غزل – مجھے سچ اس کو دھوکہ کھینچتا ہے

عتیق انظر

مجھے سچ اس کو دھوکہ کھینچتا ہے
سبھی کو   اپنا  رشتہ  کھینچتا  ہے

بھروسہ مر رہا ہے سر پٹک کر
وفا  کی لاش  رشتہ کھینچتا  ہے

اٹھے کوئی پکڑ لے ہاتھ شر کا
وہ  نیکی  کا  جنازہ  کھینچتا  ہے

اگر کہتا ہوں شب کو شب تو سورج
گھنے  برگد  کا  سایہ کھینچتا  ہے

ہتھیلی  پر سجا  کر   راکھ  اکثر
وہ اپنے گھر کا نقشہ کھینچتا ہے

سکندر کی طرف ہیں آپ مائل
مجھے پورس  کا  خیمہ کھینچتا ہے

تری جنت بہت پیاری ہے لیکن
مجھے  دنیا   کا   میلہ  کھینچتا  ہے

شکستہ دل  میں رہتا  ہوں  ہمیشہ
مجھے   ٹوٹا   ستارہ   کھینچتا   ہے

وہ آتا کب تری محفل میں انظؔر
اسے   میرا   حوالہ  کھینچتا  ہے

تبصرے بند ہیں۔