غزل – آنسو

اشہد بلال چمن ابن چمن

کیسے بتاؤں آنکھ میں میری رہتے ہیں کیوں کر آنسو
دل کے زخم غموں میں ڈھل کر بہتے ہیں بن کر آنسو

ان سے بچھڑ کر دل کا کمرہ رہتا ہے سنسان بہت
اس پر ان کی یاد کے لشکر لاتے ہیں رخ پر آنسو

دل کی گلی میں سنّاٹوں کے شور مچاتے ریلے ہیں
جو دستک بَن تنہائی میں دیتے ہیں جی بھر آنسو

طغیانی ہے دل کے اندر آنکھوں میں ویرانی ہے
خواب سجائے ویرانی میں بیٹھے ہیں بے گھر آنسو

کتنی الفت سے آتی ہے رات سہانی ان کے گھر
اپنی گلی میں شام سے دیپک روتے ہیں شب بھر آنسو

ٹوٹ کے دیکھو خواب کسی کے اور ملے الٹی تعبیر
ایسے میں ہی خون کے آنسو بنتے ہیں اکثر آنسو

خوشیوں میں بھی موتی بن کر گالوں کو سہلاتے ہیں
اور غموں میں دکھیاروں کی ہوتے ہیں ہمسر آنسو

ہار گئے جو ہمت اپنی گر کے ہوئے وہ خاک بسر
حالت سے ٹکرانے والے بنتے ہیں عنبر آنسو

مان لیا ہمراز کسی کو جب سے ہم نے ابنِ چمنؔ
آنکھ کھلے تو بس آنکھوں میں آتے ہیں ہنس کر آنسو

تبصرے بند ہیں۔