غزل – لوگ پتھر کے تھے فریاد کہاں تک کرتے

راشد طراز
لوگ پتھر کے تھے فریاد کہاں تک کرتے
دل کے ویرانے ہم آباد کہاں تک کرتے

آخرش کرلیا مٹی کے حرم میں ہی قیام
خودکو ہم خانما ں برباد کہاں تک کرتے

ایک زندانِ محبت میں ہوئے ہم بھی اسیر
خودکو ہرقید سے آزادکہاں تک کرتے

خود پہ موقوف کیا اس کا فقط درس وصال
ہر نئے درس کو ہم یاد کہاں تک کرتے

کرلیا ایک بیاباں کو مسخر ہم نے
روزتصویر کو ایجاد کہاں تک کرتے

لوگ خاموش تھے اِ ثبات ونفی کے مابین
ایسے ماحول میں ارشاد کہاں تک کرتے

ہر وجود اپنے لئے ایک سوالی تھا طراز
خود اپنے ہم مائلِ اَبعاد کہاں تک کرتے

تبصرے بند ہیں۔