غزل – گمشدہ ہوں میں خود میں، آئینے سے غائب ہوں

راجیش ریڈی

گمشدہ ہوں میں خود میں، آئینے سے غائب ہوں
اپنی ہی کہانی میں میں سرے سے غائب ہوں

لفظ اور معانی کے دائرے سے غائب ہوں
ان کہے میں ہوں موجود اور کہے سے غائب ہوں

ساتھ چھوڑ دیتا ہے حوصلہ ادھورے میں
ہر سفر میں میں آدھے راستے سے غائب ہوں

زندگی میں سانسوں کا سلسلہ تو جاری ہے
زندگی کو جینے کے سلسلے سے غائب ہوں

میں جہاں میں ہوں لیکن یہ جہاں نہیں مجھ میں
قافلے میں رہ کر بھی قافلے سے غائب ہوں

میرے بھیس میں جانے کون سب سے ملتا ہے
میں تو سب کی آنکھوں کے سامنے سے غائب ہوں

مسکراتے رہتے ہیں یوں تو لب مرے اکثر
میں مگر تبسم کے تجربے سے غائب ہوں

تبصرے بند ہیں۔