غزل- کیسے کہیے دل میں بس کر دل کا جو اُس نے حال کیا

افتخار راغب، دوحہ، قطر

کیسے کہیے دل میں بس کر دل کا جو اُس نے حال کیا
جب دل چاہا دل کو سنوارا جب چاہا پامال کیا

میں اپنے سُکھ چین کا دشمن، کس کو دوشی ٹھیراؤں
اِک ظلمی سے پیٖت لگا کر دل کو خستہ حال کیا

اُمّیدیں بھی نادم نادم، شرمندہ شرمندہ لفظ
کس بے درد سے آس لگائی، کس بیری سے سوال کیا

جذبۂ الفت اور اصولوں کے ہاتھوں مجبور تھے ہم
سب اندیشے طاق پہ رکھ کر اُن سے ربط بحال کیا

بوڑھا باپ بس اتنا کہہ کر خاموشی سے بیٹھ گیا
اِک دن آگے آ کے رہے گا جو تم نے اے لال کیا

تیری نفرت کو بھی میں نے کب نفرت سے دیکھا ہے
تیری طرف سے جو کچھ آیا اُس کا استقبال کیا

شرط کی زنجیروں میں کس کر رکھّا رشتے ناتوں کو
پیار بھرے جذبات کا تم نے کتنا استحصال کیا

جیسے اس کے آ جانے سے مٹ جائے گا راوَن راج
’’اِک جابر کا مجبوروں نے ایسے استقبال کیا‘‘

اب بھی وہ ناراض ہیں راغبؔ یا ہے کوئی اور ہی بات
میرے پاس ہی لوٹ کے آیا جو نامہ ارسال کیا

تبصرے بند ہیں۔