یا نہ کہوں

غزل دیگر

مصرعہ طرح: نَفَس نہ انجمنِ آرزو سے باہر کھینچ ( غیر متداول کلام غالبؔ )

اگرہے کھینچنا اس کو تو اپنے اندر کھینچ
’’ نَفَس نہ انجمنِ آرزو سے باہر کھینچ ‘‘

بہت سہے ہیں پسِ پُشت تیرے اب تک وار
جو آستیں میں چھپا ہے تری وہ خنجر کھینچ

ہے امتحان تری آج ناخدائی کا
اگر بچانی ہے کشتی بھنور سے آکر کھینچ

تجھے جو کرنی ہے منظر کشئ عہدِ رواں
جو آج کوچہ و بازار کا ہے منظر کھینچ

سخنوری کا جو دعوی ہے تجھ کو اے برقیؔ 
ہیں تیری بحرِ سُخن میں جو لعل و گوہر کھینچ

غزل سوم
مصرعہ طرح : عاشق ، نگاہ جلوہ جانانہ چاہیئے ( غیر متداول کلام غالبؔ )

مجھ کو نہ کوئی ساغر و پیمانہ چاہیئے
بس التفاتِ ساقیٔ میخانہ چاہیئے

گر دیکھنا ہے تجھ کو جمال و جلالِ یار
ذوقِ نگاہِ جلوۂ جانانہ چاہیئے

اپنی متاعِ قلب و جگر جن کو سونپ دی
وہ کہہ رہے ہیں اور بھی نذرانہ چاہیئے

احسان ہم پہ اتنے ہیں پروردگار کے
ہر ہر قدم پہ سجدۂ شکرانہ چاہیئے

عہدِ رواں پہ کرنا ہے برقی جو تبصرہ
ایسے میں تجھ کو جرات رندانہ چاہیئے

تبصرے بند ہیں۔