غزل – اے اعتبار!، دیکھ تری عمر گھٹ نہ جائے

عزیز نبیل

اے اعتبار!، دیکھ تری عمر گھٹ نہ جائے

آتا ہوا وہ شخص اچانک پلٹ نہ جائے

انجان پانیوں پہ نہ کر اتنا اعتبار

کشتی سنبھالنا ، کہیں کشتی اُلٹ نہ جائے

اگنے لگی ہیں درد کی خودرو اداسیاں

یہ خطّہ ء بدن مرا، کانٹوں سے اَٹ نہ جائے

مت کھیل ہم سے، آخرِ شب کے چراغ ہیں

آنکھوں کی پتلیوں سے کہیں لَولپٹ نہ جائے

آؤ دعا کریں کہ وہ قسمت کی اک لکیر

جس میں لکھی ہے اپنی محبّت، سمٹ نہ جائے

بچ کر رہیں! یہ شہرِ بغاوت ہے عالیجاہ

دستار تو گئی ہے ، یہ گردن بھی کٹ نہ جائے

متروک راستوں سے گزرتے ہوئے نبیل

منزل کا دھیان ذہن کے منظر سے ہٹ نہ جائے

تبصرے بند ہیں۔